سعودیہ میں 47 دہشت گردوں کو پھانسی کی سزا

زبیراحمد نے 'اسلام اور معاصر دنیا' میں ‏جنوری 2, 2016 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. arifkarim

    arifkarim محسن

    شمولیت:
    ‏جولائی 17, 2007
    پیغامات:
    256
    آپکی بات درست ہے۔ البتہ انتظامیہ کو ایکشن لینا چاہئے اگر کوئی ممبر کسی دوسرے ممبر کیخلاف بے بنیاد الزامات لگائے۔اختلاف رائے کا حق دینا اچھی بات ہے پر اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ جس سے اختلاف ہو اسے قادیانی و شیعہ بنا کر پیش کر دیا جائے!
     
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    حیرت ہے اس کے ثبوت میں تم نے ویکی پیڈیا کا ربط کیوں نہیں ڈالا؟
    لوگ مجھے قادیانی تو کیا حنفی دیوبندی بھی نہیں کہتے۔ سب یہی کہتے ہیں کہ میں سلفی یا اہل حدیث ہوں، جنہیں زیادہ غصہ آتا ہو وہ مجھے وہابی کہہ لیتے ہیں۔ تو تمہیں یہ سوچنا چاہیے کہ زبان خلق تمہیں قادیانی کیوں کہتی ہے۔
    تمہارا قادیانی جماعت سے اتنا تعلق ضرور ہے کہ لوگ تمہیں قادیانی سمجھتے ہیں، اور کیوں سمجھتے ہیں اس کو الگ موضوع میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ہر جگہ اپنی مظلومیت کا ڈھول پیٹنے کی ضرورت نہیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • ظریفانہ ظریفانہ x 1
  3. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    کوئی تمہیں قادیانی کہے تو ظالم اور تم دوسروں کو تکفیری، جہادی، اور دہشت گرد بنا کر پیش کرتے رہو تمہیں آزادی ہے۔
    انتطامیہ کو سپیمرز کا دماغ اچھی طرح درست کرنا چاہیے تا کہ ہر جگہ یہ اپنا راگ لے کر نہ پہنچ جایا کریں۔ یہاں موضوع کیا ہے ایک بار دیکھ لو۔
     
    • ظریفانہ ظریفانہ x 1
  4. arifkarim

    arifkarim محسن

    شمولیت:
    ‏جولائی 17, 2007
    پیغامات:
    256
    کیا ہر چیز کیلئے وکی پیڈیا کا حوالہ درکار ہے؟

    زبان خلق تو نہیں کہتی۔ اکا دکا ممبران ہیں جو کہتے ہیں۔ اور ویسے بھی کسی کے مجھے قادیانی کہہ دینے سے کونسا میں نے قادیانی ہو جانا ہے۔ باقی لوگ آپ کو کیا کہتے ہیں، اس سے میرا کوئی لینا دینا نہیں۔

    یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ جو سمجھتے ہیں وہ کیوں سمجھتے ہیں۔ یہاں کونسا میں نے مرزا قادیانی یا اسکے ٹولے کے حق میں کوئی بات کہی جو میرے پر تواتر کیساتھ قادیانی ہونے کے من گھڑات الزامات لگ رہے ہیں۔

    میں نے کسی کو بھی تکفیری، جہادی ، دہشت بنا کر پیش نہیں کیا۔ یہ ایک اور بے بنیاد الزام ٹھوک دیا۔ میں نے یہ انہی کو کہا ہے کہ جو سر عام دہشت گردی میں ملوث ہیں اور یا تکفیری سوچ کو ماننے والے ہیں۔

    یہ مسئلہ خود انتظامیہ کے ہی ایک رُکن کی پوسٹ سے شروع ہوا تھا۔ دوبارہ چیک کر لیں۔
     
    • ظریفانہ ظریفانہ x 1
  5. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    عرب اور خلیجی ممالک کی موافقت کا حامل سعودی موقف سامنے آنے کے بعد، ایران نے تہران میں سعودی سفارت خانے والی سڑک کا نام نمر النمر کے نام سے موسوم کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ شیخ نمر کو دہشت گردی سے متعلق الزامات ثابت ہونے پر 46 دیگر ملزمان کے ساتھ سعودی عرب میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔

    یہ پیش رفت حکومت کے بعض شدت پسند حلقوں کی جانب سے سڑک کا نام تبدیل کرنے کی کوشش پر ایرانی وزارت خارجہ کے احتجاج کے بعد سامنے آئی ہے۔ اس سے قبل سعودی سفارت خانے اور قونصل خانے پر حملوں کی وجہ سے عالمی برادری کی جانب سے سخت مذمت میں اضافہ اور عرب دنیا کی جانب سے تہران کے بائیکاٹ کا فیصلہ سامنے آیا تھا۔

    اسی حوالے سے بڑھتے دباؤ کو کم کرنے کی کوشش میں، تہران حکومت نے سفارت خانے اور قونصل خانے پر حملے میٕں ملوث مزید افراد کی گرفتاری کا اعلان کیا ہے۔ ایرانی عدلیہ کے حکام کے مطابق حراست میں لیے گئے افراد کی مجموعی تعداد 66 ہو گئی ہے۔

    ایرانی خبر رساں ایجنسی "ارنا" نے تہران میں اٹارنی جنرل عباسر جعفری دولت آبادی کے حوالے سے بتایا ہے کہ "سعودی سفارت خانے پر دھاوے کے ملزمان سے تحقیق جاری ہے، اور اس سلسلے میں مزید گرفتاریاں ہو رہی ہیں"۔

    دوسری جانب ایرانی وزارت داخلہ کے ترجمان حسین امیری نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فضلی نے تہران کے سیکورٹی معاون صفر علی براتلو کو برطرف کر دیا ہے۔ اس اقدام کا سبب براتلو کی جانب سے تہران میں سعودی سفارت خانے کو تحفظ کی فراہمی میں کوتاہی بتایا جا رہا ہے۔

    ایران کی جانب سے یہ اقدامات اس سفارتی بحران سے نکلنے کی کوشش میں کیے گئے ہیں جس میں اس کو سعودی سفارت خانے کی آگ نے جھونک دیا تھا۔ بعض مبصرین کے نزدیک تہران کے حالیہ فیصلے بین الاقوامی اور عرب غیض وغضب کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہیں، اور اسی حوالے سے ایران "شرمندگی" پر مبنی اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ واقعے کی ذمہ داری "قانون کی زد سے باہر عناصر" یا "خفیہ طور پر مقامی لوگوں میں داخل ہو جانے والوں" پر ڈال رہا ہے۔

    http://urdu.alarabiya.net/ur/middle...و-اس-کے-نام-سے-موسوم-کرنے-کا-فیصلہ-واپس-.html
     
    • معلوماتی معلوماتی x 1
  6. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    دنیامیں امن سے بہترکوئی چیزنہیں ہے حتی الامکان کوشش امن کی کرنی چاہئے۔جنگ مسئلے کاحل نہیں ہوتی ہےبلکہ مذاکرات حل ہوتے ہیں جنگ کے بعدمذکرات کرنے ہی ہوتے ہیں توجنگ سے پہلے کیوں نہیں۔
     
    • متفق متفق x 1
  7. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    سعودی عرب میں دہشت گردوں بالخصوص نمر النمر نامی باغی شیعہ لیڈر کو دی گئی سزائے موت پر جہاں ایک جانب ایرانی پیشواؤں نے پیالی میں طوفان اٹھا رکھا ہے وہیں تہران سرکار کے اس طرز عمل پر ایران کے اندر سے بھی کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔

    العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریبی عزیز نے حال ہی ان کے نام خط لکھا ہے جس میں خامنہ ای کی دوغلی پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ خامنہ ای کے ماموں اپنے مکتوب میں راقمطراز ہیں کہ "سعودی عرب میں نمر النمر کی پھانسی کی بڑے پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے مگر خود دوسروں کی تنقید کا ایک لفظ تک برداشت نہیں کر سکتے۔"

    سپریم لیڈر کے ماموں حسین میردامادی نے اپنے بھانجے [علی خامنہ ای] کو بھیجے طویل مکتوب میں لکھا ہے "کہ ایران کی جیلیں حکومت پر تنقید کرنے والے سیاسی کارکنوِں، صحافیوں اور دیگر شہریوں سے بھری پڑی ہیں۔"

    میردامادی نے اپنے مکتوب میں اصلاح پسند اپوزیشن رہ نماؤں میر حسین موسوی اور مہدی کروبی کی گھروں میں جبری نظر بندی پر بھی تنقید کی اور استفسار کیا کہ جبری نظر بندی کی سزا بھگتنے والوں میں کس کس نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے جس کی انہیں سنگین سزا دی جا رہی ہے؟۔

    خامنہ ای کے ماموں نے ایران میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سپریم لیڈر سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک میں ایسی مضر پالیسیوں اور خلاف قانون اقدامات کی روک تھام کرائیں کل کو جن کی تلافی نہ کی جا سکے۔

    یہاں یہ امر بھی قابل ذکر رہے کہ خامنہ ای کے ماموں کا بیٹا سراج الدین میر دامادی صحافی، سیاسی کارکن اور اصلاح پسند رہ نما ہیں مگر وہ بھی حکومت کے زیرعتاب ہیں اور پچھلے دو برس سے پابند سلاسل ہیں۔

    خامنہ ای کو ظالمانہ پالیسیوں پر اپنے ہی خاندان کی تنقید کا ایک ایسے وقت میں سامنا کرنا پڑا ہے جب سعودی عرب میں چند روز قبل سینتالیس دہشت گردوں کی سزائے موت پر تہران سیخ پا ہے۔ ایرانی رہبر انقلاب آیت اللہ علی خامنہ ای نے دہشت گردی میں ملوث مجرموں کو پھانسی دینے پر سعودی عرب کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور دھمکی دی کہ ریاض کی اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔

    خامنہ ای اور دوسرے ایرانی لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات کے بعد تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانے اور مشہد میں قونصل خانے پر مشتعل ھجوم نے حملے کر کے انہیں نذر آتش کرنے کی گھناؤنی کوشش کی تھی جس کے رد عمل میں سعودی عرب نے تہران سے سفارتی تعلقات ختم کر لیے ہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے ایران سے سفارتی تعلقات توڑنے کا اعلان کرتے ہی کئی دوسرے عرب ممالک سوڈان، جیبوتی اور جزائر القمر نے بھی ریاض کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ایران سے اپنے سفیر واپس بلا لیے۔

    http://urdu.alarabiya.net/ur/editor...مت-مگر-خود-تنقید-کا-ایک-لفظ-برداشت-نہیں-.html
     
  8. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    یعنی تم قادیانیت کا اینٹی ڈوٹ لیے لیے پھرتے ہو پھر بھی لوگ تمہیں قادیانی کہتے ہیں؟ دکھ ہوا تمہاری مظلومیت پر۔
    جہاں تک مجھے یاد ہے تم "روحانی خزائن" کے حوالے دینے کے علاوہ "مسیح ناصری" کا ذکر کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ بس اسی لیے لوگوں کو تم پر شک ہے۔
    مجھے البتہ یقین ہے کہ تم پورے قادیانی بھی نہیں، بلکہ موسم اور علاقے کے حساب سے مسلمان، قادیانی، ملحد، کچھ بھی بن کر بحث چھیڑ لیتے ہو۔
     
  9. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    ایران کا سعودی سفارت خانے پر حملے کے ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری کا دعویٰ
    ایرانی وزارت داخلہ میں انٹیلجنس امور کے نائب حسین ذوالفقاری نے تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملے کے "ماسٹر مائنڈ" کی گرفتاری کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ کارروائی کی پیشگی منصوبہ بندی ایک گروپ نے کی تھی جو اپنی مذہبی سرگرمیوں کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔

    مذکورہ ایرانی سیکورٹی اہل کار نے گروپ کی شناخت یا گرفتار ہونے والے شخص کا نام ظاہر نہیں کیا۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ "ایرانی انٹیلجنس اس شخص کو بیرون ملک سے گرفتار کر کے لائی ہے اور اب اس کے ساتھ تحقیقات جاری ہیں"۔ ایرانی اہل کار نے بیرون ملک سے گرفتاری کے طریقہ کار کو بھی واضح نہیں کیا، جس سے مطلوب شخص کے "اغوا" کیے جانے کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا دروازہ بھی کھل جاتا ہے۔

    اس سے قبل ایرانی ایجنسیوں نے، صوبوں کے گورنروں کے ساتھ ذوالفقاری کے اجلاس میں ان کے اس بیان کا حوالہ دیا تھا کہ "حملے کی منصوبہ بندی کرنے والا گروپ دارالحکومت تہران اور کرج شہر میں دس برسوں سے سرگرم ہے اور اسے ایرانی حکومت کے بڑے اور سینئر ذمہ داروں کی حمایت حاصل ہے"۔ ذوالفقاری نے سعودی سفارت خانے کی حفاظت میں پولیس اور وزارت داخلہ کی جانب سے غفلت کا اعتراف کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ "اعلی حکام کی جانب سے یہ احکامات جاری کیے گئے تھے کہ دھاوے کی کارروائی میں کسی قسم کی مداخلت نہ کی جائے"۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حملہ آوروں کو جمع کرنے کے لیے کوآرڈینیشن سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹیلیگرام کے ذریعے عمل میں آئی۔ ذوالفقاری نے باور کرایا کہ "سیکورٹی ادارے تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملے سے متعلق رپورٹ مرشد اعلیٰ علی خامنہ ای کو پیش کریں گے"۔ واضح رہے کہ خامنہ ای نے بدھ کے روز ایک بیان میں سعودی سفارت خانے پر حملے کو "بدترین اور انتہائی شرمناک کارروائی" قرار دیا تھا۔

    ماسٹر مائنڈ کی شناخت
    دوسری جانب فارسی زبان کے ذرائع ابلاغ میں جن میں وائس آف امریکا (فارسی سروس) شامل ہے، یہ قیاس آرائی گردش کر رہی ہے کہ گرفتار کیا جانے والا شخص "حسن کرد میہن" ہو سکتا ہے۔ جو "جماعت شیرازی" سے تعلق رکھنے والی ایک مذہبی شخصیت ہے۔ اس جماعت کی نسبت شدت پسند مذہبی رہ نما صداق الشیرازی کی طرف کی جاتی ہے جو عرب ممالک میں انتہا پسند شیعہ تحریکوں کو سپورٹ کرتا ہے۔

    وائس آف امریکا کی رپورٹ میں ذوالفقاری کے اس بیان کو کہ بیرون ملک سے ایک شخص نے سفارت خانے پر حملے کے احکامات دیے،،، حسن کرد میہن کے بیان سے جوڑا گیا ہے جس میں میہن نے سعودی سفارت خانے پر حملے اور آگ لگانے کی کارروائی کا بھرپور دفاع کیا تھا۔

    سفارت خانے پر حملے کے حوالے سے ایرانی موقف میں تضادات کی بھرمار پائی جاتی ہے۔ اس میں تہران کے اٹارنی جنرل کا وہ بیان بھی شامل ہے جس میں انہوں نے سفارت خانے پر حملے میں ملوث 154 افراد کی گرفتاری کا اعلان کیا ہے، تاہم ان کی جانب سے بھی گرفتار شدگان کی شناخت اور ان کے پیچھے کام کرنے والے خفیہ ہاتھوں کے بارے میں کوئی انکشاف نہیں کیا گیا۔

    مرشد اعلیٰ کا موقف
    ایرانی مرشد اعلیٰ علی خامنہ ای نے بدھ کے روز اپنے خطاب میں سعودی سفارت خانے پر حملے کے حوالے سے "ایرانی انقلابی کارکنوں اور حزب اللہ کے نوجوانوں" کی جانب الزامات کی انگلیاں اٹھائے جانے کو یکسر طور پر مسترد کر دیا تھا۔ یہ حملے کی ذمہ داری سے بے تعلقی کے اظہار اور "خفیہ طور پر دراندازی کرنے والے قانون کی پہنچ سے دور عناصر " پر الزام ڈالنے کی کوشش تھی۔

    اگرچہ ایران نے 2011ء میں برطانوی سفارت خانے پر حملے کے تمام تر نتائج کو قبول کرتے ہوئے تمام نقصان کی ادائی کے ساتھ برطانیہ سے معذرت بھی کی تھی۔ تاہم وہ سعودی سفارت خانے پر حملے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے لاتعلق ہونے کی کوشش کر رہا ہے، جب کہ یہ کارروائی سیکورٹی فورسز اور پولیس کی آشیرباد کے تحت عمل میں لائی گئی اور اس میں ایرانی حکومت کے سینئر اہل کاروں کے نزدیک سمجھی جانے والی مشہور شدت پسند شخصیات بھی شریک تھیں۔

    حملہ آوروں کی شناخت
    اس سے قبل معتبر ایرانی ذرائع ابلاغ نے جس میں اصلاح پسند لیڈر مہدی کروبی کے قریب سمجھی جانے والی ایجنسی "سحام نیوز" شامل ہے، سفارت خانے پر حملہ کرنے والوں کی شناخت کا انکشاف کیا تھا۔ اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ حملہ آور میلیشاؤں کا تعلق ملک میں "ایرانی حزب اللہ" کے نام سے پہچانے جانے والے بلاک سے ہے۔ اور اس سے نسبت رکھنے والے افراد ایرانی پاسداران انقلاب کے زیرانتظام تحریک "بسیج" کے صدر دفاتر کے ارکان ہیں۔

    ایجنسی کے مطابق تہران کے شمال مشرقی حصي میں فوجی علاقے "شہید محلاتی" کے ایک گروپ نے سعودی سفارت خانے کی عمارت پر حملہ کر کے آگ لگائی اور اس کا سامان لوٹ لیا۔ یہ چیز مرشد اعلی اور ایرانی حکومت کے دعوؤں کا پول کھول دیتی ہے جو سارا الزام "بیرون ملک موجود اور قانون کی پہنچ سے باہر عناصر" پر ڈال رہے ہیں۔

    "سحام نيوز" نے گروپ کے ایک رکن کے حوالے سے جو خود بھی حملہ آوروں میں شامل تھا، بتایا ہے کہ "بسیج کے ارکان اپنے ایک صدر دفتر میں جمع ہوئے تاکہ سفارت خانے پر حملے کی کارروائی کرسکیں اور یہ صدر دفتر "الشہید مہتدی مرکز" تھا۔ اس کے بعد انہیں کارروائی کے لیے بھیجا گیا جہاں وہ دستی بموں اور پیٹرول بموں کو پھینکنے کے لیے خصوصی اسلحہ بھی لیے ہوئے تھے، بعد ازاں ان بموں کے ذریعے عمارت کو آگ لگا دی گئی"۔

    اس ذریعے کے مطابق "بسیج کے حملہ آور ارکان نے سفارت خانے کو سامان لوٹ کر اسے عمارت کے بارہ منتقل کیا، اگرچہ سعودی سفارت خانے کے اہل کار اہم دستاویزات کو اپنے ساتھ لے جا چکے تھے جب کہ کم اہم کاغذات کو عمارت میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ بسیج کے ارکان کمپیوٹروں ، موبائل فونز اور دیگر انتظامی اشیاء کو مال غنیمت کے طور پر اپنے گھروں کو لے گئے تھے"۔

    http://urdu.alarabiya.net/ur/middle...-حملے-کے-ماسٹر-مائنڈ-کی-گرفتاری-کا-دعویٰ.html
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں