اسلام بمقابلہ سیکولرازم

فہد جاوید نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏جولائی 23, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. فہد جاوید

    فہد جاوید رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2015
    پیغامات:
    83
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ​
    مغربی اقوام ہمیشہ سے اسلا م کو نقصان پہنچانے کی خاطر مختلف حربے استعمال کرتے آئے ہیں، کبھی منافقت کے ذریعے مسئلہِ خلافت کی آڑ میں مسلمانوں میں سیاسی و مذہبی انتشار پیدا کیاتو کبھی فلسفہ و علمِ کلام کی بدولت اسلام میں باطل فرقے پیدا کئے جنہوں نے مسلمانوں کے عقائد کو خوب بگاڑا ،اس طرح جب ان اقوام نے مسلمان کو کمزور ہوتے دیکھا تو انہوں نے بزورِ شمشیر لڑنے کا فیصلہ کیا اور مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلط کر دی گئیں۔لیکن یہ وار مسلمانوں کو مکمل نقصان نہ پہنچا سکا کیونکہ شاید تب مسلمانوں میں ایمان اور جذبہِ جہاد زندہ تھاجس نے اسلام کی عمارت کو قائم رکھا۔ پھر باری آئی اس آخری وار کی جس کی ضرب آج تک جاری ہے یعنی’’ آزادیِ رائے‘‘۔ اس نظریہ کی بنیاد پر ایک ایسا نظام متعارف کروایا گیاجس نے مذہب کو ریاست سے الگ صرف عبادت گاہوں تک محصور کر دیا۔ اور ریاست کی بنیاد آزادیِ رائے اور خود ساختہ انسانی قدروں پر قائم کی، جسے آج ’’سیکولرازم‘‘ کہا جاتا ہے۔اس نظام نے مسلمان حکمرانوں کو تو بہت متاثر کیا کیونکہ اس نظام کی بدولت انہیں اپنا اقتدار مضبوط سے مضبوط ہوتا نظر آیا اور آزادیِ رائے کی آڑ میں آزادیِ نفس پرستی کا خوب موقعہ ملا، مگر یہ نطام مسلمان عوام اور علماء کو اپنے مذہب پر سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہ کر پایا۔علماء نے سیکولر ذہنیت رکھنے والے افرادکی بھرپور مذمت کی اور عوام میں اس فتنہ کا شعور بیدار کیا لہذا اس فتنہ نے جدیدنظامِ تعلیم کا نیا لباس پہن کر اور آزادیِ صحافت کی آڑ میں مسلمانوں کے ایمان پر پھرحملہ کیا ا اور آج یہ زہر پورے مسلم معاشرے کی رگوں میں دوڑ رہا ہے جس میں آج کا میڈیا پیش پیش ہے۔اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ سیکولرازم کیا ہے۔
    *سیکولرازم کیا ہے؟
    آوکسفورڈڈ کشنری کے مطابق،یہ لفظ قدیم لاطینی لفظ ’’ سیکولارس ‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے ’’وقت کے اندرمحدود‘‘۔ آوکسفورڈڈ کشنری مزید اس کی وضاحت یہ پیش کرتی ہے: ’’ سیکولرازم سے مراد یہ عقیدہ ہے کہ مذہب اورمذہبی خیالات وتصورات کو ارادۃً دنیاوی امور سے حذف کر دیا جائے۔اس کی یورپی فلسفیانہ توجیح یہ ہے کہ یہ ایک ایسا نظامِ عقائد ہے جس میں اخلاقی نظام کی بنیاد کلی طور پر بنی نوع انسان کی دنیا میں فلاح و بہبود اور خدااور حیات بعدالموت پر ایمان سے انکار (یعنی ان عقائد سے اخراج)پر رکھی گئی ہے،دوم یہ کہ اس بارے میں ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ تعلیم خصوصاً وہ تعلیم جو عوامی سرمائے سے دی جا رہی ہو، مذہبی عقائد اور مذہبی تعلیم کو آگے نہ بڑھائے۔‘‘
    انسائیکلوپیڈیا امریکانا اس کی جدید اصلاح ان لفظوں میں پیش کرتا ہے:
    ’’سیکولرازم ایک اخلاقی نظام ہے جو قدرتی اخلاق کے اصول پر مبنی ہے اور الہامی مذہب یا مابعد الطبیات سے جدا ہے، اس کا پہلا کلیہ ’’فکر کی آزادی‘‘ ہے۔‘‘
    Holyoake Geogre Jacob جو کہ سیکولر فکر کے بانی ہیں اور انھوں نے ہی یہ لفظ پہلی بار استعمال کیا تھا، اپنی کتاب انگلش سیکولرازم میں لکھتے ہیں:
    ’’سیکولرازم ایک طرزِ ذمہ داری ہے جو اس زندگی کے حوالے سے ہے اور اس کی بنیاد خالص انسانی ہے اور یہ ان کے لئے ہے جو مذہب کو غیر یقینی، ناکافی اور نا قابلِ اعتماد سمجھتے ہیں‘‘
    *سیکولرازم کی مختلف اشکال:
    سیکولرازم کا ایک پہلو یہ ہے کہ مذہب اور ریاست کو الگ کر کے مذہب کو ریاستی امور سے بے دخل کردیا جائے اور یہ باور کروایا جائے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ریاست مذہبی معاملات میں غیر جانبدار ہوتی ہے اور یہ کہ مذہب افراد کا نجی معاملہ ہے۔سیکولرازم کا یہ چہرہ تر کی جیسے ملک میں دیکھا جا سکتا ہے مگر مجموعی طور پر مسلم دنیا سیکولرازم کا یہ نظریہ ہضم نہ کر پائی کیونکہ اس طرح لادینیت کھل کر سامنے آجاتی ہے اور اسلامی غیرت یہ کبھی غوارہ نہیں کرسکتی۔ اسی لئے سیکولرازم کا دوسرا زاویہ زیادہ کامیاب ثابت ہواکیونکہ اس طرح خدا اور مذہب کا ظاہری انکار کئے بغیر ہی مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی برباد کی جا رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ سب ہو کیسے رہا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا ایک تصور آخرت ہے اور ایک تصور دنیا۔اس تصور کے دائرے میں دین داری یہ ہے کہ آخرت کو دنیا پر کامل غلبہ حاصل رہے اور انسان کی زندگی آخرت کی محبت کی علامت ہو۔ مگر اس تصور کے دائرے میں دین داری کی ضد یہ ہے کہ انسان دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جائے اور دنیا آخرت پر غالب آجائے۔اس کی ایک صورت یہ ہے کہ دنیا ہماری آرزووٗں اور تمناوں میں آخرت پر غالب ہو،اس کی ایک شکل یہ ہے کہ دنیا ہمارے خیالات میں آخرت پر غالب ہو،اس معاملے کا ایک رخ یہ ہے کہ دنیا ہمارے منصوبوں میں آخرت پر غالب رہے،لہذا اس مسئلے کا ایک زاویہ یہ نکلے گا کہ ہماری زندگی آخرت پر دنیا کے غلبے کا مظہر بن جائے۔غور کیا جائے تو سیکولرازم کی یہی وہ صورت ہے جو خدا اور مذہب کا انکار کئے بغیر ہماری زندگی میں نہ صرف یہ کہ سرایت کر چکی ہے بلکہ ہر گزرتے دن کہ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔اور اس دنیا پرستی کا سب سے بڑا ذریعہ ہمارا نظامِ تعلیم اور تمام حدود سے ماورہ میڈیا ہے۔
    *سیکولرازم کے مقاصد:
    سیکولرازم کا نعرہ آزادی ہے، لیکن غور کریں تو خود سیکولر دنیا میں ٹریفک کے قوانین ، ریاستی اور فیڈرل سطح کے قوانین کی پاسداری کی جاتی ہے اور اپنے ملک کے آئین کی بھی پاسداری کرتے ہیں۔ تو پھر یہ کیسی آزادی ہے؟ وہ دراصل ’’ رب العالمین ‘‘ کی غلامی سے آزادی ہے۔سیکولرازم کی بدیانتی یہ ہے کہ اس نے تمام اصول تو مذہب سے لئے لیکن اُس واحد اور تنہا ملکِ کائنات کو اور اُ س کے نازل کردہ صحیفے اور بھیجے ہو ئے پیغمبروں کو ماننے سے انکار کر دیابلکہ انہیں ہی نفرت کی علامت بنا کر پیش کیا،یہ زہر جدید مغربی نظامِ تعلیم اور آزاد صحافت ہماری رگوں میں بھر رہی ہے۔ آج اسلامیات کا مضمون برائے نام نصاب میں شامل کیا جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں دوسرے علوم کی اتنی کتابیں تھما دی جاتیں ہیں کہ اسلامیات کی کتاب صرف امتحان والے دن ہی کھولی جاتی ہے،اور اس سارے تعلیمی دور میں نیت اچھی ملازمت کا حصول ہی ہوتی ہے اور اگر بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے باوجود ملازمت مل بھی جائے تو اس قدر مشقت والی ملازمت ہوتی ہے کہ دین کے ساتھ تعلق صرف نماز اور روزے کی حد تک رہ جاتا ہے۔اور زندگی کا مقصد محض معاشی معاملات اور امورِ خانہ داری ہی بن جاتا ہے اور دین کی حیثیت صرف نصاب میں شامل ایک مضمون کی سی رہ جاتی ہے۔اور میڈیا نے ان سب میں یہ کردار ادا کیا کہ جو لوگ اس ملک و قوم کہ نہ تو خیر خواہ تھے بلکہ دو قومی نظریہ کہ بھی مخالف تھے انہیں تو ہمارا قومی ہیرو بنادیا گیا اور جنہوں نے عملی اور قلمی جہاد کے ذریعے آزادی کی کوششیں کیں ان کا نام بھی کبھی نہیں لیا گیا۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ انگریز حکومت کہ خلاف کون کون سے مسلمان مجاہدین نے عملی جہاد کیا؟ زیادہ سوچنے کا فائدہ نہیں کیونکہ ہمیں یہ آج تک نہ پڑھایا گیا ہے اور نہ ہی دیکھایا گیا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں نے عملی جہاد میں کوئی حصہ نہیں لیاا،بخت خان اور برجیس قدر جیسے مجاہدین کے کارناموں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔
    *سر سید ، سیکولر تعلیم اور دو قومی نظریہ:
    سر سید احمد خان اپنی کتاب مسافرانِ لندن ص ۶۸پر رقمطراز ہیں:
    ’’میری رائے میں ضروری ہے کہ ہندوستان میں ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن (وزیرِ تعلیم) ایسے ہوں جو لامذہب ہوں۔‘‘اپنے ادارے میں ہندووں کی مالی معاونت کہ متعلق مزید فرماتے ہیں ’’ ہندووں نے نہایت فیاضی سے روپیہ جاگیر اور انعام دیا اور تمام قوم پر اپنا ممنون اور زیربار احسان کیا۔ پس ایسی حالت میں یہ سوال کرنا کہ ہندو کیوں پڑھائے جاتے ہیں بڑی شرم کی بات ہے‘‘ (مقالات جلد ۱۳ص ۳۷۱)
    سرسید احمد خان کو دو قومی نظریہ کا بانی اور تعلیمی مصلح کے طور پر جانا جاتا ہے جو کہ تاریخ کے ساتھ بھیانک مذاق ہے کیونکہ اوپر والے دونوں حوالے سرسید صاحب کی سیکولر ذہنیت کی خوب عکاسی کرتے ہیں۔مسلمان کی زندگی کو محض معاشیات کی فکرمیں الجھانے والا تعلیمی نظام سرسید احمد خان کی ہی مہربانی کا نتیجہ ہے۔ دراصل سیکولر تعلیم کا مقصد مذہب کا فرق ختم کر کے لادینیت پھیلانا ہے۔ جس سے آزادیِ رائے کی ایسی فضاء قائم ہوسکے جس سے نہ مذہب بچ سکے اور نہ ہی قومی سلامتی کے ادارے۔
    *آزادیِ رائے کے ہمارے مذہب و معاشرے پر اثرات:
    ہمارے ہاں آزادیِ رائے کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ سب کچھ کرنے کی آزادی ہو، سب کچھ کہنے کی آزادی ہو اور دین میں ہر طرح کی تنقید اور ترمیم کی آزادی ہوشاید اسی لئے ایک صوبے کا گورنر توہینِ رسالت کے قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے خود کو حق پر سمجھتا ہے اور ایک جماعت اس کی عبرت ناک موت کے باوجود آج بھی اسی اجھنڈے پر عمل پیرا ہے۔دوسری طرف مساجد سے زیادہ رش درگاہوں اور خانقاہوں پر نظر آتا ہے اور انہیں ہی نجات کا زریعہ مانا جاتا ہے ان افراد کو سمجھانے کی جرات بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ’’ آزادیِ ‘‘ سب کا حق ہے۔پھر نعت خوانی کو ایک پیشہ بنا لیا گیا ہے اور مبالغہ آمیز شاعری کے سہارے اپنی ریٹینگ میں اضافہ کیا جاتا ہے، نعت خوانی ایک مقدس فر یضہ ہے مگر ہر ایرے گیرے کو یہ پیشہ اختیار کرنے کی کھولی چھوٹ حاصل ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی شان کو اللہ تعالیٰ کی شان کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے اور اولیاءؒ کو رسل و انبیاء کے مقابل لا کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اسی مبالغہ آمیزی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سے زیادہ ٹی وی چینلز نے شادی بیاہ کے موقعہ پر ایسی قوالیاں پڑھنے کا رواج پیدا کیا جس سے صحابہؓ و اہل بیتؓ اطہار کی گستاخی لازم آتی ہے۔ آزادیِ صحافت کی آڑ میں ان ٹی وی چینلزنے دین کو اپنے تابع سمجھ لیا کیونکہ آج یہ جسے چاہیں دہشت گرد بنا دیں اور جسے چاہیں محب وطن ثابت کردیں۔آزادیِ صحافت کا دوسرا اثر یہ ہوا کہ آج ان چینلز پر مذہبی تہوار وں سے زیادہ جوش و خروش مغربی تہواروں میں نظر آتا ہے ا س سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد متاثر ہو کر بے راہ راوی کا شکار ہے۔اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی تو فیق دے۔ آمین
    وَآخِرُ دَعْوَاناْ أَنِ الْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن ​
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. فہد جاوید

    فہد جاوید رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2015
    پیغامات:
    83
    Last edited by a moderator: ‏جولائی 28, 2015
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں