سچی توبہ اور کثرت استغفار-چوتھی دوا

بابر تنویر نے 'دلوں کی اصلاح و پاکیزگی' میں ‏مارچ 21, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    چوتھی دوا
    سچی توبہ اور کثرت استغفار:

    چنانچہ سچی توبہ جس میں توبہ کی تمام شرائط موجود ہوں، دل کو جلا و روشنی بخشتی ہے اور گناہوں اور برائیوں کے تمام میل کچیل کو صاف کر دیتی ہے، کیونکہ گناہوں اور معاصی پر بار بار اصرار دل کو کالا اور سیاہ بنا دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ گناہوں پر مصر نافرمان دل کو تم انتہائ ظلمت اور قساوت میں پاؤ گے جو مکدر اور بے لذت ہوتا ہے، بلکہ اللہ کی قسم! وہ تو عذاب اور شقاوت و بدبختی میں گھرا ہوتا ہے۔

    لہذا توبہ دل کی مساعی جمیلہ یعنی اچھی کوششوں میں سے ایک بہترین کوشش ہے، اور اس کوشش کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ دل صالح یعنی تقوی والا اور مستقیم یعنی راہ الہی پر ٹھیک چلنے والا ہو جاۓ ، یاد رکھیے کہ کثرت توبہ اور بار بار توبہ کا اعادہ کرنا اور ہمیشہ استغفار کرتے رہنا یہ ان امور میں سے ہے جن سے دل صالح اور پاکیزہ بنتا ہے، اور اسے اعمال خیر کی طرف لے جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحیح حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں:

    احمد 18002

    ((إنه ليغان على قلبي، وإني لأستغفر الله في اليوم مائة مرة))

    بیشک میرے دل پر کبھی ذکر الہی سے متعلق غفلت طاری ہوتی ہے اور میں دن میں سو بار اللہ کی جناب میں ضرور استغفار کرتا ہوں۔

    اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دل سے "غین" یعنی ذکر الہی سے متعلق طاری ہونے والی غفلت کو استغفار کے ذریعہ زائل اور دور کرتے ہیں، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے آپ کے آگے اور پیچھے کے تمام گناہ بخش دیے ہیں۔

    اور پھر آپ کے سوا دوسرے کی کیا حالت ہونی چاہیے جس کے کندھے گناہوں سے بوجھل ہیں اور ہر لمحہ گناہوں و نافرمانیوں کی بھر مار اور کثرت ہے، کیا اسے بکثرت استغفار کی ضرورت نہیں ہے جس سے اس کے دل فاسد کی اصلاح ہو سکے؟ ہاں! کیوں نہیں، قسم ہے اللہ کی! ہم سب اس کے شدید محتاج ہیں۔

    کیونکہ اللہ کا بندہ جب گناہوں سے تائب ہوجاتا ہے تو وہ اپنے دل سے اچھے و برے اعمال کی آمیزش و ملاوٹ کو باہر نکال دیتا ہے، جو اس نے اس میں اچھے اور برے اعمال کی آمیزش کر رکھی تھی۔ لہذا جب وہ جملہ گناہون سے توبہ کر لیتا ہے، تو دل کی قوت اور اس کا ارادہ اعمال صالحہ کے لیے بالکل فارغ ہوجاتا ہے، اور اس طرح سے اس کا دل ان تمام فاسد حوادث و مشاغل سے جو اس میں موجود تھے راحت و سکون محسوس کرتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

    الانعام 122
    ]أَوَمَنْ كَانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا[
    ایسا شخص جو پہلے مردہ تھا پر ہم نے اس کو زندہ کر دیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دے دیا کہ وہ اس کو لیے ہوۓ آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے، کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے؟ جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا۔

    اللہ تعالی نے یہ اس شخص کی مثال بیان کی ہے جو کفر اور جہالت کی وجہ سے مردہ دل تھا، پر اللہ تعالی نے اسے توبہ کرنے کی توفیق بخشی اور اسے ایمان کی دولت دے کر زندگي عطا فرمائ، اور اسے ایسے نور سے نوازا ، جس سے وہ روشنی حاصل کرتا ہے اور لوگوں کے درمیان اس نور کو لیے چلتا پھرتا ہے۔

    دلوں کی اصلاح
     
    Last edited: ‏مارچ 22, 2015
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاک اللہ خیرا وبارک فیک۔واقعی توبہ کے بعد دولت ایمان اور نور میں اضافہ ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ اللہ ہم سب کو یہ نعمت حاصل کرنے کی توفیق دے۔
     
    Last edited: ‏جنوری 14, 2017
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں