سیرت نبی : قرآن کریم کی روشنی میں

ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق نے 'سیرتُ النبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم' میں ‏اکتوبر، 24, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق

    ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق ركن مجلسِ شوریٰ

    شمولیت:
    ‏جون 30, 2015
    پیغامات:
    212
    بسم الله الرحمن الرحيم

    مسجد حرام کے خطبہ جمعہ کا اردو ترجمہ

    بتاریخ:10-1-1437ھ/ 23-10-2015ع


    خطبہ وتحریر: ڈاکٹر خالدعلی الغامدی

    امام وخطیب مسجد حرام



    ترجمہ: ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق

    متعاون مدرس ام القری یونیورسٹی، مکہ مکرمہ


    سیرت نبی : قرآن کریم کی روشنی میں

    یقینا ہر طرح کی تعریف اللہ تعالی کے لئے ہے۔ ہم سب اسی کی تعریف کرتے ہیں۔ اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور ہم اللہ سے اپنے نفسوں کی برائیوں اور بدعملیوں سے پناہ مانگتے ہیں۔ جس کو اللہ ہدایت دے اس کو کوئی گمراہ کرنے ولا نہیں ہے اور جس کو وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ہے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ اللہ تعالی کی رحمت ہو آپ ﷺ پراور آپ کے اہل وعیال پر اور آپ کے تمام أصحاب پراور ان کی حق کے ساتھ اتباع کرنے والوں پر۔اور ان سب پر بہت زیادہ سلامتی ہو۔

    حمد و صلاۃ کے بعد :

    اللہ کے بندو: میں اپنے کو اور آپ کو باطنی و ظاہری طور پر اللہ کا تقوى اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ کیونکہ تقوی ہی علام الغیوب کی رضامندی کی طرف پہنچانے والا, مصائب سے نجات دلانے والا, نیز روحوں اور دلوں کی پاکی و صفائی کرنے والا ہے۔اللہ تعالى کا فرمان ہے: اگر اللہ کا تقوى اختیار کرو گے تو وہ تم کو فرقان ( حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی چیز) عطا فرمائے گااور تمھارے گناہوں کو مٹا دےگا۔ اور تم کو بخش دے گا۔ اللہ بڑے فضل والا ہے(انفال/29)

    امت اسلام : بلا شبہ یہ با عظمت دین دو عظیم الشان رکن اور اصل پر قائم ہے , جن کی ادائیگی کے بغیر اللہ تعالی کسی بھی انسان سے فرائض و نوافل کو قبول نہیں کرے گا , ان میں سے ایک اللہ کی معرفت , اس کی وحدانیت اور عبادت ہے جبکہ دوسرا نبی کی معرفت , اس کی محبت , اطاعت اور فرماں برداری ہے , اور یہی کلمہ شہادت کا تقاضہ , اسلام کی حقیقت اور اس کا جوہر ہے , فرمان الہی ہے : اور ان کو اس کے سوا اور کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کرکے اس کی عبادت کریں بالکل یکسو ہو کر ( ابراہیم حنیف کے دین پر) (بینہ /۵) ایک دوسری آیت میں ہے : جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی ( نساء / ۸۰) ۔

    بیشک نبی کی معرفت , آپ کی محبت اور اطاعت ہر مسلمان مرد عورت کے لئے ایک واجبی و ضروری امر ہےجس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ۔ یہ ایک واجبی فريضہ ,تابناك شریعت ,واضح روشن طریقہ ہے جس سے بندہ کو ایسی سعادت حاصل ہوتی ہے جس کے ساتھ کبھی بھی شقاوت و بدبختی نہیں ہو سکتی ۔ اللہ اس کی عمر اور اطاعت میں برکت دیتا ہے , اس کی روح اور عقل کا تزکیہ فرماتا ہے جس سے وہ ایک اچھی زندگی سے لطف اندوزہوتا ہے جو درحقیقت نبی کی محبت اور اطاعت کے اثرات میں سے ایک اثر ہے , اور در حقیقت اللہ نے ان لوگوں کی توبیخ و سرزنش کی ہے جنہوں نے اپنے رسول کو پہچانا نہیں ۔ اللہ تعالى فرماتا ہے : یا وہ اپنے رسول سے واقف نہیں لھذا وہ اس کا انکار کر رہے ہیں ( مومنون/69)۔ جان لیجئے کہ اللہ کے رسول کے علاوہ کوئی اور بھی انسان ایسا نہیں ہے جو ہر طرح سے محبت , تعظیم اور اطاعت کا حقدار ہو ۔ اور یہ وہی نبی کریم ﷺ ہیں جن کو اللہ نے اپنی آنکھ کے سامنے تیار کیا ۔لھذا آپ کو اختیار فرمایا , منتخب کیا , اور برگزیدہ بنایا , اور پھر آپ کوآپ کے رب نے ہر طرح کے انسانی کمالات اور اخلاقی و پیدائشی فضائل سے مکمل کر دیا , اور آپ کو عزت , کمال ,شرف کے بلند درجات عطا کیے یہاں تک کہ آپ اس درجہ اور مرتبہ کو پہونچ گیےجہاں منتخب مخلوق میں سےبھی کوئی نہیں پہونچا ہے خواہ وہ کوئی بھیجا ہوا نبی ہو یا کوئی مقرب فرشتہ۔ اور جس نے محمد ﷺ کے دروازہ کو چھوڑ کے اپنی طرف پہونچانے والے تمام دروازوں کو بند کردیا ۔اور تمام مخلوق کو منع کردیا کہ اس کی عبادت سوائے محمدی شریعت کے اور کسی شریعت کے مطابق کی جائے۔ چنانچہ آپ کا تقدس اللہ کے نزدیک مخلوق میں سب سے زیادہ ہے - اورآپ ان میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے , اللہ کا تقوی اختیار کرنے والے اور اللہ کو جاننے والے ہیں ۔ آج تک دنیا میں محمد ﷺ کی شخصیت کی طرح اور کوئی شخصیت پیدا نہیں ہوئی ہے , اور نہ انسانیت نے اولاد آدم کے سردار اس برگزیدہ نبی سے زیادہ کامل اور مقام و مرتبہ میں زیادہ اونچا معلم , قائد اور نمونہ جانا ہے ۔

    اے امت محمد ﷺ : گفتگو کرنے والے آپ کے بارے میں خواہ کتنی ہی گفتگو کریں , صفت بیان کرنے والے خواہ کتنی ہی صفت بیان کریں , مصنفین خواہ کتنی ہی کتابیں تصنیف کریں اور ماہر شعراء نعت و نظم کہیں لیکن وہ ہرگز آپ ﷺ کے متعلق گفتگو کے سلسلے میں قرآن عظیم کے وصف , اس کی بلاغت اور بیان کو ہرگز نہیں پہونچ سکتے ہیں کیونکہ کوئی بھی اللہ کے رسول کے بارے میں اس کے رب و خالق سے زیادہ جاننے والا نہیں ہے , جیسا کہ رسول اللہ ﷺ سے زیادہ اللہ تعالی کوجاننے اور پہچاننے والا کوئی نہیں ہے ۔

    در حقیقت قرآن مجید نےاپنی شیرینی اور حسن و رونق کے ساتھاس نبی کے متعلق خوش کن , روشن , جاذب نظر اور رواں گفتگو کی ہے - جس میں خوبصورت سنہرے اسلوب میں عظمت و بڑائی کے پہلو اور نبی ﷺ کے کمالات کو پیش کیا ہے۔ آپ ﷺ یتیم پیدا ہوئے تو آپ کو آپ ﷺ کے رب نے پناہ دی اور تربیت کی , اور آپ کو راستہ بھٹکا ہوا پایا ۔آپ کو نہیں معلوم کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے , چنانچہ آپ ﷺ کو ہدایت دی اور منتخب کیا , آپ محتاج و فقیر تھے تو آپ کو بے نیاز کر دیا اور آپ کی نگہداشت کی یہاں تک کہ آپ کو رسولوں کی بعثت کے انقطاع کےزمانہ میں آپ کی قوم میں معزز آدمی بنا کے بھیجا ۔ آپ ﷺ ان کے ساتھی تھے جن کو وہ لوگ جانتے و پہچانتے تھے جیسا کہ اپنے بیٹوں کو جانتے تھے , لھذا اللہ تعالى نے سب سے پہلے آپ ﷺ کے اوپرجو چیز نازل فرمائی وہ سورہ اقراء کے شروع کی چند آیات ہیں پھر سورہ مدثر کے آغاز کی چند آیتیں ہیں جن میں اسلام کے معالم ( خد و خال ) اور دعوت کی اصولوں کا جامع بیان ہے ۔

    اسی وجہ سے آپ کی بعثت سب سے عظیم الہی احسان اور ربانی رحمت ہے جو ہر مسلمان کی گردن کو گھیرے ہوئے ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : درحقیقت اللہ نے مومنوں پر یہ احسان کیا ہے کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو اس کی آیات ان پر تلاوت کرتا ہے , انہیں پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے , اگرچہ یہ لوگ اس سےپہلے کھلی گمراہی میں تھے ( آل عمران /۱۶۴) ۔

    اے مسلمانوں : یقینا اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس معزز نبی کے شان کو بڑھایا ہے ۔ اس کی عبادت , اخلاق , سیرت وجہاد کی خوب عطربیز تعریف کی ہے , اور اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو ہمیشہ آپ کی تعظیم و اجلال میں اے رسول اور اے نبی کہہ کر خطاب فرمایا ہے- اور ایسا کیسے نہ ہو جبکہ آپ نبی امی ہیں جو نہ بھٹکے ہیں اور نہ بہکے ہیں اور جو اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے ہیں , بلکہ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے , اسے زبردست قوت والے جبرئیل نے تعلیم دی ہے ۔اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کا رب اس کی تعظیم نہ کرے ؟ جبکہ وہ آخری نبی شاہد اور شہید ہیں , صادق اور صدیق ہیں جو حق لیکر آئے اور رسولوں کی تصدیق کی , جو دونوں ثقلین یعنی تمام انسانوں اور جناتوں کی طرف خوشخبری دینے والے , ڈرانے والے اور روشن چراغ بنا کے مبعوث کئے گئے ہیں ۔

    آپ نبی امی ہیں جو لکھتے اور پڑھتے نہیں تھے پھر بھی آپ سب سے عظیم شریعت لیکر آئے اور آسان دین حنیفی کے ساتھ بھیجے گئے۔ اور آپ ﷺ کے رب نے آپ کو وہ سکھلایا جو آپ ﷺنہیں جانتے تھے۔ آپ کو عظیم بہترین اخلاق جیسے مومنوں کے لئے تواضع و خاکساری , صبر , نرمی , رحمت , عفو اور درگذر سے مزین کردیا ۔لھذا دلوں ا و رروحوں نے آپ سے محبت کی , اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد و پیش سے چھٹ جاتے - آپ ﷺ کا شریف دل اپنی امت کے محبت سے معمور تھا - آپ کے اوپر ہر وہ چیز گراں تھی جو آپ کی امت کو مشقت و مصیبت میں ڈالے ۔آپ مسلمانوں پر بے حد شفیق اور مہربان تھے - اپنی امت کی ہدایت کے بہت زیادہ مشتاق وحریص تھے یہاں تک کہ قریب تھا کہ آپ ﷺ اپنے نفس کو غم اور افسوس میں گھلا کے ہلاک کردیں , اسی وجہ سے آپ کے رب نے آپ کو دلاسہ دیا۔ آپ کو صبر کی تلقین کی اور تسلی دی کہ آپ رسول ہیں اور آپ کا کام صرف تبلیغ ہے , لھذا خواہ مخواہ آپ کی جان ان لوگوں کی خاطر غم و افسوس میں نہ گھلے - آپ ان باتوں سے غمگین نہ ہوں اور نہ ہی ان کے قول سے آپ کا سینہ تنگ ہو- آپ نے بنا کسی کمی اور کوتاہی کے اپنے رب کے پیغام کو پہونچایا - آپ نے اپنے رب کی رسالت کو پہنچانے پر کسی طرح کی مزدوری اور دنیا کا کوئی سامان نہیں لیا - آپ تکلف اور تشدد کرنے والوں میں سے نہیں تھے بلکہ آپ رواداری , اعتدال پسندی اور وسطیت لیکر آئے - آپ کوئی انوکھےو نرالےرسول نہیں تھے - کوئی چیز اپنی طرف سے لیکر نہیں آئے بلکہ آپ امانتدار مبلًغ تھے - آپ کے رب نے آپ کو محفوظ رکھا۔ آپ کی حفاظت کی اور اپنی نگاہ کے سامنے آپ کی نگرانی کی اس بات سے کہ لوگ آپ کو گمراہ کردیں یا آپ کو نقصان پہونچائیں یا اپنی نگاہوں سے آپ کو پھسلادیں۔یا آپ کو فتنہ میں ڈال کر بعض ان چیزوں سے پھیر دیں جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے تاکہ آپ اپنے رب پر افتراء پردازی کریں۔ ایسی صورت میں وہ آپ کو اپنا جگری دوست بنا لیتے - اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو قریب تھا کہ آپ ان کی طرف تھوڑا سا مائل ہوجاتے ۔

    امت اسلام: یہ معزز امی نبی لوگوں کوبھلائی کا حکم دیتا ہے, بدی سے روکتاہے ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتاہے۔ اور ان پر جو بوجھ وطوق تھے ان کو دور کرتاہے۔ اللہ تعالے نے آپ کو مکاروں کے مکروسازش سےنجات بخشی۔اور آپ کی مدد فرمائی جبکہ آپ کو کافروں نے آپ کے محبوب وطن مکہ سے نکال دیا۔ اور آپ کی مدد ان لشکروں سے کی جن کو تم لوگوں نے نہیں دیکھا۔ آپ کے اوپر اپنا سکون واطمینان نازل فرمایا۔ آپ کو ثابت قدم رکھا۔ آپ کی بہادری ومضبوطی دل کی تعریف کی ۔یادکر وجبکہ تم بھاگے چلے جارہے تھے اور کسی کی طرف توجہ تک نہیں کرتے تھے, اور اللہ کے رسول تمھیں تمھارے پیچھے أوازیں دے رہے تھے, آپ کے رب نے آپ کو عدل وانصاف کا حکم دیا چنانچہ آپ نے فیصلہ کیا لیکن ظلم نہیں کیا اور آپ خیانت کرنے والوں کی طرف سے جھگڑنے والے اور حمایتی نہیں تھے۔ اللہ نے آپ کے بارے میں رسولوں کو بشارت دی اور ان سے وعدہ لیا کہ جب تمھارے پاس محمد آئیں گے تو تم ان پر ایمان لاؤگے اور ان کی تصدیق کروگے, اور یہ ان کے بارے میں توریت وانجیل میں لکھا ہوا ہے۔جس نے آپ سے بغض رکھا اور آپ کے سنت کو نا پسند کیا تو وہ جڑ کٹا اور لا ولدہے۔ اور جس نے آپ کو تکلیف دی تو اس پر لعنت ہے اور درد ناک عذاب ہے۔ اللہ نے آپ کے اہل خانہ کو شرف بخشا ہے۔ ان کی گندگی کو دور کردیا ہے۔ ان کو پاک وصاف کردیا ہے۔ ان کی بیویوں کے قدر کو بلند کیا ہے اور دنیا کی عورتوں پر ان کو فضیلت دی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: (اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو , اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑجائے بلکہ صاف سیدھی بات کرو ( احزاب/ 32)۔ آپ کے صحابہ کرام کی شان کو بڑا بنایا ہے اور وہ ایمان میں سبقت کرنے والےمھاجرین وانصار ہیں۔اللہ ان سے راضی ہوا اور ان کی توبہ کو قبول کیا۔

    بندگان الھی: قرآن کریم روشن جگمگاتے ہوئے اسلوب میں آپ کی جہاد وغزوات کے بارے میں گفتگو کرتا ہے۔ اور نادر حیرت انگیز طریقہ سے فتح وشکست کے اسباب کا جائزہ لیتا ہے۔ جنگ بدر, احزاب اور حنین کا صراحت سے ذکر کرتاہے جبکہ احد, صلح حدیبیہ, فتح مکہ اور غزوہ تبوک کی طرف اشارہ کرتاہے۔ اور آپ کی سیرت کے بعض اہم واقعات مثلا واقعہ فیل, مبارک ہجرت, منہ بولا بیٹاکے اصول کو باطل قرار دینا, مشھور واقعہ افک, اجازت لینے اور پردہ کرنے کی قانون سازی, اسراء اور معراج کا واقعہ, سورہ نصر میں آپ کے موت کی قربت کی طرف اشارہ, اس کے علاوہ اور دیگر واقعات اور حوادث جن کے بارے میں قرآن نے بے مثال اعجاز اور بیان کے ساتھ گفتگو کی ہے۔

    اللہ تعالى میرے اور آپ كے لئے قرآن کریم میں برکت عطا فرمائے ۔او ر اس میں موجود آیتوں و باحکمت ذکر سے ہم سب کو نفع پہونچائے، میں اپنی یہ بات کہتاہوں اور میں اپنے لئے, آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لئے عظیم و جلیل اللہ سے ہر گناہ سے مغفرت طلب کرتاہوں۔آپ بھی اسی سے مغفرت طلب کیجیے بلا شبہ وہ بخشنے والا مہربان ہے۔

    دوسرا خطبہ:

    ہر قسم کی تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تنہا ہے۔ اور درود وسلام ہو ہمارے آقا اور نبی محمد اور آپ کے اہل وعیال پر اور آپ کے صحابیوں پر ۔

    حمد وصلاۃ کے بعد:

    اے مسلمانو: قرآن نے کئی جگہوں پر اس بات کی تاکید کی ہے کہ لوگوں کا ایمان درست نہیں ہوگا یہاں تک کہ لوگ اس نبی پر ایمان لائیں۔ اس کی تصدیق, اطاعت, توقیر واحترام اور اس سے محبت کریں۔ یہ ہر مسلمان مرد وعورت پر ایک واجبی فريضہ ہے۔اور اللہ سبحانہ نے اس امت کو حکم دیا ہے کہ وہ اس نبی کا بہت زیادہ ادب کرے۔ چنانچہ اس امت کو آپ کی آواز سے اوپرآواز بلند کرنے اور آپ کو اونچی آواز سے پکارنے سے منع کیا ہے اس ڈرسے کہ کہیں ان کے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور انہیں اس کا احساس بھی نہ ہو۔ اور اس امت کو حکم دیا ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح اس رسول کا صرف نام لیکر نہ پکارے۔ اور اس کو ابھارا ہے کہ وہ ہر وقت اور ہر آن آپ کی محبت اور امت پر آپ کے فضل وبرکت کے اعتراف میں درود وسلام بھیجے۔

    اے امت محمد: یاد رکھیے کہ نبی کریم کا سب سے بڑا ادب ومحبت آپ کی اطاعت, تابعداری, ظاہری وباطنی طور پر آپ کے سنت کو مضبوطی سے پکڑنا, ہر کسی پر آپ ﷺ کے حکم وامر کو مقدم کرنا, آپ کی سنت کو فیصل بنانا ہے۔اور یہ تمام چیزیں آپ کی محبت اور ایمان لانے کی بڑی دلیلوں میں سے ہیں, اور زمین میں غلبہ, سلطنت, دلوں کی باہمی محبت , آپسی اتفاق اور وحدت کے بزرگ تر اسباب میں سےہیں, اور اس کی ضد یہ ہے کہ آپ کی سنت پر ایجاد کردہ بدعتوں, رایوں, خواہشات کے ذریعہ اعتراض کیا جائے۔ آپ کے حکم کی مخالفت کی جائے۔ آپ کی سنت میں شک وشبہ پیدا کیا جائے۔ اس کو قبول کرنے اور رد کرنے کے قابل سمجھا جائے۔ اور اس کو حقیر وکم تر سمجھتے ہوئے تسلیم نہ کیا جائے۔اور یہ منافقوں کی واضح علامتوں میں سے ہے جن کے دلوں سے مقام نبوت کا رعب ختم ہوچکاہے۔ جن کے قدم فتنہ اور خواہشات میں پھسل گئے ہیں۔اور یہی یعنی رسول کی مخالفت مسلمانوں کے درمیان فتنہ, تفرقہ ,اختلاف, لڑائی جھگڑا, دشمنوں کا ان کے اوپر مسلط ہونے, ان کی طاقت ختم ہوجانے, ناکامی اور ذلت کے بڑے اسباب میں سے ہے۔ بلا شبہ یہ امت خواہ کتنا ہی عزت , غلبہ اور شرف کی تلاش کرے لیکن یہ چیزیں اس کوصرف آپ کے رکاب کو لازم پکڑنے , آپ کےنقش قدم کی اتباع کرنے اور آپ کے طریقہ پر چلنے سےہی حاصل ہو گی۔

    اے مسلمانو : جان لیجئے کہ ہمارے اوپر واجب ہے کہ یہ نبی کریم ہر چیز میں ہمارا سب سے بڑا قدوہ اور نمونہ ہو۔ ہمار ی مجلسوں اور فورمس کا موضوع سخن , محفلوں اور سینماروں کا مرکز گفتگو ہو۔ اور ہمارے دعوتی خطاب, نصاب تعلیم او تربیت کا مرکز ہو, یقینا وہ حاکم, قائد, عالم, مصلح, مربی, ناصح, شوہر اور والد کے لئے دائمی قدوہ اورقدیم نمونہ ہیں ۔ بلا شبہ ہم لوگ ایک ایسے زمانے میں ہیں جو فتنوں , شبہوں, تشدد اور دہشت گردی کے افکار سےلبریز ہے اور جس میں لوگوں نے جاہلوں کم عقل بچوں کو اپنا سردار بنا لیا ہے۔ جو اصلاح کے بجائے فساد برپا کرتےہیں, جو تعمیر کے بجائے تخریب کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہم کو اس چیز کی سخت حاجت اور ضرورت ہے کہ ہم نبی کو اپنا قدوہ ,نمونہ اور زندگی کا منھج بنالیں۔ نبوت کے مقام ومرتبہ کی تعظیم کریں ۔سنت کو رد اور اس پر اعتراض کرنے سے سختی سے پرہیز کریں, اللہ تعالے کا فرمان ہے: (جو لوگ حکم رسول کی خلاف ورزی کرتے ہیں انھیں ڈرنا چاہیئے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے ) " نور/ 63"

    بلا شبہ یہ امت مسجد اقصى اور اس کے علاوہ دیگر ملکوں میں قابض وغاصب جارحیت پسندوں کے ظلم اور دشمنوں کے مکر کا سامنا کررہی ہے ۔ ایسی صورت میں یہ آپ کی سنت وسیرت مبارکہ کی طرف لوٹنے کی زیادہ حاجتمند ہے۔ تاکہ وہ دشمنوں کے ساتھ معاملہ کرنے, ان کا مقابلہ کرنے, ظلم وجارحیت کو ختم کرنے , نیز اہل مکر و کینہ پروروں کے مکر کا جواب دینے کے بارے میں درست وصحیح طریقہ جان لے۔

    اے مسلمانو: اس آخری نبی کے بارے میں قرآن کی لا جواب گفتگو میں سے یہ چند روشن پارے اور جگمگاتی ہوئی عمدہ وبہترین چیزیں ہیں۔ اور جو چھوڑدیا گیا ہے وہ اس سے زیادہ ہے جو ذکر کیا گیا ہے۔ لھذا زمین پر اللہ کےدستر خوا ن قرآن پر توجہ دو اور غور کرو کہ کیسے قرآن نے اس نبی کریم کے بارے میں گفتگوکی ہے۔

    مسلمانوں کی جماعت: ہر نئےہجری سال کی آمد کے ساتھ ہی ہمارے سامنے دو بڑے واقعات وحوادث نمایاں ہوتے ہیں جنھوں نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ان میں سے ایک حضرت موسى کی نجات اور ان کا مصر سے نکلنا ہے۔ جبکہ دوسرا واقعہ حضرت محمد کی نجات اور آپ کا مکہ سے نکلنا ہے۔حالانکہ ان دونوں کے واقع ہونے کا زمانہ الگ الگ ہے ۔کیونکہ موسی علیہ السلام کی نجات دس محرم کو ہوئی تھی اور محمد ﷺ کی نجات ربیع الاول کے شروع میں ہوئی تھی, پھر بھی خلیفہ راشد حضرت عمر کے ذریعہ ہجری تاریخ کی ابتداءکے لئےماہ محرم کی موافقت ومنظوری نے ان دونوں واقعات کو آپس میں جوڑدیا ہے ۔ لھذا ہرہجری سال کے شروع میں ان دونوں کا ذکر ہوتا ہے۔اور یہ دونوں اہم ترین حوادث میں سے ہیں کیونکہ ان دونوں میں مشابہت, عبرتیں, حکمتیں اور خیرہ کن نشانیاں پائی جاتی ہیں۔اے بندگان الہی : اس میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ موسی اور محمد ﷺ کی کتابیں نازل کردہ کتابوں میں سب سے افضل ہیں اور اکثر اللہ تعالی ان دونوں کو اپنی کتاب میں ایک ساتھ ذکر کرتا ہے۔

    فرمان الھی ہے: (اے نبی ان سے کہہ دیجیئے کہ اچھا تو لاؤ اللہ کی طرف سے کوئی کتاب جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت والی ہو اگر تم سچے ہو, میں اس کی پیروی کروں گا) "قصص/ 49", اسی وجہ سے دسویں محرم کا روزہ رکھنا ایک بابرکت سنت نبوی ہے جو نبی موسی اور نبی محمد ﷺ کے درمیان عظیم تعلق کی تاکید کرتی ہے ..

    اور اب درود وسلام بھیجئے نبی پر

     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • مفید مفید x 1
  2. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    جزاکم اللہ خیرا۔
    بہت عمدہ خطبہ ہے۔ ایمان تازہ ہوگیا۔
     
  3. ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق

    ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق ركن مجلسِ شوریٰ

    شمولیت:
    ‏جون 30, 2015
    پیغامات:
    212
    اللہ تعالى آپ سب کو بہترین بدلہ عطا فرمائے
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں