رمضان المبارک میں خلیجی ممالک سے سفر اورروزہ

مقبول احمد سلفی نے 'ماہِ رمضان المبارک' میں ‏جون 9, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    867
    رمضان المبارک میں خلیجی ممالک سے سفر کرنے والوں کے مسائل

    مقبو ل احمدسلفی

    سعودی عرب، دوبئی ، قطر، بحرین اور کویت وغیرہ میں کام کرنے والے برصغیر ہندوپاک کے لوگ جب رمضان المبارک میں اپنے ملک کا سفر کرتے ہیں تو انہیں تقریباپانچ قسم کے مسائل کی جانکاری درکار ہوتی ہے ۔

    (1) پہلا مسئلہ یہ ہے کہ دوران سفر روزہ رکھنا چاہئے کہ نہیں ؟
    (2) دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جب خلیجی ممالک سے اپنے ملک کا سفر کرتے ہیں اور اپنے ملک پہنچ جاتے ہیں تو ہمیں وہاں کے حساب سے روزہ رکھنا چاہئے یا گلف کے حساب سے ؟
    (3) تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم نے سفر میں روزہ توڑ لیا تو کیا اس کی قضا کرنی پڑے گی جبکہ اپنے ملک میں جاکر روزہ رکھنے سے ہمارا روزہ مکمل ہوجاتا ہے ، کبھی کبھی زیادہ ہی ہوجاتا ہے؟
    (4) چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ریاض یا مسقط یا ابوظبی وغیرہ سے سفر کرتا ہے اس نے سحری وہاں کے حساب سے کھائی ہے افطار کا وقت اس کے لئے کیا ہوگا ؟
    (5) پانچواں مسئلہ بعض لوگوں کے ساتھ یہ پیش آتا ہے کہ ادھر سعودی عرب یا دبئی وقطر میں عید منایا اور اپنے ملک سفر کیا ، ایک دن میں ملک پہنچ گیا اگلے دن وہاں بھی عید ہے اب وہ عید کی نماز وہاں بھی ادا کرے گا یا نہیں؟

    پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ سفر میں روزہ رکھنے سے مشقت درپیش ہو تو روزہ چھوڑ دینا چاہئے لیکن اگر مشقت نہ ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے مثلا بعض پاکستانی یا ہندوستانی حضرات گلف میں ایرپورٹ کے قریب ہی رہتے ہیں ، بلامشقت فلائٹ پہ سوار ہوئے اور بعض حضرات تین اور بعض حضرات چار گھنٹوں میں اپنے گھر تک پہنچ گئے ، کوئی کلفت نہیں ہوئی ،ایسی صورت میں روزہ رکھنا چاہئے ۔ جنہیں فلائٹ کا بھی سفرکرناہے ،بسوں اور ٹرینوں کے سفر سے بھی گزرنا ہے،سفر بھی کئی گھنٹوں پر مشتمل ہو تو لازما مشقت درپیش ہوگی ایسی صورت میں روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔

    دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرتا ہے تووہ اس ملک کے حساب سے روزہ رکھے گا جہاں کا سفر کررہاہے یہی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمان سے ظاہر ہوتا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
    فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ(البقرة: 185)
    ترجمہ: جو رمضان کا مہینہ پائے وہ روزہ رکھے ۔
    نبی ﷺ کا فرمان ہے :
    الصَّومُ يومَ تَصومونَ ، والفِطرُ يومَ تُفطِرونَ ، والأضحَى يومَ تُضحُّونَ( صحيح الترمذي:697)
    ترجمہ: روزہ وہ دن ہے جس میں تم سب روزہ رکھتے ہو ، اور افطار وہ دن ہے جس میں تم سب روزہ نہیں رکھتے ہو ،اور عید الاضحی وہ دن ہے جس میں تم سب قربانی کرتے ہو ۔

    آیت وحدیث سے صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ آدمی جہاں بھی سفر کرکے جائے وہاں کے لوگوں کے حساب سے روزہ رکھے ، افطار کرے اور قربانی دے ۔ اس کومثال سے اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ جب ہم روزہ رکھ کر سعودی عرب سے سفر کئے اپنے ملک میں افطار کا وقت ہوگیا جبکہ سعودی عرب میں ابھی افطار کا وقت باقی ہے لیکن اس وقت سعودی میں سوری ڈوبنے کا انتظار نہیں کریں گے بلکہ آپ اپنے ملک والوں کے حساب سے سورج ڈوبتے ہی افطار کرلیں گے۔

    تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی سفر کی وجہ سے فرض روزہ چھوڑا تھا تو بعد میں اس کی قضا کرے گا بھلے اپنے ملک کا روزہ ملا کر 29یا تیس ہوجاتا ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے جو روزہ چھوڑا تھا وہ فرض روزہ تھا ۔

    چوتھے سوال کا جواب یہ ہے کہ روزہ دار کے لئے جب اور جس جگہ سورج غروب ہوجائے اس وقت اور اس جگہ کے اعتبار سے افطار کرے ۔ اگر جہاز میں رہتے وقت سورج غروب ہورہاہے تو جہاز میں افطار کرے اور جہاز سے اتر کر ایرپورٹ یا گاؤں ، سڑک ، بستی میں سورج ڈوب رہاہے تو وہاں افطار کرے۔

    پانچویں مسئلے کا جواب یہ ہے کہ اس نے رمضان مکمل کریا ، عید کی نماز بھی ادا کرلی اب اس کے ذمہ عید کی نماز باقی نہیں ہے تاہم مسلمانوں کے ساتھ ان کی عید اور خوشی میں شریک ہونا اظہار یک جہتی ہے ۔

    یہاں پر چند باتیں مزید سمجھ لینی چاہئے ۔

    ٭ روزہ رکھنے میں رویت ہلال کا ہی اعتبار ہوتا ہے جیساکہ حدیث میں ہے چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔

    ٭ روزہ دار قمری تاریخ کا اعتبار کرے گا نہ کہ عیسوی تاریخ کا ۔

    ٭ قمری مہینہ کم سے کم 29 کا اور زیادہ سے زیادہ 30 دن کا ہوتا ہے ، یہ یاد رہے اکتیس دن قمری مہینے میں ہے ہی نہیں ۔

    ٭آدمی سفر کرکے جس ملک میں جارہا ہے اس ملک کے حساب سے اگر اس کا روزہ اکتیس دن کا ہوجاتا ہے تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر 29 سے کم ہوجاتا ہے تو کم از کم ایک روزہ بعد میں رکھنا ہوگا کیونکہ قمری مہینے میں کم ازکم 29 دن ہوتے ہیں ۔

    ٭اگر کوئی کسی ملک سے عید کرکے دوسرے ملک کا سفر کرتا ہے اس حال میں کہ یہاں ابھی عید نہیں ہوئی ہے یعنی رمضان ہی ہے تو اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ روزہ رکھے کیونکہ اس نے شرعی طریقے سے اپنا رمضان مکمل کرلیا ہے ۔
     
    Last edited: ‏جون 9, 2018
    • پسندیدہ پسندیدہ x 4
    • حوصلہ افزا حوصلہ افزا x 1
  2. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    جزاک اللہ خیرا شیخ
     
  3. عبدالباری شفیق السلفی

    عبدالباری شفیق السلفی رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏جون 26, 2016
    پیغامات:
    6
    جزاک اللہ شیخ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
  5. کنعان

    کنعان محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 18, 2009
    پیغامات:
    2,852
    السلام علیکم

    آپ نے جو معلومات فراہم کی ہیں اس پر شکریہ! سفر میں روزہ پر یہ معلومات عرب ممالک سے انڈیا و پاکستان کے حوالہ سے ہیں جبکہ اس کے علاوہ بھی بہت سے ممالک ہیں جہاں سے ممبران اس فورم پر اکٹو ہیں اور مطالعہ بھی کرتے ہیں اس پر بھی معلومات چاہئے۔


    • جب کوئی ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرتا ہے تو وہ اس ملک کے حساب سے روزہ رکھے گا جہاں کا سفر کر رہا ہے یہی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمان سے ظاہر ہوتا ہے ۔
    • آیت وحدیث سے صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ
      آدمی جہاں بھی سفر کر کے جائے وہاں کے لوگوں کے حساب سے روزہ رکھے ، افطار کرے اور قربانی دے ۔
    • روزہ رکھنے میں رویت ہلال کا ہی اعتبار ہوتا ہے جیساکہ حدیث میں ہے چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔
    • آدمی سفر کرکے جس ملک میں جا رہا ہے اس ملک کے حساب سے اگر اس کا روزہ اکتیس دن کا ہو جاتا ہے تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر 29 سے کم ہو جاتا ہے تو کم از کم ایک روزہ بعد میں رکھنا ہو گا کیونکہ قمری مہینے میں کم ازکم 29 دن ہوتے ہیں
    [​IMG]

    میں نے لندن سے اڑان بھرنی ہے یہاں کے مقامی وقت 17:00 بجے روزہ کی حالت میں، جہاز نے لاہور پہنچنا ہے وہاں کے مقامی وقت 04:40 پر اور سحری کا وقت 03:35 ہے، تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟ ایسے ہی جو امریکہ یا کینیڈا سے پاکستان جا رہے ہوں ان کا جاننا بھی مفید رہے گا۔
    ====


    جب کوئی ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرتا ہے تو وہ اس ملک کے حساب سے روزہ رکھے گا جہاں کا سفر کر رہا ہے
    یہی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمان سے ظاہر ہوتا ہے ۔


    تو پھر 29 سے کم روزہ ہونے پر وہ بعد میں کیوں اس کی تعداد 29 کرے گا؟ جبکہ یہ دو حکم یہ کہہ رہے ہیں۔

    آیت وحدیث سے صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ
    آدمی جہاں بھی سفر کر کے جائے وہاں کے لوگوں کے حساب سے روزہ رکھے ، افطار کرے اور قربانی دے ۔

    روزہ رکھنے میں رویت ہلال کا ہی اعتبار ہوتا ہے جیساکہ حدیث میں ہے چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔

    والسلام
     
  6. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    867
    جس جگہ سورج ڈوب جائے خواہ وہ فضا میں ہو یا زمین پر اسی جگہ افطار کرنا ہے ۔
    بقیہ روزہ ہمیں اس مقام کے اعتبار سے رکھنا ہے جس جگہ سفر کرکے جارہے ہیں ،اب اگر اس جگہ ہمارا روزہ صرف 28 ہوا ہو تو کیا یہاں والوں نے 28 روزہ رکھا ہے ؟ بالکل نہیں ۔ مہینہ کم از کم 29 دن کا ہوتا ہے ، اس وجہ سے ایک روزہ قضا کرے گا اور اس مسافر نے اعتبار ٹھہرے ہوئے مقام کا ہی کیا ہے اس میں دو حکم نہیں ہے ۔
     
    • حوصلہ افزا حوصلہ افزا x 1
  7. کنعان

    کنعان محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 18, 2009
    پیغامات:
    2,852
    السلام علیکم

    میرا سوال جسے آپ سمجھ نہیں پائے مغرب سے مشرق کی طرف سفر، جس میں دن بہت چھوٹا ہے، جب کہ دوسرے سفر میں جو مشرق سے مغرب کی طرف ہے، اس میں دن بہت لمبا ہو جاتا ہے، سورج تقریباً جہاز کے ساتھ ساتھ رہتا ہے، خیر تلاش کرنے پر جوابات ملے مگر ہر فتوی میں رائے الگ ہے، اس لئے جو رائے بہتر لگے اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔

    29 روزے پر بھی مخلتف فتوے ملے اس پر بھی ایک رائے نہیں۔

    والسلام
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں