سیرت نبی : منہج اور قدوہ

ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق نے 'سیرتُ النبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم' میں ‏دسمبر 19, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق

    ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق ركن مجلسِ شوریٰ

    شمولیت:
    ‏جون 30, 2015
    پیغامات:
    212
    سیرت نبی : منہج اور قدوہ
    خطبہ حرم بتاریخ 7-3-1437ہـ
    خطبہ : ڈاکٹر صالح بن حمید امام و خطیب مسجد حرام
    ترجمہ: ڈاکٹر عبد المنان محمد شفیق

    خطبہ کا پہلا حصہ:
    ہر طرح کی حمد اللہ ہی کے لیے ہےجو غالب قوت اور حیرت انگیز حکمت والا ہے۔ صرف وہی معبود برحق ہے۔اسی کے لیے دنیا و آخرت میں حمد ہے۔میں اس پاک ذات کی اس کی ظاہری و باطنی بہت زیادہ نعمتوں اور بکثرت نوازشات پر ثنا خواں ہوں۔میں گواہی دیتا ہوں کہ بجز اللہ کے کوئی معبود حقیقی نہیں ہے ایسی شہادت حق و یقین جو شک و شبہ اور حیرت سے بالاتر ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد اللہ کے بندے و اس کے رسول ہیں جنہوں نے منارہ دین کو بلند کیااور باہمی نفرت والے دلوں کو جمع کیا۔اللہ کی رحمت, سلامتی اور برکت ہو آپ پر , آپ کے اہل خانہ پر , آپ کی پاک نسل پر, چمکتے ستاروں کی مانند آپ کے صحابہ کرام پر, تابعین پر , ان کا حق کے ساتھ اتباع کرنے والوں پر۔ان سب پر بہت زیادہ سلامتی ہو جب تک کہ گردش کرنے والے آسمانی اجرام گردش میں ہیں۔

    حمد و صلاۃ کے بعد:

    اے لوگو: میں اپنی ذات اور آپ کو اللہ کے تقوى کی نصیحت کرتا ہوں۔ لہذا اللہ کا تقوى اختیار کیجیے ۔ اللہ آپ پر رحم فرمائے۔ کیونکہ آپ سے جس چیز کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ آنے والی ہے۔اس لیے وقت فوت ہونے سے پہلے لغزشوں کی اصلاح کر لیجیے ۔ زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کیجیے۔تنہائیوں میں اپنے نفسوں کی نگرانی کیجیےاس سےپہلے کہ موت اچانک آجائے۔جو ہر معزز کو ذلیل کرنے والی اور ہرمضبوط چیز میں زبردستی داخل ہونے والی ہے۔ یہاں تک کہ جب اس کے سخت پنجے گڑ جاتے ہیں اور اس کے چنگل پیوست ہو جاتے ہیں تو آنکھیں اور پتلیاں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ اس وقت کوئی علاج اور تدبیر کارگر نہیں ہوتی ہے۔اس لیے اللہ ان قوموں پر رحم فرمائے جو اوقات میں سبقت لے گئے اور نیکیوں میں جلدی کی۔اللہ تعالى کا فرمان ہے: ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے , اور تم سب روز قیامت اپنے پورے پورے اجر دئیے جاؤ گے۔کامیاب در اصل وہ ہےجو جہنم سے ہٹا دیا گیااور جنت میں داخل کردیا گیا۔یہ دنیاوی زندگی محض ایک فریب کا سامان ہے(آل عمران/185)

    برادران اسلام : بہت سارے مسلمانوں پر ایک طویل مدت گذر گئی ہےاور دشمنوں کی جانب سے سازش اور تسلط شدت اختیار کر گیاہے۔ دشمن مسلمانوں کو ان کے دین حق سے دور کرنے میں سرگرم و کوشاں ہے ۔ یہی وجہ ہے کی بہت سارے ملکوں میں پسپائی اور رسوائی ظاہر ہے۔اور جومسلمان عقیدۃ اور شریعت کے حقائق سے ناواقف ہیں وہ اپنے مرتبہ اور آزادی کی سطح سے نیچے آگئے ہیں ۔تاکہ وہ دوسری تہذیبوں کے دسترخوانوں کے چھوڑے ہوئے کھانے کو اپنی غذا بنائیں۔ ان کو ان امتوں نے اپنا غلام بنا رکھا ہے جن کا ان کے مقابلہ میں کوئی قابل ذکر شمار اور گنتی نہیں ہے۔

    اے مسلمانو: جب فتنے زیادہ ہو جاتے ہیں , تاریکیاں, مصائب اور نئی چیزیں پے در پے واقع ہوتی ہیں اس وقت لوگ نکلنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں ۔نجات اور پناہ گاہ کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔یہ چیز گر چہ بعض قوموں اور ملکوں کے لیے پر مشقت اور مشکل ہے لیکن مسلمانوں کے یہاں ایسا نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے پاس تو سیدھی راہ , روشنی اور ہدایت ہے۔ان کے قائد , سربراہ, نمونہ اور قدوہ بشارت دینے والےہادی اور روشن چراغ محمد ہیں جن کا فرمان ہے: میں نے تم میں ایک ایسی چیز چھوڑی ہے کہ اگر تم نے اس کو مضبوطی سے پکڑا تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ۔وہ اللہ کی کتاب اور میری سنت ہے۔پھرآپ کی وصیت و نصیحت ہے جو عرباض بن ساریہ کی روایت میں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ہم سب کو ایسی موعظت و نصیحت کی جس سے دل خوف زدہ ہوگئے ۔ آنکھین اشکبار ہو گئیں ۔ ہم نے کہا : اے رسول اللہ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ رخصت کرنے والے کی پنداور وعظ ہے لہذا آپ ہمیں نصیحت کیجیے۔اس موقع پر آپﷺ نے یہ بھی فرمایا: تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا۔ایسی صورت میں تم میری سنت کو اور میرے بعد کے ہدایت یاب خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا۔ اس کو اپنے داڑھ کی دانتوں سے دبا لینا اور دینی امور میں نئی ایجاد کردہ چیزوں سے دور رہنا۔

    ہاں اے میرے دوستو: بلا شبہ کسی بھی فاضلانہ زندگی کے لیے ایک قائد اور کسی بھی کامیاب مشن کے لیے ایک سربراہ کا ہونا ضروری ہے۔کون ہمیں ایک امانتدار , مخلص, پاک سیرت و نیک طینت, حکیم قانون ساز, عادل فیصل, صادق رہبر,ناصح واعظ, مصلح مجاہد , کامیاب فاتح اور سردار انسان کے بارے میں بتلائے گاجس کی محبت میں دل پگھل جاتے ہیں؟ اور ایسا شخص برگزیدہ و چنیدہ محمد کے علاوہ کون ہو سکتا ہے۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔

    کون رسول اللہ کے علاوہ زندگی کا قائداور زندہ لوگوں کا رہبر ہے!!آپ ہی امین قائد اور واضح مبلغ ہیں۔ آپ پر اللہ کا افضل درود اور کامل سلام ہو۔

    شب و روز میں پانچ با ر ذکرنبی کا بلند کیےجانے اور فضا میں آپ کے اسم شریف کا پکارے جانے کا اس کے علاوہ کیا اور کوئی مقصد ہے کہ نفوس اور ارواح آپ کے ساتھ کامل ایک دن یا ایک دن کے کسی بھی حصہ میں بنا انقطاع کے برابر رابطہ میں رہیں؟؟

    بندگان الہی : اسی وجہ سے آپ کی سیرت اور سنت دونوں کی حفاظت کی گئی ہے, کیونکہ وہی اس نبی کریم کی منقول سوانح حیات ہے۔یہی سیرت جو اپنی جامعیت اور کمال میں ممتاز ہے۔

    ہمارے نبی محمد کی سیرت اسلامی زندگی اور درست اسلامی منہج کا زندہ مصدر اور رواں چشمہ ہے۔ وہی نکلنے کا راستہ اور وہی روشن شاہ راہ ہے۔

    سیرت ہی سنت ہے ۔ وہی اپنی تمام تر تفصیلوں , واقعات , معجزات نبوت , اس کی نمایاں نشانیوں اور خصوصیات کے ساتھ نبی کی زندگی ہے۔

    بیشک وہ کسی بھی مبعوث نبی کی تاریخ کی سب سے صحیح سیرت ہے۔

    سیرت نبی کوئی محض روایت کی جانے والی تاریخ یا بیان کیے جانے والا قصہ یا حکایت کیا جانے والا واقعہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک ایسے انسان کی زندگی کا باریک ریکارڈ ہے جس کو اللہ نےمنتخب کیا اور اپنی رسالت کے لیے اختیار کیا۔جس کو اپنی عنایت اور نگہداشت میں رکھا۔اور جس کو پیدائش ہی سے ایسی خصوصیتوں سے نوازا جو آپ کے علاوہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی ہیں۔فرمان الہی ہے: اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کہاں رکھے ۔ ( انعام / ۱۲۴)

    اسلامی بھائیو: مزید وضاحت کے لیے تاریخ اور اس کے منہج کی روش اور سیرت نبی اور اس کے منہج کی روش کے مابین عظیم فرق کے بارے میں غور کیجیے۔ تاریخ کا مرجع انسانی عقل , بشری عادت, تمدنی طبیعت اور انسانی احوال ہیں۔جب کہ محمد کی سیرت نہ عادات کے تابع ہے نہ ہی محض عقل کے زیر کنٹرول ہے۔ بلکہ مصطفى ایک انسان ہیں جن پر وحی نازل ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا , یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے ۔ ( نجم / ۳- ۴)

    اسی لیے جن مستشرقین , مغرب زدہ اور ان کی راہ کے پیرو کاروں نے محمد مصطفى کی سیرت اور آپ کی زندگی کے مطالعہ میں غلطی کی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے آپ کی سیرت کو محض انسانی نقطہ نظر سے دیکھا ہے۔

    انہوں نے یہ نہیں سمجھا کہ مجرد تاریخ انسانی طبیعت اور سماجی زندگی میں محدود ہے۔جبکہ سیرت نبی کے ربانی پیمانے اور نبوتی خصوصیات ہیں ۔ وحی اس کا مصدر ہے۔اللہ کا انتخاب اس کاراز ہے۔انسان کی اصلاح اس کا مقصد ہے۔

    انبیاء کا کردار اور ان کی زندگی صرف عقل کی نگاہ اور محض معاشرتی عادات کے تابع نہیں ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالى ہے:اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے(انعام /124)ایک دوسری آیت میں ہے: یا انھوں نے اپنے پیغمبر کو نہیں پہچانااس لیے اس کا انکار کر رہے ہیں(مومنون/۶۹) یقینا اللہ تعالی نے تمام جہاں کے لوگوں میں سے آدم , نوح , خاندان ابراہیم﷣اور خاندان عمران کا انتخاب فرمایا ( آل عمران / ۳۳)

    تمام انبیاء گناہوں سے معصوم , اصلاح کرنے والے, ہدایت دینے والے اور ہدایت یافتہ ہوتے ہیں۔ ان کی دینی اور غیبی خصوصیتیں ہوتی ہیں ۔ان کے معجزات اور کرامات ہوتے ہیں جن میں ان کا کوئی اور شریک نہیں ہوتا ہے۔

    اسی وجہ سے سیرت کا کوئی بھی دراسہ اور مطالعہ جو ان نبوی خصوصیات سے تجاہل یا تغافل برتے گا اور اس کو محض انسانی تاریخ سمجھے گاوہ لا محالہ منہج, تفسیر اور نتائج میں غلطیاں کرے گا۔بلکہ ایسے افراد بے بصیرتی ,تضاد, جہالت اور گمراہی میں واقع ہوتے ہیں۔

    البتہ جو دانستہ طور پر تشکیک , یا تحریف یا ابطال کے ارادہ سے ٹیڑھی راہ اختیار کرتے ہیں تو یقینا اللہ ان کے عمل کو ناکام بنا دیتا ہے اور ان کے مکر کو اانہیں پر لوٹا دیتا ہےجیسا کہالحمد للہ مشاہدہ ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے:اللہ تعالی آپ کی لوگوں سے حفاظت فرمائے گا ( مائدہ / ۶۷) ایک دوسری آیت میں ہے: ہم آپ کی طرف سے آپ کا مذاق اڑانے والوں کے لئے کافی ہیں۔ ( حجر / ۹۵) ایک جگہ اور ارشاد فرمایا:وہ لوگ مکر کررہے ہیں اور اللہ اپنی تدبیر کررہا ہے۔ اور اللہ سب سے بہتر تدبیر والا ہے۔ (انفال/30)

    اے مسلمانو: اللہ نےقرآن کی مختلف آیتوں میں اپنے رسول کی اقتداء کرنے , اس کے سنت کی پابندی کرنے اور اس کے سلوک و کردار کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے ۔فرمان باری تعالی ہے: در حقیقت تمھارے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے۔ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن کی توقع رکھتاہے۔ اور بکثرت اللہ کو یاد کرتاہے(احزاب/21) ایک دوسری آیت میں ہے:جو کچھ رسول تمھیں دے لے لو اور جس چیز سے روکے اس سے رک جاؤ (حشر/7) ایک جگہ اور آیا ہے: اے نبی کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو, اللہ تم سے محبت کرىگا اور تمھارے گناہوں کو بخش دیگا, اللہ بڑا بخشنے والا مھربان ہے ۔ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ واس کے رسول کی اطاعت کرو, اب اگر یہ منہ پھر لیں تو بلا شبہ اللہ تعالی کافروں سے محبت نہیں کرتاہے (آل عمران/31-32)

    اسی کے مثل دیگر نصوص میں یہی حکم ہے ۔ اور جب بات ایسی ہےتو اللہ نے ہمارے لیے سیرت نبی کی ایسی حفاظت کی ہے کہ ویسی حفاظت آپ سے پہلے اور بعد میں کسی سیرت کی نہیں ہوئی ہے ۔ نیز اس کے لیے ایسے اہل علم و فقہ اور اہل تحقیق و تحفظ کو مہیا کیا جو عقلوں کو خیرہ کرنے والا ,نفسوں کو شادمانی عطا کرنے والا اور حجت قائم کرنے والا ہے۔اسی وجہ سے سیرت ( کتاب و سنت) کی تعظیم و اجلال کے احساسات اور سچی محبت و احترام کے ساتھ تحریری اور تقریری طور پر لگاتار حفاظت ہوتی رہی ہے۔

    یہ توثیق و تدوین اہل علم کی نسل در نسل کی جانے والی ان کوششوں میں نمایا ں ہے جو انھوں نے یکے بعد دیگرے سیرت کی قولی, فعلی اور سلوکی روایتوں اور واقعات کی حفاظت اور تدوین میں کی ہے جن میں انتہائی درجہ کی باریکی اور درستگی ہے۔

    توثیق میں علماء حدیث ۔ اللہ ان کی قدر بلند کرے اور ان کے مقام کو اونچا کرے۔ کا منہج وہ منہج ہے جس کے ذریعہ اللہ نے مسلمانوں کو خاص کیا ہے اور جس میں تحریر , حفظ اور ضبط کے اعتبار سے نیز گڑھی ہوئی اور جھوٹی روایتوں سے تحفظ اور ضعیف کو صحیح اور حسن سے جدا کرنے کے لیے انتہائی درجہ کے ضبط و اتقان کے ساتھ ہمارے نبی محمد کی ہر حالت کے بارے میں منقول کی توثیق میں رہا ہے ۔ شاید اللہ کے اس قول میں یہ بھی شامل ہے :یقینا ہم نے ہی ذکر نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں(حجر/9) جس میں بے نظیر امانتداری, دیانتداری اور حفاظت ہے ۔

    اے مسلمانو: ہمارے نبی محمد کی سیرت آپ کی زندگی کے واقعات کو تلاش کرنے اور روایتوں کو بیان کرنا نہیں ہےبلکہ سیرت اپنے جامع معنى اور کامل عمارت میں آپ کی زندگی , منہج, سیرت, طریقہ, دین و دعوت ہے۔ اور ایمان, توحید, احکام و اخلاق بلکہ پوری زندگی کے امور میں آپ سے صحیح طور پر منقول ہر چیز کی اتباع کرنی ہے۔ کیونکہ نبی کی زندگی اور سیرت ہی شریعت کے نصوص کتاب و سنت کی زندہ تفسیر ہے۔اور سیرت صرف لفظی تفسیر میں منحصر نہیں ہے۔

    سیرت شرک , بت پرستی اور خرافات کا سامنا کرنے کے لیے توحید ہے۔تفرقہ اور اختلاف کا مقابلہ کرنے کے لیے وحدت ہے۔خاندانی اور قبائلی نظام کا سامنا کرنے کے لیے حکومت و سلطنت ہے۔رسو م و رواج کا مقابلہ کرنے کے لیے حکم اور قانون ہے۔گروہ بندی اور تعصب کا مقابلہ کرنے کے لیے امت ہے۔بگاڑ اور فساد کا سامنا کرنے کے لیے اصلاح اور تعمیر ہے۔ جہالت اور ناخواندگی کا مقابلہ کرنے کے لیے علم ہے۔

    اسلام اپنی جامعیت, شریعت اپنی کمال اور اخلاق اپنی بلندی کے ساتھ سیرت ہے۔ جوزندگی کے تمام پہلؤوں کو محیط ہے جو نیک عمل کے ہروسیع دائرہ کو اپنے اندر پروئے ہوئے ہے۔ان سب کا مقصد با عزت شان والے اللہ کی وحدانیت کو بجالانا ہے۔تنہا اسی کی عبادت کرنی ہے۔ وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔اللہ کا فرمان ہےکہ میں نے انسانوں اور جناتوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے(ذاریات/56)۔ ایک ایسی سیرت اور مشن ہے جس نے دنیا کا آخرت سے, علم کا ایمان سےاور اخلاق کا عبادت سے تعلق منضبط کردیا ہے۔

    بلا شبہ وہ تبدیلی لانے اور تہذیبی تعمیر کا نبوی طریقہ ہے۔صورت حال اور لوگوں کے ساتھ معاملہ اور برتاؤ کرنے کی سیرت اور مشن ہے۔وہ اپنے اندر طاقت اور کمزوری کی حالت میں ترقی و تنزلی , حرکت و سکون کے اعتبار سے انسانیت کو پیش آنے والی مختلف حالات , تبدیلیوں اور تغیرات کو سمیٹے ہوئے ہے۔جس میں ہر پریشانی کا حل اور جواب ہے۔

    ٹھوس سیرت نبی ایک مسلمان کی مکمل زندگی کو ضبط و درست کرنے والی ہے۔سیرت, اس میں تدبر و تفکر اور اس کے واقعات میں حقوق و واجبات , عدل و قوت, رحمت و احسان, مساوات و غم خواری, شورائیت وانتظام,زینت دنیا اور تعمیر زمین کے درمیان اتقان و احسان, تکامل و باہمی معاونت , نیکی اور ایثار کی صورت میں باریک میزان نمودار ہوتا ہے ۔ اسی لیے پاکی آدھا ایمان ہے۔نماز نور ہے۔صدقہ برہان ہے۔صبر روشنی ہے۔علم کا طلب کرنا فرض ہے۔اور اللہ کا ارادہ جس کے ساتھ خیر کا ہوتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے ۔کیا دین کی سمجھ اس زندگی , اس کی ذمہ داری کی سمجھ اور اس میں صحیح طریقہ سے کام کرنے کے علاوہ کوئی اور دوسری چیز ہے؟

    حضرت سفیان بن عیینہ کا قول ہے: بلا شبہ اللہ کے رسول سب سے بڑے معیار ہیں ۔ اسی وجہ سے تمام چیزیں آپ کے اخلاق, سیرت اور کردار پر پیش کی جائیں گی۔سو جو چیزیں اس کے موافق ہیں وہ حق ہیں اور جو مخالف ہیں وہ باطل ہیں۔

    یہ بابرکت محمدی سیرت ہے جس نے انسان کی زندگی پلٹ دی ۔ انحرافات کو اجاگر کردیا۔فرد, سماج , گھر, فیملی , بازار, مسجد, امن اور جنگ کی راہ کو درست کردیا۔جو بھی دین اسلام میں داخل ہوا اس نے جاہلیت کی چادر اتار کے پھینک دی ۔اس میں نہ آپسی فرق و امتیازہے اور نہ ہی باہمی فخر و غرور۔ایک ایسا منہج ہے جو حسب یا نسب یا مسلک یا پارٹی بندی کى تنگ نظری سے بلند تر ہے۔وہ پوری کائنات کے لیے ہدایت , مکمل دنیا کے لیے رحمت اور تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔

    بھائیو: سیرت نبی اپنے منہج اور روش میں انسان کی صلاحیتوں,سمجھ اور ان کے امکانات کے اختلاف کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی انسانیت کے ساتھ مخاطب کرتا ہے۔ان کو خطاب کرتا ہے کہ وہ غیر مثالی انسان ہیں ۔ معصوم نہیں ہیں۔خطا اور غلطی کرتے ہیں۔اپنی طبیعتوں , صلاحیتوں اور عقلوں میں اختلاف کے ساتھ اپنی حالت اور زندگی گذارتے ہیں۔

    سیرت بطور نمونہ انسان کو اس کی شناخت, عقل کو بصیرت اورشعور و وجدان کو اس کی اہمیت عطا کرتا ہے۔ سیرت مصطفی ایک مومن میں کبر و گھمنڈ کے بغیر عزت, شیخی کے بنا بلند ہمتی , تکبر کے بغیر اعتماد نفس اور تواکل کے بغیر اطمینان کا باعث ہے۔یہ ایک ایسی سیرت اور قدوہ ہے جو کندھوں پر ڈالی گئی ذمہ داریوں , امانت , استقامت, اور اللہ کی طرف بصیرت کے ساتھ دعوت دینے کا احساس دلاتا ہے۔

    اللہ کے بندو: اہل قلم سیرت کے بارے میں خواہ کتنا ہی لکھیں , مصنفین کتنی ہی کتابیں تصنیف کریں , لیکچر دینےوالے کتنا ہی لیکچر دیں اور مقررین تقریریں کریں لیکن پھر بھی بابرکت سیرت نبی کی اسرار و خوبیاں ختم ہونے والی نہیں ہیں۔ ایسی سیرت ہے جس میں انسان کی درستگی اور صلاح ہے, جس کے تابع کائنات کی صلاح ہے۔ایک ایسی سیرت ہے جس نے شریعتوں , سیاستوں اور دنیا و دین کے تمام امور میں پوری انسانیت کی تاریخ بدل دی ۔ ممالک جس کے زیر نگیں ہوئے۔قومیں جس کی باجگذار ہوئیں۔ جسموں سے پہلے روحیں جس کی طرف آگے بڑھیں۔جس کی فتوحات کے ساتھ تہذیب و تمدن , عدل و رحمت اور عقلی و کائناتی علومپھیلےان ان پڑھ لوگوں کے ذریعہ جن کا تزکیہ قرآن نے کیا ہے اور جن کو سیرت نے مہذب بنایا ہے ۔

    بعد ازاں ۔آپ سب پر اللہ کی رحمت ہو۔امام حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کا کہنا ہے:لوگوں کے لیے رسول اللہ کی معرفت کی ضرورت ہر سخت ضرورت سے بڑھ کے ہے۔کیونکہ دنیا و آخرت دونوں میں صرف رسولوں کے ذریعہ ہی سعادت اور کامیابی کا راستہ ملتا ہے۔اور مفصل طور پر اچھے و برے کو جاننے کی راہ صرف انہیں کی طرف سے ملتی ہے۔اللہ کی رضامندی صرف انہیں کے ہاتھوں پر حاصل ہوتی ہے۔ اچھے اعمال , اقوال اور اخلاق صرف ان کی سیرت و کردار ہے اور جو کچھ وہ لیکر آئے ہیں۔وہی راجح معیار و پیمانہ ہے جن کے اقوال , اعمال , اور اخلاق پر دوسروں کے اقوال , اخلاق اور اعمال وزن کیے جاتے ہیں۔ان کی پیروی سے ہی اہل ہدایت اور اہل ضلال ایک دوسرے سےالگ ہوتے ہیں ۔اور جب کسی بھی انسان کی سعادت دنیا و آخرت دونوں میں نبی کی سیرت سے متعلق ہےتو ہر اس شخص پر واجب ہے جو اپنے نفس کا خیر خواہ ہے اس کی سعادت اور نجات کا متمنی ہے کہ وہ آپ کی سیرت , طریقہ اور زندگی کو جانے۔ ان کا کلام ختم ہوا۔

    میں بارگاہ الہی میں شیطان مردود سے پناہ مانگتا ہوں۔ اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے ایک روح آپ کی طرف وحی کی ہے۔ آپ کو پتہ نہیں تھا کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے؟ لیکن ہم نے اس روح کو نور بنادیا جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔بیشک آپ راہ راست کی رہبری کرنے والے ہیں اس اللہ کی راہ کی جو زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے,خبر دار رہو, سارے معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں (شورى/ 52-53).

    اللہ تعالى مجھے اور آپ کو قرآن عظیم و محمد کی سیرت سے فائدہ پہونچائے۔میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور میں اللہ سے اپنے لیے اور آپ کے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں۔آپ سب بھی اسی سے مغفرت طلب کیجیے اور اسی سے توبہ کیجیے بلاشبہ وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
     
    • اعلی اعلی x 3
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • مفید مفید x 1
  2. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    جزاکم اللہ خیرا۔ بے حد مفید شراکت۔
    اللھم صل علیٰ نبینا وحبیبنا وقدوتنا محمد

    اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دین کی سمجھ عطا فرمائے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  3. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,323
    اللہ تعالی جزائے خیر عطا کرے
    بہت ہی زبردست شئیرنگ کی ہے۔
     
  4. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    جزاک اللہ خیرا
     
  5. ام محمد

    ام محمد -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 1, 2012
    پیغامات:
    3,120
    جزاکم اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں