عورت کا گھر میں اعتکاف ؟

محمد عامر یونس نے 'ماہِ رمضان المبارک' میں ‏جولائی 4, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. محمد عامر یونس

    محمد عامر یونس محسن

    شمولیت:
    ‏مارچ 3, 2014
    پیغامات:
    899
    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    عورت کا گھر میں اعتکاف؟

    عورت گھر میں اعتکاف نہیں کر سکتی ، کیونکہ اعتکاف کی شرعی تعریف یہ ہے : المکث فى المسجد من شخص مخصوص بصفة مخصوصة ۔''کسی مخصوص شخص کا خاص صفت کے ساتھ مسجد میں ٹھہرنے کا نام اعتکاف ہے ۔''

    (شرح مسلم للنووی : ١/٣٧١، فتح الباری لابن حجر : ٤/٢٧١، فتاوٰی عالمگیری : ١/٢٢١)

    امام ِ بریلویت احمد یار خان بریلوی (١٣٢٤۔١٣٩١)لکھتے ہیں :

    ''اعتکاف کا معنیٰ ہیں ، عبادت کی نیت سے مسجد میں ٹھہرنا ۔''

    (تفسیر نور العرفان : ٤٤)

    حافظ نووی رحمہ للہ (٦٣١۔٦٧٦ھ)لکھتے ہیں :

    وفی هذہ الأحاديث أن الاعتکاف لا يصحّ الّا فی المسجد ، لأنّ النّبى صلی الله عليه وسلم وأزواجه وأصحابه انّما اعتکفوا فی المسجد مع المشقّة فی ملازمة ، فلو جاز فی البيوت لفعلوه ولو مرّة ، لا سيما النّساء ، لأنّ حاجتهنّ اليه فی البيوت أکثر ، وهذا الّذی ذکرناه من اختصاصه بالمسجد ، وأنّه لا يصحّ فی غيره ، هو مذهب مالک والشّافعى وأحمد وداو،د والجمهور ، سواء الرّجل والمرأة ۔

    ''ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اعتکاف صرف مسجد میں جائز ہے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کی ازواج اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم ، نے مشقت کے باوجود مسجد میں ہی اعتکاف کیا ، اگر گھر میں جائز ہوتا تو آپ ایک مرتبہ( بیانِ جواز کے لیے )ہی ایسا کرتے ، خصوصا ً جب کہ آپ کی ازواج کے لیے گھر میں اعتکاف کی زیادہ ضرورت تھی، مرد اور عورت دونوں کے لیے صرف مسجد میں اعتکاف کے جواز اور مسجد کے علاوہ عدمِ جواز کا جو مؤقف ہم نے بیان کیا ہے ، یہ امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ، داو،د اور جمہور محدثین رحمہ اللہم کا ہے ۔''

    (شرح مسلم للنووی : ١/٣٧١)

    حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ)آیت ِ مبارکہ (وَاَنْتُمْ عَاکِفُونَ فِیْ الْمَسَاجِدِ)کے تحت لکھتے ہیں :

    فعلم من ذکر المساجد أنّ المراد أنّ الاعتکاف لايکون الّا فيها ۔

    ''اس آیت میں مسجدوں کے ذکر سے معلوم ہوا کہ مسجد کے علاوہ اعتکاف ہوتا ہی نہیں ۔''

    (فتح الباری : ٤/٢٧٢)

    ہر وہ حکم جو مردوں کے لیے ثابت ہو ، وہ عورتوں کے لیے بھی ثابت ہوتا ہے الایہ کہ عورتوں کے لیے اس بارے میں استثنیٰ ثابت ہو جائے۔ جب مرد کا اعتکاف مسجد کے علاوہ کہیں جائز نہیں تو عورت کے لیے بغیر دلیل کے جائز کیوں ؟ پھر سب کے نزدیک مسجد میں ٹھہرنا اعتکاف کا رکن بھی ہے ۔

    (الھدایۃ مع البنایۃ : ٣/٤٠٧، ابن عابدین : ٢/٤٤١، بلغۃ السالک : ١/٥٣٨، کشاف القناع : ٢/٣٤٧)

    جب اعتکاف مسجد کے ساتھ خاص ہے اور مسجد میں ٹھہرنا اعتکاف کا رکن ہے تو پھر بغیر دلیل کے عورت سے یہ ''خصوصیت'' اور ''رکنیت '' کیسے ساقط ہو گئی ؟

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ء اقدس میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی ازواجِ مطہرات مسجد میں ہی اعتکاف کیا کرتی تھیں ، اگر عورت کے لیے گھر میں اعتکاف کرنا صحیح ہوتا تو وہ اپنے گھروں میں اعتکاف کرتیں ، علاوہ ازیں عورت کو گھر میں رہنے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ، مگر اس کے باوجود مسجد میں اعتکاف کرتی تھیں ،کسی صحابی سے اس پر انکار ثابت نہیں ، گویا کہ عورت کے مسجد میں اعتکاف کے جواز پر صحابہ کرام کا اجماع تھا ۔

    ابنِ ہبیرہ (م٥٦٠ھ)لکھتے ہیں :

    وأجمعوا علی أنّه لا يصحّ اعتکاف المرأة فی بيتها ، الّا أبا حنيفة قال : يجوز اعتکافها فى مسجد بيتها ۔

    ''اس بات پر (مسلمانوں کا )اجماع و اتفاق ہے کہ عورت کا اعتکاف گھر میں صحیح نہیں ، لیکن ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے اپنے گھر کی نماز والی جگہ میں اعتکاف جائز ہے ۔''

    (الافصاح لابن ہبیرۃ : ١/٢٥٦)

    اجماع کے شریعت کی معصوم دلیل ہونے پر بھی اجماع ہے ، اس کی مخالفت کرنے والے کون لوگ ہو سکتے ہیں ؟

    برصغیر کے حنفی عالم علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی (١٢٦٤۔١٣٠٤ھ)لکهتے ہیں :

    لو اعتکفت فی مسجد جماعة فی خباء ضرب لها فيه ، لا بأس به ، لثبوت ذالک عن أزواج النّبیّ صلی الله علیه وسلم فی عهدہ کما ثبت فی صحيح البخارى ۔

    ''اگر عورت ایسی مسجد میں جس میں نماز باجماعت ہوتی ہو اور اس کے لیے خیمہ لگایا گیا ہو ، اعتکاف کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ اس کا ثبوت عہد ِ نبوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے ملتا ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری سے ثابت ہے ۔''

    (عمدۃ الرعایۃ : ١/٢٥٥)

    علامہ ابنِ قدامہ المقدسی رحمہ اللہ (م٦٢٠ھ)لکھتے ہیں :

    ''ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان (وَاَنْتُمْ عَاکِفُونَ فِیْ الْمَسَاجِد) ہے،اس سے مراد وہ جگہیں ہیں جو نماز کے لیے بنائی گئی ہیں ، عورت کی گھر میں نماز کی جگہ وہ مسجد نہیں ہے ، اس لیے کہ وہ نماز کے لیے نہیں بنائی گئی ، اگرچہ مجازی طور پر اس کا نام مسجد رکھا گیا ہے ، اس جگہ کے لیے حقیقی مسجد کے احکام ثابت نہیں ہوتے ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان((جعلت لى الأرض مسجداً))(میرے لیے ساری زمین مسجد بنا دی گئی ہے )ہے ، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد نبوی میں اعتکاف کرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے ان کو اجازت دے دی ، اگر مسجد ان کے لیے اعتکاف کی جگہ نہیں تھی تو آپ نے ان کو اجازت کیوں دی ؟ اگر مسجد کے علاوہ کہیں اور اعتکاف کرنا افضل ہوتا تو آپ ان کو اس جگہ کی طرف رہنمائی دیتے ، لہٰذا (عورت کا گھر میں اعتکاف نہیں ہو سکتا)، چونکہ اعتکاف قربت کا نام ہے ، اس قربت کا حصول مرد کے حق میں مسجد کے ساتھ مشروع کیا گیا ہے ، پس عورت کے حق میں بھی مشروع کر دیا گیا ہے ، جس طرح کہ طواف ہے ۔''

    (المغنی لابن قدامۃ : ٣/١٩٠)

    گھر کی مسجد نہ حقیقی مسجد ہوتی ہے ، نہ ہی حکمی ، کیونکہ مسجد میں خرید وفروخت حرام ہوتی ہے ، گھر کی مسجد میں خرید وفروخت ہو سکتی ہے ، گھر کی مسجد کو تبدیل کیا جاسکتاہے ، جب کہ حقیقی مسجد کو بلا ضرورت تبدیل نہیں کیا جا سکتا ، مسجد میں جنبی انسان یا حائضہ عورت کا سونا منع ہے ، جبکہ گھر کی مسجد میں سویا جا سکتا ہے ، مسجد میں شور وغل اور کھیل کود منع ہے ، جبکہ گھر کی مسجد میں کوئی حرج نہیں ۔

    صحیح بخاری سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو مسجد میں اعتکاف کی اجازت دی ، ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے انکار بھی ثابت ہے ، وہ کسی عارضہ کے پیشِ نظر تھا ، ہو سکتاہے کہ ازواجِ مطہرات کے کثرت سے مسجد میں خیمے لگانے سے مسجد تنگ ہو جانے کا خدشہ ہو ۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا تب بھی آپ نے ان کو گھر میں اعتکاف کرنے کا حکم نہیں دیا ، اگر عورت کا مسجد میں اعتکاف کرنا صحیح نہیں تو قبل ازیں عورتوں کو اجازت کیوں دی تھی ؟ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے بعد بھی عورتیں مسجد میں ہی اعتکاف کیا کرتی تھیں ، لہٰذا ثابت ہوا کہ عورت قطعی طور پر گھر میں اعتکاف نہیں کر سکتی ۔

    علاوہ ازیں گھر کی مسجد میں عورت کے اعتکاف کو اس کی نماز پر قیاس کرنا کہ جس طرح عورت کی نماز گھر میں افضل ہے ، اسی طرح اعتکاف بھی افضل ہے ، یہ قیاس باطل ہے ، کیونکہ ازواجِ مطہرات کا مسجد میں اعتکاف کرنا نص سے ثابت ہے ، نص کے مقابلے میں قیاس غیر مقبول اور باطل ہوتا ہے ۔

    اگر گھر کی مسجد میں عورت کے لیے اعتکاف کرنا جائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات ضرور بالضرور گھر میں اعتکاف کرتیں ، پھر اعتکاف کا قیاس نماز کے ساتھ صحیح نہیں ہے ،کیونکہ مرد کی سنتیں اور دوسری نفلی نماز گھر میں افضل ہے ، اعتکاف جو کہ سنت ہے ، وہ اس کے لیے گھر میں جائز نہیں ہے تو عورت کے لیے کیسے جائز ہوگا ؟

    اس کے علاوہ حنفی مذہب میں بھی عورت کو مسجد میں اعتکاف کی اجازت ہے ، جیسا کہ:

    رئیسِ احناف ابنِ ہمام حنفی لکھتے ہیں : ولو اعتکفت فى الجامع أو فى مسجد حيها ، وهو أفضل من الجامع فى حقّها جاز ۔ ''اگر عورت جامع مسجد میں یا اپنے قبیلے کی مسجد میں اعتکاف کرے تو جائز ہے ، ہاں اس کے قبیلہ کی مسجد اس کے حق میں (قریب ہونے کی وجہ سے )جامع مسجد سے زیادہ بہتر ہے ۔''

    (فتح القدیر شرح الھدایۃ : ٢/٣٩٤)


    امام ابو حنیفہ سے باسند ِ صحیح عورت کے لیے گھر میں اعتکاف کرنے کا جواز ثابت نہیں۔ حسن بن زیاد(متّهم بالکذب)نے امام صاحب سے عورت کے لیے محلہ کی مسجد میں اعتکاف کا جواز نقل کیا ہے ۔

    (بدائع الصنائع از کاسانی حنفی : ٢/١١١)

    الحاصل :

    اگر عورت سمجھتی ہے کہ وہ مسجد میں محفوظ و مأمون ہے تو خاوند کی اجازت سے مسجد میں اعتکاف کرے ، ورنہ ترک کر دے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں