پاکستان میں تدریس عربی کا بنیادی مسئلہ (پسماندہ طریقہ تدریس)

ابن عمر نے 'عربی علوم' میں ‏مئی 13, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابن عمر

    ابن عمر رحمہ اللہ بانی اردو مجلس فورم

    شمولیت:
    ‏نومبر 16, 2006
    پیغامات:
    13,354


    ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 1
    جلد نمبر 39 24 ذوالحجہ 1428 ھ 4 جنوری 2008 ء
    مولانا محمد بشیر ( اسلام آباد )

    پاکستان اور اہل پاکستان کے لئے عربی زبان کی تدریس کئی پہلوں سے اہمیت رکھتی ہے جن میں لسانی اور تہذیبی پہلو ، دینی اور تعلیمی پہلو اور اقتصادی اور سیاسی پہلو زیادہ نمایاں ہیں ۔ اس لئے اس عظیم مضمون کی تدریس کے مسائل و مشکلات اور ان کے حل پر غور وفکر کرناضروری ہے ۔ میں یہاں اختصار کے ساتھ عربی زبان و ادب کی تدریس کی راہ میں پیش آنے والے مسائل کا جائزہ پیش کرتا ہوں ۔

    ہمارا بنیادی مسئلہ - پسماندہ طریقہ تدریس
    اس وقت ہمارے تعلیمی اداروں سکولوں ، کالجوں ، عام یونیورسٹیوں اور اسلامی مدارس میں عربی زبان کی تعلیم کا طریقہ بالکل پسماندہ بلکہ فرسودہ ہے ۔ ان میں معلم عربی زبان کے کلمات ، جملوں یا عبارتوں کو خود پڑھ کر یا بچوں سے پڑھوا کر ان کا اپنی مقامی زبان اردو ، پشتو یا سندھی وغیرہ میں لفظی ترجمہ کرنے تک محدود رہتا ہے ۔ یوں بچے اپنے معلم سے عربی الفاظ ، جملوں ، عبارتوں کا صرف اور صرف ترجمہ سیکھتے ہیں ، اور اسی کو اپنی منزل اور آخری کامیابی سمجھتے ہیں ۔ اسکے سوا وہ عربی زبان کے الفاظ اور محاوروں کو لکھنے یا بولنے اور ان کے متنوع استعمالات کی کوئی مشق نہیں کرتے ۔ اور انہیں عربی زبان میں تحریر وانشاءکی مشق نہیں کرائی جاتی ۔ اسلئے وہ عربی ایسی آسان زبان کو بھی لکھنے اور بولنے کی معمولی صلاحیت سے قاصر رہتے ہیں ۔ اس فرسودہ طریقہ تدریس سے عربی زبان مسلسل ” متروک “ رہتی ہے ۔ اس لئے ہمارے سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں اور اسلامی درسگاہوں میں عربی زبان عملا ” متروک “ ہے ۔ اور یہ ایک بدیہی بات ہے کہ جس چیز کو آپ عمداً اور خود ترک کریں وہ آسان ہونے کے باوجود آپ کو نہیں آئے گی ۔

    نقصانات
    1۔ بچوں میں عربی زبان بارے غلط تصور راسخ ہوتا ہے ۔

    یہ مشہور قاعدہ ہے کہ فاقد الشی لا یعطیہ ( جو شخص کسی چیز سے خود محروم ہو وہ اسے دوسروں کو نہیں دے سکتا ) ۔ جب ہماری درسگاہوں کے فیض یافتہ طلبہ اورطالبات خود عربی نہیں جانتے ہوں گے تو وہ بڑے ہو کر سکولوں ، کالجوں اور دینی درسگاہوں میں عربی زبان وادب کو مناسب انداز سے فروغ نہیں دے سکیں گے ۔ اس وقت یہی صورتحال ہے ۔ یوں ہم نئی نسل کو عربی زبان کی تعلیم دینے کے لئے اچھے افراد اور معلم تیار نہیں کررہے ۔ ہمارے فضلاءآٹھ دس سال پڑھنے کے بعد عربی زبان میں قابل نہیں بنتے ۔ اور جب وہ سند فراغت لینے کے بعد تعلیم وتدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں تو وہ خود احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں ۔ ایسے حضرات جب معلم بنیں گے تو وہ زیر تعلیم بچوں کو کیا تربیت دیں گے ؟ اسلئے ہم دیکھتے ہیں کہ سکولوں اور اسلامی درسگاہوں کے بچے اور بچیاں عربی زبان کے مضمون کو مشکل اور بوجھ تصور کرتے ہیں ۔ کیونکہ ہمارے اس روائتی طریقہ تعلیم کے مطابق تعلیم یافتہ فاضل معلمین اسے صحیح اورموثر انداز سے پیش نہیں کر رہے ۔

    2۔ یہ پسماندگی ہزاروں بچوں کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔

    دینی مدارس کے منتظمین اور اساتذہ جانتے ہیں کہ مدارس کے ثقیل نصاب کی بنا پر ہزاروں طلبہ اور طالبات پہلے ہی مرحلہ میں مدارس سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ اگلے مراحل میں بھی جاری رہتا ہے ، اس کی تصدیق خود مدرسین کرتے ہیں اور اپنی مقامی زبانوں میں خود یہ کہاوت سناتے ہیں ” دعا یدعو پڑھدے نطھے تے ہل واہندے ڈتھے “ یعنی جب بچے دعا یدعو ایسے مشکل باب کی گردانیں پڑھنے لگتے ہیں تو وہ درسگاہ سے فرار ہو کر کھیتوں میں ہل چلانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔

    جب ہمارے اپنے فضلاءکا یہ حال ہے ، تو عام تعلیم یافتہ شہریوں کا عربی زبان بارے کیا تثر ہوگا ؟ اس کی مثال پیش کرتا ہوں ۔ گذشتہ سال ہم نے گوجرانوالہ شہر میں چند مقامات پر عربی کورسز منعقد کئے ۔ اس دوران ایک کالج میں انگریزی کی ایک معلمہ بھی شریک ہوئی تو وہ حیرت سے کہنے لگی کہ میں نے اپنی طویل زندگی میں یہاں پہلی دفعہ سنا ہے کہ عربی زبان میں ترقی کیلئے ریفریشر کورس ہوتا ہے! یوں ہمارے تعلیم یافتہ طبقوں میں یہ مسلم ہے کہ عربی زبان انتہائی مشکل اور پیچیدہ زبان ہے کہ عمر بھر پڑھنے کے باوجود اس پر عبور حاصل کرنا ناممکن ہے!

    3۔ ہم عام مسلمانوں میں عربی زبان کو فروغ نہیں دے سکے ۔

    اللہ تعالیٰ تمام کائنات اور زبانوں کا خالق ہے ، اس نے اپنی کمال حکمت کے مطابق عربی کو اپنے محبوب دین اسلام ، اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنی آخری ابدی کتاب قرآن حکیم کے لئے منتخب فرمایا ہے ، اب یہ اسلام کے تمام چشموں کی محافظ اور امین ہے ۔ دوسری طرف اللہ تعالی نے اسے اپنی عبادت اور قرب ومناجات کا ذریعہ بنایا ہے ۔ عربی کی یہ منفرد حیثیت اسے دوسری تمام زبانوں سے ممتاز کرتی ہے ۔ اس طرح چشمہءاسلام سے فیضیابی کے لئے عربی زبان کی مناسب تعلیم کے حصول کو ہر مسلمان کے لئے ضروری اور لازمی قرار دیا گیاہے ۔ یوں ہر باشعور مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بنیادی عربی زبان سیکھ کر قرآن کریم کوسمجھے اور اپنے محبوب دین اسلام کی بنیادی تعلیمات سے براہ راست آگاہی کا شرف حاصل کرے ۔ اور کم ازکم اپنی نماز اور عبادت کے کلمات اور اذکار کو سمجھ کرادا کرے اور اپنے خالق سے براہ راست مناجاۃ کا قرب حاصل کرے اور حتی المقدور ایمان کی لذت اور حلاوت حاصل کرے ۔

    عربی کی اس منفرد اور ممتاز شرعی حیثیت کاتقاضا یہ ہے کہ ہمارے تمام ادارے ، تنظیمیں ، دین کے خدام ، علماءاور مبلغین مسلمان معاشرے میں اسکی بہتر ترویج واشاعت کا اہتمام کریں اور اسے عام مسلمانوں کے لئے قابل فہم ، آسان اور موثر صورت میں پیش کریں اور اسکی زیادہ سے زیادہ اشاعت کریں ، تاکہ معاشرے میں دعوت اسلام عام ہو ، لوگوں میں فہم قرآن کا ذوق بڑھے اور وہ اسلام کی نورانی تعلیمات سے مستفید ہوں اور معاشرے میں ہر سو پھیلی ہوئی طرح طرح کی گمراہیوں اور خرافات سے محفوظ ہوں ۔

    دوسرے لفظوں میں عربی کی اشاعت مسلمان معاشرے میں اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کی دعوت اور تربیت کا نہایت موثر ذریعہ اور شرعی فریضہ ہے ۔ لیکن چونکہ ہماری درسگاہوں میں عربی زبان کی تعلیم و تدریس مناسب انداز میں نہیں ہو رہی اس لئے ہم باشعور مسلمانوں کی تمنا کے باوجود اسے اپنے معاشرے میں زیادہ فروغ نہیں دے سکے ۔

    4۔ قابل نوجوانوں کی اعلی تعلیم و ترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے ۔

    اس فرسودہ طریقہ تعلیم کا ایک اور بڑا نقصان جسے راقم الحروف اکثر دیکھتا رہتا ہے ، یہ ہے کہ جب ہمارے دینی مدارس ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ بی ۔ اے یا ایم ۔ اے یا عالمیہ ( وفاق المدارس ) کی اسناد لیکرمزید اعلی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے کسی عرب یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں تو انہیں عربی سمجھنے ، لکھنے اور بولنے میں سخت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم میں عربی تحریر و انشاءکی مشق نہیں کی ہوتی اور اس مرحلے پر ان کی اعلی اسناد کام نہیں آتیں ۔ کیونکہ عرب دنیا کے ادارے انہیں اپنے سیکنڈری سکول کی سند کے برابر مانتے ہیں ۔ یوں ان فاضل حضرات کی عمر کے پانچ چھ سال یا کئی صورتوں میں دس سال ضائع ہوتے ہیں ۔

    5۔ ہم عوامی اور سرکاری سطح پر عرب ملکوں سے براہ راست مناسب تعلقات استوار نہیں کر سکے ۔

    ہمارے ہاں عربی کے فرسودہ طریقہ تدریس کا یہ بڑا قومی نقصان ہے جو قیام پاکستا ن سے لیکر آج تک ہو رہاہے ۔
    اللہ تعالیٰ نے مملکت پاکستان کا محل وقوع ایسا بنایا ہے کہ اس کے جنوب میں واقع سمندر پار بائیس مسلمان عرب ملکوں کا ایک وسیع اور طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ ان میں سے کئی ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں جن میں اس وقت تقریباً پندرہ لاکھ سے زیادہ پاکستانی شہری ملازمت اور روزگار کیلئے مقیم ہیں اور اپنے وطن عزیز کے لئے قیمتی زر مبادلہ کما رہے ہیں ۔ اب ہم پاکستانیوں کو شب وروز سرکاری اور عوامی سطح پر ان ملکوں کی حکومتوں ، ان کے قومی ونجی اداروں اور برادر عوام کے ساتھ روابط قائم کرنا ہوتے ہیں اور یہ روابط زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ دین ، تعلیم ، تجارت ، محنت ، خارجہ امور ، داخلہ امور ، اطلاعات ، فوجی تعلقات ، سفارتی تعلقات ، سفارتی وفود کا تبادلہ اور طرح طرح کے اجتماعات اور کانفرنسز کا انعقاد وغیرہ وغیرہ ، غرضیکہ ہمیں ہر ہر لمحہ ان ممالک سے طرح طرح کا لین دین کرنا ہوتا ہے ۔

    اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ ان ممالک کے باشندے ہمارے مسلمان بھائی ہیں اور ہم شرعی اور اخلاقی طور ان کے ہر دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں ۔
    پھر یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ان ممالک کے مسلم عوام اور حکومتیں ہر اہم اور نازک موقع پر ہمیشہ پاکستان کی سیاسی حمایت اور تائید کرتے رہے ہیں اور بوقت ضرورت ہمیں گرانقدر مالی اور سیاسی امداد دیتے آئے ہیں ۔

    اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ متعدد عرب ممالک سرکاری سطح پر اور اپنی اسلامی تنظیموں کی وساطت سے ہماری اسلامی درسگاہوں اور رفاہی تنظیموں کو گرانقدر مالی امداد اور عطیات دے کر ان سے بے مثال تعاون کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن ان سب حقائق کے باوجود ان بائیس برادر مسلمان عرب ممالک کی حکومتوں ، عوامی اداروں اور شخصیات کے ساتھ ہمارے سرکاری ، عوامی اور ثقافتی تعلقات بالکل واجبی حدوں تک محدود چلے آرہے ہیں او ر ان میں عربی زبان اورہماری قومی زبان اردو کے درمیان موجود باہمی قربت جیسی قربت اورگرمجوشی نہیں پائی جاتی ۔
     
  2. ابن عمر

    ابن عمر رحمہ اللہ بانی اردو مجلس فورم

    شمولیت:
    ‏نومبر 16, 2006
    پیغامات:
    13,354
    موجودہ صورتحال

    1۔ اس وقت اندرون ملک صورتحال یہ ہے کہ ہماری وزارت خارجہ میں صرف ایک عربی مترجم موجود ہے جو وزارت خارجہ ، وزارت مذہبی امور اور دوسرے اداروں کے خطوط اور عرب ملکوں سے آنے والے وفود اور شخصیات کی ترجمانی کرتا ہے ۔ جبکہ عرب ممالک جانے والے پاکستانی شہریوں کی دستاویزات کے تراجم کو وزارت خارجہ کے ایسے ملازمین تصدیق کر رہے ہیں جو ان کی صحت کی جانچ پڑتال نہیں کر سکتے کیونکہ وہ عربی سے نابلد ہیں ۔

    2۔ جبکہ بین الاقوامی اور سفارتی سطح پر صورتحال یہ ہے کہ عرب ملکوں میں متعین پاکستان کے سفراء ، افسران اور عملہ عربی زبان سے ناواقف ہوتے ہیں اور وہ میزبان ملک کے شہریوں اورمحکموں سے مناسب اور گہرے تعلقات قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے جس کی بڑی وجہ عربی زبان سے ان کی عدم واقفیت ہوتی ہے ۔ وہ عرب میزبانوں سے ملتے جلتے وقت اس مشہور مقولے کا مصداق بنتے ہیں ۔
    زبان یارمن ترکی ومن ترکی نمے دانم

    3۔ جبکہ اس وقت علماءکرام اور اساتذہ کی سطح پر عام صورتحال یہ ہے کہ اگر ہماری کسی دینی درسگاہ ، کالج یایونیورسٹی میں کوئی عرب مہمان آجائے تو اسکے اساتذہ اپنے عرب مہمان کا عربی میں خیر مقدم کرنے اور اس سے گفتگو کرنے پر قادر نہیں ہوتے الا من شاءاللّہ وہم قليل

    اسی طرح جب ہمارے جلیل القدر علماءکرام ، بلند پایہ دینی راہنما اور ممتاز اساتذہ حج اور عمرہ کے لئے یا کسی اور مقصد کے لئے کسی عرب ملک جاتے ہیں تو وہ وہاں اپنے ہم مرتبہ علماءیا مدرسین اور خطباء سے عربی زبان میں تبادلہ خیال کرنے سے کلیۃ قاصر ہوتے ہیں الا من شاءاللّہ وہم قليل

    4۔ رہی بات پاکستانی میڈیا کے عرب ممالک کے میڈیا سے تعلقات کی تو آج میڈیا کے دور میں یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ ہمارے نشریاتی اداروں کا ان سے براہ راست کوئی رابطہ موجود نہیں ۔ جس کانتیجہ صفر ہے اور نہایت نقصان دہ! ہماری شخصیات جب ان ممالک کے دورے پر جاتی ہیں تو وہاں ان کے نام تک صحیح نہیں چھپتے ، اور اس طرح ان کی شخصیات کے دوروں کے موقع ہمارے میڈیا کی صورت یہی ہوتی ہے ۔

    ان حقائق کا اولین تقاضا یہ ہے کہ ہم ان بائیس برادر عرب ملکوں کے ساتھ اپنے ان گوناگوں اور گہرے تعلقات کا ادراک کریں اور سرکاری اور عوامی سطح پر ان کی سرکاری زبان عربی کو مناسب اہمیت دیں اور اس کی بین الاقوامی اور علاقائی اہمیت اور ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی تدریس وتعلیم کا اچھا انتظام کریں ۔ نیز اپنے ملک کے قابل اسکالرز اور مصنفین کو عرب ملکوں کے دورے کرکے وہاں کے سرکاری ، تعلیمی اور دینی حلقوں سے روابط استوار کرنے میں مدد دیں ۔

    نیز عرب ملکوں میں واقع اپنے سفارتخانوں میں عربی زبان کے ماہر مترجمین اور اہل قلم کو متعین کریں جو ان ممالک سے ہر طرح کے روابط استوار کرنے کی سعی کریں ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں