تفسیر سورہ توبہ - فہم القرآن

ابوعکاشہ نے 'ماہِ رمضان المبارک' میں ‏اپریل 14, 2023 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    تفسیر سورہ توبہ- فہم القرآن

    سورت کے نام:
    التوبہ، براءۃ، المشقشقہ، الفاضحہ، المبعثرہ، البحوث، المدمدمہ۔

    وجہ تسمیہ:
    التوبہ: اس سورت کے اندر کثرت سے توبہ کی دعوت دی گئی ہے، اور اس پر ابھارا گیا ہے، کیونکہ توبہ اللہ کے نزدیک بہت ہی محبوب ہے، اللہ چاہتا ہے کہ اسکے بندے توبہ کرکے عذاب الہی سے چھٹکارا حاصل کر لیں۔
    براءۃ: اسلئے کہ اس سورت کا آغاز ہی مشرکین سے براءت کرکے ہوا ہے۔
    المشقشقہ: یعنی چھٹکارا دلانے والی، اس لئے کہ یہ سورت پڑھنے والا نفاق اور شرک سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے۔
    الفاضحہ: اسلئے کہ اس سورت میں منافقین کی فضیحت ہے۔
    المبعثرہ: اسلئے کہ اس سورت نے منافقین کو ایکسپوز کردیا ہے۔
    البحوث: اسلئے کہ اس سورت نے منافقین اور مشرکین کے دلوں کی باتوں کو نکال کر رکھ دیا ہے۔
    المدمدمہ: یعنی ہلاک کرنے والی، اسلئے کہ یہ سورت مشرکین کے ہلاک کا سبب بنی ہے۔

    سورت کی فضیلت:
    -سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (من أخذ السبع الأول من القرآن فهو حبر)" ترجمہ: جس نے قرآن مجید کی پہلی سات سورتیں سیکھ لیں وہ عالم ہے۔“ (سلسلہ صحیحہ: ۲۳۰۵)۔
    سات سورتوں سے مراد بقرہ، آل عمران، النساء، المائدہ، الانعام، الاعراف اور التوبہ ہیں۔

    سورت کے آغاز و اختتام میں مطابقت:
    - اس سورت کے آغاز میں مشرکین سے براءت کا اظہار کیا گیا ہے اور ان سب سے قتال کا حکم ہے جو اسکے مستحق ہیں، ارشاد باری تعالی ہے: (بَرَاءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ) ترجمہ: اللہ اوراس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہے۔ ان مشرکوں کے بارے میں جن سے تم نے عہد وپیمان کیا تھا۔ ( التوبہ: ۱)۔
    مزید ارشاد باری تعالی ہے: (فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ) ترجمہ: پھر حرمت والے مہینوں کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو انہیں گرفتار کرو، ان کا محاصره کرلو اور ان کی تاک میں ہر گھاٹی میں جا بیٹھو، ہاں اگر وه توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوٰة ادا کرنے لگیں توتم ان کی راہیں چھوڑ دو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے ۔ (التوبہ: ۵)
    - سورت کا اختتام ان مشرکین سے براءت کا اظہار کرکے ہوا ہے جو روگردانی کرتے ہیں اور وہ قتال کے مستحق نہیں ہیں، اور ایسے موقع پر اللہ سے استعانت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے
    فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ) ترجمہ: پھر اگر رو گردانی کریں تو آپ کہہ دیجیئے کہ میرے لیے اللہ کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وه بڑے عرش کا مالک ہے۔ (التوبہ: ۱۲۹)۔
    - اور یہ مشرکین کے ساتھ اسلام کا عدل پر مبنی برتاؤ ہے۔

    سورت کا مرکزی نکتہ:
    مشرکین سے براءت کا اظہار کرنا اور سب کیلئے توبہ کا دروازہ کھول دینا۔

    سورت کے موضوعات:
    ۱- مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان تعلقات، اور اسے بڑے ہی مرتب اور بہترین پیرائے میں بیان کیا گیا ہے:
    - مشرکین اور انکے اعتقاد سے قلبی طور پر براءت کا اظہار کرنا۔ جیسا کہ آپ آیت نمبر ۱ میں دیکھ سکتے ہیں۔
    - ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد و پیمان ہے اسے پورا کرنا، جیسا کہ آپ آیت نمبر ۴، ۷ میں دیکھ سکتے ہیں۔
    - انہیں حق کی دعوت دینا اور اس کیلئے مناسب موقع کی تلاش کرنا، جیسا کہ آپ آیت نمبر ۶ میں دیکھ سکتے ہیں۔
    - ان میں جو سرکش ہوں اور لوگوں کو راہ حق سے روکتے ہوں ان سے قتال کرنا، جیسا کہ آپ آیت نمبر ۱۲- ۱۴ میں دیکھ سکتے ہیں۔
    - اگر کوئی امان مانگے تو انہیں امان دے دینا چاہیے، جیسا کہ آپ آیت نمبر ۶ میں دیکھ سکتے ہیں۔
    - اگر وہ مسلمانوں کے تابع ہوجائیں تو ان سے قتال نہیں کرنا چاہیے گرچہ وہ ایمان نہ لائیں، جیسا کہ آپ آیت نمبر ۲۹، ۱۲۹ میں دیکھ سکتے ہیں۔
    ۲- جہاد کی اہمیت، اسکی ترغیب، اور سستی دکھانے والوں کو ڈرانا، جیسا کہ آپ آیت نمبر۳۸، ۳۹ میں دیکھ سکتے ہیں۔
    ۳- منافقین کو مجرم قرار دینا اور انکی دسیسہ کاریوں کو ایکسپوز کرنا۔
    ۴- مصارف زکاۃ کی تشریح جو کہ جہاد کا ایک ستون ہے، جیسا کہ آپ آیت ۶۰ میں دیکھ سکتے ہیں۔
    ۵- مقصد خلافت کو پورا کرنے کیلئے اللہ کے ساتھ بیعت کرنا تاکہ اسکے دین کو سربلندی مل سکے، جیسا کہ آپ آیت نمبر۱۱۱ میں دیکھ سکتے ہیں۔

    فوائد اور اہم نکات:
    ۱- یہ سورت ترتیب مصحف میں سورہ انفال (غزوہ بدر) کے بعد ہے مگر نزول کے اعتبار سے غزوہ تبوک کے بعد ہے، اور یہ اسلئے تاکہ قاری کو دونوں غزوات کے درمیان فرق اور کامیابی کے اسباب کا پتہ چل جائے۔
    ۲- اس سورت کے اندر کفار ومنافقین کیلئے سخت سے سخت وعیدیں موجود ہیں مگر پھر بھی انکے لئے توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔
    ۳- اس سورت کے اندر (التوبہ ) اور اسکے مشتقات کا ذکر ۱۷/ بار آیا ہے، اس طرح قرآن میں توبہ کا ذکر سب سے زیادہ اسی سورت میں آیا ہے، جس سے اللہ کی رحمت کی وسعت کا پتہ چلتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر کس قدر رحم دل ہے۔
    ۴- اس سورت نے توبہ کا دروازہ سب کیلئے کھول دیا ہے درج ذیل آیات میں :
    - حربی کفار کیلئے، جیسا کہ آپ آیت ۵، ۱۰، ۱۱، ۱۵ میں دیکھ سکتے ہیں۔
    - کمزور ایمان والوں کیلئے، جیسا کہ آپ آیت ۲۴، ۲۷ میں دیکھ سکتے ہیں۔
    - اللہ پر توکل نہ کرنے والوں کا توبہ، جیسا کہ آپ آیت ۲۷ میں دیکھ سکتے ہیں۔
    - منافقین اور مرتدین کا توبہ، جیسا کہ آپ آیت ۷۴ میں دیکھ سکتے ہیں۔
    - شک والوں کا توبہ، جیسا کہ آپ آیت ۱۰۲ میں دیکھ سکتے ہیں۔
    - نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا توبہ، جیسا کہ آپ آیت ۱۱۷ میں دیکھ سکتے ہیں۔
    - غزوہ میں پیچھے رہ جانے والوں کا توبہ، جیسا کہ آپ آیت ۱۱۸ میں دیکھ سکتے ہیں۔
    ۵- سورہ توبہ ہی وہ سورت ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر حجۃ الوداع کے موقع پر سب سے آخر میں نازل ہوئی ہے، توبہ سے بے نیازی کبھی نہیں ہوسکتی، بندہ ہر وقت اس کا محتاج ہوتا ہے۔
    ۶- ارشاد باری تعالی ہے:
    إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ) ترجمہ: خدا نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں (اور اس کے) عوض ان کے لیے بہشت (تیار کی) ہے۔ یہ لوگ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں تو مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں بھی ہیں۔ یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے۔ جس کا پورا کرنا اسے ضرور ہے اور خدا سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو۔ اور یہی بڑی کامیابی ہے (التوبة:۱۱۱)۔
    یہاں پر اللہ نے مال پر جان کو مقدم کیا ہے، اس لئے کہ اصل جان کی قیمت ہے، مال اس کے تابع ہے، کیوں کہ جب آپ کسی کی جان کے مالک ہوگئے تو اسکے مال کے بھی مالک ہوجائیں گے۔ (تفسیر ابن القیم )۔
    ۷- ارشاد باری تعالی ہے:
    إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ) ترجمہ: تم نے پہلی مرتبہ ہی بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا پس تم پیچھے ره جانے والوں میں ہی بیٹھے رہو (التوبة:۸۳)۔
    وقت آنے پر جو اللہ کے حکم کی بجا آواری میں سستی کا مظاہرہ کرتا ہے اللہ اسے اپنی رضا کی توفیق نہ دیکر اس سے انتقام لیتا ہے۔
    ۸- اس سورت کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کیوں نہیں پایا جاتا؟
    حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: مَا حَمَلَكُمْ أَنْ عَمَدْتُمْ إِلَى الْأَنْفَالِ وَهِيَ مِنَ الْمَثَانِي، وَإِلَى بَرَاءَةٌ وَهِيَ مِنَ الْمِئِينَ فَقَرَنْتُمْ بَيْنَهُمَا وَلَمْ تَكْتُبُوا بَيْنَهُمَا سَطْرَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَوَضَعْتُمُوهَا فِي السَّبْعِ الطُّوَلِ، مَا حَمَلَكُمْ عَلَى ذَلِكَ؟ فَقَالَ عُثْمَانُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا يَأْتِي عَلَيْهِ الزَّمَانُ وَهُوَ تَنْزِلُ عَلَيْهِ السُّوَرُ ذَوَاتُ الْعَدَدِ، فَكَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الشَّيْءُ دَعَا بَعْضَ مَنْ كَانَ يَكْتُبُ فَيَقُولُ: ضَعُوا هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا، وَإِذَا نَزَلَتْ عَلَيْهِ الْآيَةُ فَيَقُولُ ضَعُوا هَذِهِ الْآيَةَ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا، وَكَانَتْ الْأَنْفَالُ مِنْ أَوَائِلِ مَا أُنْزِلَتْ بِالْمَدِينَةِ، وَكَانَتْ بَرَاءَةُ مِنْ آخِرِ الْقُرْآنِ، وَكَانَتْ قِصَّتُهَا شَبِيهَةً بِقِصَّتِهَا فَظَنَنْتُ أَنَّهَا مِنْهَا، فَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُبَيِّنْ لَنَا أَنَّهَا مِنْهَا فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ قَرَنْتُ بَيْنَهُمَا، وَلَمْ أَكْتُبْ بَيْنَهُمَا سَطْرَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَوَضَعْتُهَا فِي السَّبْعِ الطُّوَلِ "۔
    ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان رضی الله عنہ سے کہا کہ کس چیز نے آپ کو آمادہ کیا کہ سورۃ الانفال کو جو «مثانی» میں سے ہے اور سورۃ برأۃ کو جو «مئین» میں سے ہے دونوں کو ایک ساتھ ملا دیا، اور ان دونوں سورتوں کے بیچ میں «بسم الله الرحمن الرحيم» کی سطر بھی نہ لکھی۔ اور ان دونوں کو «سبع طوال» (سات لمبی سورتوں) میں شامل کر دیا۔ کس سبب سے آپ نے ایسا کیا؟ عثمان رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر زمانہ آتا جا رہا تھا اور آپ پر متعدد سورتیں نازل ہو رہی تھیں، تو جب آپ پر کوئی آیت نازل ہوتی تو وحی لکھنے والوں میں سے آپ کسی کو بلاتے اور کہتے کہ ان آیات کو اس سورۃ میں شامل کر دو جس میں ایسا ایسا مذکور ہے۔ اور پھر جب آپ پر کوئی آیت اترتی تو آپ فرماتے اس آیت کو اس سورۃ میں رکھ دو جس میں اس اس طرح کا ذکر ہے۔ سورۃ الانفال ان سورتوں میں سے ہے جو مدینہ میں آنے کے بعد شروع شروع میں نازل ہوئی ہیں۔ اور سورۃ برأت قرآن کے آخر میں نازل ہوئی ہے۔ اور دونوں کے قصوں میں ایک دوسرے سے مشابہت تھی تو ہمیں خیال ہوا کہ یہ اس کا ایک حصہ (و تکملہ) ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بتائے بغیر کہ یہ سورۃ اسی سورۃ کا جزو حصہ ہے اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔ اس سبب سے ہم نے ان دونوں سورتوں کو ایک ساتھ ملا دیا اور ان دونوں سورتوں کے درمیان ہم نے «بسم الله الرحمن الرحيم» نہیں لکھا اور ہم نے اسے «سبع طوال» میں رکھ دیا (شامل کر دیا)۔ (سنن ترمذی: ۳۰۸۶)۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں