سشما دیدی ابھی پھانسی نہیں ہوئی ہے

سید انور محمود نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏اپریل 12, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. سید انور محمود

    سید انور محمود رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مئی 11, 2015
    پیغامات:
    224
    تاریخ: 12 اپریل، 2017
    [​IMG]
    سشما دیدی ابھی پھانسی نہیں ہوئی ہے
    تحریر: سید انور محمود

    گذشتہ سال بھارت کی خاتون وزیر خارجہ سشما سوراج نے از خو اپنی بیماری کا اعلان سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیا اور بتایا کہ ’’میں گردے فیل ہونے کی وجہ سے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(اے آئی آئی ایم ایس)میں زیر علاج اور ڈائلسز پر ہوں‘‘، ان کے لاکھوں ہمدردوں کے علاوہ ہزاروں پاکستانیوں نے انسانیت کے ناطے نہ صرف ان سے ہمدردی کی بلکہ ان کے لیے دعا بھی کی کہ وہ جلد صحتیاب ہوجایں ، ان کو خیر سگالی کے پیغام دینے والوں میں خود میں بھی شامل تھا جس نے ان کو پیغام دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’سشما دیدی، میری نیک تمنایں آپکے ساتھ ہیں اور دعا گو ہوں کہ آپ جلدی صحتیاب ہوجایں‘‘۔ سشما سوراج اب پہلے سے بہت بہتر ہیں، وہ بھارت کی حکمراں انتہا پسندجماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی منجھی ہوئی سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انتہا پسند ہندو بھی ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ چندسال قبل کانگریس کی جیت کے بعد انہوں نے یہ اعلان کیاتھا کہ اگر سونیا گاندھی کو وزیراعظم بنایا گیا تو وہ اپنے سر کے تمام بال اتروادینگی کیونکہ سونیا گاندھی ایک غیر ملکی ہیں اور اصل ہندو بھی نہیں ہیں۔

    پاکستانی سیکورٹی فورسز نے بھارتی جاسوس کلبھوشن سدھیر یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو 3 مارچ 2016کو بلوچستان کے علاقہ ماشکیل سےگرفتار کیا تھا۔ اس وقت کلبھوشن یادیو بھارتی نیوی کا حاضرسروس افسرتھا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے 29 مارچ 2016کو بھارتی خفیہ ایجنسی ”را “کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی 6منٹ کی ویڈیو میڈیا کو جاری کی تھی۔ جس میں کلبھوشن یادیو نے خود اپنےاعترافی بیان میں کہاتھا کہ”میں بھارتی بحریہ میں کمانڈر ہوں، کوڈ نام حسین مبارک پٹیل تھا جو بھارتی ایجنسیوں کیلئےکام کی خاطر اپنایا۔ اپنی 14سالہ سروس کےبعد 2003میں انٹیلی جنس آپریشن شروع کئے اور ایران چاہ بہار میں چھوٹا سا کاروبار شروع کیا۔ یادیو نے اعترافی بیان میں کہا کہ مجھے 2013 کےآخر میں ’را‘ میں شامل کیا گیا، اس وقت سے بطور آفیسر بلوچستان اور کراچی میں کارروائیاں کرواتا رہا ہوں‘‘۔

    کلبھوشن یادیو کا مقدمہ آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں چلایا گیا۔ کلبھوشن نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ جس کے بعد قاعدے کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے کلبھوشن یادیو کو سزائے موت کا حکم دیا۔ عسکری ذرائع کے مطابق کلبھوشن یادیو کو اپنے دفاع کےلئے وکیل کی سہولت بھی فراہم کی گئی تھی۔ بھارتی ایجنٹ نے دوران تفتیش اپنے تمام الزامات کو تسلیم کیا تھا۔ کلبھوشن یادیو نے بلوچستان میں انتشار پھیلانے اورکراچی میں بھارتی مداخلت کا اعتراف بھی کیا تھا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کے مطابق آرمی چیف نے سزا کی توثیق کردی ہے۔ کلبھوشن یادیو کو سزائے موت کے فیصلہ پر بھارت نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ بھارتی لوک سبھا نے متفقہ طور پر ایک قرارداد میں پاکستان کے فیصلہ کی مذمت کی ہے اور یادیو کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسے ایران سے اغوا کیا گیا تھا جہاں وہ کاروبارکرتا تھا۔ جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ پاک فوج نے بلوچستان میں ماشکیل کے علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف ایک کارروائی کے دوران اسے گرفتار کیا تھا۔

    بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بالترتیب پارلیمنٹ کے ایوان بالا (راجیہ سبھا) اور ایوان زیریں (لوک سبھا) سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کلبھوشن یادیو کو بچانے کیلئے بھارت کسی بھی حد تک جائے گا۔ اسے اپیل کیلئے بہترین وکیل فراہم کئے جائیں گے اور صدر پاکستان سے بھی سزا کو تبدیل کرنے کیلئے رابطہ کیا جائے گا۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے راجیہ سبھا سے خطاب میں کلبھوشن یادیو کو ’’بھارت کا بیٹا‘‘ قرار دیتے ہوئے پاکستان کو متنبہ کیا کہ اگر اس کی سزائے موت پرعمل کیا گیا تو یہ اقدام دو طرفہ تعلقات کیلئے نقصان دہ ہو گا۔ اس سے قبل بھارت کی وزارت خارجہ نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو طلب کرکے کلبھوشن یادیو کی سزا پر احتجاجی مراسلہ دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ سزا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے اور بھارتی حکومت اور عوام سزائے موت پر عمل درآمد کو ایک بھارتی شہری کا سوچا سمجھا قتل سمجھیں گے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں بھارتی حکومت ایک ایسے شخص کےلیے وہ حق مانگتی رہی جو صرف سفارت کاروں کو دیا جاتا ہے ۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو نے اپنے اعترافی بیان میں یہ تسلیم کیا ہےکہ وہ اپنے لیے ایک فرضی نام ’’حسین مبارک پٹیل‘‘ استمال کرتا تھا۔ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا یہ کہنا کہ ’’بھارت کلبھوشن یادیو کو بچانے کےلیے کسی بھی حد تک جائے گا‘‘، اپنے مجرم ہونے کا کھلا اقرار ہے، ویسے بھی اس بھارتی وزیر کو پاکستان کے خلاف بولنے کی بیماری ہے۔

    سشما دیدی آپ جب بیمار تھی اور آپنے اپنے لیے دعا کی اپیل کی تھی تو ہزاروں پاکستانیوں نے آپکو صحت مند ہونے کی دعا دی تھی، آپکی گیتا پندرہ سال کراچی کے ایدھی ہوم میں رہی ہے اور جب وہ یہاں موجود تھی تو آج جس کلبھوشن یادیو کوآپ ’’بھارت کا بیٹا‘‘ قراردے رہی ہیں وہ ہی کراچی کو اپنی دہشتگردی سے تباہ کررہا تھا، وہی سیدھے سادھے بلوچستان کے عوام کو اپنی دہشتگردی کے زریعے قتل کررہا تھا، کیوں آخرپاکستان یا اس کے عوام کا جرم کیا ہے؟۔ سشما دیدی ابھی کلبھوشن یادیو کو پھانسی نہیں دی گئی ہے اور آپ دھمکیوں پر اتر آیں ، ابھی تو آپکے جاسوس کو پاکستانی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپنی سزا کے خلاف اپیل کرنے کا حق دیا ہے اور اگر کہیں کچھ نہ ہوا تو پھر کلبھوشن یادیو یا آپ صدر پاکستان سے سزا معاف کرنے کی اپیل کرسکتی ہیں لیکن اپیل میں اگر اپنے جرائم کا اعتراف کرلیں تو وہ مجرم کے لیے بہتر ہوگا۔ بھارتی حکومت نے پاکستانی ہائی کمشنر کوایک احتجاجی مراسلہ دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ یہ سزا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے، بھارتی حکومت اور عوام سزائے موت پرعمل درآمدکوایک بھارتی شہری کا سوچا سمجھا قتل سمجھیں گے، ضرور سمجھیں لیکن یہ بھی تسلیم کریں کہ بھارتی حکومت نے کلبھوشن یادیو کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بے گناہ پاکستانیوں کے قتل کےلیے پاکستان بھیجا تھا۔

    سابق پاکستانی
    صدر پرویزمشرف 14 جولائی 2001کو کشمیر کے مسلئے کو طے کرنے کےلیے پاک بھارت مذاکرات کے لیے آگرہ پہنچے، بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اٹل بہاری واجپائی اس وقت بھارت کے وزیراعظم تھے، وہ اپنے دور میں مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتے تھے، معاہدے سے کچھ لمحے پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتہا پسند رہنما ایل کے اڈوانی اور سشما سوراج نے اس ہونے والے معاہدے کے خلاف بغاوت کردی، ایک ایسا پروگرام جو امن کی طرف جارہا تھا اس کو انتہا پسندی نے برباد کردیا اورکشمیر کے مسلئے پرپاک بھارت معاہدہ نہ ہوسکا۔ اگر16 سال پہلے ایل کے اڈوانی اور سشما سوراج اپنی انتہا پسندی پر قابو پالیتے اور کشمیر پر پاک بھارت معاہدہ ہونے دیتے تو آج نہ تو کشمیروں کا خون بہہ رہا ہوتا اور نہ ہی کلبھوشن سدھیر یادیو کو پاکستان میں جاسوسی کے الزام میں سزائے موت کا سامنا ہوتا۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں