غزہ میں ممنوعہ غیر روایتی ہتھیاروں کا استعمال

توریالی نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏ستمبر 9, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    غزہ میں ممنوعہ غیر روایتی ہتھیاروں کا استعمال

    رنگِ جہاں۔ایس انجم آصف

    غزہ پر اسرائیلی حملوں کی تاریخ کا سب سے بڑا سچ اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے جب بھی غزہ پر حملہ کیا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیویلین آبادی کے خلاف ممنوعہ ہتھیار استعمال کیے اور ان کے ساتھ ساتھ ایسے ہتھیار بھی استعمال کیے جو ابھی ڈیویلپمنٹ کے مراحل میں تھے۔ اس قسم کے ہتھیاروں کے استعمال کا مقصد ان کی افادیت اور تباہ کُن صلاحیتیوں کی آزمائش تھا۔ اسرائیل یہ کام برسوں سے کرتا چلا آ رہا ہے اور اس اس ضمن میں اپنے مربی (امریکا)کی ہمیشہ حمایت اور پشت پناہی حاصل رہی ہے۔اسرائیل نے غزہ کو مہلک ہتھیاروں کو ٹیسٹ کرنے کے لیے تجربہ گاہ بنا رکھا ہے،جہاں وہ اپنے اور امریکا کے تیار کرد ہنئے مہلک ہتھیاروں کی آزمائش کرتا رہتا ہے۔

    اسرائیلی افواج نے آج تک یہ بات تسلیم نہیں کہ وہ غزہ میں مہلک اور ممنوعہ ہتھیار استعمال کرتی آئی ہیں۔

    اسرائلی فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ غزہ کے خلاف اسرائیل وہی ہتھیار استعمال کرتا ہے، جس کی بین الاقوامی قوانین اجازت دیتے ہیں۔لکن انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور ادارے اسرائیل کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کے خلاف مسلسل ایسے ہتھیار استعمال کرتا چلا آرہا ہے جن کی بین الاقوامی قوانین اجازت نہیں دیتے۔اس کھلم کھلا خلاف ورزی کے باوجود اقوامِ متحدہ یا انٹر نیشنل کریمنل کورٹ نے کبھی بھی اسرائیل پر فردِ جرم عائد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جس سے اسرائیل کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور وہ بار بار جنگی جرائم کا ارتکاب کرتا چلا آرہا ہے۔

    انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ اسرئیل نے غزہ پر حالیہ حملوں میں سویلین کے خلاف فاسفورس بم استعمال کیے ہیں، جب کہ فاسفورس بموں اور شیلوں کا استعمال جنگوں میں بہت محدود پیمانے پر کرنے کی اجازت ہے اور سویلین کے خلاف تو ان کا استعمال سنگین جنگی جرائم میں شمار کیا جاتا ہے۔بین الاقوامی قوانین کے تحت فاسفورس بم کا استعمال فوجیوں کو دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اسموک سکرین کے طور پر کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اسرائیل نے غزہ پر حالیہ حملوں میں فاسفورس بم کو معصوم سویلین کے خلاف براہِ راست استعمال کیا ہے، جس کے باعث سینکڑوں افراد زندہ جل گئے۔اسرائیلی فضائی حملوں کی تصاویر میں فاسفورس بموں کو سویلین کے خلاف استعمال ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔غزہ سے ملنے والی سوختہ لاشیں اسرائیل کے فاسفورس بموں کا جیتا جاگتا ثبات ہیں۔
    [​IMG]

    [​IMG]
    غزہ پر اسرائیلی فاسفورس بموں کی ہلاکت خیزی سے متاثر ایک انگریز کا شاعرانہ اظہار
    اسرائیل نے غزہ میں اپنے 2008ء اور 2012ء کے حملوں میں کچھ ایسے غیر روایتی ہتھیار بھی استعمال کیے تھے، جن کی اس پہلے دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔اس قسم کے ایک ہتھیار جسے (DIME)Dense Inert Metal Explosive کہا جاتا ہے، قابلِ ذکر ہے۔جس کا استعمال اسرائیل نے 2008ء میں غزہ پر کیا، اس ہتھیار DIMEکو امریکا نے تیار کیا تھا، جس کا مقصد انتہائی طاقتور دھماکہ کرنا تھا اور یہ دھماکہ ایک محدود علاقے میں کرنا ہوتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ جس وقت اسرائیل کو امریکا نے یہ ہتھیار فراہم کیا، اس وقت یہ تجرباتی مراحل میں یعنی Developmental Stageپر تھا اور اسرائیل نے اس ہتھیار کی آزمائش کے لیے اسے غزہ میں استعمال کیا۔اسرائیل کو اس قسم کے ہتھیار فراہم کرنے کا واضح مقصد یہ تھا کہ امریکا نے اسرائیل کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ وہ اس قسم کے تجرباتی ہتھیاروں کو غزہ اور دیگر علاقوں مثلاً لبنان میں استعمال کر سکتا ہے۔
    [​IMG]
    [​IMG]
    ڈائم سے متاثرہ فلسطینی۔ڈائم سے متاثرہ انسان کینسر کے باعث زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک زندہ رہتا ہے
    ڈاکٹر ڈیوڈ ہیلین [ڈیوڈ ہالپن David Halpen] ایک برطانوی سرجن اور ایک معروف Trauma Specialistہیں اور انہوں نے 2008ء میں غزہ کا دورہ کیا تھا۔ ان کے اس دورے کا مقصد ممنوعہ اور غیر روایتی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں تحقیق کرنا تھا۔ خاص کر اس قسم کے ہتھیاروں سے کس قسم کے زخم آتے ہیں۔اس بارے میں انہوں نے خاصی معلومات اکٹھی کیں۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں غزہ میں اپنے دورے کے دوران ایسی کئی شہادتیں اور ثبوت ملے، جن سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اسرائیل نے غزہ کو ممنوعہ اور غیر روایتی ہتھیاروں کی آزمائش کا مرکز بنا رکھا ہے۔انہوں نے اپنے دورے کے دوران اسرائیلی حملوں سے متاثر ہونے والے درجنوں ایسے زخمی دیکھے،جن کے زخم بتا رہے تھے کہ یہ کسی مہلک ہتھیار کی تباہ کاریوں کا نشانہ بنے ہیں۔

    ڈاکٹر ڈیوڈ ہیلین کا کہنا تھا کہ اسرائیلی غزہ میں اس قسم کے مہلک اور خطرناک ہتھیار اس لیے استعمال کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے ہتھیاروں سے غزہ کی سویلین آبادی کو خوفزدہ کر کے انہیں حماس کے خلاف کھڑا کیا جا سکتا ہے اور انہیں یہ باور کرایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل ان کے خلاف یہ جنگ حماس کی وجہ سے کر رہا ہے، لیکن اسرائیل اپنی اس کوشش میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا ہے اور غزہ میں حماس کی مقبولیت میں کسی قسم کی کمی نظر نہیں آتی۔غزہ کے ایک اسپتال میں کام کرنے والے ناروے کے ڈاکٹر میڈز گلبرٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسپتالوں میں جس قسم کے زخمی دیکھے وہ تمام DIMEسے متاثر تھے۔اس قسم کے زخمیوں کے زخم خاص قسم کے ہوےتے ہیں۔کیوں کہ ان کے زخموں میں دھات کے ٹکڑے پیوست ہیں، جو جسم کے نازک ٹشو کو بری طرح سے نقصان پہنچاتے ہیں اور اگر پیٹ پر اس قسم کے گہرے زخم آجائیں تو موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔

    اسرائیل کے ملٹری ویپنز ڈیولپمنٹ پروگرام کے سابق سربراہ آئیز نے اٹلی کے ایک ٹی وی سے بات کرتے ہوئے غزہ میں DIMEکے استعمال کی تصدیق کی۔اس کا کہنا تھا کہ اس قسم کے ہتھیار کے استعمال کا مقصد ایک مختصر دائرے میں دھماکہ کرنا ہوتا ہے ، جس سے تباہی بھی محدود پیمانے پر ہوتی ہے اور اس قسم کے ہتھیار کے استعمال سے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے خدشات کم ہو جاتے ہیں۔اس نے مزید کہا کہ اس قسم کے ہتھیار کا استعمال چھوٹے اہداف کے خلاف بڑی کامیابی سے کیا جا سکتا ہے۔یہ پہلا موقع ہے جب کسی اسرائیلی ذمے دار نے DIMEکے استعمال کی تصدیق کی،ورنہ اسرائیل ہمیشہ اس قسم کے ہتھیار کے استعمال سے انکار کرتا چلا آیا ہے۔ماہرین کا اس ضمن میں یہ کہنا ہے DIME جیسے ہتھیار کا استعمال اسرائیل اس لیے کرتا ہے کہ یہ ہتھیار ابھی ڈیولپمنٹ کے مراحل میں ہے اور ابھی اسے ابھی ایک باقاعدہ ہتھیار کے طور پر نہ اپنایا گیا ہے اور نہ تسلیم کیا گیا ہے لہٰذا اسرائیل کھل کر اس کا استعمال سویلین کے خلاف کرتا رہا ہے، کیوں کہ اس کے استعمال پر بین الاقوامی قوانین کے مطابق ابھی تک کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔

    اسرائیل نے اپنے تازہ حملے میں غزہ کی سویلین آبادی پر کس قسم کے ممنوعہ اور غیر روایتی ہتھیار استعمال کیے ہیں، اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن ماضی کی روایت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل نے اس مرتبہ بھی غزہ کی سویلین آبادی کے خلاف غیر روایتی ہتھیار ضرور استعمال کیے ہوں گے۔اسرائیل میں انسانی حقو ق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم B’T Selem نے ماضی میں اسرائیل کی جانب سے ڈزہ کی سویلین آبادی کے خلاف غیر روایتی اور ممنوعہ قسم کے ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں متعدد ثبوت اور شہادتیں پیش کی ہیں۔ ان ثبوتوں کے تجزیے کے بعد یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ اسرائیلی بری فوج نے ماضی میں بڑے پیمانے پر لبنان اور غزہ میں Flechetl Shalls [فلیشیٹ شیلز Falchette Shells] استعمال کیے ، جن سے بڑے پیمانے پر سویلین کی ہلاکتیں ہوئیں، مگر اقوامِ متحدہ نے اس کی کوئی انکوائری نہیں کرائی۔Flechetl Shallsدر اصل ایسے شیل ہوتے ہیں ، جن میں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹی چھوٹی دھاتی گولیاں [ دھاتی گولیاں غلط ہے۔فلیشیٹ Flechette فرانسیسی زبان سے آیا ہے جس کےلغوی معنی ایک چھوٹے سے تیر یا نیزے کے ہیں۔فلیشیٹ کا سب سے پہلا استعمال فرانسیسی افواج نے پہلی جنگِ عظیم میں ہوائی جہازوں سے دشمن پر گرا کر کیا تھا۔ امریکا نے ویت نام جنگ کے دوران فلیشیٹ ہتھیار بنانے پر بہت کام کیا اور فلیشیٹ کو بارودی سرنگوں، ہلکے اور بھاری توپخانے اور بندوقوں سے ویت نامی گوریلا فوجیوں پر استعمال کیا جس کے باعث ویت نامی گوریلا فوج کو بد ترین جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔توریالی] ہوتی ہیں ،جن کے لگنے کے بعد زخمی انتہائی خراب حالت میں آ جاتے ہیں،اس شیل سے زخمی ہونے والے افراد کے زخم انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں اور اس کے شکار افراد کی اکثریت ہلاکتوں کا شکار ہو جاتی ہے، جب کہ زمی ہونے والے افراد سخت اذیت ناک تکلیف سے گزرتے ہیں۔غزہ میں حالیہ حملوں کے دوران ایسے زخمیوں کی بڑی تعداد دیکھی گئی ہے۔غزہ میں کام کرنے والے ڈاکٹروں نے اس قسم کے زخمیوں کی تصدیق کی ہے۔

    [​IMG]
    دھات کے بنے فلیشیٹ (چھوٹے دھاتی تیر نما نیزے) انسانی جسم میں بآسانی پیوست ہو جاتے ہیں
    [​IMG]
    غزہ کی ایک دیوار میں پیوست فلیشیٹ
    اپریل 2009ء میں خبر رساں ادارے رائٹر کا ایک کیمرہ مین فیڈل شین [فیڈل شین غلط ہے۔درست فضل شناعۃ ہے، جو رائٹر کے لیے ایک فلسطینی کیمرہ مین تھے] اسرائیلی ٹینکوں سے مذکورہ بالا شیل فائر کئے جانے کے مناظر فلم بند کر رہا تھا کہ وہ ایک ایسے شیل کی زد میں آ کر مارا گیا تھا۔
    آخر الصور اللي التقطتها كاميرا فضل شناعة قبل استشهاده بلحظات

    [​IMG]
    فضل شناعۃفلیشیٹ لگنے سے جاں بحق ہو گئے
    [​IMG]
    فضل شناعۃ مرحوم کی حفاظتی صدری
    [​IMG]
    غزہ کے فلسطینی بچے کے کاندھے میں پیوست فلیشیٹ
    [​IMG]
    فلیشیٹ بم کی ساخت کا اندرونی منظر اور دائرہ تباہ کاری
    انسانیحقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم Physicians for Human Rights کے ترجمان مری وین گارڈن کا کہنا ہے کہ انہوں نے غزہ میں اسرائیلیوں کی جانب سے ایک نئی قسم کا Flechetl type ہتھیار دیکھا ، جسے اسرائیل ہی میں تیار کیا گیا ہے اور اسرائیل نے اس نئےہتھیار کو Kabnitکا نام دیا ہے۔یہ ایکAnti Personal Munition [درست Anti Personnel Munition ہے]ہے، جسے فوجی اجتماعات کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ شیل سینکڑوں Dises [Metal Darts ]پر مشتمل ہوتا ہے اور جب اسے استعمال کیا جاتا ہے تو بہت زیادہ تباہی پھیلاتا ہے،اسرائیلی توپ خانے نے اس قسم کے ہزاروں شیلز غزہ کی آبادی پر فائر کیے، جس کے باعث جانی نقصانات میں اضافہ ہوا۔اسرائیل نے 2006ء میں لبنان ہر اپنے حملے میں ہمہ اقسام کے ممنوعہ ہتھیار استعمال کیے تھے اور ابتدا میں اسرائیل نے اس قسم کے ہتھیاروں کے استعمال سے انکار کیا تھا، مگر بعد میں ایک اسرائیلی وزیر نے اعتراف کیا تھا کہ اسرائیلی فوج نے اس حملے میں ممنوعہ قسم کے ہتھیار استعمال کیے تھے۔ اس حملے میں اسرائیلی فضائیہ نے ہزاروں کے تعداد میں کلسٹر بم بھی گرائے تھے اور اسرائیلی میڈیا نے بھی اسے رپورٹ کیا تھا۔
    اس بات کی بھی واضح شہادتیں موجود ہیں کہ اسرائیل نے سویلین کے خلاف ڈیپلیٹڈ یورینیم کے شیلز بھی استعمال کیے۔ایک برطانوی صحافی نے یہ اطلاع دی تھی کہ اسرائیل نے اس قسم کے شیلز لبنان اور غزہ دونوں جگہ استعمال کیے اور ان دونوں جگہوں پر تابکاری کے اثرات دیکھے گئے، اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم B’t Selem کے ترجمان مسارت مائیکلی کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر کیے جانے والے موجودہ حملے میں بھی یقیناً ایسے ممنوعہ ہتھیار ضرور استعمال کیے ہوں گے۔مگر اسرائیل اس کی تردید بھی کرے گا،لیکن بعد میں ثابت ہو جائے گا کہ اسرائیل نے سویلین کے خلاف مہلک ہتھیار استعمال کیے تھے اور اسرائیلیوں کا پرانا طریقہ ہے کہ وہ اس قسم کے ہتھیاروں کے استعمال سے انکار کرتے ہیں، لیکن ایسی باتیں چھپتی نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی بری فوج کے ایک کرنل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہیں بتایا کہ فاسفورس بم اور Flechetl Shell کا استعمال جنگوں میں ممنوع نہیں،لیکن اس قسم کے ہتھیار سویلین کے خلاف استعمال کرنے پر پابندی ہے۔

    سارت مالینکلی کا کہنا تھا کہ غزہ جیسی گنجان آبادیوں میں Combitants اور Non Combitants کے درمیان فرق کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کا یہ اقدام انتہائی مایوس کُن اور باعثِ افسوس ہے کہ اس نے اسرائیل کو ہنگامی بنیادوں پر ہتھیاروں کی فراہمی کی، جن کی بڑی تعداد غزہ میں سویلین کے خلاف استعمال ہوئی۔ چناں چہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ غزہ کے خلاف جنگی جرائم میں امریکا بھی برابر کا حصے دار ہے۔

    روزنامہ اُمت، پاکستان
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں