خلافت :کب اور کیسے

اجمل نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏فروری 25, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    خلافت :کب اور کیسے

    ہماری زندگی مختلف عہد و میثاق (Agreement ) میں بندھی ہے۔
    ہم عہد و پیمان باندہ کر ہی شادی کرتے ہیں اور پھر اُسے ساری زندگی نبھاتے بھی ہیں۔
    ہمیں ملازمت بھی ایک عہد (Agreement ) کے تحت ملتی ہے اور ہم کام بھی عہد (Agreement ) کے تحت کرتے ہیں۔
    ہمارا ملک و معاشرے میں اُٹھنا بیٹھنا‘ چلنا پھرنا‘ رہنا سہنا‘ سب کچھ ہی کسی نہ کسی عہد کی پاسداری کا حصہ ہے۔
    ملک کی شہریت ہو‘ یا کرائے پہ مکان میں رہنا یا کرائے پہ مکان دینا سب کچھ ہی ایک عہد نامہ (Agreement ) کے تحت ہے۔ ملکوں اور قوموں کے درمیان دوستی اور دشمنی میں بھی میثاق / عہد کلیدی کر دار کا حامل ہے۔
    غرض کہ سماجی زندگی میں ہم ہر جگہ کسی نہ کسی عہد کے پابند ہیں ۔ بعض عہد بالواسطہ اور بعض بلا واسطہ ہوتا ہے۔ بالواسطہ تو ہم خود سمجھ بوجھ کر کرتے ہیں جبکہ بلا واسطہ ملکی قانون یا سماج اور دین و ملت کا عہد ہوتا ہے جو از خود ہم سے متعلق ہو جاتا ہے۔ اور ہم ہر حال میں ہر بالواسطہ و بلا واسطہ عہد کی پاسداری کرتے رہتے ہیں۔ کیونکہ اسی میں ہی ہماری کا میابی ہے۔
    جی ہم کامیابی چاہتے ہیں اور اسکے لئے ہر عہد کی پاسداری کرتے ہیں۔
    ہم سب جانتے ہیں ایفائے عہد پسندیدہ ہے اور عہدشکنی نا پسندیدہہے۔
    عہد شکنی کی بھیانک نتائج سے بھی ہم سب واقف ہیں۔ عہد شکنی سے گھر ٹوٹتے ہیں‘ لوگوں کی زندگیاں تباہ ہوتیں ہیں‘ محلے‘ قصبے اور شہر ویران ہوتے ہیں۔ عہد شکنی چاہے کویٴ فرد کرے یا قوم و ملک ۔۔۔ نتائج ہمیشہ بھیانک ہی ہوتے ہیں۔ اس لئے ہم عہد شکنی کا سوچتے بھی نہیں۔
    لیکن اس کے باوجود بھی لوگ عہد شکنی کرتے ہیں اور وہ بھی اپنے خالق و مالک‘ رحمٰن و رحیم رب سے کی گئی عہد کی عہد شکنی ‘ جو کہ ہر انسان نے اللہ سے اپنی پہلی ملاقات کے وقت کر چکا ہے کہ ’’ اللہ ہی ہمارا رب ہے اور اس کا کویٴشریک نہیں۔‘‘
    اللہ سے ہماری اس عہد کی تفصیل قرآن میں کچھ یوں بیان ہوا ہے:
    وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَافِلِينَ ﴿١٧٢﴾ سورة الأعراف

    ’’ اور جب آپ کے رب نے اوﻻد آدم کی پشت سے ان کی اوﻻد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ
    ’’ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘
    سب نے جواب دیا:
    ’’ کیوں نہیں! ہم سب گواه بنتے ہیں۔‘‘
    تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے۔‘‘


    أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ ﴿١٧۳﴾سورة الأعراف

    ’’ یا یوں کہو کہ پہلے پہلےشرکتو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے، سو کیا ان غلط راه والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا؟‘‘

    اس عہدکے بارے میں حضرت اُبَیّ بن کَعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غالباً نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کر کے کچھ یوں بیان کیا ہے:
    ”اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع کیا اور (ایک ایک قسم یا ایک ایک دور کے) لوگوں کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں مرتب کر کے انہیں انسانی صورت اور گویائی کی طاقت عطا کی، پھر ان سے عہد و میثاق لیا اور انہیں آپ اپنے اوپر گواہ بناتے ہوئے پو چھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے عرض کیا ضرور آپ ہمارے رب ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر زمین و آسمان سب کو اور خود تمہارے باپ آدم کو گواہ ٹھہراتا ہوں تا کہ تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو اس کا علم نہ تھا۔ خوب جان لو کہ میرے سوا کوئی مستحقِعبادتنہیں ہے اور میرے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہر انا۔ میں تمہارے پاس اپنے پیغمبر بھیجوں گا جو تم کو یہ عہد و میثاق جو تم میرے ساتھ باندھ رہے ہو، یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا ۔ اس پر سب انسانوں نے کہا کہ ہم گواہ ہوئے، آپ ہی ہمارے رب اور آپ ہی ہمارے معبود ہیں، آپ کے سوا نہ کوئی ہمارا رب ہے نہ کوئی معبود“۔
    اسلامی تشریحات میں یہ عہد’عہد الست‘کہلاتا ہے ۔
    اس ازلی ‘ میثاق و عہد ‘ اس بات پر دلیل ہے کہ نوعِ انسانی میں سے ہر شخص انفرادی طور پر اللہ کے الٰہ ِ واحد اور ربِّ واحد ہونے کیشہادتاپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ ہمارے رحیم و کریم رب نے اس عہد کا شعور ہر انسان کے اندر ہی رکھ دیا ہے۔ ہر انسان فطرتاً اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرتا ہے، چاہے وہ دل و زبان سے کتنا ہی ڈھٹایٴ او ر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیوں نہ کرے۔
    ہم سب اپنے خالق کے ساتھ اسی ‘ میثاق / عہد ‘ میں بند ھے ہوئے ہیں۔ اسی ’ میثاق / عہد ‘ کی یاد دہانی کیلئے انبیاء علیہ السلاۃ و السلام مبعوث ہوتے رہے اور اب یہ ’ میثاق / عہد ‘ تحریری طور پر قرآن میں قیامت تک کیلئے محفوظ کر دیا گیا ہے تا کہ قیامت تک آنے والی انسانیت اس ’ میثاق / عہد ‘ کی روشنی میں ’ اللہ کو اپن ا ربِ واحد مانتے ہوئے اسی کے بتائے ہوئے احکام کے مطابق زندگی گزاریں اور کامیابی سے ہم کنار ہوں۔
    لیکن المیہ یہ ہے کہ اخلاقی و عملی فسادات‘ جہالت و جاہلیت‘ نفسانی خواہشات و تعصبات کی رو میں بہہ کر آج مسلمانوں کی اکثریت اس میثاق کی پاسداری نہیں کر رہی ہے اور ہر لمحہ شرک و بدعت میں غرق ہونے کے با وجود یہ نعرہ ہے کہ ’’ امت مسلمہ کبھی شرک نہیں کر سکتی ‘‘۔
    ضد‘ بغض‘ عناد‘ تعصب و ہٹ دھرمی سے پاک ہو کر قرآن و حدیث کو معیار بنا کر اس ہمیشہ کی حلاقت میں ڈالنے والی نعرہ سے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو نکالئے۔
    پہلی قوموں کی تباہی و بر بادی کا سبب بھی یہی شرک تھا اور یہ اُمت بھی اُسی روش کو اپنا کر تباہ ہو رہی ہے ۔ ۔ ۔ ساری دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہی ہے‘ یہودیوں کی جیسی ذلت و مسکنت اس پہ چھا گئی ہے۔
    اس مغالطے میں نہ رہیں کہ اُمت مسلمہ عہد کی پاسداری کر رہی ہے کیونکہ اگر یہ اُمت عہد نبھاتی تو اللہ بھی اپنا وعدہ پورا کرتا کیونکہ ہم سب کا ایمان ہے کہ اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا اور اللہ کا وعدہ ہے:
    وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (۵۵) سورة النور

    ’’ تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمانﻻئے ہیں ا ورنیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرورزمین میں خلیفہ / حاکم / جانشین بنائے گا جیسےکہ ان لوگوں کو خلیفہ / حاکم / جانشین بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کےاس دین کو مضبوطی کےساتھ محکم کرکے جما دےگا جسے ان کےلئے وه پسندفرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطرکو وه امن و امان سے بدل دےگا، وه میری عباد ت کر یں گے میرے ساتھ کسی کوبھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔اسکے بعدبھی جولو گ نا شکری اور کفر کریں وه یقیناً فاسق ہیں ۔‘‘


    اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے اِس فرمان میں اپنے مومن بندوں کوخلافتعطاء کرنے کا وعدہ چار شرائط کے ساتھ کیا ہے:
    ۱۔ جو ایمان لائے ہیں
    ۲۔ جو نیک اعمال کئے ہیں
    ۳۔ جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے
    ۴۔ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے

    مسلم دنیا پہ یا صرف اپنے آس پاس ہی ایک نظر ڈال لیں تو ہم سب یک زبان یہ کہہ اُٹھیں گیں کہ آج اُمتِ مسلمہ خلافت کی اِن شرائط میں سے ایک بھی پوری نہیں کرتی۔
    ۱۔ایمان کی جگہ دلوں میں منافقت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ اگر ایمان ہوتا تو ۵۰ سے زائد مسلم اکثریتی مما لک میں یہود و نصاریٰ یا دہریوں کی مادرپدر آزاد جمہوریت‘ سیکولرزم یا کمیونزم کی جگہاسلامکی سیاسی، معاشرتی اور معاشی اصولوں پر مبنی نظام حکومت خلافت ہوتا۔
    ۲۔جب ایمان نہیں تو اعمالِ صالح قابل قبول نہیں اور منافقت میں کئے گئے اعمال ضائع ( حَبِطَتْ) ہی ہونگیں۔
    ۳۔ صرف اللہ کی عبادت کریں گے ۔۔۔ اُمت میں آج کتنی بدعتیں عبادات بن گئیں ہیں ‘ اللہ کے ساتھ ساتھ آج کتنے زندوں مردوں کی عبادات ہو رہی ہے‘ امریکہ سمیت کتنے طاغوت کے آگے سر جھکایا جا رہا ہے۔
    ۴۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے ۔۔۔ آج اُمت قریب ہر مسلم اکثریتی ملک کے ہر گلی کوچے میں شرک کی فیکٹریاں قائم کر رکھیں ہیں جہاں میں بڑے بڑے داڑھی اور پگڑ والے شرک کرتے اور کرواتے ہیں اور بڑے ڈھٹایٴ سے کہتے ہیں کہ ’’ امت مسلمہ کبھی شرک نہیں کر سکتی ‘‘۔

    ۔ اور کیوں نہ کہیں کہ اسی شرکیہ عقیدے سے تو وہ اپنی دنیا بنا رہے ہیں۔
    حیرت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شرائط اور وعدے کو بھول کر صدیوں سے اُمت مسلمہ خلافت کیلئے کوشاں ہیں۔ متعدد دینی و سیاسی جماعتیں (جیسے جماعت اسلامی‘ جمیعتِ علمائے اسلام‘ اخوان ا لمسلمین وغیرہ ) اور مختلف جہادی تنظمیں خلافت کیلئے مسلسل جد وجہد کرتی رہیں لیکن نہ خلافت قائم ہونا تھا اور نہ ہوا۔ ایک تبلیغی جماعت بھی ہے جو ایمان و عقائد کو درست کئیے بغیر صرف اعمال درست کرنی کی سعی تقریبا ً سو سالوں سے کررہی ہے‘ جن کی تعداد ساری دنیا مین سب سے زیادہ ہے لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنےایمان و عقائد کی اصلاح کئے بغیر جہاد کے ذریعے خلافت قائم کرنے کے چکر میں مسلمانوں ہی کا قتل عام کرتے پھر رہے ہیں۔
    حیرت ہے کہ اُمت کے اِن بڑے بڑے مفکر اسلام‘ شیخ الاسلام‘ اکابرِ اُمت وغیرہ وغیرہ کو خلافت کیلئے اللہ کی عاید کردہ شرائط اور اُمت میں ایمان و اعتقاد کی کمزوری و تنزلی کیوں نظر نہیں آیٴ یا نہیں آتی۔ کیا تاریخِ اقوام عالم میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ شرک و بدعت کی ظلمتوں میں ڈوبے لوگوں کے ذریعے خلافت قائم ہوا ہو؟
    نہیں کبھی نہیں۔
    اللہ سبحانہ و تعالیٰ نےنبی کریم ﷺ سمیت جتنے بھی انبیاء علیہ السلاۃ و السلام بھیجے سبھوں نے پہلا کام ہی یہی کیا کہ لوگوں کو شرک کی ظلمتوں سے نکال کر اُن کے دلوں کو توحید کی روشنی سے منور کیا اور جب خالص توحید کی بنیاد پہ ایک اُمت بن گئی تو اللہ نے اُنہیں دنیا میں خلیفہ / حاکم / جانشین بنایا۔
    نبی کریم ﷺ نے جنہیں شرک کی گندگی نکال کر توحید کی نور سے منور کیا‘ اللہ نے اپنے وعدے کے مطابق اُنہیں زمین پر خلافت عطا کی۔ آج اگر اُمت مسلمہ کو خلافت چاہئیے‘ شریعت کا نفاز چاہئیے تو خلفائے راشدین جیسا ایمان و اعتقاد پیدا کرنا ہوگا جو شرک سے بالکل پاک تھا‘ انہوں نے توحید کو جس طرح سمجھا‘ جانا اور مانا تھا اسی طرح سمجھنا‘ جاننا اور ماننا ہوگا۔ انہوں نے جو اعمالِ صالح کیا تھا ا س مین بدعت نہیں تھی‘ اُنہوں نے صرف اللہ کی عبادت کی اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا۔
    اِس کیلئے ضروری ہے کہ تنگ نظری‘ ہٹ دھرمی و تکبر چھوڑ کر ہم سب آگے بڑھیں۔ قرآن کی اُن آیتوں کو لیں جن میں شرک کا بیان ہے‘ (جن کی اکثر کو یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ یہ تو کافروں اور مشرکوں کیلئے تھی) اور دیکھیں کہ مسلمانوں میں کون کون سی شرک موجود ہے‘ اُن سے خود بھی اپنے دل کو پاک کریں اور اپنے اہل و عیال اور تمام مسلمانوں کو اُس سے نکالنے کی سعی کریں اور اسکی جگہ قرآن و احادیث کے مطابق توحید کی آبیاری کریں۔ پھر جاکے ہمارے اعمالِ صالحہ بھی قبول ہوگی‘ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے والے ہو جائیں گے اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔
    تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ بھی اپنا وعدہ پورا کرے گا اور اُمتِ مسلمہ کو خلافت ست سرفراز کرے گا کیونکہ ہم سب کا ایمان ہے کہ ہمارا اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

    تاریخ شاہد ہے کہ اللہ نے ہمیشہ اپنے موحد بندوں ہی کو غلبہ عطا کیا ہے اور مشرکوں کو تباہ و برباد کیا ہے ۔ جس دن اُمت کی اکثریت توحید پہ گامزن ہو جائے گی اللہ اپنے وعدے کے مطابق اُمت مسلمہ کو غلبہ دے گا جیسے اس سے پہلے والوں کو غلبہ دیا تھا‘ دین اسلام کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ہمارے حق میں پسند کیا ہے، اور موجودہ خوف و خطر کو امن و امان سے بدل دے گا۔

    تو آئیے شرک کی بیخ کنی کریں اور توحید کی دعوت عام کریں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    شکریہ، بہترین دلیل ـ اصولوں اور اساس کو بھول کر خلافتیں قائم نہیں ہوتی ـ یہ خلافت کا نعرہ دھوکہ ہے ـ اور اس دھوکہ میں بڑے بڑے لوگ کا م آئے ـ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  3. طارق اقبال

    طارق اقبال محسن

    شمولیت:
    ‏اگست 3, 2009
    پیغامات:
    316
    مضمون نگارکا فہم انتہائی ناقص ہے اور حالات واقعات سے انجان ہے ۔ جناب اسی بات کا تو رونا ہے کہ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام نے کبھی خلافت کے لیے کوشش نہیں‌کی بلکہ وہ سیکولر طبقے سے بھی زیادہ جمہوریت کے دیوانے ہیں‌ اور اسی کے ذریعے اسلامی حکومت قائم کرنےکے خواب دیکھ رہے ہیں‌ اور انہی کو دیکھ کر باقی جماعتیں بھی اسی طریق پر چل رہی ہین ۔ اگر یہ سب جماعتیں‌ خلافت کے لیے کوشاں‌ہوتیں‌ تو اب تک ہم کافی منزل طے کر چکے ہوتے ۔ ان کو چاہیے تھا کہ یہ جمہوریت کے دھوکے میں‌ نہ آتے بلکہ عوام کو اس کی قباحتوں‌ سے آگاہ کرتے ۔ ان سے بائیکاٹ‌کرواتے اور ساتھ ہی ساتھ ان کو عملی مسلمان بھی بناتے ، انکی تربیت کرتے ، توحید کا پرچار کرتے اور شرک سے روکتے ۔ اور جب ملک کی ایک معقول تعداد اسلامی نظام کو اخیتار کرنے پر آمادہ ہو جاتی تو پھر یہ جماعتیں‌ باہم ملکر اپنے میں‌ سے ایک خلیفہ کا انتخاب کر لیتیں‌ اور ایک لائحہ عمل ترتیب دیتیں‌۔ مگر افسوس ایسا نہیں‌ہورہا ۔
    مضمون نگار سے میرا سوال ہے کہ کیا کوئی جمہوری حکومت شرک کو ختم کرسکے گی؟ یا اگر سب دینی جماعتیں الیکشن کے ذریعے دو تہائی اکثریت لے کر کامیاب بھی ہو جاتی ہیں‌ تو وہ کیا بریلوی اور دیوبندی شرک کو بھی ختم کر پائیں گیں ؟ اور اگر کر بھی لیتی ہیںً‌ تو پھر اگلے 5 سال کے بعد دوبارہ اگر سیکولر حکومت آ‌ جاتی ہے تو پھر کیا اسلام رول بیک ہو گا؟
    آج دینی جماعتوں‌کی جو عزت عوام الناس کی نگاہوں‌میں‌ختم ہو چکی ہے اس کی بڑی وجہ دینی جماعتوں‌ کا جمہوریت کے ذریعے برسراقتدار آنے کے لیے غیر اسلامی حربے استعمال کرناہے ۔
    میری سمجھ سےبالاتر ہے کہ کیا مشرکوں‌، بدعات کے اماموں اور سیکولر لوگوں‌کے ساتھ اتحاد کر کے شرک و بدعت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر نہیں تو پھر اس سعی لاحاصل کا کیا فائدہ ۔۔ جب کہ مضمون نگار کے مطابق جب تک لوگ توحید و شرک سے بیزاری کا اعلان نہیں‌کریں گے تو اللہ خلافت بھی عطا نہ کرے گا !!! تو پھر بتائے کہ کس کا مؤقف درست ہے
    وہ جو جمہوریت کے ذریعے سیکولر اور بدعتی لوگوں‌کے ساتھ اتحاد کرکے اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں‌ یا
    جو لوگوں‌کو جمہوریت کی خرافات سے بچاتے ہوئے ان کی تریبت کرنا چاہتے ہیں‌۔ ان کو توحیدو شرک کی تعلیم دیتے ہیں‌ اور ایک منظم جماعت کی شکل میں اکھٹا کرنا چاہتے ہیں‌؟؟؟
     
  4. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    جب آپ نے اس مہر لگا دیا تو آپ کے سوالات کا جواب کیا دینا۔
    بہر حال ذیل کی مزید دو تحاریر بھی پڑھ لیں تاکہ ناقص فہم کی مزید انتہا کو پہنچ سکیں ۔
    پڑھنے کیلئے کلک کریں:

    خلافت: ایک سعی ٔ ناکام
    خلافت تو اللہ کا عطیہ ہوتا ہے
     
    • متفق متفق x 1
  5. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    جناب محترم أجمل صاحب، لکھتے رہیں. بارک اللہ فیک. مہر لگانے والوں کی وجہ سے پریشان نا ہوں.
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • متفق متفق x 1
  6. حافظ عبد الکریم

    حافظ عبد الکریم محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 12, 2016
    پیغامات:
    585
    محترم آپ کا کام لکھنا ہے بس آپ ضرور لکھئے ہمت نہ ہاریں اللہ آپ کا اور ہمارا ساتھ دے گا
    ان شاء اللہ
     
    • متفق متفق x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں