بیا بہ مجلسِ اقبالؔ و یک دُو ساغر کش

توریالی نے 'کلامِ سُخن وَر' میں ‏ستمبر 21, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    بیاضِ اقبال ؔسے...

    مرگِ خودی

    خودی کی موت سے مغرب کا اندرُوں بے نُور!
    خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جُذام

    خودی کی موت سے رُوحِ عرب ہے بے تب و تاب
    بدن،عراق و عجم کا ہے بے عروق و عِظام

    خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر
    قَفس ہُوا ہے حلال اور آشیانہ حرام!

    خودی کی موت سے پیرِ حرم ہُوا مجبور
    کہ بیچ کھائے مُسلماں کا جامۂ احرام!

    دلت می لرزد از اندیشۂ ٔ مرگ

    دلت می لرزد از اندیشۂ ٔ مرگ
    ز بیمش زرد مانند زریری

    بہ خود باز آ خودی را پختہ تر گیر
    اگر گیری ، پس از مُردن نمیری

    غزل

    فریبِ کشمکشِ عقل دیدنی دارد
    کہ میرِ قافلہ و ذوقِ رہزنی دارد

    نشانِ راہ ز عقلِ ہزار حیلہ مپرس
    بیا کہ عشق کمالے ز یک فنی دارد

    فرنگ گرچہ سخن با ستارہ میگوید
    حذر کہ شیوہء او رنگِ جوزنی دارد

    ز مرگ و زیست چہ پرسی دریں رباطِ کہن
    کہ زیست کاہشِ جاں، مرگ جانکنی دارد

    سرِ مزارِ شہیداں یکے عناں درکش
    کہ بے زبانیء ما حرفِ گفتنی دارد

    دگر بدشتِ عرب خیمہ زن کہ بزمِ عجم
    مے گذشتہ و جام شکستنی دارد

    نہ شیخِ شہر، نہ شاعر، نہ خرقہ پوش اقبالؔ
    فقیر راہ نشین است و دل غنی دارد
     
  2. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    یک ۔ ۔ ۔ دو ساغر کش
    عطار روح بُود و سنایٔی دو چشم اُو
    ما از پٔی سنایٔی و عطار آمدیم


    سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
    غلط تھا اے جنوں! شاید ترا اندازۂ صحرا

    خودی سے اس طلسمِ رنگ و بُو کو توڑ سکتے ہیں
    یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا

    نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے
    کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا

    رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی
    کہ وہ حلاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا

    خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں ، غلامی میں
    زِرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا

    نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی
    تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولٰی!

    بہت دیکھے ہیں میں نے ،مشرق و مغرب کے میخانے
    یہاں ساقی نہیں پیدا ، وہاں بے ذوق ہے صہبا

    نہ ایراں میں رہے باقی ، نہ توراں میں رہے باقی
    وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاکِ قیصر و کسریٰ

    یہی شیخِ حرم ہے جو چُرا کر بیچ کھاتا ہے
    گلیم ِبوذر و دلقِ اویس و چادر ِزہرا!

    حضورِ حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی
    یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا

    نِدا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیا کم ہے
    'گرِفتہ چینیاں احرام و مکی خُفتہ در بطحا '!

    لبالب شیشۂ تہذیب حاضر ہے مئے 'لا' سے
    مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانۂ 'اِلا'

    دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے
    بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا

    اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی

    نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا

    غلامی کیا ہے ؟ ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی
    جسے زیبا کہیں آزاد بندے ، ہے وہی زیبا

    بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
    کہ دنیا میں فقط مردانِ حر کی آنکھ ہے بینا

    وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمت سے
    زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا

    فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہو گئے پانی
    مری اکسیر نے شیشے کو بخشی سختیٔ خارا

    رہے ہیں ، اور ہیں فرعون1میری گھات میں اب تک

    مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے ید بیضا

    وہ چنگاری خس و خاشاک سے کس طرح دب جائے

    جسے حق نے کیا ہو نِیستاں کے واسطے پیدا

    محبت خویشتن بینی ، محبت خویشتن داری
    حبت آستانِ قیصر و کسریٰ سے بے پروا

    عجب کیا رمہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں
    'کہ برفتراک صاحب دولتے بستم سرِ خود را'

    وہ دانائے سبل ، ختم الرسل ، مولائے کل جس نے
    غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا

    نگاہ ِعشق و مستی میں وہی اول ، وہی آخر
    وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یٰسیں ، وہی طہٰ

    سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ
    ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالا
    ۔ ۔ ۔

    مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
    من اپنا پُرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا

    کیا خوب امیرِفیصل کو، سَنّوسی نے پیغام دیا
    تُو نام و نسب کا حِجازی ہے، پر دل کا حِجازی بن نہ سکا

    تر آنکھیں تو ہو جاتی ہیں ، پر کیا لذت اس رونے میں
    جب خونِ جگر کی آمیزش سےاشک پیازی بن نہ سکا

    اقبالؔ بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
    گفتار کا یہ غازی بن تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
    فرعون سے مراد عصرِ حاضر کے اسلام دشمن، ہنود و یہود اور صلیبی فراعنہ ہیں۔

     
  3. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    تصحیح:

    محبت آستانِ قیصر و کسریٰ سے بے پروا

    ابھی تک ترمیم کی سہولت میسر نہیں آ رہی۔ اللہ سے دعا ہے کہ جلد آ جائے تا کہ ہم اپنی خطاؤں پر پردہ ڈال سکیں یا رجوع کر سکیں۔ پر، وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔

     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں