بابرکت و باسعادت بڑھاپا

اجمل نے 'اسلامی کتب' میں ‏اکتوبر، 21, 2023 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
  2. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    نمبر (۲) قطع رحمی

    انسان ایک معاشرتی مخلوق ہے۔ معاشرے میں ساتھ مل کر رہنا اس کی فطرت میں شامل ہے اور یہ اس کی ضرورت اور مجبوری بھی ہے۔ دو مختلف جنس کے افراد میاں بیوی کا رشتے استوار کرکے ایک خاندان کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ پرانے رشتے برقرار رہتے ہیں اور ساتھ ساتھ نئے رشتے بننے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس طرح انسان بڑھاپے میں پہنچتے پہنچتے بے شمار رشتوں میں بندھ جاتا ہے۔ ہر انسان کے لیے ان سارے رشتوں کو نبھانا ضروری ہوتا ہے لیکن ان میں نسبی رشتے اہم ہیں، یعنی ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی، بھائی، بہن، خالہ، پھوپھی، چچا، ماموں وغیرہ وغیرہ۔ اگر انسان کا تعلق اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا رہے تو اس کی بہت سی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں، ورنہ اس کا ذہن اور دل کشمکش اور الجھن کا شکار رہتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تاکید کی ہے کہ وہ صلہ رحمی کا معاملہ کریں اور قطع رحمی سے پرہیز کریں۔

    حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بغاوت اور قطع رحمی کرنے والے کے علاوہ کسی اور کو اللہ تعالیٰ سزا دینے میں جلدی نہیں کرتے، ان دونوں عملوں کے مرتکب کو اللہ تعالیٰ دنیا میں فوراً سزا دیتے ہیں اور آخرت میں بھی اُنہیں سزا ملے گی‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 918)

    افسوس کہ دین سے دوری، مادیت پرستی، جہالت، غربت، اخلاق رذیلہ، اور برداشت کی کمی نے آج ہر رشتے میں دراڑ پیدا کر دی ہے۔ ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی بھائی بھائی سے برسوں بات نہیں کرتا، باپ بیٹے کا چہرہ دیکھنا پسند نہیں کرتا تو بیٹا باپ کو سلام کرنا بھی گوارا نہیں کرتا، ماں بیٹی سے ناراض ہے تو بیٹی ماں سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی، بہن بہن میں ایسی دوری ہے کہ عیدین کو بھی ملنا جلنا بند کیا ہوا ہے۔ جبکہ عام مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ بات چیت چھوڑے رکھنے کی مُمانَعَت ہے، جیسا کہ حضرت ابوایوب انصاری ﷛ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ کسی مسلمان کے لیے درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے کہ وہ دونوں ملیں تو یہ منہ پھیر لے، اور وہ منہ پھیر لے، اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے‘‘۔ (صحیح بخاری: 6077، سنن ابی داو: 4911)
     
  3. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    جو قطع رحمی کرے گا یعنی جو رحم کے رشتے کو کاٹے گا، اللہ تعالیٰ بھی اسے کاٹ دے گا، یعنی اپنی رحمت سے دور کر دے گا۔ جیسا کہ سنن ترمذی کی حدیث میں آیا ہے: ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ابوالرداد لیثی بیمار ہو گئے، عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ ان کی عیادت کو گئے، ابوالرداد نے کہا: میرے علم کے مطابق ابو محمد (عبدالرحمٰن بن عوف) لوگوں میں سب سے اچھے اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں، عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ : ’’میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے «رحم» (یعنی رشتے ناتے) کو پیدا کیا ہے، اور اس کا نام اپنے نام سے (مشتق کر کے) رکھا ہے، اس لیے جو اسے جوڑے گا میں اسے (اپنی رحمت سے) جوڑے رکھوں گا اور جو اسے کاٹے گا میں بھی اسے (اپنی رحمت سے) کاٹ دوں گا‘‘۔ (سنن ترمذي: 1908)

    ایک اور حدیث میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی، جب اس سے فراغت ہوئی تو رحم (رشتہ داری) نے عرض کیا کہ اس شخص کا کیا مقام ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ مانگے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’(اے رحم) کیا تم اس سے راضی نہیں ہو کہ میں اس سے ملوں گا جو تم سے ملیں گے اور ان سے تعلق نہ رکھوں گا جو تم سے تعلق نہ رکھے گا‘‘۔ صلہ رحمی نے عرض کی :’’ میں اس پر راضی ہوں‘‘، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’ میں نے یہ مقام تجھ کو دے دیا‘‘۔ نبی ﷺ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو اس کی تصدیق میں پڑھ لو : فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ --- ’’ اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تمہیں حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو‘‘(22) سورة محمد ۔ (صحیح البخاری: 5987)

    پھر زمین میں فساد برپا کرنے اور رشتے ناتے توڑنے کی سزا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

    أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ ‎(٢٣) سورة محمد
    ’’یہی وہ لوگ ہیں جن پر الله نے لعنت کی ہے پھرانہیں بہرا اور اندھا بھی کر دیا ہے‘‘

    یعنی رشتے ناتے توڑنے والے پر اللہ تعالیٰ لعنت بھیجتاہے اور اسے ایسا کر دیتا ہے کہ نہ ہی وہ حق کی آواز سن سکتا ہے اور نہ ہی حق کو دیکھ اور قبول کر سکتا ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کی لعنت سے بچنے کے لیے صلہ رحمی ضروری ہے، اور صلہ رحمی حقوق کی ادائیگی سے مشروط ہے، اس لیے فرمایا:

    وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ‎(٢٦) سورة الإسراء
    ''اور رشتے داروں کو ان کا حق دو اور مسکینوں اور مسافروں کو بھی اور (خبردار) فضول خرچی نہ کرو "

    صلہ رحمی حق کی ادائیگی سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات بھی صحیح ہوں، سلام کلام میں بھی فرق نہیں آیا ہو، ایک دوسرے کے یہاں آنا جانا ملنا ملانا بھی دستور کے مطابق ہو رہا ہو لیکن اگر کوئی اپنے کسی رشتہ دار کا حق یا حقوق کا غاصب ہو تو رشتہ چونکہ برقرار ہے وہ قطع رحمی کرنے والا نہیں کہلائے گا لیکن حق کے غصب کرنے کا وبال اس کے سر ہوگا، اور اس کی اسے سزا ملے گی۔ ہمارے معاشرے میں اکثریت اپنی بیٹیوں / بہنوں کے حقوق کے غاصب ہیں کیونکہ اکثریت انہیں وراثت میں حصہ نہیں دیتی تو اندیشہ ہے کہ ایسے لوگ اپنی ساری عمر عبادت میں گزارنے کے باوجود جہنم میں ڈال دیئے جائیں۔ ( اس کی تفصیل ہبہ، عطیہ و تحفہ دینے میں ناانصافی، کے زیر عنوان بیان ہو چکی ہے)۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    کسی حق دار کو میراث میں سے مقرر کردہ حق نہ دینا میراث کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو چیلنج کرنا ہے۔ آج مسلم معاشرے میں بعض اچھے خاصے دیندار مسلمان بھی اپنی ماں، بیوی، بیٹی اور بہن وغیرہ کو میراث میں حصہ نہیں دیتے جو کہ ان عورتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ہے۔ اگرچہ عورتوں کی اکثریت اس معاملے میں خاموش رہتی ہے، لیکن لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس ظلم پر اللہ تعالیٰ خاموش نہیں رہتا، وہ سزا دیتا ہے جیسا کہ درج ذیل کی حدیث میں بتایا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ظلم و زیادتی اور قطع رحمی جیسا کوئی اور ایسا گناہ نہیں جس کی سزا اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی دیتا ہے اور آخرت میں بھی۔ (سنن ابی داوُ: 4902)

    یاد رکھیے: ظلم و زیادتی اور قطع رحمی وہ گناہ ہیں جن کی سزا انسان کو دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی ملے گی۔

    ایک موقعے پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے رشتے داروں کا خیال رکھنا چاہیے (یعنی صلہ رحمی کرنی چاہیے)۔ (صحیح بخاری: 6138)

    یعنی رشتے داروں کا خیال رکھنا مومن کی پہچان ہے۔ لیکن آج کتنے ایسے عمر رسیدہ لوگ ہیں جو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں، لیکن ابھی بھی ان کے دل نرم نہیں ہوئے، انا کا مسٔلہ بنا کر رحم کے رشتوں تک سے قطع تعلق کیے ہوئے ہیں۔ ذرا سوچیے! اگر اسی حالت میں انہیں موت آجائے تو ان کا ٹھکانہ کہاں ہوگا؟

    ضروری ہے ہم میں سے ہر کوئی وقتاً فوقتاً اپنے تمام رشتہ داروں کے ساتھ اپنے معاملات پر نظر ڈالے اور دیکھے کہ کن کے ساتھ صلہ رحمی اور کن کے ساتھ قطع رحمی کامعاملہ چل رہا ہے۔ اگر ہمیں کسی خرابی کا علم اور احساس ہی نہ ہوگا تو اس کی اصلاح کیسے ممکن ہوگی؟ جب ہمیں اپنے ناراض رشتہ داروں کا پتہ چل جائے تو ان سے صلہ رحمی کرنے کے طریقے سوچیں اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں، وہ ضرور ہماری مدد کرے گا۔ کیونکہ اسی کے ہاتھ میں تمام لوگوں کے قلوب ہیں اور وہ دلوں کو پھیرنے والا ہے۔ جو لوگ ہم سے راضی ہیں، وہ تو خوش ہیں ہی، ناراض لوگوں کو منانا اصل کام ہے۔
     
  5. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    السلام علیکم
    کتاب ’’بابرکت و باسعادت بڑھاپا‘‘ کا ایک تہائی حصہ یہاں شیئر کیا جا چکا ہے۔ بقیہ حصہ پڑھنے کے لیے کتاب ہدیہ دے کر حاصل کریں، مہربانی ہوگی۔رابطہ نمبر 03262366183
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں