ریگستان کابا دشاہ

ابو ہریرہ نے 'مجلس اطفال' میں ‏دسمبر 13, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابو ہریرہ

    ابو ہریرہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏فروری 18, 2015
    پیغامات:
    42
    ریگستان کابا دشاہ

    آپ کو پتا ہوگا کہ جاند ار اشیاء کودو گروہوں میں تقسم کیا جاتا ہے ‘ یعنی’’پودے اور جانور‘‘اور اللہ نے قرآن میں جگہ جگہ ان کا تذ کرہ کرکے انسان کو اپنی وحدانیت کاسبق دیاہے۔

    آیئے!ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں کن جانوروں کا تذ کرہ ہے اور ان کے کیا فوائد ونقصانات ہیں۔

    الا بل:یہ عربی زبان کالفظ ہے اردو میں اس کے معنی’’اونٹ اورشتر‘‘ ہیں۔اس کاتذ کرہ قرآن مجید کے پارہ نمبر۸ سورۃ الانعام رکوع نمبر ۱۷‘ پارہ نمبر۳۰‘ الغاشیتہ آیت نمبر۱۷میں ہے۔اونٹ کےلیے عربی میں کئی نام ہیں۔ یہ خاص نام قرآن مجید میں دوجگہ آیا ہے ایک جگہ حلال وحرام کے سلسلے میں کیا‘ اللہ نے اونٹ دوقسمیں پیدا کی ہیں’’نر اور مادہ۔‘‘دوسری جگہ قدرت الہٰی وصنعت باری کے سلسلے میں ہے کہ کیا یہ لوگ اونٹ کونہیں دیکھتے کہ اسے کیسا(عجیب)پید اکیا گیا ہے اور یہاں’’الابل‘‘کےساتھ تین چیزوں کاذ کر ہے:’’السماء‘ الجبال ‘الارض‘‘چونکہ قرآن مجید کے پہلے مخاطب عرب لوگ ہے تھے‘ ان کو اللہ تعالیٰ نے کتنے اچھے انداز سےاپنی توحید کی دعوت دی ہے۔ان کے غور کےلیے یہی تھا کہ یہ اونٹ کس نے اور کیسے پیدا کیے ۔ پھر پہاڑوں ‘ریگزاروں کو کس نے ارض وفلک کس کی تخلیق ہیں؟

    اہل عرب کےلیے اونٹ مادی نعمتوں میں سب سے بڑھ کرہے اور یہ ان کی بہترین سواری اورغذا ہے۔نہ صرف عرب میں بلکہ دنیا کے ایک بڑے حصے میں یہ ایک مفید جانور کی حیثیت سے جانا جاتاہے۔

    یہ ہندوستان کےعلاقہ راجھستان اور پاکستان میں سندھ‘بلوچستان اور صوبہ شمال و مغرب کے علاقوں مشرقی ترکستان‘ منگولیا‘ ایشیا ئے کو چک‘عراق‘ شام‘ فلسطین‘مصر‘طرابلس‘مراکش بر اعظم ایشیا اور افریقہ کے بیشترخطوں ‘آسٹریلیا ‘اسپین میں پایا جاتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق ان کےفوسلز (ہڈیوں کے آثار) شمالی امریکہ سے ملے ہیں۔اس سے یہ پتاچلتا ہے کہ اونٹ شمالی امریکہ کا ایک مفید جانور ہے اور وہاں سے یہ جنوبی امریکہ سے ہوتا ہوا ایشیا اور یورپ کی سرزمینوں پر پہنچا۔

    اونٹ کی پشت کے وسط میں ایک بلند جگہ ہوتی ہے‘جسے’’کوہان‘‘کہتے ہیں۔اس کی ایک قسم ایسی بھی ہے جس کے کوہان ایک کے بجائے دو ہوتے ہیں۔ یہ دھرے کوہان والے اونٹ بلخی یا’’باختری‘‘ نسل کے اونٹ کہلاتے ہیں۔ یہ فرغانہ‘ بخارا اور چینی تر کستان کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔اور ایک کوہان والے اونٹ عرب نسل کے اونٹ کہلاتے ہیں۔

    اونٹ ریگستان کی جھلساتی دھوپ میں چلتے ہوئے جب پیاسا ہوجاتا ہے تواسے اچھی خاص مقدار میں پانی کی ضرورت پڑتی ہے‘ایک لق و دق ریگستان کے طویل اور بےآب و گیاہ سیع و عریض سفر میں اپنی خوراک بھی اپنے پیٹ میں ذخیرہ کرلینے کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ سفرکے دوران پتا نہیں کب اسے نخلستان مل پائےاور وہ پیٹ بھر کرغذا حاصل کر پائے۔

    اونٹ اپنی غذا کو اپنے کوہان کی چکل میں جسم کے اندر ذخیرہ کرلیتا ہے‘اونٹ کا کوہان اس کا معدہ نہیں بلکہ در اصل یہ چربی کا ذخیرہ ہوتا ہے۔کوہان میں موجود چربی کو اونٹ اس وقت استعمال میں لانے لگتا ہےجب اس کے معدے کی غذا کا ذخیرہ طویل سفر کے دوران ختم ہونے لگتا ہے اور اسے ماحول میں چارہ میسر نہیں آتا ہے۔

    لق و دق ریگستان کے و سیع وعریض بنجر علاقوں میں سفر کرتے ہوئےجب اونٹ کو پانی اورغذا کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ اپنے کوہان میں جمع چربی کے ذخیرے کوتھوڑی تھوڑی مقدار میں استعمال کرتا جاتاہے۔جس سے اس کو پانی کی مطلوبہ مقدار کے علاوہ سفر جاری رکھنے کےلیے توانائی بھی فراہم ہو جاتی ہے۔غذا کا یہ ذخیرہ کئی ہفتوں تک اونٹ کوتوانائی فراہم کرسکتا ہے جب کہ شدید گرم موسم میں اس کے پانی کاذخیرہ سات تا دس دنوں تک اونٹ کی پیاس بجھا سکتا ہے۔

    اپنے جسم میں ذخیرہ شدہ چربی کی مقدار کو یہ استعمال کرلتیا ہےتو اس کاوزن خاصہ کم ہوجاتاہے‘یعنی بعض حالتوں میں اس کا وزن ایک چوتھائی‘یعنی25 فصد تک گھٹ جاتا ہے لیکن جیسے ہی اسے غذا کھانے کوملتی ہے یہ پھر سےاپناوزن واپس حاصل کرلیتا ہے۔

    اس کے پیروں کو اللہ نے ایسایا ہے کہ جو اسے دھنسنے سےبچاتےہیں۔ ان قدرتی اسباب کی بناپر اونٹ ایک نعمت بے بہار ہے جوریتیلے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔اور وہاں بہت سستا بھی مل جاتاہے۔ یہ درازقد ہوتا ہے‘اس کا سراس کے جسم کی مناسبت سے بہت چھوٹا ہوتا ہے‘البتہ اس کی گردن اورٹانگیں بہت لمبی ہوتی ہیں۔ مزاج کےلحاظ سےبڑا حلیم وشائستہ جانور ہے۔اس کی قوت برداشت کے متعق عظیم مسلمان سالار ناصر یوسف صلاح الدین ایوبی نے کہاتھا کہ مجھے’’بیت المقدس کوفتح کرنے کےلیے ایسے نوجان چاہئیں جن کی قوت برداشت اونٹ جیسی ہو۔‘‘

    پیارے بچو!جب اونٹ کو غصہ آجائے توبھڑک اٹھتا ہے اور خطرناک بھی ہوجاتا ہے۔

    پیارے بچو!ہمارے پیارے نبیﷺکے دادا نے سو انٹ قربان کیے اور دیت کی رسم میں آج تک یہی چلا آرہا ہے۔نبیﷺکوجب مکہ مکرمہ سے نکالا گیا تو آپ کوپکڑنےوالے یاقتل کرنے والے کے لیے سو اونٹوں کا انعام رکھاگیا ۔ یہ کیسا عجیب اتفاق ہے۔

    عربی اونٹ ایک ایسا شریف طبع جانور ہے کہ ان کے غول جب پانی پینے کےلیے کسی تالاب پرآتے ہیں توبڑے ہی نظم و ضبط کےساتھ پانی پیتے ہیں۔ یہ منظر دیکھنے کے لائق ہوتاہے‘ یہ بہت ہی صابروشا کرطبیعت کاجانور ہوتا ہے لیکن اونٹ یادداشت کا بھی بڑا پکا ہے اگراس پر کا مالک کبھی ظلم کرے اور اس ناجائز تکلیف پہنچائے تووہ اسے دل میں رکھ لیتا ہے اور پھرموقع ملتے ہی اپنا انتقام لےلیتا ہے‘ اوراکثر اوقات تومالک کوجان سے مار ڈالتا ہے‘اس لیے اگر آپ کو اونٹ پالنے کاشوق ہوتویہ بات کبھی نہ بھولیے۔

    ***
     
    Last edited by a moderator: ‏دسمبر 16, 2015
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
    • معلوماتی معلوماتی x 2
    • مفید مفید x 1
  2. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    جزاک اللہ خیرا۔ بہت اچھی معلومات شئر کرنے کا شکریہ۔
     
  3. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    بہت عمدہ شراکت

    جزاک اللہ خیرا
     
  4. ام محمد

    ام محمد -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 1, 2012
    پیغامات:
    3,120
    جزاک اللہ خیرا
     
  5. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں