کیا علامہ تمنّا عمادی منکر حدیث تھے ؟

ابوعکاشہ نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏اکتوبر، 9, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,955
    کیا علامہ تمنّا عمادی منکر حدیث تھے ؟
    تحریر :محمّد تنزیل ا لصدیقی ا لحسینی

    (مجلہ، الواقعہ کراچی )

    (علامہ تمنا عمادی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ منکر حدیث تھے ـ تنزیل الصدیقی الخسینی صاحب نے اپنے مجلہ میں ان کے فکری ادورار کی تبدیلی کے تین ادوار لکھیں ہیں ـ جس یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے آخری ایام میں قرآن کے ساتھ حدیث کی حجیت کو بھی تسلیم کر لیا تھا ـ واللہ اعلم ـ )

    1-علامہ تمنا کی علمی و فکری ارتقاء کے مختلف مراحل ہیں ۔ انہوں نے تصوف کی گود میں آنکھ کھولی اور خانقاہی ماحول میں پرورش پائی ۔ پھلواری میں جو نظام تصوف رائج ہے وہ نہ خالص دیوبندی طرزِ فکر کا ہے اور نہ ہی بریلوی، بلکہ ایک طویل عرصے تک پھلواری کے خانقاہی ماحول میں تشیّع ، تفضیلیت کی شکل میں داخل رہی ۔ خود علامہ تمنا کے والد شاہ نذیر الحق فائز نے تعزیہ داری کے جواز میں ایک رسالہ لکھا ۔ شاہ نذیرالحق فائز کے حقیقی نانا قاضی سیّد مخدوم عالم پھلواروی تفضیلی تھے ۔ علامہ تمنا کے حقیقی ماموں مولانا حکیم منظور احمد پھلواروی بھی تفضیلی تھے ۔ اس نظام وماحول میں پرورش پانے کے باوجود علامہ تمنا کا تصوف اورتشیّع کی تردید میں کمربستہ ہونا کسی جرأت رندانہ کے بغیرممکن نہیں ۔ انہوں نے علم و تحقیق کے بعد جسے درست سمجھا اسے اختیار کیا ، محض مسلکِ آبائی کو اپنا دین نہیں سمجھا ۔غالباً تشیّع کی تردید کا جذبہ حدّ اعتدال سے باہرہوگیا اور یہی وجہ رہی کہ انہیں ایسے تمام راوی ، جن میں تشیّع کی ذرا بو محسوس ہوتی ، اس کی تمام روایتوں کی تردید کو وہ ضروری خیال کرتے ۔ چنانچہ اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو علّامہ تمنا نے جن احادیث و آثار پر تنقیدیں کی ہیں ان میں بیشتر میں یہی جذبہ کار فرما نظر آئے گا ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ روّیہ درست ہے بلکہ ہمارا مقصد صرف موصوف کے نفسیاتی پہلو کو اُجاگر کرنا ہے ۔
    2-موصوف پر انکارِ حدیث کا ایک خاص اور طویل دور گزرا ، ان کی تحریریں منکرینِ حدیث کے رَسائل میں شائع ہوئیں اور انہیں منکرینِ حدیث کے طبقے کا امام شمار کیا جانے لگا ۔ چنانچہ ان کی ایسی تحریریں پرویزی رَسائل و جرائد میں بکثرت شائع ہوئیں جن میں احادیث پرکڑی تنقیدیں ہوتی یا جن میں حدیث کی حجیت کو مشکوک ٹھہرایا جاتا ۔ بدقسمتی سے یہ دور طویل بھی رہا اور اس دور کے '' تمنّائی اجتہادات '' کی نشر و اشاعت کا فریضہ بھی منکرینِ حدیث حضرات ہی نے انجام دیا ۔
    3-پھر علامہ تمنا کا آخری دور شروع ہوتا ہے ۔ اس دور میں انہوں نے حدیث کی حجیت کو صاف اور صریح لفظوں میں تسلیم کرلیا ۔ گزشتہ دور میں اگر موصوف نے '' مثلہ و معہ '' کو روایتِ مکذوبہ قرار دے کر حدیث کا مذاق اڑایا تھا تو اس دور میں ، جو کہ گزشتہ دور کا ناسخ بھی ہے ، وحی متلو اور وحی غیر متلو کو قرآنی تقسیم قرار دے کر حدیث کو حجّت فی الدین تسلیم کیا ۔ فرماتے ہیں :
    '' وحی غیر متلو کو '' غیر قرآنی '' کہہ کر رد کرنا اور اس کے اتباع سے انکار کرنا در حقیقت قرآن مجید کا انکار ہے ۔ '' [وحی متلو اور وحی غیر متلو قرآنی تقسیم ہے از علّامہ تمنا عمادی مطبوعہ ماہنامہ '' فاران '' ( کراچی ) جنوری ١٩٧١ئ]

    افسوس یہ عہد ، عہدِ آخر تھا ۔ گزشتہ کوتاہیوں کا جس قدر ازالہ ممکن تھا ، سوکیا۔ غلام احمد پرویز کے '' لغات القرآن '' پر تنقید لکھی جس کی چند قسطیں '' فاران '' کراچی میں شائع بھی ہوئیں تاہم اس تنقید کا مسودہ مکمل کتابی شکل میں شائع نہ ہو سکا ۔ اس دور کی عدم شہرت ہی نے علامہ تمنا کی شہرت کو متاثر بھی کیا اور داغدار بھی ۔ آج اہلِ علم کی اکثریت بھی انہیں پرویزی قسم کا منکر حدیث قرار دیتی ہے ۔ علامہ تمنا عمادی کی ایک بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ ان کے افکار و نظریات کی نشر و اشاعت کا فریضہ جن لوگوں نے انجام دیا اور جو دے رہے ہیں وہ بیشتر ایسے افراد ہیں جو حدیث کے باب میں تشکیک زدہ ہیں ۔ '' تمنائی افکار و نظریات '' کی تریج و اشاعت میں بھی ان کی غرض اپنے '' افکارِ خاص '' کی ترویج و اشاعت ہوتی ہے ۔ اس بات کا احساس خود علّامہ تمنا کو بھی ہوگیا تھا ، چنانچہ فرماتے ہیں :
    '' طلوعِ اسلام میں میرے وہی مضامین چھپتے رہے جو ادارہ طلوعِ اسلام کے مسلک کے موئد تھے اور جن سے ادارے کو ذرا سا بھی اختلاف ہوا وہ مضامین شائع نہ ہوئے چنانچہ بعض واپس شدہ مضامین اب تک میرے پاس موجود ہیں طلوعِ اسلام سے تعلقات پیدا ہونے کے چند برس کے بعد ہی سے مجھ کو اس کے مسلک سے اختلاف ہوا تو میںنے کسی اور رسالے میں اپنے اختلافی مضامین شائع کرانے کے بجائے نجی طور پر مراسلت شروع کی اور اپنے اختلاف سے مطلع کرتا رہا کیونکہ اس طور پر افہام وتفہیم سے اصلاح کی توقع زیادہ ہوتی ہے ، بہ نسبت اس کے کہ رسائل و جرائد میں ردّ و قدح کا ہنگامہ برپا کیا جائے اس لیے کہ ایسی صورت میں مناظرے اور ضد کی نوعیت پیدا ہوجانے کا قوی امکان ہوتا ہے ، چنانچہ بہت سے مسائل پر نجی خطوط کے ذریعہ مسلسل افہام و تفہیم کرتا رہا اور یہ صورت حال امسال [١٩٧١ئ] تک جاری رہی ۔ ''
    [وحي متلو اور وحی غیر متلو قرآنی تقسیم ہے از علّامہ تمنا عمادی مطبوعہ ماہنامہ '' فاران '' ( کراچی ) جنوری ١٩٧١ئ]
    رسول اور احادیث رسول کی حیثیت و اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
    ''جس پر وحی اتری ہے وہی توا س وحی کا مخاطب اولیٰ ہے چاہے وہ وحی کتابی ہو یا غیر کتابی یہ ضرور دیکھنا چاہئے کہ خود رسول نے اس وحی کا کیا مفہوم سمجھا تھا اور احکام وحی کی کس طرح تعمیل فرمائی تھی رسول صرف مبلغ کتاب بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے بلکہ معلّم اور مبینِ کتاب بھی تھے اس لیے تعلیم و تبیین رسول سے واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت نہ سمجھنا اور بطور خود اپنی خواہش کے مطابق آیات قرآنی کی تفسیرکرنا سخت گمراہی اور بدترین الحاد ہے ۔" [وحی متلو اور وحی غیر متلو قرآنی تقسیم ہے از علّامہ تمنا مطبوعہ ماہنامہ '' فاران '' ( کراچی ) جنوری ١٩٧١ئ]
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  2. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    وہ پہلے ہی دور سے حدیث کی حجیت کے قائل تھے۔
     
  3. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,955
    محمّد تنزیل ا لصدیقی ا لحسینی کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ان کے بہت قریب رہے ہیں ۔ ان کی بات پر اعتماد کیا جا سکتا ہے ۔ بلادلیل کہ دینا کہ وہ پہلے روز سے ہی حجیت حدیث کے قائل تھے کوئی علمی طریقہ نہیں ۔ اورآپ کی شخصیت خود مجہول ہے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    پروفیسر مولانا محمد رفیق جو محترم جاوید احمد غامدی کے دیرینہ ساتھی کہت جاتے تھے وہ بھی عوام میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ محترم جاوید احمد غامدی انکارِ حدیث کی طرف راغب ہیں مگر جب ہم محترم غامدی صاحب کی تقاریر اور تحاریر سنتے اور پڑھتے ہیں تو حقیقت اسکے بالکل برعکس نظر آتی ہے جو مولانا رفیق عوام کو دکھانا چاہتے ہیں۔ آپ خود علامہ تمنا عمادی مجیبی پھلواروی کی تحاریر پڑھیں تو بات بالکل واضح ہو جائے گی۔ بعض اہلِ حدیث حضرات کی طرف سے مولانا مودودی کے متعلق بھی انکارِ حدیث کی نسبت کی جاتی ہے مگر حقیقت اسکے خلاف ہے۔
    میری مجہول شخصیت کو نظر انداز کر کے میرے معروف قول کو دیکھیں۔ معروف شخصیت کے مجہول اقوال کو بھی جب جی جان سے قبول کرنے کی روش پیدا ہو جائے تو یہی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے جسکا آپ تذکرہ فرما رہے ہیں۔
     
  5. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,955
    اصل میں جاوید احمد غامدی کا منکر حدیث ہونا اتنا واضح ہے کہ اس کے خلاف مزید گفتگو کی گنجائش ہی نہیں ۔ اسی طرح تمنا عمادی پھلواری صاحب انکار حدیث کی طرف راغب رہے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے ۔ اب اگر ہمارے سامنے ان کی وضاحت آچکی ہے تو ہم اس پر جزوی یقین کر سکتے ہیں ۔ آپ کی مجہول شخصیت آپ کے علم کے حوالے سے کہی تھی ۔ ہمیں آپ کا علم کہیں نظر نہیں آتا ۔ سوائے اس کہ آپ مولانا مودوی ،تمنا عمادی یا امین اصلاحی شخصیات کے دفاع کے لئے پہنچ جاتے ہیں ۔ کوئی مثبت کام کریں ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • متفق متفق x 1
    • غیر متفق غیر متفق x 1
  6. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    کوئی ثبوت ؟
     
  7. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,955
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • متفق متفق x 1
  8. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    میرے محترم اس متعلق میری ان تمام پوسٹ کا مطالعہ فرمائیں جو میں نے قرآنی آیا ت کی شکل میں مہیا کیے ہیں۔ویسے بھی یہ معاملہ اتنا پیچیدا نہیں تھا جتنا جان بوجھ کر بنا لیا گیا ہے اگر ”الذکر“ کا مفہوم اسی سورۃ الحجر کی 06 اور 09 میں کوئی انسان خالی الذہن ہو کر سمجھنے کی کوشش کرے تو کوئی اشکال نہیں رہتا کہ یہاں ”الذکر“ سے مراد صرف اور صرف قرآن مجید ہے۔ مزید برآں، سورۃ فصلت، آیت نمبر 44-42 میں بھی ”الذکر“ سے صرف قرآن مجید مراد ہے۔
    میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اگر آپ میرے مؤقف سے مطمئن نہیں ہیں تو جس مؤقف کو آپ درست سمجھتے ہیں اسی پر کاربند رہیں ۔ میرا بھی ہر معاملے میں اہل ِحدیث سے مطمئن ہونا کوئی واجب نہیں ہے۔
     
    • ناپسندیدہ ناپسندیدہ x 1
  9. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,955
    واضح ہوا کہ آپ کے پاس اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ـ اگر اس طرح دلائل نا ہونے کی صورت میں اپنا موقف یاد آیا جاتا ہے تو پھر بلاوجہ ہر تھریڈ میں علامہ فہامہ بننے کی کوشش نا کیا کریں ـمیرا مشورہ ہے کہ آئندہ کسی تھریڈ میں اس وقت تک نا لکھیں اور نا ہی اختلاف کریں ، جبتک آپ کے پاس کوئی مضبوط دلیل نا ہو ـ
     
    • ناپسندیدہ ناپسندیدہ x 1
    • متفق متفق x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں