گستاخان رسول ِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تلواروں کی زد میں

عبداللہ حیدر نے 'تاریخ اسلام / اسلامی واقعات' میں ‏جولائی 1, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عبداللہ حیدر

    عبداللہ حیدر -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏جون 29, 2008
    پیغامات:
    147
    نبوت کا تصور اسلام میں سب سے مبارک حیثیت کا حامل ہے اور اس کے گرد مسلمانوں کے عقائد ونظریات گردش کرتے ہیں۔ اس عقیدہ میں جس حد تک کمی ہو باقی تمام عقائد اتنے ہی کمزور پڑ جاتے ہیں ۔
    ”لا یؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین“ (البخاری)
    آج جن ممالک کو معاشرے کی فلاح ، شخصی آزادی اور حقوق انسانی کا علمبردار اور چیمپئن قرار دیا جاتا ہے وہاں سے مذہبی جارحیت پر وارداتیں ہو رہی ہیں ان دنوں اظہار رائے کے جھانسے میں ایک منصوبے کے تحت بار بار دنیا کی مقدس ترین ہستی کی من مانی توہین کا عمل دہرایا جا رہا ہے ۔ اور اسلام کو دہشت گردی اور عدم رواداری کا طعنہ دینے والے خود ایک گھناؤنے عمل کا ارتکاب کر کے جارح اور جابر ثابت ہو رہے ہیں ۔تاریخ اسلامی میں ایسا گھناؤنا جرم پہلی بار وقوع پذیر نہیں ہوا بلکہ قرآنی مفہوم کے مطابق انبیاء کے مخالفین کی یہ دیرینہ روش رہی ہے۔
    ﴿یٰحسرةً عَلَی الْعِبَادِ مَا یَاْتِیْھِمْ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ کَانُوْا بِہ یَسْتَھْزِؤُنَ (یٰسین)
    پیغمبروں کا مذاق کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہوتا بلکہ یہ مکروہ عمل جب بھی رونما ہوا۔ اس کے پس پردہ کفر کا کوئی خطرناک منصوبہ ہوتا ہے ۔ اب یہ سلسلہ دوبارہ متعصبانہ مقاصد کے لیے امریکی میڈیا نے شروع کیا ہے ۔ ان خاکوں کے خلاف عالم اسلام میں ایک ہنگامہ برپا ہے۔ اس لیے کہ ہر مسلمان کا ایمان ہے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم واجب القتل ہے ۔ اور اس کا یہ جرم ناقابل معافی ہے۔ امام ابن تیمیہ نے الصارم لمسلول میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی حدیث نقل کی ہے ۔
    ”من سب نبیًّا قتل ومن سب اصحابہ جلد“
    ”جس نے کسی نبی کو گالی دی اسے قتل کیا جائے اور جس نے کسی صحابی کو گالی دی اسے کوڑے لگائے جائیں گے“۔
    توہین رسالت کے مجرموں کے خلاف اسلام کا مؤقف ہمیشہ غیر متزلزل رہا ہے ۔ کعب بن اشرف (گستاخ رسول) کو اس کے انجامِ بد سے دوچار کرنے والے تمام جانثارانِ رسالت قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے ۔ تاہم ان کے ہم پلہ قبیلہ خزرج کے لوگ ایسا ہی معرکہ سر انجام دے کر قبیلہ اوس کے ساتھ اپنا توازن برقرار رکھنا چاہتے تھے ۔ دورِ جاہلیت میں اپنے تعصب پر بھڑک اٹھنے والے اور اپنی انا کی خاطر عرب کے ریگستانوں کو آتش فشاں میں بدل دینے والے ، نسلوں کو بھسم کر دینے والے ، آج اسلام کے وقار اور پیغمبر اسلام کی حرمت کے دفاع کے لیے ان کی رگ وپے میں غیور اور مقدس خون کھولنے لگتا ہے ۔ گستاخیءِ رسالت کی المناک گراوٹ پر وہ آبدیدہ ہو جاتے اور اس کی خاطر اپنی جانوں کی بازی لگانے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ۔
    گستاخِ رسول کعب کو قبیلہ اوس نے قتل کر کے سعادت اور شرف حاصل کیا۔رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانی دشمن اور گستاخ ابورافع کو قتل کرنے کی سعادت قبیلہ خزرج کے لوگ حاصل کریں گے ۔ خزرجی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا حضور ! ابورافع کا سر قلم خزرج کی بے نیام تلواریں کریں گی اجازت مرحمت فرما دیجیے۔
    ابو رافع مدینہ کا مالدار تاجر تھا ۔ عبداللہ بن الحقیق نام تھا ابو رافع اس کی کنیت تھی۔ سلام بن ابی الحقیق کے نام سے بھی پہچانا جاتا تھا ۔ کعب بن اشرف کا ساتھی تھا ۔ غزوہ خندق میں مسلمانوں کے خلاف مشرکین کو اکسانے مال واسباب سے ان کی مدد کرنے اور رسول کائنات e کی عداوت وگستاخی جیسے جرائم کا ارتکاب کرتا تھا ۔ قبیلہ خزرج کے اجازت مانگنے پر جہاں آپ نے گستاخ رسالت کا سر قلم کرنے کی اجازت دی ساتھ ہدایات بھی جاری فرمائیں ۔ دیکھنا عورتوں اور بچوں کو نقصان نہ پہنچے۔
    3ھ ء جمادی الاخریٰ کا درمیان تھا پانچ لوگوں کا دستہ جن میں سعد بن سنان ، عبداللہ بن انیس ، ابو قتادہ ، حارث بن ربعی ، خزاعی بن اسود اور …ان کے امیر عبداللہ بن عتیک کو مقرر فرمایا۔ بخاری شریف میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ مروی ہے ۔ خیبر میں بسنے والے اس شاتم رسول کی رہائش گاہ کی طرف غروب آفتاب کے وقت اس مہم کو سر کرنے کے لیے فدائین کا مختصر قافلہ روانہ ہوا ۔ اہل خیبر اپنے جانور مویشی چراگاہوں سے واپس اپنی رہائش گاہوں پر لا چکے تھے ۔ ابورافع اپنے مضبوط اور بلند قلعہ کے بالاخانے میں افسانہ گوئیوں اور خوش گپیوں کی محافل جما چکا تھا ادھر اس گستاخ رسول کی زندگی کا چراغ گل کرنے کی تدابیر اور حیلوں میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا یہ دستہ مصروف کار تھا ۔ عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے جہاں گزراں کی چند روزہ زندگی کی پرواہ چھوڑ کر حیات اخروی کو روشن بنانے کی دھن میں ایسی کارگر تدبیر فرمائی جو انتہائی حیران کن اور کامیاب تھی ۔ اور قلعہ میں داخل ہو گئے۔ قلعہ کے سب دروازوں پر دربان تالے چڑھاتا گیا اور آخر میں چابیوں کا گچھا کیل پر لٹکا دیا ۔ حضرت عبداللہ بن عتیک اپنی مومنانہ فراست کے ساتھ اٹھے چابیاں اتاریں اور قلعہ کے دروازے کھولتے اور اندر سے بند کرتے گئے تاکہ ہنگامہ برپا ہونے پر بھی اپنا کام آرام سے کر سکیں ابورافع اپنے بال بچوں کے درمیان خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا ۔ کمرے میں تاریکی تھی ۔ ابورافع کی جگہ کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے حضرت عبداللہ فرماتے ہیں میں نے آہستہ سے آواز دی ابو رافع! ابورافع بولا کون ہے ؟ میں نے آواز سے جگہ کا اندازہ کر لیا اور جھٹ سے وار کر دیا لیکن کارگر ثابت نہ ہوا ابورافع کی چیخ بلند ہوئی میں نے کچھ دیر رک کر ہمدردی کا لہجہ اختیار کرتے ہوئے پوچھا ابو رافع کیا ہوا ہے ؟ اس نے کہا تیرا ستیاناس ہو مجھ پر کسی نے تلوار کا وار کیا ہے۔ میں نے اتنے میں دوسری زور دار کاری ضرب لگائی وہ خون میں لت پت ہو گیا ۔ لیکن فخر وغرور کے اٹے سر اور تاجدار کائنات کی مخالفت سے بپھرے جسم کے شل ہونے کا اب کی بار بھی یقین نہ ہونے پر تلوار کی دھار اس کے پیٹ میں گھونپ دی۔ جو پیٹھ تک جا پہنچی اور انٹریاں تڑاک سے ٹوٹیں ۔ اور مجھے اس گستاخ رسول کے آخری سانس نکلنے کا یقین ہوگیا میں واپس پلٹا بند دروازوں کو کھولتاگیا اور سیڑھیاں اترتا گیا ۔ آخری سیڑھی کا پتہ نہ چلنے پر دھڑام سے زمین پر گر گیا پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی چاند کی چاندنی اپنے جوبن پر تھی ۔ میں نے اس کی روشنی میں سر سے پگڑی اتار کر پنڈلی کو باندھ لیا ۔ اور ساتھیوں کے پاس جا پہنچا ان سے کہا جا کر رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ابورافع کے قتل کی بشارت سناؤ۔ میں اس کے قتل کا اعلان سنے بغیر یہاں سے نہ ہٹوں گا ۔ رات کی تاریکی ڈھلتی گئی صبح کا اجالا ہویدا ہونے لگا ۔ موت کی اطلاع دینے والا منادی فصیل پر چڑھا ۔ اہل خیبر کے کان اس کی آواز پر مرکوز ہوئے ۔ مسلسل کراہ بھری آواز میں پکار کر اس نے کہا کہ اہل حجاز ابورافع کی موت کی خبر دیتا ہوں ۔ میں شاتم رسول کی خبر سن کر بھاگتا ہوا اپنے ساتھیوں سے آ ملا ٹوٹی پنڈلی کے درد کا احساس تک نہ رہا ۔ طویل سفر کا اندازہ بھی نہ رہا ۔ جسم وجان میں سکون بھر گیا ۔ دربارِ رسالت میں پہنچ کر فرطِ جذبات سے پوری خبر سنا ڈالی ۔ پنڈلی ٹوٹنے کا ذکر بھی کر دیا ۔ آپ نے سارے واقعہ کیف وسرور سے سماعت فرمایا ۔ اور فرطِ ہمدردی سے فرمایا پاؤں پھیلاؤ اور پھر خود اس پر مبارک ہتھیلی پھیرنے لگے۔ تکلیف رفو ہو گئی جیسے کبھی تھی ہی نہیں ۔
    یہ انجام ہوا گستاخ رسول ابورافع کا اس دنیا میں اور آخرت کو سدھارا واصل جہنم ہو کر ۔ کیونکہ گستاخانِ رسالت کا انجام قرآن یہی بتاتا ہے ۔
    ﴿مَلْعُوْنِیْنَ أَیْنَمَا ثُقِفُوْآ اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلاً سُنَّةَ اللهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِیْلاً﴾ (الاحزاب)
    شارح دین کی بے حرمتی اور توہین پوری امت کی توہین ہے ۔اس لیے امام مالک رحم اللہ نے فرمایا :
    ”ما بقاء الاما بعد شتم نبیھا“
    "اس امت کی بقا کیا ہے جس امت کے نبی کوگالیاں دی جائیں اور اس کی توہین کی جائے؟”

    فتح مکہ کے دن عام معافی کا اعلان فرما دیا گیا ، جن میں جسد اطہر پر کانٹے پھینکنے والے بھی تھے ، گندی اوجھڑیاں ڈالنے والے بھی تھے، پتھر برسانے والے بھی تھے اور لہولہان کرنے والے بھی تھے۔ سبھی کو ”اذھبوا انتم الطلقاء“ کا مژدہ سنایا گیا۔ مگر پندرہ یا سولہ افراد کے قتل کا حکم پھر بھی سنایا گیا۔ اس لیے کہ پیغمبر کی ذات کی گستاخی شتم واستہزاء کا جرم تمام جرائم سے بڑھ کر ہے ۔ اس لیے ایسے مفسدین کی سرکوبی کے لیے عالم اسلام کو کفر کی مادیت سے بھرپور طاقتوں ، ظاہری شان وشوکت سے ہر گز خائف نہیں ہونا چاہیے۔
    مخالفین رسول کے لحاظ سے جب ہم اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری حیرت کی ا نتہا نہیں رہتی کہ کس طرح اور کس حد تک اسلام کے ماننے والوں نے حرمت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دفاع کی خاطر کیسی کیسی داستانیں رقم کیں ۔ سنن نسائی اور سنن ابی داود میں آنکھوں سے نابینا مگر دل کے بینا صحابی کا واقعہ بھی منقول ہے جس نے اپنی لونڈی جو کہ اس کے بچوں کی ماں تھی ۔ اسے صرف اسی لیے پھڑکا کر رکھ دیا کہ وہ شاہ انبیاء کی گستاخ تھی ، نامراد تھی ، رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب وشتم ، طعن وتشنیع کرنا اس کا دلچسپ مشغلہ تھا ۔ یہ نابینا صحابی اس کو روکتے وہ نہ رکتی وہ اسے ڈانٹ ڈپٹ کرتے مگر اس کی غلیظ حرکت میں کوئی کمی نہ آتی ۔ ایک رات پھر یہ شاہ عالم کے لیے گھٹیا الفاظ کہنے لگی ۔ محب رسول ، اور جانثاری کی اداؤں اور وفاؤں سے بھرپور جذبات رکھنے والا نابینا صحابی اپنے ہاتھ میں خنجر لے کر اس کے پیٹ میں اتنی زور سے دھنسا دیتا ہے کہ وہ واصل جہنم ہو جاتی ہے جہاں تک اس صحابی کے ساتھ اس کی رفاقت کا تعلق تھا انتہائی بہترین رفاقت تھی وہ ان پر مہربان تھی خدمت گزار تھی لیکن کامل ہوش وحواس کے عالم میں ایمان کا دامن تھامنے والے صحابی کو یقین تھا کہ مجھ پر اس کے احسانات وخدمات کی بارش بھی ہو تو وہ ناقابل برداشت ہے ۔ جبکہ وہ دنیا کی سب سے عظیم اور مقدس ترین ہستی کی گستاخ ہو ۔ میں اس ہستی کے احترام ومقام کو کیونکر نظر انداز کر سکتا ہوں ۔ کتنی صداقت تھی کتنا یقین واعتماد تھا ۔ کیسی والہانہ محبت تھی ان لوگوں کو رسالت کے ماہتاب سے ۔ دنیا میں بھلا کوئی چیز اتنی قیمتی تھی ان کے نزدیک اس شخصیت سے جو انہیں اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبوب اور پیاری تھی ۔ ہر گز نہیں!
    صبح ہوئی اس کی موت کی خبر پھیلنے لگی تذکرے ہونے لگے آپ نے اپنے جانثاروں کو جمع فرمایا میں اسے اللہ کی قسم دیتا ہوں جس پر میری اطاعت کا حق ہے وہ اٹھ کر خود کھڑا ہو جائے جس نے یہ کام کیا ہے ۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا … (نابینا صحابی) آگے بڑھا اور یوں گویا ہوا ، میں آپ پر اپنی جان قربان کر دوں یقینا یہ کام میرا ہے ، مجھے اس کی وفاؤں کا بھی یقین تھا وہ میرے دو ننھے پھولوں کی بھی ماں تھی صغرسنی کی وجہ سے میرے بچوں کو ممتا کی بھی ضرورت تھی ۔ لیکن ان سب کے باوجود آپ کی گستاخی پر صبر کرنا میرے بس سے باہر ہو گیا اور یہ سب کچھ کر گزرا آپ نے فرمایا : جاؤ اس لونڈی کے خون کا کوئی بدلہ نہ ہو گا۔
    کس قدر سچائی کی راہ تھی اور اس سچائی کا انہیں کتنا یقین تھا وہ لوگ کس قدر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبتوں میں مخلص تھے ۔ ہم بھی قرآن کو اسلام کو جانتے اور مانتے ہیں ۔ مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں لیکن کیا ان کے ایمان کا کوئی عشر عشیر بھی ہم اپنے اندر ثابت کرنے کے قابل ہیں ۔ ہمارے تو سیرت وکردار خود اسلام اور پیغمبر اسلام کے ساتھ بے رحمانہ مذاق میں مصروف ہیں ۔ یہ سب ہماری غفلتوں کا نتیجہ ہے ۔
    فاعتبروا یا اولی الابصار
    (بحوالہ ماہنامہ طیبات جون 2008 )
     
  2. محمد نعیم

    محمد نعیم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 26, 2007
    پیغامات:
    901
    عبداللہ حیدر بھائی بہت اچھی تحریر آپ نے شئیر کی ۔

    مجھے تو ان لوگوں کے اسلام پر شک ہونے لگتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر مشتمل باتیں سن کر مسلمانوں کو چپ رہنے کے مشورے دیتے ہیں یا پھر ان کی دینی حمیت کو مذاق کا نشانہ بناتے ہیں ۔
    میں تو کبھی کبھی یہ سوچنے لگتا ہوں کہ کہیں ایسے لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہی نہ ہو جاتے ہوں ؟؟؟
     
  3. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    جزاک اللہ خیر
    گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا صرف وصرف موت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آج امت میں کعب بن اشرف کے حواری بنے پھرتے ہیں اور وہ اس کے خلاف کوئی آواز اٹھانا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
    اللہ کی لعنت ہو بے شمار ان گنت اور مخلوق کی تعداد کے برابر گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر۔ اور ان گنت درود وسلام ہو سرکار مدینہ امام الانبیاء نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر۔
     
  4. خادم خلق

    خادم خلق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 27, 2007
    پیغامات:
    4,946
    کلنا فداک یا رسول اللہ ۔
     
  5. منہج سلف

    منہج سلف --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2007
    پیغامات:
    5,047
    جزاک اللہ عبدا للہ بھائی شیئر کرنے کا
    بے شک توہین رسالت ۖ کے مرتکب لوگوں کو سر عام موت کی سزا دینی چاہیے کہ دوسرے لوگ بھی عبرت حاصل کریں۔ ان شاءاللہ
    والسلام علیکم
     
  6. سیف اللہ

    سیف اللہ -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 1, 2008
    پیغامات:
    195
    میں نے ایک دوسرے فورم میں‌ ایک رکن کی تھریڈ پڑھی۔ لکھا تھا کہ مسلمان خوامخواہ ھی توہین رسالت پر شور مچاتے ہیں‌ حالانکہ ہمیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا چاہئے یعنی معاف کردینا چاہئے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے دشمنوں کو معاف فرما دیا کرتے تھے۔ اب اس قسم کے احمقانہ اور جاھلانہ تبصرے پر کیا کہا جائے!!
     
  7. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    بھائی یہ شخص جاہل اور دین سے بے بہرہ بلکہ جہالت کے آخری درجہ پر ہے۔ معاف کرنے اپنے لئے یعنی اگر کوئی ہمین گالی دے یا تکلیف دے تو اس صورت میں معاف کرنا چاھیے۔ لیکن کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی پر کسی کو معاف کیا جاسکتا ہے۔ کعب بن اشرف کو کیوں قتل کروایا گیا۔
    یہ شخص دین کی تعلیمات کو بالکل نہیں جانتا۔
     
  8. مون لائیٹ آفریدی

    مون لائیٹ آفریدی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 22, 2007
    پیغامات:
    4,799
    یہ بات یا تو قادیانی کرتے ہیں یا وہ جو اسلام کی حقانیت کو صحیح نہیں سمجھ سکے ہوں۔
     
  9. محمد نعیم

    محمد نعیم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 26, 2007
    پیغامات:
    901
    آفریدی بھائی ایسی باتیں " اہل شیطان " کے منہ سے نکلتی ہیں ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں