ہماری درسگاہوں میں علم النحو

ابن عمر نے 'عربی علوم' میں ‏مئی 13, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابن عمر

    ابن عمر رحمہ اللہ بانی اردو مجلس فورم

    شمولیت:
    ‏نومبر 16, 2006
    پیغامات:
    13,354
    ہماری درسگاہوں میں علم و نحو

    ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 2
    جلد نمبر 39 25 ذوالحجہ تا یکم محرم الحرام 1428 ھ 5 تا 11 جنوری 2008 ء
    مولانا محمد بشیر ( اسلام آباد ) ​

    ہماری درسگاہوں میں عربی کے علم نحو کی پہلی کتاب جو سال اول کے مبتدی بچوں کو پڑھائی جاتی ہے وہ علم النحو ہے ، اس کے مصنف مولانا مشتاق احمد چرتھاولی رحمہ اللہ ہیں ، وہ اس کے صفحہ اول کے شروع میں علم نحو کا تعارف کراتے ہوئے اس کے درس وتدریس کا مقصد اور فائدہ یوں بیان کرتے ہیں :

    ” فائدہ اس علم کا یہ ہے کہ انسان عربی زبان بولنے اور لکھنے میں ہر قسم کی غلطی سے محفوظ رہے “

    اس کے بعد اگلے تعلیمی درجے کی تدریسی کتاب ہدایۃ النحو ہے ۔ اس کے شروع میں علم نحو کی تعلیم کی غرض وغایت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے :
    والغرض منہ صیانۃ الذہن عن الخطا اللفظی فی کلام العرب ( اس علم نحو کا مقصد عربی زبان بولتے اور لکھتے ہوئے ذہن کو غلطیوں سے بچنے کی تربیت دینا ہے )

    یوں ہمارے ان بزرگوں کے ارشادات کے مطابق عربی گرامر ( صرف ونحو ) کی تعلیم وتدریس کا مقصد اور ہدف یہ ہونا چاہئے کہ ہمارے طلبہ اور طالبات عربی زبان کو صحیح طور پر سمجھنے ، پڑھنے اور لکھنے بولنے کے قابل ہوجائیں ۔ یہ ایک بدیہی بات ہے کہ ہر زبان کی گرامر اسے صحیح طور پر سمجھنے ، پڑھنے اور بولنے لکھنے کی غرض سے پڑھائی جاتی ہے ۔ اس بات کو عوام وخواص سب جانتے ہیں ، اور یہی مقصد ہمارے مصنفین اور علماءومدرسین کے پیش نظر تھا ۔

    اب آئیے دیکھیں کہ کیا ہماری درسگاہوں میں عربی گرامر کی تدریس کا یہ اصل اور بنیادی مقصد پورا ہو رہا ہے ؟ اور اگر پورا ہور ہا ہے تو کس حد تک ؟ اور اگر پورا نہیں ہورہا تو کیوں ؟

    ہماری تمام درسگاہوں ( سکولوں ، کالجوں اور دینی مدارس ) میں تدریس کا ایک ہی طریقہ رائج ہے جسے درسی کتابیں پڑھانے کا طریقہ کہا جاتا ہے ۔ معلم خود درسی کتاب کا کچھ حصہ پڑھتا ہے یا کسی طالب علم سے پڑھواتا ہے اور پھر معلم ہی اس کا اپنی مقامی زبان اردو یا پشتو وغیرہ میں ترجمہ اور تشریح کرتا ہے ، اور طلبہ غور سے سن کر اس کا اردو یا پشتو ترجمہ یاد کرلیتے ہیں ۔ یہی طریقہ قرآن کریم ، حدیث شریف ، اسلامی فقہ اور عربی زبان وادب کی تدریس میں پہلی جماعت سے لیکر آخر تک جاری رہتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اسی نہج سے علم صرف کی گردانیں پڑھائی جاتی ہیں بلکہ اکثر اوقات انہیں ان کے معنی بتائے بغیر ہی رٹایا جاتا ہے ، اور صرفی قواعد بھی محنت سے پڑھائے جاتے ہیں ۔ اسی طرح علم نحو بھی چار پانچ سال تک مسلسل پڑھایا جاتا ہے ۔

    یہ بات بھی واضح ہے کہ ہماری دینی درسگاہوں میں مذکورہ بالا تمام علوم کی نہایت معیاری اور مستند کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ۔ یوں طلبہ کئی سال تک صرفی اور نحوی قواعد کے مطابق ان درسی کتابوں کی عبارتوں کا ترجمہ سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں محنتی اور ذہین طلبہ رفتہ رفتہ عربی زبان ، حدیث شریف ، اسلامی فقہ وغیرہ کی درسی کتابوں کی عبارتوں کا ترجمہ صحیح طور پر سمجھنے اور پڑھنے لگتے ہیں اور ان کے فہم وادراک کی صلاحیت حاصل کرلیتے ہیں ، اور ان سے اسلامی عقائد اور شرعی مسائل واحکام کے فہم واستنباط کے قابل بنتے ہیں اور دینی وشرعی امور میں معاشرے کی اصلاح اور قیادت کے اہل بنتے ہیں ۔ یہ ہماری درسگاہوں کے فضلاءکا روشن پہلو ہے اور اسی دینی مقام کی وجہ سے معاشرے میں ان کی قدر وقیمت ہے ۔ والحمد لِلّٰہ علی ذلک ۔

    تو ہم اپنے طلبہ اور طالبات کو آٹھ دس سال تک ” درسی کتابوں کو سمجھنے اور پڑھنے “ کی تربیت دیتے ہیں ، اور صرف ونحو کے قواعد کو ” سمجھنے اور رٹنے “ کی محنت کراتے ہیں ، اسلئے ہماری درسگاہوں کے محنتی اور ذہین فضلاءبجا طور پر ” درسی کتابوں کو سمجھنے اور پڑھنے “ کے قابل ہوتے ہیں اور صرف ونحو کے مسائل اور قواعد کو بھی رٹنے اور فرفر سنانے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ یوں ہم انہیں مختلف علوم وفنون کو سمجھنے اور پڑھنے کی جس نہج پر تربیت دیتے ہیں وہ اس میں کامیاب نکلتے ہیں ۔

    رہا معاملہ عربی زبان لکھنے اور بولنے کا تو ہم خود انہیں یہ فن نہیں سکھاتے۔ اگر ہم اپنے طلبہ وطالبات کو عربی زبان میں عمومی گفتگواور تحریر وانشاءکی تربیت دینا چاہتے ہیں تو اس مقصد کیلئے تین تدابیر اختیار کرسکتے تھے۔
     
  2. ابن عمر

    ابن عمر رحمہ اللہ بانی اردو مجلس فورم

    شمولیت:
    ‏نومبر 16, 2006
    پیغامات:
    13,354
    اولاً : ہماری درسی کتابوں میں ہر سبق کے آخر میں عربی میں متنوع سوالات ہوتے تو زیر تعلیم بچے ان کے زبانی اور تحریری جوابات تیار کرنے کی مشق کرتے ہوئے عربی لکھتے اور بولنے کی تربیت حاصل کرتے ۔ بطور نمونہ دیکھئے مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی کتاب قصص النبیین کی ورک بک دلیل قصص البیین حصہ اول ، دوم اور سوم جسے راقم الحروف نے تیار کیا ہے ۔

    ثانیا : ہم درسگاہوں کے ماحول میں عربی زبان کے عملی استعمال کا اہتمام کرتے اور طلبہ واساتذہ کی عام گفتگو کو عربی میں کرنے کو فروغ دیتے ۔ اس اہتمام سے بھی بچوں کو عربی زبان سننے اور بولنے کا اچھا موقع ملتا ۔ درسگاہوں کے ماحول میں عربی زبان کے فروغ میں مدد کیلئے دیکھئے راقم الحروف کا رسالہ دلیل الکلمات المتداولۃ فی بیئۃ مدرسیۃ ۔

    ثالثاً : ہمارے مدرسین بھی اپنی جماعت اور سبق میں عربی کے فروغ کا ماحول پیدا کرسکتے ہیں ۔ ماہر اور قابل معلمین اپنی تھوڑی سی توجہ اور اہتمام سے اپنے طلبہ کو عربی بول چال کا شوق اور تربیت دے سکتے ہیں اور بچوں میں عربی زبان کو ایک زندہ اور متحرک زبان کی طرح بولنے اور لکھنے کا عمدہ ذوق پیدا کرسکتے ہیں ۔

    تاہم ہم عرصہ دراز سے اپنے ذہین اور محنتی طلبہ وطالبات کو عربی کی جزوی تعلیم دیتے ہوئے درسی کتابوں کی عبارتوں کا اردو یا پشتو ترجمہ کرتے ہوئے انہیں صرف سمجھنے اور پڑھنے کی تربیت دے رہے ہیں ۔ جبکہ وہ اس آسان اور شیرین زبان کو سننے ، بولنے اور لکھنے کی تربیت سی کلیۃ اور مسلسل محروم رہتے ہیں ، بلکہ ہمارے تمام تعلیمی حلقے لسانی تعلیم وتربیت کے اس اہم فن سے انہیں محروم رکھنے پر بیجا اصرار کر رہے ہیں ۔

    مشہور ماہر لسانیات محترم محمد افضل انور لکھتے ہیں : سننا سننے سی آتا ہے ، بولنا بولنے سے آتا ہے ، پڑھنا پڑھنے سے آتا ہے اور لکھنا لکھنے سے آتا ہے ۔

    ہم اپنے عزیز بچوں کو ” صرف درسی کتابیں پڑھنے “ کی تربیت دیتے ہیں اور بس ۔ اور یہ صلاحیت بھی محدود ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماحول کی درسی کتابوں کی خواندگی کی قدرت رکھتے ہیں ۔ جبکہ عام عربی لٹریچر یا دور حاضر میں عرب دنیا کے دینی لٹریچر کو نہیں پڑھ سکتے ۔ کیونکہ ان کی اپنی درسی کتابیں صدیوں پرانی ہوتی ہیں ، انہیں پڑھ لینے سے عالم عرب کے معاصر دینی لٹریچر کو پڑھنے میں کوئی زیادہ مدد نہیں ملتی ۔ اس طرح ہمارے نہایت ذہین اور محنتی طلبہ وطالبات اپنے ہزار شوق کے باوجود عربی زبان کی جامع تربیت سے نسل در نسل محروم رہتے ہیں ۔
    گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. atta1987

    atta1987 -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏فروری 28, 2010
    پیغامات:
    8
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں