موجودہ حکمران کافر نہیں بنتے،الشیخ ذکا اللہ سندھی حفظہ اللہ

Umer Hisham نے 'فتنہ خوارج وتكفير' میں ‏مارچ 11, 2016 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. Umer Hisham

    Umer Hisham نوآموز

    شمولیت:
    ‏مارچ 6, 2016
    پیغامات:
    21
    موجودہ حکمران کافر نہیں بنتے،
    تکفیریوں کا اپنی کتاب میں اعتراف!
    الشیخ ذکا اللہ سندھی حفظہ اللہ
    کفار کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے قتال کرنے سے کوئی بھی شخص کافر نہیں ہوتا وہ حاکم ہو یا فوجی اور یہ عمل ولاء میں تو شامل ہے لیکن تولی میں نہیں۔ اس بات کا اعتراف خود تکفیریوں نے کیا ہے۔ اور اس اصول کی روشنی میں موجودہ دور کے حکام کافر نہیں بنتے۔ ابوعمروعبدالحکیم کی مشہور تصنیف ''التبیان'' جسکو تکفیری حضرات بہت زوروشور سے پھیلانے پرتلے ہوئےہیں،اوراسی کتاب کو اپنے موقف کی وضاحت کے لیے حرف آخر کہتے ہیں۔ ہم آپکے سامنے اسی کتاب کے صفحہ 58 سے 61 تک اقتباس سے بیان کریں گے کہ کفار سے دوستی کب انسان کو کافر بناتی ہے اور کب صرف گنہگار بناتی ہے۔

    ملاحظہ فرمائیں التبیان سے اقتباس :

    ابوعمروعبدالحکیم لکھتا ہے:

    ” لفظ المُوالَاۃِ اور التَّوَلِّی میں ایک دقیق فرق

    یہاں ایک بڑا لطیف علمی نکتہ بھی سمجھنے کے قابل ہے ۔وہ یہ کہ عربی زبان میں دوستی کے لیے ایک لفظ ’’المُوَالَاۃ‘‘ استعمال ہوتا ہے اور ایک لفظ ’’التَّوَلِّی‘‘ استعمال ہوتا ہے۔لفظ الموالاۃ تو قربت، نزدیکی، پیروی، مدد، تعاون، محبت، دوستی اور غلامی وغیرہ کے معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔لیکن لفظ ’’التَّوَلِّی‘‘ بطورخاص صرف اور صرف سیدھی صاف پیروی اور نصرت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

    یہی وہ معنی ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں وارد ہوا ہے ،جو اللہ تعالیٰ نے شیطان کے بارے میں فرمایا :

    [ كُتِبَ عَلَيْهِ أَنَّهُ مَنْ تَوَلاهُ فَأَنَّهُ يُضِلُّهُ وَيَهْدِيهِ إِلَى عَذَابِ السَّعِيرِ ]

    ’’اس )شیطان(پر )اللہ کا فیصلہ (لکھ دیا گیا ہے کہ جو کوئی اس کی پیروی کرے گا وہ اسے گمراہ کردے گا اوراسے آگ ک عذاب کی طرف لے جائے گا‘‘ (الحج:4)

    مذکورہ آیت کریمہ میں مَنْ تَوَلَّاہُ کامعنی یہ ہے کہ ’’جو اس کی پیروی کرے گا ‘‘ لفظ ’’التَّوَلِّی‘‘ کا دوسرا مخصوص معنی ’’مدد ونصرت‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے ایک دوسرے فرمان میں وارد ہوا ہے۔

    اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

    [إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ]

    ’’اللہ تعالیٰ تمہیں صرف ان لوگوں کی مدد وتعاون سے روکتا ہے جنھوں نے تم سے لڑائیاں لڑیں اور تمہیں دیس نکالے دیے اور دیس نکالا دینے والوں کی مدد کی جو لوگ اس قسم کے کافروں کی مدد ونصرت کریں گے وہ پکے ٹھکےظالم لوگ ہوں گے‘‘ الممتحنۃ : 9

    مذکورہ آیت کریمہ میں بھی أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ کامعنی یہ ہے کہ ’’تم ان کی مدد ونصرت کرواور جو شخص بھی ان کی مدد ونصرت کرے گا تویہی لوگ ظالم ہوں گے ‘‘

    اسی طرح قرآن مجید میں ایک مقام پر ’’التَّوَلِّی‘‘ مددونصرت کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے ۔

    اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

    لاَ تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اﷲُ عَلَیْہِمْ . . . .

    اے مسلمانو!(ایسی قوم کی مددونصرت نہ کرو جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا ہے….‘‘

    مذکورہ آیت کریمہ میں لاَ تَتَوَلَّوْا کامعنی ہے کہ تم دوستی نہ کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور فرقان حمید میں اپنا ایک خصوصی وصف بیان کیا ہے کہ میں مومنوں کا حامی ومددگار ہوں ۔

    اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

    اللہُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔

    ’’ایمان لانے والوں کا اللہ تعالیٰ خود مددگار ہے ،وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف خود لے جاتا ہے اور کافروں کے مددگار شیاطین ہیں وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں یہ لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے ‘‘
    البقرۃ: 257

    مذکورہ آیت میں بھی ﷲُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ وارد ہوئے ہیں ۔ان الفاظ کا معنی ہے کہ’’اللہ تعالیٰ خود مددگار ہے ان لوگوں کا جو ایمان لائے ہیں ۔‘‘ لہٰذا اس آیت میں’’وَلِیُّ‘‘ کامعنی مددگار ہے ۔اس طرح مذکورہ آیت میں وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ کے الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں۔ان الفاظ کا معنی ہے ’’وہ لوگ جو کافر ہیں ان کے مددگار طاغوت ہیں ۔‘‘اس آیت میں اولیاء کا معنی “زیادہ تعداد میں مددگار‘‘ہے۔علیٰ ہٰذا القیاس۔ اللہ تعالیٰ کے کلام پاک قرآن مجید میں ایک اور مقام پر بھی یہ لفظ مددگار کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

    اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

    فَإِنَّ اللہَ هُوَ مَوْلاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ

    ’’یقینا اس (رسول اللہﷺ) کا مددگار اور کارساز تو اللہ تعالیٰ ہے ،جبریل ہے اور نیک اہل ایمان ہیں اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں‘‘
    (التحریم:4)

    مذکورہ آیت میں لفظ ’’مَولَاہُ‘‘ کامعنی ’’اس کامددگار ‘‘ہے۔ نیز قرآن مجید کے ایک اور مقام پربھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور وہاں بھی یہ مددگار کے معنی میں ہی ہے ۔

    اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

    ذٰلِکَ بِاَنَّ اﷲَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لاَ مَوْلٰی لَہُمْ

    اللہ تعالیٰ نے کافروں کو سزائیں دیں (اس لیے کہ ایمان والوں کا مددگار اور کارساز خود اللہ تعالیٰ ہے اورکافروں کا کوئی بھی مددگارنہیں ہے‘‘
    سورۃ محمد:4

    مذکورہ آیت کریمہ میں بھی لفظ ’’مَولیٰ‘‘ دودفعہ استعمال ہوا ہے ۔دونوں جگہ اس کامعنی ومددگار اور کارساز ہے ۔ یہ چند آیات بطور مثال ذکر کی گئی ہیں ان کے علاوہ جہاں جہاں بھی یہ لفظ وارد ہوا ہے اکثر وبیشتر اِسی معنی میں ہے ۔ مذکورہ بالا ساری گفتگو کالب ولباب یہ ہے کہ لفظ ’’التَّوَلِّی‘‘ لفظ ’’المُوَالَاۃ‘‘ سے زیادہ خصوصیت کا حامل ہے۔ ’’التَّوَلِّی‘‘ کامطلب یہ ہے کہ’’عَلَی الاِطلَاق‘‘ غیر مشروط طور پر پیروی اور فرمانبرداری کرتے جانا اورپوری پوری مدد ونصرت کرنا۔‘‘

    مذکورہ بالا گفتگو سے یہ بھی معلوم ہوا کہ التَّوَلِّی اور المُوَالَاۃ کے درمیان عموم اور خصوص کی نسبت ہے ۔ ’’التَّوَلِّی‘‘ اور’’المُوَالَاۃ‘‘ کے مابین بیان کیے گئے اِسی فرق کو ہی ملحوظ رکھتے ہوئے الشیخ عبداللہ بن عبداللطیف رقمطراز ہیں :

    ’’التَّوَلِّی کُفْرٌ یُخرِجُ مِنَ المِلَّۃِ وَ ھُوَ کَالذَّبِّ عَنْھُمْ وَ اِعَانَتِھِمْ بِالْمَالِ وَالْبَدْنِ وَالرَّأْیِ ۔ وَالمُوَالَاۃُ کَبِیْرَۃٌ مِنَ الْکَبَائِرِ ۔ کَبَلَّ الدَّوَاۃِ وَ بَرِیِ الْقَلَمِ وَالتَّبَشُّشِ أَوْ رَفْعِ السَّوْطِ لَھُم۔‘‘

    ’’کافروں کے ساتھ التولی والا تعلق واضح کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے ۔مثلاً

    کافروں کا بھرپور دفاع کرنا ۔

    نیز دامے ،درہمے ،سخنے اور قدمے ان کا پورا تعاون کرنا ۔

    جبکہ کافروں سے المُوَالَاۃ جیسا دوستانہ تعلق اگرچہ ملتِ اسلامیہ سے نکالنے والا کفر نہیں مگر وہ کبیرہ گناہوں میں سے ایک بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے۔‘‘ مثلاً

    کافروں کی خاطر اپنے قلم وقرطاس کو حرکت میں لانا اور

    ان کی پالیسیوں کی حمایت میں مضامین (Articles) تحریرکرنا۔

    کافروں کو خوش کرنے کے لیے ان کی خاطر بچھ بچھ جانا اور صدقے واری جانا۔

    مسلمانوں کے خلاف پولیس وفوج کو حرکت میں لے آنا اور گولی وبندوق کا رخ مسلمانوں کی طرف کردینا ۔

    یہ سب اعمال کبیرہ گناہوں میں سے ہیں ۔‘‘

    (التبیان،ترجمہ دوستی دشمنی کا معیار از ابوعمروعبدالحکیم حسان صفحہ 58تا61)

    (التبیان سے اقتباس ختم ہوا)

    قارئین اس اقتباس میں آپ نے تکفیریوں کی ہی کتب میں بڑی وضاحت کے ساتھ پڑھ لیا ہے کہ کافروں سے التولی والا تعلق واضح کفر ہے،یعنی ان کا بھرپور دفاع کرنا جبکہ کافروں سے المولاۃ جیسا دوستانہ تعلق انہیں اسلام سے خارج نہیں کرتا بلکہ گناہ کبیرہ کامرتکب کردیتا ہے،اور اس کی مثالیں بھی دی ہیں جیسے کافروں کی خاطر اپنی قلم اور قرطاس چلانا،کفار کو خوش کرنےکےلیے بچھ بچھ جانا اور کفار کی خاطر مسلمانوں کے خلاف تلوار،بندوق یا گولی چلانایہ سب اعمال المولاۃ میں شامل ہیں،اور یہ کام انسان کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتے،بلکہ گنہگار کرتے ہیں۔ اور موجودہ حکام اسی زمرہ میں آتے ہیں!
     
    • متفق متفق x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں