شب براءت سے اعلان براءت

بابر تنویر نے 'ماہِ شعبان المعظم' میں ‏اپریل 27, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    شب براءت سے اعلان براءت
    اللہ رب العالمین نے تکمیل دین اسلام کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا :
    الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً [المائدة : 3]
    آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت کو تم پر پورا کر دیا ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے ۔ اور امام الأنبیاء جناب محمد مصطفى صلى اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ :
    يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ [المائدة : 67]
    اے رسول ! صلى اللہ علیہ وسلم جو کچھ آپکی طرف آپکے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس (سب کچھ ) کو پہنچا دیں ۔اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے پیغامات (الہیہ ) کو نہیں پہچایا , اللہ آپکو لوگوں سے بچائے گا ۔ اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے یقینا سارے کا سارا دین ہم تک پہنچا دیا ہے اور اسکی گواہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حجۃ الوداع کے موقع پر یوں دی
    نعم قد بلغت وأدیت ونصحت (صحیح مسلم کتاب الحج باب حجۃ النبی صلى اللہ علیہ وسلم ح 1218)
    ہاں آپ نے دین حق پہنچا دیا ہے , امانت ادا کردی ہے اور نصیحت فرما دی ہے ۔ اور اللہ رب العالمین نے ہمیں صرف اور صرف وحی الہی کی اتباع کا حکم دیتے ہوئے غیر وحی کی پیروی سے منع کیا اور فرمایا :
    اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (الأعراف : 3)
    جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف وحی کیا گیا اسی کی ہی پیروی کرو اور اسکے علاوہ دیگر اولیاء کی پیروی نہ کرو تم کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔ اور وحی الہی صرف اور صرف کتاب وسنت میں محصور و مقصور ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالى نے ان دونوں یعنی کتا ب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم میں اضافہ کرنے والے کے لیے وعید سنائی اور فرمایا :
    وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (الأنعام : 21)
    اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالى پر جھوٹ باندھے یا اللہ تعالى کی آیت کو جھٹلائے یقینا ظالم کامیاب نہیں ہونگے ۔ حتى کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں بھی اللہ تعالى نے واضح لفظوں میں ارشاد فرمادیا :
    وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ * لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ * ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ * فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ (الحاقة : 44-47)
    اور اگر یہ بھی ہم پر کچھ جھوٹ باندھ دیتے تو ہم انہیں بھی دائیں ہاتھ سے پکڑتے پھر ہم انکی شہہ رگ کاٹ دیتے اور تم میں سے کو ئی انہیں بچانے والا نہ ہوتا ۔ اسی طرح رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی احادیث گھڑنے والوں کے بارہ میں فرمایا :
    لاَ تَكْذِبُوا عَلَىَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَكْذِبْ عَلَىَّ يَلِجِ النَّارَ (صحیح مسلم ح 2)
    مجھ پر جھوٹ نہ باندھو جس نے مجھ پر جھوٹ پر باندھا وہ آگ میں جائے گا۔ نیز فرمایا :
    مَنْ تَعَمَّدَ عَلَىَّ كَذِبًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ( صحیح مسلم ح 3)
    جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے ۔ اسی طرح آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ہر سنی سنائی حدیث کو بلا تحقیق بیان کرنے سے بھی منع فرما دیا کہ کہیں اس میں جھوٹ کی آمزیش نہ ہو :
    كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ (صحیح مسلم باب النَّهْىِ عَنِ الْحَدِيثِ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ح 7)
    آدمی کے لیے اتنا جھوٹ ہی کا فی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کردے ۔ اسی طرح آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی روایات کو بیان کرنے سے بھی منع فرما دیا :
    مَنْ حَدَّثَ عَنِّى بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ (صحیح مسلم ح 1)
    جس نے میر ی طرف منسوب شدہ کوئی ایسی حدیث بیان کی جسے جھوٹی روایت کہا جاتا تھا تو وہ (بیان کرنے والا ) بھی جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے ۔
    اسی طرح دین میں نئی نئی بدعتیں ایجاد کرنے کو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ضلالت و گمراہی سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا :
    وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ (سنن أبی داود کتاب السنۃ باب فی لزوم السنۃ ح 4607)
    اور تم نو ایجاد شدہ کاموں سے بچو یقینا ہر نو ایجاد شدہ چیز بدعت ہے اور بدعت گمراہی ہے ۔
    اور ان کاموں کو مردود قرار دیتے ہوئے فرمایا : مَنْ أَحْدَثَ فِى أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ (صحیح مسلم کتاب الأقضیۃ باب نقض الأمور الباطلۃ ورد محدثات الأمور ح 1718)
    جس نے بھی ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے ۔ اور اسی طرح اپنے ہر خطبہ میں ارشاد فرماتے :
    فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ ( صحیح مسلم کتاب الجمعۃ باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ ح 867)
    یقینا بہترین حدیث کتاب اللہ اور بہترین طریقہ محمد صلى اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور بدترین کام اس (دین محمدی صلى اللہ علیہ وسلم ) میں نو ایجاد شدہ کام ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔
    مگر صد حیف کہ آج ہمارے اس دور میں بدعات و خرافات کا ایک طوفان امڈا نظر آتا ہے ہر نیا دن نئے فتنے کو جنم دینے والا اور نیا سال نئی بدعت کو فروغ دینے والا ثابت ہوتا ہے ۔ امت مسلمہ خرافات وبدعات میں ایسی کھوئی ہے کہ سنت وسیرت کو بھول چکی ہے ۔ اب بدعت ہی لوگوں کا دین بن چکا ہے , خرافات انکی عبادات بن گئی ہیں , اللہ اور اسکے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولیاں انکے لیے طاعات کا درجہ رکھتی ہیں ۔اور ستم بالائے ستم کہ یہ سب کچھ فضیلتوں کے لباس میں ملبوس نظر آتا ہے , اور ناصح اگر کوئی اٹھے اور انکی چیرہ دستیوں کی نقاب کشائی کرنا چاہے تو رجعت پسند , بنیاد پرست اور دقیانوس کے القاب سے ملقب ہو جاتا ہے , بقول شاعر خرد کانام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد ... جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے ان بدعات و محدثات میں سے ایک بدعت شب براءت کے جشن کی بھی ہے , اس میں بھی اللہ اور اسکے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیاں بام عروج کو پہنچتی ہیں , جن کاموں سے شریعت نے منع کیا ہے ان کاموں کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور جن کاموں کاحکم دیا ہے ان سے اعراض کیا جاتا ہے
    ع ..... یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
    اس مختصر سی بحث میں ہم ماہ شعبان کی فضیلتوں اور برکتوں کو بیان کرکے اس ماہ مقدس میں مروجہ بدعات و خرافات کا رد پیش کریں گے اللہ سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں اس کام کی توفیق دے جس پر وہ راضی ہو اور ہمارے اس عمل کو شرف قبولیت سے نوازے ۔ آمین ۔

    ماہ شعبان کی فضیلت :
    1- عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ لَا يُفْطِرُ وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ لَا يَصُومُ فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ
    ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے چلے جاتے حتى کہ ہم یہ کہنے لگتے کہ آپ روزہ رکھنا نہ چھوڑیں گے ۔ اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم روزہ چھوڑتے چلے جاتے حتى کہ ہم کہتے کہ آپ روزہ نہیں رکھیں گے ۔ میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو ماہ رمضان کے علاوہ اور کسی ماہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا اور ماہ شعبان کے مقابلہ میں کسی بھی ماہ میں زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا۔

    2- عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ إِلَّا شَعْبَانَ وَرَمَضَانَ [جامع الترمذی ابواب الصوم باب ما جاء فی وصال شعبان برمضان(736)]
    ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو شعبان اور رمضان کے علاوہ کسی دوسرے دو مہینوں میں مسلسل روزے رکھتے نہیں دیکھا۔
    3- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ أَرَكَ تَصُومُ شَهْرًا مِنْ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ قَالَ ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ [ سنن نسائی کتاب الصیام باب صوم النبی صلى اللہ علیہ وسلم (2357)]
    میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ شعبان میں جتنے روزے رکھتے ہیں میں نے آپکو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینے میں اتنے روزے رکھتے نہیں دیکھا ؟ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ رجب و رمضان کے مابین وہ مہینہ ہے کہ جس سے لوگ غافل ہیں ۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں اعمال رب العالمین کے حضور پیش ہوتے ہیں تو میں پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں اللہ کے حضور پیش ہوں کہ میں روزے سے ہوں۔ نصف شعبان کے بعد روزہ سے ممانعت: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    إِذَا انْتَصَفَ شَعْبَانُ فَلَا تَصُومُوا [ سنن ابی داود کتاب الصوم باب فی کراہیۃ ذلک (2337)]
    جب شعبان نصف ہو جائے تو روزہ نہ رکھو۔
    استقبال رمضان کا روزہ رکھنے کی ممانعت:
    سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لَا يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمَهُ فَلْيَصُمْ ذَلِكَ الْيَوْمَ [ صحیح بخاری کتاب الصوم باب لا یتقدم رمضان بصوم یوم ولایومین(1914)]
    تم میں سے کوئی بھی رمضان سے ایک یا دو دن قبل روزہ نہ رکھے الا کہ اگر کوئی شخص کسی دن کا روزہ رکھتا ہو تو وہ اس دن کا روزہ رکھ لے ۔ یعنی مثلا اگر کوئی شخص سموار اور جمعرات کا روزہ باقاعدگی سے رکھتا ہے اور سوموار یا جمعرات کا دن رمضان سے متصل ایک دن قبل آجائے تو ایسے شخص کے لیے یہ روزہ رکھنا جائز ہے ۔ لیکن رمضان کے استقبال کی غرض سے شعبان کے آخری ایک یا دو دن کا روزہ رکھنا ممنوع ہے۔ پندرہ شعبان کے روزے کی ممانعت: مذکورہ بالا دونوں احادیث کو مدنظر رکھنے سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ جب شعبان کا مہینہ نصف ہو جائے تو کسی کو بھی رمضان سے پہلے روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔ اور جب شعبان کے چودہ دن گزر جائیں توا سکے بعد شعبان کا مہینہ نصف ہو جاتا ہے کیونکہ کسی کو علم نہیں کہ شعبان 29 دن کا ہو گا یا 30 دن کا ۔ یعنی 15 شعبان کا دن پہلے نصف حصہ میں داخل ہے یا بعد والے نصف حصہ میں ۔ یعنی 15 شعبان کے دن کا روزہ مشکوک ہے اور شک والے دن کا روزہ رکھنے سے بھی دین اسلام میں ممانعت وارد ہے :
    سیدنا عمار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :جس نے شک والے دن کاروزہ رکھا اس نے ابو القاسم صلى اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی [ جامع ترمذی ابواب الصوم باب ما جاء فی کراہیۃ صوم یوم الشک (686)]
    ہاں البتہ جو شخص ہر ماہ ایام بیض( 13,14,15 تاریخ) کے روزے رکھتا ہو تواسکے لیے رخصت ہے کہ وہ پندرہ شعبان کا روزہ بھی رکھ لے ۔ شعبان سے متعلقہ ضعیف روایات:
    افضل ترین روزہ
    :
    1- سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسا روزہ افضل ہے تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شعبان لتعظیم رمضان . ماہ رمضان کی تعظیم میں شعبان کا روزہ رکھنا ۔ یہ روایت صدقہ بن موسی کے ضعیف ہونیکی بناء پر ضعیف ہے نیز اس صحیح حدیث کے خلاف بھی ہے جس میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے محرم الحرام کے روزہ کو رمضان کے بعد افضل ترین روزہ قرار یا ہے۔ نصف شعبان کا روزہ:۔ اسی طرح کی ایک اور روایت سنن ابن ماجہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
    " إذا كانت ليلة النصف من شعبان ، فقوموا ليلها وصوموا نهارها ، فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا ، فيقول : ألا من مستغفر لي فأغفر له ألا مسترزق فأرزقه ألا مبتلى فأعافيه ألا كذا ألا كذا ، حتى يطلع الفجر " [سنن ابن ماجه - كتاب إقامة الصلاة والسنۃفیھا، باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان - حديث:‏1388‏]
    " جب نصف شعبان کی رات آئے تو ا س میں قیام کرو اور دن کا روزہ رکھو ، بے شک اللہ تعالیٰ غروب شمس کے بعد آسمان دنیا پر آجاتے ہیں اور اعلان فرماتے ہیں کہ کیا کوئی مجھ سے معافی مانگنے والا نہیں کہ میں اس کو معاف کردوں ؟ کیا کوئی رزق مانگنے والا نہیں ہے کہ میں اس کو رزق دوں؟ کیا کوئٰ پریشانی میں مبتلا نہیں ہے کہ میں اسے عافیت دوں؟ کیا کوئی ایسا نہیں ہے؟؟ کیا کوئی ایسا نہیں ہے؟؟ حتی کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔"
    اس روایت کی سند میں ابوبکر بن محمد بن ابی سبرۃ السبری المدنی ہے، جو کہ ضعیف ہےبلکہ امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین نے کہا ہے کہ یہ روایتیں گھڑتا ہے۔ لہٰذا یہ روایت موضوع ہے۔ اور من گھڑت روایات ضعیف کی بدترین قسم ہے۔ مشرک یا کینہ پرور کے سوا عام معافی:۔ ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو مشرک اور بغض وکینہ رکھنے والے کے سوا اپنی ساری مخلوق کو معاف فرمادیتے ہیں [سنن ابن ماجه - كتاب إقامة الصلاة والسنۃفیھا، باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان - حديث:‏13۹۰‏]
    لیکن اس کی سند میں بھی کئی علتیں ہیں جن میں سے عبداللہ بن لھیعہ کا مختلط ہونا اور ضحاک بن ایمن کا مجہول ہونابالخصوص قابل ذکر ہیں۔ لہٰذا ان دوموٹی موٹی وجوہات کی بنا پر یہ روایت بھی ساقط الاعتبار ٹھہری۔
    میرا مہینہ۔:
    ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے :
    رجب شہر اللہ وشعبان شہری و رمضان شہر أمتی
    رجب اللہ کا مہینہ ہے شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے
    اس روایت میں ابو بکر نقاش نامی روای کذاب ہے وہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا لہذا یہ روایت بھی ساقط الاعتبار ہے
    صلاۃ الفیۃ۔:
    ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    یا علی من صلى مائۃ رکعۃ فی لیلۃ النصف من شعبان یقرأ فی کل رکعۃ بفاتحۃ الکتاب وقل ہوا للہ احد عشر مرات , یا علی ما من عبدیصلى ہذہ الصلوات إلا قضی اللہ عزو جل لہ کل حاجۃ طلبہا تلک اللیلۃ (اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للسیوطی جلد 2 صفحہ 49)
    اے علی جس نے نصف شعبان کی رات کو سو رکعت نماز اس طرح سے پڑھی کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور اسکے بعد د س دس مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھی , اے علی جو بندہ بھی یہ نماز پڑھ لے تو اللہ تعالى اسکی ہر وہ حاجت پوری کرے گا جو بھی وہ اللہ سے مانگے
    اس نماز کو لوگ صلاۃ البراۃ یا صلاۃ الالفیۃ ادا کہتے ہیں ۔ اس کا ثبوت کسی صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے۔ اسكي تين سندیں ہیں اور ہر سند مجاہیل کے ساتھ بھری ہوئی ہے اسی طرح ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے:
    من صلى ليلة النصف من شعبان ثنتي عشرة ركعة يقرأ في كل ركعة قل هو الله أحد ثلاثين مرة، لم يخرج حتى يرى مقعده من الجنة ويشفع في عشرة من أهل بيته كلهم وجبت له النار ". (اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للسیوطی جلد 2 صفحہ 49 , الموضوعات لابن جوزی جلد2 صفحہ 129)
    جو شخص نصف شعبان کی رات بارہ رکعتیں پڑھے اور ہر رکعت میں سورۃ الاخلاص تیس مرتبہ پڑھے تو وہ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لے گا۔
    یہ روایت بھی مجاہیل کی ایک بہت بڑی جماعت نے بیان کی ہے ۔ بے
    حساب مغفرۃ
    ایک روایت جامع ترمذی کے حوالے سے پیش کی جاتی ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں:
    " فقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة فخرجت ، فإذا هو بالبقيع ، فقال : " أكنت تخافين أن يحيف الله عليك ورسوله " ،
    قلت : يا رسول الله ، إني ظننت أنك أتيت بعض نسائك ، فقال : " إن الله عز وجل ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا ، فيغفر لأكثر من عدد شعر غنم كلب " [جامع الترمذي ، أبواب الصوم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ،باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان، حديث:‏۷۳۹] "
    میں ایک رات رسول اللہ ﷺ کو گم پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکلی ۔ آپ ﷺ بقیع میں تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تجھے خوف تھا کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ تجھ پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں سمجھی شاید آپﷺ اپنی بیویوں میں سے کسی کے پاس گئے ہوں گے۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان (پندرھویں) کی رات کو آسمان دنیا پر اترتے ہیں اور کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کو معاف فرماتے ہیں۔" اس روایت کی سند میں کئی نقص ہیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد خود ہی لکھا ہے: "
    حديث عائشة لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث الحجاج " ، وسمعت محمدا يضعف هذا الحديث ، وقال : يحيى بن أبي كثير لم يسمع من عروة ، والحجاج بن أرطاة لم يسمع من يحيى بن أبي كثير"
    "عائشہ رضی اللہ عنھا کی یہ حدیث ‏صرف اسی سند سے ہی مروی ہے اور میں نے امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ الباری کو سنا کہ وہ اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے عروہ سے نہیں سنا اور حجاج بن ارطاۃ نے یحییٰ بن ابی کثیر سے نہیں سنا۔" تو گویا امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف قراردیا ہے اور سبب ضعف بیان کرتے ہوئے سند کا دوجگہ پر انقطاع ذکر فریاما ہے۔ اور اسی طرح "حجاج بن ارطاۃ" صدوق ہے لیکن کثیر الخطاء والتدلیس ہے، اور یحییٰ بن ابی کثیر بھی مدلس راوی ہے، اور یہ دونوں لفظ "عن" سے روایت کررہے ہیں اور عالم اصول میں یہ بات مسلمہ ہے کہ مدلس راوی کا عنعنہ ناقابل قبول ہے۔ لہٰذا ان چار نقائص کی بناء پر یہ روایت مردود و ناقابل اعتبار ہے۔
    مصدر
    شیخ رفیق طاہر
    https://www.rafiqtahir.com/play/524
     
    Last edited by a moderator: ‏مارچ 7, 2023
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • مفید مفید x 1
  2. ابو ابراهيم

    ابو ابراهيم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 11, 2009
    پیغامات:
    3,871
    جزاك الله خيرا
     
  3. حافظ عبد الکریم

    حافظ عبد الکریم محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 12, 2016
    پیغامات:
    585
    جزاک اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    و ایاک
     
  5. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں