بچوں کی پرورش میں والدین کا رول

کنعان نے 'مثالی معاشرہ' میں ‏اپریل 8, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. کنعان

    کنعان محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 18, 2009
    پیغامات:
    2,852
    بچوں کی پرورش میں والدین کا رول
    07/04/2017

    بچہ والدین کے لیے خدا کا انمول تحفہ ہے ۔ ہم نے ابھی تک اس بات پرغور کیا ہے کہ بچوں میں کیا کیا ذہانت اور صلاحتیں پوشیدہ ہیں۔ بچوں میں ایک بن کر ہم ان کے ساتھ رہیں تو یہ بات واضح ہو جائے گی۔ والدین کی حیثیت سے ہماری مدد ، سہارا اور رہنمائی انھیں کامیابی کی سمت گامزن کرے گا۔ ہم ایک مددگار یا معاون کے طور پر ان کے ساتھ رہیں تو وہ خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ وہ کبھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہوں گے۔ اس لیے والدین اپنے بچوں پر یقین کریں۔ بچہ پیدائشی طور پر ہمہ جہت صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔ ان کی ذہانت کا جدید کمپیوٹر بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ بچوں کی تخلیقی قوت اور صلاحیتوں کو ہم روزانہ دیکھتے ہیں۔

    والدین کا سب سے بڑا فرض یہ ہوتا ہے کہ بچوں میں یقین اور خود اعتمادی پیدا کریں، ایسا کرنے پر قابل تعریف کارنامے وہ انجام دیتے ہیں۔ جاہل، نادان، بے وقوف وغیرہ ناموں سے انھیں مخاطب کرنے سے ان پر ذہنی پریشانی اور دباؤ پیدا ہوتا ہے۔ بچوں میں دباؤ اور ذہنی کشمکش پیدا ہونے پر اس کے منفی یا بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    تعلیم ایک مسرت خیز عمل ہونا چاہیے مگر افسوس کی بات ہے کہ تعلیم کے دوران بچے کو مختلف جسمانی اور دماغی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچوں کو سزا دینے یا ذہنی دباؤ ڈالنے کے خلاف قانون ہے۔

    بچوں کے حقوق کا کمیشن ایکٹ (RTA 2005) کے ذریعے سرپرستوں سے متعلق جو ذمہ داریاں بیان کیں ہیں وہ درج ذیل ہیں:

    • والدین اور سرپرستوں کے ساتھ نہایت خاکساری سے پیش آنا چاہیے ۔
    • بچے کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لیے استاد کو والدین اور بچوں کے دوستوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہیے ۔
    • معلم اور سرپرستوں کے تعلقات خوشگوار وہو تو استاد اور طالب علم کا رشتہ بھی زیادہ مظبوط ہوتا ہے۔
    • اکثر والدین اپنے بچوں کے اسکول کے اندر اور باہر کے چال چلن کے بارے میں ان کے اساتذہ سے معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
    • بچوں کی ترقی اور نشونما کے مختلف مراحل میں ان کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ممکنہ خامیوں کا والدین سے مشاورت کرنا بڑی بڑی مصیبتوں سے بچانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
    • بچوں کی عزت اور غیرت کو چوٹ پہنچانے والی حرکت سے احتیاط کرنا چاہیے۔
    • دیگر طلباء کے سامنے بچوں کی خوداری کو ٹھیس پہنچانا ، توہین کرنا وغیرہ سے گریز کرنا چاہیے۔
    • اسی طرح بچوں کے والدین کی عزت کو ٹھیس پہنچانے والی بات نہ کرے۔
    • کسی بھی ایک طبقے کے بچوں کے پس منظر (ذات پات،مالی حالات) کی تعریف کرنا دوسرے بچوں میں ناراضگی یا احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔

    (2)
    والدین اپنے بچوں کو کسی نہ کسی طرح اعلیٰ نمبر پر پہنچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اپنی امیدوں اور خواہشات کی تکمیل کے لیے بچوں کو ایک آلہ کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ والدین کی امیدوں پر پورا پورا اُترنے کے لیے بچے حتی المکان کوشش کرتے ہیں، اس دوران وہ مختلف ذہنی اور نفسیاتی پریشانیوں سے گزرتے ہیں۔ اگر بچے ہار جائیں یا غلطیاں کریں تو والدین کی طرف سے سخت الزامات اور ہدایتیں آتی ہیں۔ اس کی وجہ سے بچے اور بھی پریشان ہو جاتے ہیں۔ بچوں کی محنت اور کوششوں کو ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔ ایک مسکراہٹ یا بلائیں لینا یا حوصلہ افزائی کرنے والا ایک جملہ کہنے پر بچے زیادہ خود اعتماد ہوجاتے ہیں۔

    کرے جو کام جراحت کا وہ کلام نہیں
    کلام وہ ہے جو پتھر کو بھی پھول کردے

    (بشیر بدر)

    گھر بچوں کی پہلی درسگاہ ہے۔ والدین ان کے پہلے استاد ہیں۔ بچوں کی شخصیت تشکیل میں گھر کا بڑا رول ہے۔ بچپن ، بچوں کی زندگی کا نہایت نازک دور ہے ، اس دور میں والدین نہایت غور و فکر ، توجہ اور دلچسپی کے ساتھ بچوں سے پیش آنا چاہیے ۔ بچوں کی ترقی میں اپنے ماحول کا بڑا اثر ہے ۔ بچوں کی صلاحیت اور ذہانت کے موافق ماحول اور موقع نہ ملنے پر ان کی صلاحیتی ترقی کی رفتار دھیمی ہو جاتی ہے ۔

    گھر اور اس کے آس پاس ، والدین، خاندان، کھلونے، دوست، رشتے دار وغیرہ بچوں کے تجربات ذرائع یا بنیاد ہے ۔ ماحول کا بچوں کی تعلیم اور ترقی میں بڑا رول ہے ۔ پیدائش سے ہی بچے ان ماحول سے وابستہ ہوتے ہیں۔

    والدین کا اولین فرض یہ ہوتا ہے کہ بچے کو بطور شہری تسلیم کر لے۔ بچہ کی خو د اپنی شخصیت ہے ۔ ایک شہر ی کے تمام حقوق ان کو ملنا چاہیے۔

    قومی تعلیمی حقوق کا قانون (RTA-2005) میں بچوں کے حقوق یوں پیش کیے ہیں:


    (3)
    بچوں کو اظہار خیال کرنے اور اپنے جذبات و تاثرات ظاہر کرنے کا حق ہے۔ ان کو خود اپنی رائے کی تشکیل کرنے کی آزادی ہے ۔

    • معلومات حاصل کرنے اور اظہار خیال کے لیے میڈیا کا سہارا لینے کا حق ہے۔
    • اطمینان کے ساتھ جمع ہونے اور سماجی میل جول پیدا کرنے کا حق ہے ۔
    • بچوں کے ذاتی ، خاندانی مسائل میں اور ان کے خط وکتابت میں دخل اندازی نہ کرے۔ ایسی حرکتیں ان کی عزت کا سوال ہے ، اس کے خلاف بچوں کو قانونی کارروائی کرنے کا حق ہے۔
    • والدین بچہ کی شخصیت کی تشکیل کے لئے موقع فراہم کریں۔ ہر وقت سخت ہدایتیں اور فیصلہ سنا کر انھیں تنگ نہ کریں اور ان کی شخصیت اور فطرت کو نظر انداز نہ کریں۔ بچوں میں مسائل کشائی کی صلاحیت (Problem Solving Ability) پیدا کرنا والدین کی ذمہ داری ہے ۔ خوشی کے ساتھ آزادانہ اور نڈر ماحول میں بچے تعلیم حاصل کریں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج کل تعلیم کے دوران کئی مشکلات سے دوچار ہیں۔ بچپن میں والدین ہمیشہ ان کے محافظ اور مددگار بنے رہیں۔ گلے ملنے، چومنے اور بلائیں لینے سے انھیں جو توانائی ملتی ہے وہ بچوں کو متحرک بناتی ہے ۔ ان کے حواس خمسہ (Sensory Organs) زیادہ طاقت ور ہوجاتے ہیں۔ والدین کی طرف یہ نہ ملنے پر ان کی ذہنی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

    والدین کی طرف سے حوصلہ افزائی ہونے پر وہ ذاتی طور پر متحرک ہو کر زیادہ ذوق و شوق کے ساتھ کاموں میں مصروف ہوتے ہیں۔ جن لوگوں میں خود اعتمادی کم ہوتی ہے وہ زندگی کے مسائل کا سامنا نہیں کرسکتے۔ والدین کی باتیں خوداعتمادی اور ہمت افزائی کرنے والی ہو۔ بچوں میں تناؤ پیدا کرنے والی اور توہین کرنے والی باتوں سے پرہیز کریں۔ بچوں سے ہر ایک بات سوچ سمجھ کر نہ کریں۔

    گھر کا ماحول بچوں کے لئے اطمینان بخش اور مسرت خیز ہونا چاہیے۔ گھر کا ماحول سازگار ہو تو اس کا مثبت اثر بچوں پر پڑتا ہے ۔ خوشی اور اطمینان کے ساتھ گھر میں رہنا بچوں کا حق ہے ۔ والدین ہمیشہ بچوں کے پاس نہ رہیں۔ ان کو خود اختیاری اور آزادی کو مان لینا چاہیے۔ ہر کام کے لئے بچے خود مختفی ہونے کے لئے آزادی ضروری ہے ۔ زندگی کے چیلنج کا بچے خود سامنا کریں۔ گرتے وقت وہ خو د سنبھلے گا۔ ’ہائے میرے لاڈلے کو کیا ہوا‘ یہ کہہ کر ان کے ساتھ رہنے پر ان کی خود اعتمادی مٹ جائیگی۔ حد سے زیادہ پیار کر کے ان کی شخصیت کو مجروح نہ کریں۔


    (4)
    بچوں کے متعلق اچھی امیدیں اور خواہشیں رکھنا اچھی بات ہے لیکن والدین کی امیدیں بچوں کے اوپر ڈالیں، اس میں بچوں کی فطرت اور پسندیدگی کا خیال رکھیں۔ آج کل والدین دن رات پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں، پڑھائی ، امتحان، ٹیوشن وغیرہ کے درمیان بچوں سانس لینے کا وقت نہیں ملتا:

    رات آئی بچوں کو پڑھانے میں لگا ہوں
    جو خود نہ بن سکا ان کو بنانے میں لگا ہوں

    بچپن میں ہر ایک بچہ میں جذباتی آزادی (Emotional Freedom) اور خود اختیاری کی صلاحیت (Autonomy) ظاہر ہوتی ہے۔ ہر ایک کام خود کرکے دیکھنے اور آزادی کے ساتھ عمل کرنے کے وہ شوقین ہوتے ہیں۔ کھانا ، کپڑا پہننا، نہانا وغیرہ وہ خود اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس ماں زور زبردستی سے اس کو کھلانا ، پلانا شروع کرے تو بچہ مانتا نہیں ہے۔ ہمیشہ بچوں کے کاموں میں دخل اندازی کرنے سے ان کی خود اختیاری مٹ جاتی ہے ۔ اس کی وجہ والدین کی ہدایت اور بچوں کی فطری صلاحیتوں کے درمیان کشمکش ہوتی ہے۔ یہ کشمکش بچے کی شخصیت میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔


    سنگیت اور مصوری پسند کرنے والے بچوں کو انجینئرنگ پڑھنے کے لئے کیوں مجبور کیا جائے؟ ہمیشہ بچوں کی پسندیدگی کو ترجیح دینا چاہیے۔ اپنے بچہ سے دیگر بچوں کا موازنہ کر کے اس کی خوداعتمادی کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔ والدین ہمیشہ اپنے بچوں کی شکایت کرتے رہتے ہیں، کہ
    ’’ تم سے بڑھ کر بیوقوف کون ہے؟ تم سب سے بڑے کام چور ہو۔ دیکھو تمھارا دوست کتنا ہوشیار ہے ، تم ان پڑھ ہی ہو۔‘‘
    اس طرح کے کلمات سن کر بچے مایوس ہو جاتے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ ذہنی پریشانی میں مبتلا ہو کر اُن پر دل شکستگی کی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔ یہ ڈپریشن کی بیماری (Depression) سے نہ صرف بچہ خود مایوس اور اداس ہوتا ہے بلکہ وہ روزمرہ کے امور اور ذمہ داریاں بھی ادا نہیں کرسکتا۔ جس کے مختلف اثرات ہوتے ہیں۔

    • بچے سماجی طور پر دوستوں اور رشتے داروں سے ملنا جُلنا ترک کرتا ہے ۔ (Social Withdrawal)
    • خود اعتمادی کی کمی
    • لا اعتمادی
    • خودکشی کا خیال
    • نااُمیدی
    • گھر چھوڑ کرجانے پر آمادہ
    والدین مذکورہ بالا باتوں پر توجہ دیتے ہوئے بچوں کی فطرت اور نفسیات کو صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش کریں۔ نہایت صبر اور رحم دلی کے ساتھ بچوں سے پیش آئیں۔ ڈانٹ ڈپٹ، دھمکی، دباؤ اور الزام وغیرہ کے ذریعہ بچوں کو صحیح راستے پر لانے کی کوشش کرنا ٹھیک نہیں ہے۔

    (5)
    والدین نے بچوں کو پیار کرنا چاہیے ، اس کا یہ مقصد نہیں کہ ان کے ناجائز ضرورتوں اور خواہشات کو پورا کریں۔ والدین اپنے بچوں کو صحیح طور پر سمجھیں اور ان کی باتیں سننے کے لیے وقت نکالیں۔ زندگی کی مصروفیتوں سے تھوڑا وقت بچوں کے لئے صرف کریں۔ والدین اپنے بچوں کی پڑھائی ان کے تعلق سے دیگر معلومات ٹیچروں سے دریافت کریں۔ اپنے بچے کا صحیح جائزہ لینے اور بچے کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے۔

    اچھے والدین بچوں کے دوست ہوتے ہیں۔ وہ بچوں کے حکمران نہیں ہوتے ۔ والدین نے بچوں سے محبت کا اظہار کرنا چاہیے ۔ دل میں پوشید ہ محبت سے کام نہیں ہوتا۔ بے لوث محبت بچوں کی ہمہ جہت ترقی کے لیے ضروری ہے۔ والدین خود اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے مقابلہ جاتی پروگرام میں شریک کرانا۔ ریلٹی شو میں شریک کرانا، آرٹ اور جسمانی تعلیم مقابلوں میں شرکت کرنے پر اُکسانا وغیرہ کام کرتے ہیں ۔ جو بچوں میں زیادہ ذہنی دباؤ کی وجوہات بن جاتیں ہیں جو حقیقت میں محبت نہیں ظلم ہے۔ خلوص دل سے حوصلہ افزائی اور تعریف کرنے سے محبت ظاہر ہوتی ہے ، اس میں بخیلی سے کام نہ لیں، اس طرح بچوں کو محرک کرنے کو Positive Stroke کہتے ہیں۔


    والدین اور اساتذہ کی طرف عائد کردہ الزامات ، حاکمانہ برتاؤ بچوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ اس سے وہ بے چین ہوتے ہیں۔ ہر وقت الزامات سننے سے ان کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ یہ والدین اور اساتذہ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ بچوں کو متحرک بھی بنا سکتے ہیں اور کمزور بھی کر سکتے ہیں۔

    والدین کو چاہے کے بچے کی نفسیات کا جائزہ لیں، بچوں کو سمجھنے کی کوشش کریں ، بچوں کے لئے وقت دیں، بچوں کی چھوٹی چھوٹی کامیابی پر انھیں شاباسی دیں، غلطیوں پر سمجھا کر انھیں آئیندہ نہ کرنے کی تاکید کریں۔ بچہ ہماری قوم اور ملک کا سرمایہ ہے ، مستقبل ہے۔ بچے کی صحیح تربیت اپنے خاندان کو بنانے سنوارنے کے ساتھ ملک کی ترقی اور خوشحال میں بھی کارآمد ثابت ہو سکتی ہے ۔


    تحریر: ڈاکٹر عبدالحمید کاراشیری,
    کالی کٹ، کیرالا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. حافظ عبد الکریم

    حافظ عبد الکریم محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 12, 2016
    پیغامات:
    586
    جزاک اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں