عنوان پڑھ کر آپ ایک لمحے کو سوچ میں ضرور پڑے ہوں کہ "کاروبارِ تعلیم"؟؟؟ جی مگر یہ موجودہ دور کی ایک حقیقت ہے کہ آج تعلیم محض ایک کاروبار بن کر رہ گئی ہے، ایک منافع بخش کاروبار۔ نہ تودرس گاہوں کا وہ ماحول رہا نہ اور نہ اساتذہ میں وہ خلوص تو پھر طلباء سے کیسی شکایت؟ آج سے چند دہائیاں قبل درس گا ہ کو گھر کے بعد بچے کی دوسری تربیت گاہ سمجھا جاتا تھا، اور استاد کا تو مقام روحانی والدین کا سمجھا جاتا تھا۔ بچھے کو اسکول بھیجنے کے بعد والدین کو ان کے بارے میں فکر نہیں ہوتی تھی اور اساتذہ پر بھی پورا اعتماد ہوتا تھا کہ وہ ان کے بچے کی تعلیم و تربیے پورے خلقص کے ساتھ اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کرتے ہوے انجام دے رہے ہیں۔ بقول شاعر: رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے مگر جیسے جیسے وقت گزرا بلکہ یوں کہیں کہ ہم نے ترقی کی منازل طے کی ہیں اس کے مطابق ہم اپنے معیار تعلیم کو سمجھوتوں کی نظر کرتے چلے آئے ہیں۔ مادی ترقی اس قدر حاوی آگئی کہ درس گاہوں نے صرف فیسوں میں ترقی کی ہے معیار کو کہیں دور چھوڑ دیا۔ یہی حال اساتذہ کا ہوا ہے جن کو صرف اپنی تنخواہ سے غرض ہوتا ہے، طالب علم کی تعلیم و تربیت سے گویا انہوں نے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ میں یہ سب باتیں کیوں کر رہی ہوںِ؟ وجہ یہ ہے کہ اپنے ارد گرد جو نظر آرہا ہے کہ اسکولز صرف پیسہ بنانے کی مشین بن کر رہ گئے ہیں، اساتذہ اسکول سے غیر حاضر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں طلباء کا تعلیمی حرج والدین ٹیوٹرز اور کوچنگ سینٹرز کو اضافی قیمت (جی قیمت، آخر کو وہ بھی تو کمانے کے لیے اس فیلڈ میں آئے ہیں) ادا کرکے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرےمشاہدے میں ایک نہم جماعت کا بچہ جس کا اس سال بورڈ کا ایگزام ہے، اسکول سے مسلسل غیر حاضر رہتا ہے وجہ یہ بتاتا پے کہ ٹیچرز کلاسز نہیں لیتے سارا دن اسکول میں خالی بیٹھ کر واپس آجاتا ہے۔ یہ حال ہے اسکول انتظامیہ کی لاپرواہی کا کہ وہ بچے سے غیر حاضری کی وجہ نہیں معلوم کرتے کہ مسلسل کیوں غیر حاضر ہے، یہ حال کہ اساتذہ کی غیر ذمہ داری کا کہ وہ اپنی تنخواہ تو پوری لیتے ہیں (بھلے ناکافی ہوتی ہے) مگر اپنی ذمہ داری پوری ادا نہیں کرتے، اور یہ حال ہے ان والدین کے احساس کا کہ جو اسکول جاکر باز پرس نہیں کرتے بلکہ بچے کو اضافی ٹیوشن لگوا دیتے ہیں کہ "تعلیم" کا "حرج" نہ ہو۔ پھر اس کو "کاروبارِ تعلیم" نہ کہیں تو کیا کہیں؟؟؟ نہ نقصان نہ گھاٹا، منافع ہی منافع سیما آفتاب
بالکل آپ کی بات ٹھیک ہے۔ کہ تعلیم اب کاروبار بن گیا ہے۔ آپ کے پاس دولت ہے تو آپ کی اولاد ڈاکٹر بھی بن جاتی ہے اور انجیئنرز بھی۔ اور تعلیم بذریعہ دولت کا راستہ ہمارے نجی تعلیمی اداروں نے دکھایا ہے۔ رہ سہی کسر ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں کی بے حسی نے نکال دی ہے۔ آج سے دو دھائی قبل میرے والد صاحب جب مدرس سے ریٹائرڈ ہوئے تو میں نے تجویز پیش کی کہ پرائیویٹ سکول کھول لیتے ہیں۔ ان کا جواب تھا کہ میں تعلیم کا کاروبار نہی بنا سکتا۔ مجھے یاد ہے جب ہمارے گاؤں کے اسکول میں طلباء کی زیرو کلاسز بغیر کسی لالچ کے ہوا کرتی تھیں۔ اور ان دنوں پانچویں کا مقابلے کا امتحان ہوا کرتا تھا اور لالٹین کی روشنی میں اپنے گھر پر بچوں کو پڑھانے کا انتظام بھی کیا جاتا تھا۔ مگر اب صورت حال بدل چکی ہے۔ سرکاری استاد بجائے سکولز میں پڑھانے کے اکیڈمیوں میں پڑھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بڑے بڑے نام کے تعلیمی کیمپس کھل چکے ہیں۔ حتی کہ کچھ "اسلامی تنظیموں" کے ادارے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔
سب کا یہی حال ہے. ترقی، شہرت، عزت کی طلب نےتعلیم کو کاروبار بنا دیا ہے. یہ برتری کی دوڑ ہر قوم میں یکساں ہیں. اس لیے کچھ قومیں اور ملک ترقی یافتہ ہیں. اور کچھ ترقی پذیر کہلاتے ہیں، فرق یہ ہے کہ اس کاروباری تعلیم سے بھی پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا. تعلیم کا معیار ویسا ہی ہے. جیسا کہ تیس سال پہلے تھا. کچھ چیزوں کو برداشت کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ کے رزلٹ آئے..
جزاک اللہ خیرا میں نے بھی نجی تعلیمی ادرے سے ہی تعلیم حاصل کی ہے میٹرک تک مگر اس اوسط درجے کے اسکوم میں بھی ڈسپلن کی اتنی پابندی ہوتی تھی کہ پرنسپل کی ہر بچے پر نظر ہوتی تھی کہ بلا وجہ یہاں وہاں کیوں کھڑا ہے، بغیر درخواست چھٹی پر پوچھ گچھ الگ کجا کہ بچہ مہینوں اسکول کی شکل نہ دیکھے۔ میرے خیال میں وقت کے ساتھ ساتھ ہماری سوچ میں مقصدیت کے بجائے مادیت بڑھتی جا رہی ہے جس کا نتیجہ ہم اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ اللہ رحم فرمائے۔
جی بالکل ترقی، شہرت اور عزت کی طلب غلط نہیں ہر ایک کا حق ہے کہ وہ آگے بڑھے مگر اس کے لیے ہر حد کو پار کرجانا غلط ہے۔ آپ کی بات سے اتفاق کرتی ہوں کہ رزلٹ دکھائی دے تو کچھ باتیں نظرانداز بھی کی جا سکتی ہیں مگر ہمارے ہاں تو نقل سے پاس شدہ ڈاکٹروں، انجینیروں، حتیٰ کہ اساتذہ کی بھرمار نظر آتی ہے جن میں قابلیت نام کو نہیں ۔