اسلام میں عورت کا ختنہ – احکام ومسائل

مقبول احمد سلفی نے 'صحت و طب' میں ‏اگست 24, 2022 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    871
    اسلام میں عورت کا ختنہ – احکام ومسائل
    تحریر: مقبول احمد سلفی/اسلامک دعوۃ سنٹر، حی السلامہ –جدہ

    اسلام میں ختنہ ایک فطری عمل ہے لیکن غیرمسلموں کی طرف سے اس پر مختلف سوالات اٹھائے جاتے ہیں، وجہ اسلام دشمنی ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ختنہ ایک امتیازی مذہبی پہچان ہے جس کی وجہ سے کسی مسلمان کادوسرے ادیان میں داخل ہونا بہت مشکل امر ہے۔ تاہم اس کے طبی فوائد کی وجہ سے بہت سارے غیرمسلم لوگ بھی اپنا ختنہ کرواتے ہیں ۔ جہاں تک عورتوں کے ختنہ کا معاملہ ہے تو اس معاملہ کو غیرمسلم کچھ زیادہ ہی اچھالتے ہیں تاکہ لوگوں کو اسلام سے نفرت دلاسکیں ۔ان کے غلط پروپیگنڈوں کی وجہ سے کچھ سادہ ذہن کے کم پڑھے لکھے یا یوں کہہ لیں دینی تعلیم سے نابلد موڈرن مسلمان غیرمسلموں کی مخالفت کو صحیح سمجھنے لگتے ہیں اور عورتوں کے ختنہ کو اسلام مخالف اور انسانیت مخالف قرار دیتے ہیں ۔
    میں اپنے مضمون میں اپنے مسلمان بھائیوں کی معلومات کےلئے عورت کے ختنہ سے متعلق احکام ومسائل بیان کررہاہوں تاکہ وہ اسے پڑھ کر حق بات کو جان سکیں اور کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں ۔ عورتوں کے ختنہ سے متعلق متعدد احادیث آئی ہیں بلکہ اس بارے میں صحیحین کی بھی روایات سےرہنمائی ملتی ہے ۔ ان دلائل کو آپ کے سامنے ذکر کررہاہوں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے لئے ختنہ کا ثبوت ملتا ہے ۔
    صحیح بخاری کی حدیث ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :نبی ﷺ نے فرمایا:الفِطْرَةُ خَمْسٌ: الخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمُ الأظْفَارِ، وَنَتْفُ الآبَاطِ( صحيح البخاري:5891)
    ترجمہ: پانچ چیزیں ختنہ کرانا، زیر ناف مونڈنا، مونچھ کترانا، ناخن ترشوانا اور بغل کے بال نوچنا پیدائشی سنتیں ہیں۔
    اس حدیث میں پانچ چیزوں کو فطرت قرار دیا گیا ہے یعنی انسانی فطرت ان چیزوں کا تقاضہ کرتی ہے گویا یہ انسانی فطرت کے خلاف نہیں بلکہ موافق ہے ۔ اور چونکہ ان پانچ چیزوں میں عورت کو الگ نہیں کیا گیا ہے اس وجہ سے اس حکم میں عورت بھی شامل ہے سوائے مونچھ کے کہ یہ مردوں کے خصائص میں سے ہے ۔
    اسی طرح صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں:
    إذا جَلَسَ بيْنَ شُعَبِها الأرْبَعِ ومَسَّ الخِتانُ الخِتانَ فقَدْ وجَبَ الغُسْلُ(صحيح مسلم:349)
    ترجمہ: جب مرد عورت کے چاروں کونوں میں بیٹھے اور ختنہ ختنہ سے مل جائےتو غسل واجب ہو گیا۔
    یہ جماع سے متعلق حدیث ہے ، اس میں شرمگاہ کا ذکر نہیں، ختان کا لفظ آیا ہےجواس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عہد رسول کی خواتین ختنہ کراتی تھیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے مسند کے اس معنی کی حدیث کے بارے میں یہی کہا ہے ۔
    إذا الْتَقَى الخِتانانِ وجَبَ الغُسلُ(تخريج المسند:26025)ترجمہ: جب ایک ختنہ دوسرے ختنہ سے مل جائے تب غسل واجب ہوجاتا ہے۔
    عہد رسالت میں عربوں کی خواتین میں ختنہ کا رواج بھی صحیح بخاری کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔ ایک لمبی سی حدیث ہے، اس میں مذکور ہے کہ عزوہ احد کے موقع پر جب (دونوں فوجیں آمنے سامنے) لڑنے کے لیے صف آراء ہو گئیں تو (قریش کی صف میں سے) سباع بن عبدالعزیٰ نکلا اور اس نے آواز دی، ہے کوئی لڑنے والا؟ بیان کیا کہ (اس کی اس دعوت مبازرت پر) امیر حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نکل کر آئے اور فرمایا:
    يا سِبَاعُ، يا ابْنَ أُمِّ أنْمَارٍ مُقَطِّعَةِ البُظُورِ، أتُحَادُّ اللَّهَ ورَسولَه صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ؟! قَالَ: ثُمَّ شَدَّ عليه، فَكانَ كَأَمْسِ الذَّاهِبِ(صحيح البخاري:4072)
    ترجمہ: اے سباع! اے ام انمار کے بیٹے! جو عورتوں کے ختنے کیا کرتی تھی، تو اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے آیا ہے؟ بیان کیا کہ پھر حمزہ رضی اللہ عنہ نے اس پر حملہ کیا (اور اسے قتل کر دیا) اب وہ واقعہ گزرے ہوئے دن کی طرح ہو چکا تھا۔
    اسى ليے عرب كے ہاں گالى گلوچ كے وقت " يا بن القلفاء " كہا جاتا ہے، جس كا معنى ہے بغير ختنہ كے زيادہ شہوت والى كے بيٹے.
    عورتوں کے ختنہ سے متعلق ایک مشہور حدیث اس طرح وارد ہے ۔ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
    أنَّ امرأةً كانت تختِنُ بالمدينةِ فقال لها النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ لا تُنهِكي فإنَّ ذلك أحظى للمرأةِ وأحبُ إلى البَعلِ(صحيح أبي داود:5271)
    ترجمہ: مدینہ میں ایک عورت عورتوں کا ختنہ کیا کرتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:نیچا کر ختنہ مت کرویعنی بہت نیچے سے مت کاٹوکیونکہ یہ عورت کے لیے زیادہ لطف و لذت کی چیز ہے اور شوہر کے لیے زیادہ پسندیدہ۔
    اس حدیث کی سند میں ایک راوی محمد بن حسان مجہول ہے جس کی وجہ سے سند ضعیف ہے لیکن متابعات اور شواہد کی بناپر شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
    انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ام ایمن نام کی ایک عورت مدینہ میں ختنہ کیا کرتی تھی اس سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
    إذا خفضْتِ فأَشِمِّي ولا تُنهِكي فإنه أسرى للوجهِ وأحظى للزوجِ( السلسلة الصحيحة:2/344 )
    ترجمہ: جب تو (کسی لڑکی کا) ختنہ کرے تو کچھ کھال چھوڑ دیا کر اور (کاٹنے میں) مبالغہ آمیزی نہ کیا کر، کیونکہ یہ چیز چہرے کو خوبصورت بنانے والی اور اسے خاوند کے لیے مقبول بنانے والی ہے۔
    ام علقمہ رحمہا اللہ سے روایت ہے:
    أنَّ بناتَ أخي عائشةَ [ خُتِنَّ ] ، فَقيل لعائشةَ : ألا نَدعو لهنَّ من يُلهِيهِنَّ ؟ قالَت : بلَى ، فأرسَلتُ إلى عَدِىٍّ فأتاهُنَّ فمرَّتْ عائشةُ في البَيتِ فرأَتْه يتغنَّى ويُحرِّكُ رأسَه طرَبًا وكانَ ذا شَعرٍ كثيرٍ فقالَت : أُفٍّ ، شَيطانٌ ! أخرِجُوهُ ، أخرِجُوهُ(صحيح الأدب المفرد:945)
    ترجمہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھتیجیوں کے ختنے کیے گئے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی گئی: کیا ہم ان کو بہلانے کے لیے کسی شخص کو نہ بلائیں؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ چنانچہ اس نے عدی کی طرف پیغام بھیجا تو وہ آیا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا گھر سے گزریں تو دیکھا کہ وہ گا رہا ہے اور جھوم رہا ہے۔ وہ بہت بالوں والا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اف! اس شیطان کو نکالو، نکالو اسے۔
    ان دلائل کے ذکر کے بعد صاحب عون المعبود کا قول ذکر کرنا امانتداری سمجھتا ہوں ، انہوں نے عورت کے ختنہ پر احادیث کو جمع کیا ہے اور فیصلہ کرتے ہوئے آخر میں لکھا ہے :"اور عورت کے ختنہ کی حدیث کئی سندوں سے مروی ہے جو سب ضعیف معلول اور مخدوش ہیں ان سے حجت پکڑنا صحیح نہیں جیساکہ آپ جان گئے ہیں اور ابن منذر نے کہا ختان میں کوئی حدیث نہیں جس کی طرف رجوع کیا جائے اور نہ کوئی سنت ہے جس کی پیروی کی جائے اور ابن عبدالبر نے تمہید میں کہا وہ چیز جس پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ ختنہ مردوں کے لیے ہے"۔ (عون المعبود: 4/ 543)

    حقیقت یہ ہے کہ جن احادیث پر ضعف کا حکم لگایا جاتا ہے ان سے صرف نظر کیا جائے تب بھی صحیحین کی روایات عورتوں کے ختنہ پر دلالت کرتی ہیں بلکہ صحیح مسلم کی روایت جس میں ختان کا لفظ آیا ہےوہ عورتوں کے ختنہ کی مشروعیت پر واضح برہان ہے۔

    عورت کے ختنہ کا حکم :ختنہ کے حکم کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک قول تو یہ ہے کہ مردو عورت دونوں کے حق میں واجب ہے ۔د وسرا قول یہ ہے کہ دونوں کے حق میں مسنون ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ مرد کے حق میں واجب اور عورت کے حق میں مسنون ومستحب ہے۔تیسرا قول قوی اور راحج ہے یعنی عورتوں کے حق میں ختنہ مستحب ہے اور اسی جانب اکثر اہل علم گئے ہیں ۔ اس بنیاد پر ہم یہ کہیں گے کہ کوئی مسلم عورت ختنہ کرائے تو اس میں قباحت نہیں ہے اور کوئی نہ کرائے تو اس میں کوئی گناہ بھی نہیں ہے ۔

    ختنہ کی جگہ ،اس کا طریقہ اور اس کا وقت : پیشاب نکلنے والی جگہ کے اوپر مرغ کی کلغی کی طرح جو چمڑی ہوتی ہے اس کا کچھ حصہ کاٹا جائے گا مگر اس میں مبالغہ نہیں کیا جائے گا یعنی اس حصے کو جڑ سے نہیں کاٹا جائے ، اس کا کچھ حصہ کاٹا جائے گاجیساکہ اوپر ابوداؤد اور سلسلہ صحیحہ کی روایت میں مذکور ہے۔
    مختلف ممالک میں اس سے ہٹ کر مختلف طریقوں پر ختنہ کیا جاتا ہے جو خلاف سنت ہے بلکہ بعض طریقےاذیت ناک ہیں اس وجہ سے ماہر اور صحیح معرفت رکھنے والی مسلم عورت سے ہی ختنہ کرایا جائے ۔ ختنہ کے لئے مناسب و بہتر وقت پچپن ہے کہ اس وقت زخم آسانی سے مندمل بھی ہوجاتا ہے اور تکلیف کا احساس بھی کم ہوتا ہے۔

    عورتوں کے ختنہ کی حکمت وفوائد: ختنہ سے عورتوں کی شہوت اعتدال پر آجاتی ہے اور میاں بیوی دونوں کے لئے زیادت لذت کا باعث ہے۔طبی نقطہ نظر سے مسلم اطباء اور اہل علم نے مختلف قسم کے فوائد بیان کئے ہیں ۔مثلا کبھی وہ کلغی بڑی ہونے کے سبب عدم لذت یا شوہر کے لئے تشویش کا سبب بن جاتی ہے ۔ اس کلغی کے ہٹنے سے اس کے نیچے گندگی جمع ہونے، اس میں بدبوہونے اور کسی طرح کا انفیکشن پیدا ہونے کا خطرہ نہیں رہتا ۔ ایک بڑا فائدہ پیشاب میں آسانی کا ہے کیونکہ یہ چمڑی اسی کے اوپر ہوتی ہے جس سے پیشاب میں دقت پیدا ہوتی ہے ۔ اسی طرح بہت سے جنسی امراض، پیشاب کی نالی کی جلن ، پیشاب کی نالی اور رحم کے کینسر سے حفاظت ہوتی ہے ۔

    انسانی صحت اور عورتوں کا ختنہ : سطور بالا سے ہمیں معلوم ہوچلا ہے کہ عرب کی خواتین میں ختنہ کا عام رواج تھا ،اگر اس سے ہلاکت کا خطرہ ہوتا یا یہ عمل عورت کے حق میں ظالمانہ ہوتا تو نبی کریم اس عمل سےعورتوں کو ضرورمنع فرماتے مگر اس طرح کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ملتی ۔اس وجہ سے ہمارے لئے نبی ﷺ کا فرمان ہی اس طور کافی ہے کہ اس عمل میں عورتوں پر نہ ظلم ہے اور نہ ہی انہیں ہلاکت میں ڈالنے کا سبب ہے ۔ اسلامی تعلیمات فطرت کے عین مطابق اور انسانیت کے حق میں ہے ۔ طلب کمال اور بڑے فوائد کے لئے ختنہ کی معمولی تکلیف قابل اعتراض ہرگز نہیں ہے ۔بعض طبی اداروں نے عورتوں کے ختنہ کو ظلم و ضرر سے تعبیر کیا ہے جس کے نتیجے میں مختلف ممالک میں عورتوں کے ختنہ پر پابندی لگائی گئی ہےبلکہ بعض ممالک میں بہت سختی سے اس پر عمل کیا جاتا ہے اور پکڑے جانے پر سزا دی جاتی ہے ۔ حقیقت میں ان طبی اداروں کی رپوٹ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ رپورٹ مذہبی عداوت میں اسلام مخالف بھی ہوسکتی ہے ، کسی شرارتی عورت کی عدالتی یا طبی طور پر جھوٹی شکایت کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہے ، سنت سے ہٹ کر ظالمانہ طریقہ ختنہ کے سبب بھی ہوسکتی ہے (جیساکہ مختلف ختنے غلط اور تکلیف دہ ہوتے ہیں، اس کا اسلام سے تعلق نہیں)، ختنہ کی ماہردائی نہ ہونے کے سبب ختنہ سے ہونے والے بعض نقصانات کی وجہ بھی ہوسکتی ہے یا ایک آدھ قدرتی بیماری کو ختنہ سے جوڑکر اسلام کو بدنام کرنے کی سازش بھی ہوسکتی ہے، مسلمانوں کے علاوہ دوسرے ادیان میں بھی ختنہ کا رواج ہے ہوسکتاہے ان کے یہاں ظالمانہ طریقہ ہواس کے سبب مسلمانوں پربھی اعتراض کیا جاتا ہو ۔اس لحاظ سے علی الاطلاق طبی رپورٹ کی بنیا د پر یہ کہنا کہ عورتوں کا ختنہ ان پر ظلم اور ہلاکت کا باعث ہے غلط ہے۔ آپ جسمانی سرجری پر غور کریں تو ہر قسم کی سرجری میں کم یازیادہ تکلیف ہوتی ہے اور اس سے انسان کو خطرہ لاحق رہتا ہے بلکہ ضرورت کے وقت بڑی سے بڑی سرجری کی جاتی ہےاور اسے معمولی تصورکیاجاتا ہے کیونکہ سرجری کے واسطے جدید سے جدیدآلات وسہولیات میسر ہیں پھر ختنہ جیسی معمولی سرجری پر واویلا کیوں ؟

    ختنہ پر اجرت لینا: ختنہ کے لئے ماہر دائی ہونا چاہئے یا اس کام کے لئے مخصوص طبیبہ ہو جو اس عمل کو نہایت بہتر طریقے سے سنت کے مطابق انجام دے لہذا اس عمل کو بطور پیشہ اختیار کیا جاسکتا ہے اور اس پر اجرت لی جاسکتی ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں