دیوبندی شدت پسند نہیں

Faraz نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏دسمبر 23, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. Faraz

    Faraz ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 15, 2012
    پیغامات:
    149
    تحریر سے اتفاق ، اختلاف آپکا حق هے لیکن اسے پڑهیئے ضرور
    Hamdard Husaini@

    غلطیاں سب نے کی ہیں اور تباہ کن غلطیاںکی ہیں ۔ضروری نہیں کہ یہ غلطیاں جان بوجھ کر کی گئی ہوں مگر بصیرت اور وژن کامظاہرہ کسی نے بھی نہیں کیا۔

    روس ایک مہیب خطرہتھا اور اس کی روک تھام ضروری تھی ، افغانمجاہدین کی مدد کا فیصلہ غلط نہیں تھا کہ اس میں پاکستان کی بقاکا راز مضمرتھا مگریہ مدد کرتے ہوئے مابعد آنے والے مسائل کا ادراک بالکل بھی نہیں کیا گیا ۔ مقبوضہکشمیر میں بعد ازاں پاکستانی حصے کے مجاہدین کا استعمال بھی ایک غلط فیصلہ تھا جسکی سزا اب ملناشروع ہوچکی ہے ۔ افغان طالبان کی امداد بھی ٹھیک تھی مگر امداد کےساتھ ساتھ ایسے انتظامات بھی ضروری تھےکہ اس کےمابعد اثرات پاکستان پر منفی نہپڑسکیں ۔
    آرمی نے غلطی کی کہ مدرسے میں پڑھنےو الے غریب طلباء کو فی سبیل اللہاستعمال کیا ، نقد اپنے جیبوں میں ڈالا اور آخرت کا ادھار ان غریب غرباء کی اولادکے حصے میں آیا۔ مذہبی لیڈروں رہنمائوں اور بڑے بڑے علماء نے خوب ثواب بھی کمایااور ڈالر بھی کمائے ، نہ اپنی اولاد کی قربانی دی نہ اپنی جانوں کی ، مرا تو مدرسےکا غریب طالب علم مرا۔
    وہ بھی بڑے سادہ لوح تھے ، اپنی محدود سی دنیا میں مسترہنے والے جنہیں اسلام کی سربلندی کے نام پر ہر قربانی کیلئے بڑی آسانی سے بکرابنالیا گیا۔ ان کو یہ سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ صرف اور صرف استعمال ہورہے ہیںکیونکہ اسلام کی سربلندی چند سرپھروں کے بندوق اٹھانے سے آنے والی چیز نہیں ، جدیددنیا اور دور میں سربلندی کے کچھ اور تقاضے ہیں ۔جنہوں نے کمانا تھا انہوں نےخوب کمالیا، نقد فائدہ کچھ نہ کچھ اس ملک کے حصے میں بھی آیا، مگر وژنری قیادت تھیہی نہیں جو بعد میں آنے والے مسائل کا ادراک کرتی ۔ نہ آرمی نے کیا نہ عام سیاسیقیادت نے اور نہ مذہبی قیادت نے ، کسی نے بھی آنے والے کل کی تصویر کا اندازہ نہیںلگایا۔عربوں کے دلوں میں فلسطین ایک ناسور کی طرح رس رہا ہے ، افغانستان کےعبدالرب رسول سیاف جب مدینہ یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی درسگاہوں میں خطابت کے جلوےدکھاتے تھے تو یہ کہنا نہیں بھولتے تھے کہ آج تم افغانستان آزادکرانے میں ہماریمدد کرو کل ہم فلسطین آزاد کرانے میں تمہاری مدد کریں گے اور یوں عرب اپنی تجوریوںکے منہ بھی کھول دیتے اور اپنی اولاد کی قربانی پر بھی آمادہ ہوجاتے ۔ عبداللہ عزامشہید کی ساری کتابیں انہیں باتوں سے بھری ہوئی ہیں ۔اسامہ کو پناہ دینا طالبان کیاخلاقی مجبوری بھی تھی سو وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتے تھے ۔(مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے جبہم سقوط کابل کے بعد پغمان میں ایک چھوٹی سی پہاڑی پر مولانا شیر علی شاہ المدنیاور مفتی نظام الدین شامزئی رح کے ساتھ عبدالرب رسول سیاف کے گھر میں کھڑے تھے اورشیخ صاحب سیاف کے عربوں کو بے وقوف بنانے کے واقعات سنا رہے تھے )
    محدود سوچ کےحامل نیم خواندہ مجاہدین اور طالب جدید دور میں ریاستوں کی مشکلات مجبوریوں اورمسائل کا ادراک ہی نہیں رکھتے ۔ مشرف نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ فوری طور پرکرلیا، آج تک انہیں طعنہ دیا جاتا ہے کہ ایک ہی فون کال پر ڈھیر ہوگئے ، مگر ایکفون پر ڈھیر نہ بھی ہوتے تو آخرکار انہوں نے فیصلہ یہی کرنا تھا ، کیونکہ دوسریصورت میں پاکستان کی یقینی بربادی نوشتہ دیوار تھی ۔یہودیوں کی تیار کردہ چندہکلاشنکوفوں اور راکٹ لانچروں سے امریکہ سمیت پوری دنیا فتح کرنے کے خواب دیکھنےوالوں کو روس کی خلاف لڑتے ہوئے امریکی اور پاکستانی امداد کا اندازہ ہی نہیں تھا ۔وہ اسے اپنے زور بازو کا نتیجہ قرار دے رہے تھے ، سپرپاور کو شکست دینے کے خمار میںمبتلا یہ چند ہزار لوگ امریکہ کو تو اپنے ٹکرکاسمجھ رہے تھے مگر پاکستانی افواج کووہ کسی شمار و قطار میں ہی نہیں گردانتے تھے ، کہ سپر پاور کو شکست دینے کا نشہ سرکو چڑھ چکا تھا۔ ایک جاہل اور بے بصیرت انسان پاکستان کے قلب میں بیٹھ کر خود کوامام مہدی قرار دے چکا تھا، غریب لوگوں کی دین سیکھنے کیلئے آئی ہوئی اولاد کےہاتھوں میں ڈنڈے پکڑا کر وہ اسلام آباد میں امیر المؤمنین بننے کا خواب دیکھ رہاتھا ۔ کسی عالم کو جرات نہیں ہوئی کہ اس امام مہدی صاحب سے پوچھے کہ تمہیں کس نےاختیار دیا ہے کہ غریب لوگوں کی اولاد کا استعمال اپنے سیاسی اور دماغی خرابی پرمبنی مہدویت کے غلبے کےلئے کررہے ہو۔ کسی نے اسے نہیں روکا کہ تباہی کے جس راستے پرتم جارہے ہو یہ تمام دیوبندیوں کےلئے مشکلات کے پہاڑ کھڑا کردے گا۔ خود کودیوبندیوں کی سیاسی جماعت کا ترجمان اور لیڈر سمجھنے والا بونا قائد حسب سابق اپنےجلسوں کشمیر کمیٹیوں اور چند وزارتوں کے مزے لینے میں مصروف تھا، کبھی اس نے نہیںسوچا کہ غریب طلباء کو کیوں استعمال کیا جارہا ہے ، ٹرکوں کے ٹرک دینی مدارس کےطلباء کے بھیج کر بامیان اور دشت لیلیٰ میں کیڑے مکوڑوں کی طرح خاک و خون میںنہلادیا گیا ۔ مولناسمیع الحق کا کوئی بیٹا کوئی بھتیجا ان مرنے والوں میں شاملنہیں تھا ، مولنافضل الرحمن کا کوئی بیٹا کوئی بھائی کوئی بھتیجا رزق خاک بننےوالوں میں شامل نہیں تھا۔ (جرمن پارلیمنٹ میں جب سانحہ دشت لیلیٰ پر مبنی ڈاکومنٹریفلم دکھائی گئی تو تمام پارلیمنٹ کے اراکین کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے )ان محترمقائدین کو تو ملا عمر کے کندھار میں اکیس توپوں کی سلامی سے غرض تھا اور وہ مل رہیتھی ۔ بچے تو غریب کے مررہے تھے ، اولاد تو بے کسوں اور بے بسوں کی تباہ و بربادہورہی تھی ، غریب کا بیٹا اور بھائی شمالی افغانستان میں کنٹینروں کے اندر اجتماعیقتل کا نشانہ بن رہا تھا اور مولانا فضل کا بھائی افغان امور کی کشمنریٹ میں گریڈ21 کا آفیسر لگ رہا تھا۔ دونوں قائدین میں کریڈیٹ لینے کا مقابلہ ہورہا تھا ، ایکاپنے مدرسے کو طالبان کا اولین پلیٹ فارم ثابت کرنے میں جتا ہوا تھا تو دوسرا اپنےکندھار سے باب دادا کے تعلق پر نازاں تھا۔ اور یہ غریب طالب علم بھی جانے میں دیرکیوں لگاتے کہ ان کا پاکستان میں مستقبل ہی کتنا روشن تھا، ہر سال لاکھوں کی تعدادمیں فارغ ہونےو الے ان دینی مدارس کے علماء و طلباء کیلئے پاکستان کی حکومت نے کیاہی کیا تھا۔ لے دے کے کسی سرکاری سکول میں دینیات کا ٹیچر بننے کا چانس، وہ بھیکتنے ٹیچر چاہیئے ہوتے ہیں ۔۔۔ ذمہ دار سیاسی قیادت ہے مذہبی قیادت ہے اور فوجیقیادت ہے جس نے اپنے ان شہریوں کے مستقبل کے بارے میں کوئی منصوبہ سازی نہیں کی ،انہیں صرف اور صرف استعمال کیا ، اور انہیں میں سے چند بگڑے ہوئے بے دین اور جاہلعناصر اب طالبان کے نام پر پوری ریاست کےلئے درد سر بن چکے ہیں ،۔ محرومی کا شکاریہ طبقہ اپنی ساری محرومیوں کا ذمہ دار پاکستانی قوم اور ریاست کو سمجھتاہے ۔ خداراآنکھیں کھولو۔ مل کر اس ناسور کا مقابلہ کرو، میں دیکھ رہا ہوں کہ کچھ دینی حلقوںمیں اب بھی اب بھی ان جاہلوں اور ظالموں کےلئے نرم گوشہ پایا جارہا ہے ، حالانکہ انکے دلوں میں تم میں سے کسی کےلئے نرم گوشہ موجو دنہیں ، مولانا فضل الرحمن میں اگرجرات ایمانی ہوتی ، بصیرت کی کوئی رمق ہوتی اور وژن کا کوئی دیا روشن ہوتا تومولانا محسن شاہ کے قتل سے سمجھ جاتا ، مولانا حسن جان کی مظلومانہ شہادت سے سمجھجاتا ، اور نہیں تو خود اپنے اوپر تین خود کش حملوں سے سمجھ جاتا کہ یہ گروہ ظالمانکسی رحم کے مستحق نہیں ، کسی طرح کی امید ان سے باندھنا بے وقوفی اور حماقت کیمعراج ہے ، وقت تھا کہ اپنے درماندہ کارواں کو بچانے کی سعی کرتا ،دینی مدارس کےزعماء کو ان کی حقیقت سمجھاتا ، انہیں اکھٹا کرتا بھرپور طریقے سے ان کا علمی ردکرتا ،ان کی غلط روش پر ان سے برات کا اعلان کرتا ، پوری قوم کو یقین دلاتا کہ یہہم میں سے ضرور تھے مگر اب ہم سے ان کی راہیں قطعا الگ ہوچکی ہیں ، ہمارا اب ان سےکوئی تعلق کوئی واسطہ نہیں ۔۔۔ مگر وہ یا تو ڈر گئے یا حسب دستور کاہلی اور بےبصیرتی کا شکار ہوگئے ۔ یا ان کے دل میں اب بھی یہی ہے کہ یہ ان کے دست و بازو بنسکتے ہیں آنے والے کسی دور میں ۔
    میں دیکھ رہا ہوں کہ سوشل میڈیا پر ان کے جاہلنیم خواندہ اور کم ظرف مقلدین بجائے اس کے کہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں ، اگر مگرچونکہ چنانچہ اور لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں ، کبھی آرمی کے خلاف بکواس کرتے ہیںاور کبھی اس جاہل مہدی باطل کے گن گاتے ہیں جس کانام مولوی عبدالعزیز ہے ۔سانحہپشاور پر افسوس کا اظہار بھی کرتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے طنز کررہے ہوں ، کبھیکچھ تصویریں پھیلا کر کنفیوژن پھیلاتے ہیں کہ پشاور میں حملہ کرنے والے گویا طالبانکی بجائے کچھ او رلوگ تھے ۔ مجھے یقین ہے کہ عام دیوبندی اس سانحہ پر اتنا ہیپریشان اور غمناک ہے جتنا کہ کوئی دوسرا پاکستانی ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی بنیادوںمیں ان کے آبائو اجداد کا بھی لہو شامل ہے ۔ دیوبندی صرف اسی چیز کا نام نہیں کہ یہجو چند شدت پسند چند من پسنددینی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں بس انہی سے متعلقہلوگوں کا نام ہے ، دیوبندی ایک اعتدال پسند مسلمان کانام ہے چاہے اس کا تعلق کسیمدرسے سے ہو یا نہ ہو، وہ آرمی میں بھی بے شمار ہیں ، سول سوسائٹی میں بھی ، اورملک کے ہر شعبے میں ہر گوشے میں اور ہر میدان میں ہیں ، چند شدت پسند اوران کے چندجاہل سپورٹروں کو پوری دیوبندیت کو بدنام کرنے کا کوئی اختیار نہیں ، دیوبند کاقیام لایا گیاہی اس جذبے کے تحت تھا کہ تحریک مجاہدین کی ناکامی کے بعدان علماء حقکو اندازہ ہوگیا تھا کہ اب مسلح جدوجہد کے ذریعہ استخلاص وطن کی تحریک چلانا بے سودہے ۔ ہندوستان کی آزادی میں دیوبندیت کا کردار اتناروشن اور اتنا واضح ہے کہ اسےجھٹلانا ممکن ہی نہیں ، دیوبندی اگر شدت پسند ہوتے تو شیخ الہندمحمود حسن اورمولانا حسین احمد مدنی کانگریس کے مرکزی قائدین اور ہندوئوں کی نگاہ میں اتنے محترمنہ ہوتے ، اگر شدت پسند ہوتے تو مولانا اشرف علی تھانوی کے بارے میں قائداعظم محمدعلی جناح یہ نہ فرماتے کہ ہندوستان کے سارے علماء ترازو کے ایک پلڑے میں ڈال دیئےجائیں اور مولانا اشرف علی تھانوی کو دوسرے پلڑے میں تو مولانا صاحب بھاری پڑجائیںگے ۔ دیوبندی پاکستان کے قیام کی جدوجہد کا نکتہ پرکار نہ ہوتے تو مشرقی اور مغربیپاکستان میں سب سے پہلے پاکستان کا پرچم لہرانے کا اعزاز دیوبندی علماء کے حصے میںنہ آتا۔دیوبندی فرقہ پرست ہوتے تو محمد علی جناح کا جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانینہ پڑھاتے ۔ دیوبندی شدت پسند ہوتے تو ختم نبوت کی تحریک شیعہ اور بریلوی علماء کےساتھ مل کر نہ چلاتے ، دیوبندی فرقہ پرست ہوتے تو ختم نبوت کے اجلاسوں میں شیعہعلماء سے تقریریں نہ کرواتے ۔ آج بھی اتنے بڑے ہندوستان میں اگر مسلمان سر اٹھا کرجیتے ہیں تو ان کی پشت پر دیوبند کھڑا ہے ، آج بھی ہندوستان میں ہندو مسلم فساداتنہ ہونے کے پیچھے دیوبند کی سوچ کھڑی ہے اور اگر کہیں اکا دکا واقعات ہوبھی جاتےہیں تو سب سے پہلے پانی ڈالنے والے دیوبند کے علماء ہوتے ہیں ۔ تبلیغی جماعت پوریدنیا میں آج جو دین کی دعوت دیتی پھر رہی ہے کیا اس میں شدت پسندی کا شائبہ تک نظرآرہا ہے ؟آج بڑے افسوس کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ سانحہ پشاور کی آڑ میں دیوبندیتکو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے ، اور کچھ لوگ کچھ لوگوں کی کرتوتوں کی وجہسے پورے مکتب فکر کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں ۔ دارالعلوم دیوبند انڈیا کےعلماء کا دو ٹوک موقف سامنے آچکا ہے جو تمام دیوبندیوں کی ترجمانی کیلئے کافی ہے ،اگر ہمارے ملک میں چند بڑے مدارس یا سیاسی و مذہبی جماعتوں کے بڑوں کی جانب سے اسطرح کا دوٹوک اور واضح موقف سامنے نہیں آسکا تو یہ ان کی بے بصیریتی کی دلیل توہوسکتی ہے عام علماء دیوبند اور مکتب فکر کا موقف نہیں ورنہ توپورا دیوبند مکتبفکراس قضیئے میں پاکستان ، پاکستانی آرمی اور پاکستانی ریاست کے ساتھ کھڑا ہے۔
     
  2. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    فرقے بازوں کو اسلام کی بجائے صرف اپنے مسلک کی پڑی ہے
     
  3. Faraz

    Faraz ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 15, 2012
    پیغامات:
    149
    صحیح، مسلک خطرے میں جو ہے
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں