صحابیات رسول کی قرآن سے محبت اور اس پر عمل کا جذبہ

عائشہ نے 'سیرتِ سلف الصالحین' میں ‏جنوری 8, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    صحابیات (رضی اللہ عنہن) پر قرآن مجید کا شدت سے اثر پڑتا تھا۔ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہﷺ سے فرمایا کہ قرآن مجید کی یہ آیت:
    مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِجو برا کرے گا اس کی سزا پائے گا (سورۃ النساء4: 123) نہایت سخت ہے۔ ارشاد ہوا: عائشہ تم کو خبر نہیں کہ مسلمان کے پاؤں میں اگر ایک کانٹا بھی چبھ جاتا ہے تو وہ اس کے اعمالِ بد کا معاوضہ ہو جاتا ہے۔ بولیں لیکن خدا کہتا ہے:فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًااس کا حساب تو بڑی آسانی سے لیا جائے گا (سورۃ الانشقاق 84: آیت 8)فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عمل خدا کی بارگاہ میں پیش ہو گا، عذاب اسی کو دیا جائے گا جس کے حساب میں ردوقدح ہو گی۔ اس اثر پذیری کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابیات (رضی اللہ عنہن وارضاھن) نہایت سرعت کے ساتھ قرآن مجید کے احکام پر عمل کرنے کو تیار ہو جاتی تھیں۔
    حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ نے حضرت سالم کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا اس لیے زمانہ جاہلیت کے رسم ورواج کے مطابق ان کو حقیقی بیٹے کے حقوق حاصل ہو گئے تھے لیکن جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:

    ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚوَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
    لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے۔ پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو وه تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناه نہیں، البتہ گناه وه ہے جس کا تم اراده دل سے کرو۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے واﻻ مہربان ہے ( سورۃ الاحزاب 33: آیت 5)
    تو ان کی بی بی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ سالم پہلے ہمارے ساتھ گھر میں رہتے تھے اور ان سے کوئی پردہ نہ تھا اب آپ کا کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ دودھ پلا دو تمہارے رضاعی بیٹے ہو جائیں گے۔ (ابوداؤد: کتاب النکاح، باب من حرم بہ)
    زمانہ جاہلیت میں عرب عورتیں نہایت بے پروائی کے ساتھ دوپٹہ اوڑھتی تھیں اس لیے سینہ اور سر وغیرہ کھلا رہتا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
    وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖوَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّـهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
    مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ﻇاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ﻇاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں، اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ﻇاہر نہ کریں، سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں۔ اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیده زینت معلوم ہوجائے، اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔ (سورۃ النور 24: آیت 31)
    اس کا یہ اثر ہوا کہ عورتوں نے اپنے تہہ بند اور متفرق کپڑوں کو پھاڑ کر دوپٹے بنائے اور اپنے آپ کو سیاہ چادروں سے اس طرح ڈھانپ لیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کے مطابق یہ معلوم ہوتا تھا کہ ان کے سر کوؤں کے آشیانے ہیں۔ (ابوداؤد: کتاب اللباس، باب فی قول اللہ تعالی ولیضربن بخمرھن)

    (اقتباس از سیرالصحابیات: مصنف مولانا سعید انصاری، باب عمل بالقرآن، یونیکوڈ تحریر ناچیز )
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں