کیا صحرائے عرب کے بدو تقدیر کو ہم سے بہتر سمجھ لیتے ہیں (ایک کہانی، انگریز مصنف کی زبانی)

طالب علم نے 'دیس پردیس' میں ‏ستمبر 14, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. طالب علم

    طالب علم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2007
    پیغامات:
    960
    السلام علیکم دوستو!
    عرصہ ہوا مشہور انگریز مصنف ڈیل کارینگی کی کتاب "Stop Worrying, start living" کا اردو ترجمہ بنام "پریشان ہونا چھوڑئیے جینا شروع کیجئے" کے نام سے پڑھنے کو ملا۔ اگرچہ مصنف نے عیسائی ہونے کے ناطے اپنی کتاب میں کہیں کہیں عیسائیت کا پرچار کیا ہے لیکن وہ اس وقت میرا موضوع سخن نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارے لئے اسلام ہی کافی ہے۔
    میں اس کتاب سے آپ کو ایک اقتباس پڑھوانا چاہتا ہوں جس نے مجھے بہت متاثر کیا۔ آئیے آغاز کرتے ہیں۔


    ۔ ۔ ۔
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    از سر ٹامس بوڈلی

    1918 ء میں میں اپنی جانی پہچانی ہوئی دنیا سے الگ تھلگ شمال مغربی افریقہ میں چلا گیا اور وہاں کے صحرا میں عربوں کے ساتھ بودوباش اختیار کرلی۔ میں نے وہاں سات سال گذارے اور اس دوران میں نے خانہ بدوشوں کی زبان میں گفتگو کرنا سیکھا اور ان کی معاشرت کا مطالعہ کیا۔ میں ان کے کپڑے پہنتا اور انھیں کے ساتھ زمین پر سوتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    میں سات سال تک ان خانہ بدوش عربوں کے ساتھ رہا اور یہ میری زندگی کے نہایت ہی پر سکون اور اطمینان بخش سال تھے مجھے پہلے ہی گوناگوں اور زرخیز تجربے حاصل ہو چکے تھے میں پیرس میں انگریز والدین کے گھر پیدا ہوا۔ اور نو سال تک فرانس میں رہا ۔۔۔ ۔ ۔ ۔
    ۔ ۔ ۔ ۔
    ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    میں نے عربوں کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں خوش ہوں کہ میں نے ایسا کیا ۔ عربوں نے مجھے پریشانی پر غالب آنا سکھایا۔ تمام مسلمانوں کی طرح وہ بھی تقدیر کے قائل ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو لفظ بھی قرآن میں لکھا اور وہ خدا کی طرف سے وحی بن کر ان پر نازل ہوتا تھا۔ چنانچہ جب قرآن کہتا ہے ۔ "خدا نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے افعال کو" وہ اسےلفظآ معنآ تسلیم کرتے ہیں۔
    چنانچہ یہ وجہ ہے کہ جب کوئی کام خراب ہو جائے، انھیں بالکل غصہ نہیں آتا۔ وہ جلد بازی اور عجلت سے کام نہیں لیتے بلکہ زندگی نہایت سکون کے ساتھ گزارتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ قسمت میں لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا اور خدا کے سوا کوئی اسے بدل یا بگاڑ نہیں سکتا۔
    تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ عرب ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ رہتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے۔ اس کے لئے میں آپ کو صحرائے اعظم کی تند وتیز ، نہایت خوفناک اور سخت جلا دینے والی باد سموم کے متعلق بتاتا ہوں جب میں صحرا میں رہتا تھا تو اس کاتجربہ ہوا۔ یہ باد سموم تین دن تک چیختی چلاتی اور دھاڑتی رہی۔ یہ اتنی تند، سخت اور شدید تھی کہ اس نے صحرائے اعظم سے ریت اٹھا کر ہزاروں میل دور بحیرہ روم کے اس پار فرانس کی وادی ردن میں پھینک دی۔ ہوا اس قدر گرم تھی کہ مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں کسی شیشے کی فیکٹری میں آتش دان کے سامنے کھڑا ہوں میری حالت پاگلوں کی سی ہوگئی تھی اور ہوش و حواس جواب دے رہے تھے۔ لیکن عربوں کے لئے گلہ شکوہ نہیں کیا۔ وہ اپنے کندھے سکیڑتے اورکہتے "مکتوب" !ــ"یہ لکھا ہوا ہے!"
    لیکن طوفان کے تھم جانے کے بعد وہ فی الفور عمل پر کمر بستہ ہو گئے۔ انھوں نے تمام بھیڑ کے بچوں کو ذبحہ کر ڈالا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ بہر صورت ہلاک ہو جائیں گے اور انھیں ذبح کرتے وقت انھیں یہ بھی تو امید تھی کہ وہ اپنی بھیڑوں کو موت کی آغوش میں جانے سے بچا سکیں گے۔ لیلوں کو ذبح کرنے کے بعد انھوں نے اپنے ریوڑ جنوب میں پانی کی طرف ہانک دئیے۔ وہ نہ تو اپنے نقصان عظیم پر پریشان ہوئے۔ نہ انھوں نے واویلا کیا اور نہ شکایت کی بلکہ سب کچھ سکون کے ساتھ برداشت کر لیا۔ قبیلے کے سردار نے کہا۔ "کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔ ہماری ہر چیز ضائع ہو سکتی تھی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہماری چالیس فیصدی بھیڑیں بچ گئیں جن سے ہم نئی زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں!"
    مجھے ایک اور واقعہ یاد ہے ہم موٹر پر صحرا میں کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ہمارے ایک ٹائر کی ہوا نکل گئی۔ شوفر فالتو ٹائر کو درست کرنا بھول گیا تھا۔ چنانچہ ہمارے پاس صرف تین ہی بڑے ٹائر باقی رہ گئے تھے۔ میں بہت پریشان تھا اور مجھے غصہ بھی آگیا۔ میں نے عربوں سے پوچھا کہ "اب ہم کیا کریں گے؟" انھوں نے مجھے یاد دلایا کہ مشتعل ہونے سے کچھ نہیں بنے گا۔ سوائے اس کے کہ کسی کا پارہ چڑھ جائے گا۔ انھوں نے کہا "اللہ کی یہی مرضی تھی کہ ایک پہیے کی ہوا نکل جائے اور اب اس کے متعلق کچھ نہیں ہو سکتا"۔ چنانچہ ہم ایک پہیے کی لکیر کے ساتھ گھسٹتے ہوئے چل پڑے کہ اچانک انجن پھڑ پھڑایا اور کار کھڑی ہوگئی۔ ہمارے پاس پٹرول ختم ہو گیا تھا۔ سردار نے صرف یہ کہا" مکتوب!" اور دوبارہ ڈرائیور پر ناراض ہونے کے بجائے کیونکہ اس نے کافی پٹرول نہیں لیا تھا، ہر شخص ساکن اور خاموش رہا اور ہم اپنی منزل پر پیدل چل کر پہنچے اور چلتے وقت راستے میں بآواز بلند گاتے جاتے تھے۔
    میں نے جو سات سال عربوں کے ساتھ گذارے، انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ امریکہ اور یورپ کے اعصاب زدہ، جنونی اور مخمور و مظطرب اور عاجل زندگیوں کی پیداوار ہیں جو کہ ہم اپنی نام نہاد تہزیب میں گذارتے ہیں
    جب تک میں صحرا میں رہا مجھے کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوئی، میں نے "خدا کے باغ" میں وہ غیر متطلاطم اور پرسکون قناعت اور جسمانی برتری دیکھی جس کی ہمارے اکثر بھائی قنوطیت ، مایوسی اور اعصابی کھنچاؤ میں تلاش کرتے رہتے ہیں۔
    بہت سے لوگ "جبر وقدر" کے فلسفے پر ہنستے ہیں۔ ممکن ہے وہ ٹھیک کہتے ہوں۔ کون جانتا ہے ؟ لیکن ہم سب کو اتنا جاننے کے ضرور قابل ہونا چاہیے کہ ہماری قسمتوں کو کس طرح متعین کیا جاتاہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    ۔ ۔ ۔
    میں اپنی زندگی کو مڑ کر پیچھے دیکھتا ہوں تو مجھے نظر آتا ہے کہ بار بار حالات و واقعات نے اسے کس طرح متشکل و مولد کیا ہے، جو میرے اختیار سے باہر ہوتے تھے۔ عرب اسے "مکتوب"، قسمت"ـــــ یا "خدا کی مرضی" کہتے ہیں۔ آپ اسے جو چاہیں کہہ لیں، لیکن یہ آپ کے لئے عجیب و غریب کام کرتی ہے۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ آج صحرا کو چھوڑنے کے سترہ سال بعد بھی میں نہایت خوشی اور تسلیم و رضا کے ساتھ ناگزیر کو قبول کر لیتا ہوں۔ اور یہ بات میں نے عربوں ہی سے سیکھی تھی۔ اس فلسفے نے میرے اعصاب کو ہزاروں مسکن دواؤں سے زیادہ سکون و اطمینان بخشا ہے۔
     
  2. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    میں اس جگہ مسلم شریف کی ایک حدیث لکھ دینا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ ہم سب لوگوں پر یہ آشکارا ہوجائے کہ مومن ومسلمان کی زندگی کتنی اچھی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:'' عجباً لامر المومِن اِن امرہ کلہ خیر ولیس ذا ک لأحد ِالا لِلمومن ان اصابتہ سرا فشکر فکان خیرا لہ وان اصابتہ ضرا صبر فکان خیرا لہ'' '' مجھے مومن کے معاملے پر بہت تعجب ہوتا ہے کہ اس کا ہر معاملہ بہتر ہے ،اور یہ صرف مومن کیلئے ہے ،اگر اسے خوشی حاصل ہوتی ہے اور اللہ کا شکریہ ادا کرتا ہے تو اس کیلئے خیر ہے ،اور اگر اسے مصیبت لاحق ہوتی ہے اور وہ صبر کرتا ہے پھر بھی اس کیلئے بھلائی''
    کیا اس سے اچھی زندگی کسی کی ہوسکتی ہے کہ ہرحال میں اسے اجروثواب ملے ؟؟ صرف مومن کیلئے۔
     
  3. Abu Abdullah

    Abu Abdullah -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 7, 2007
    پیغامات:
    934
    جزاک اللہ خیرا بھائی - بہت عمدا ثحریر پیش کی ہے
     
  4. دانیال ابیر

    دانیال ابیر محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 10, 2008
    پیغامات:
    8,415
    جزاک اللہ بہت شاندار تحریر ہے

    پس ثابت ہوا کہ صبر سب سے بڑا ہتھیار اور اللہ پر بھروسہ کامیابی کی دلیل ہے۔ بات صرف مضبوط یقین پر آ کر ٹہرتی ہے
     
  5. شاہد جمیل حفیظ

    شاہد جمیل حفیظ -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2007
    پیغامات:
    35
  6. مجیب منصور

    مجیب منصور -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏جنوری 29, 2008
    پیغامات:
    2,150
    بھت خوب
     
  7. m aslam oad

    m aslam oad نوآموز.

    شمولیت:
    ‏نومبر 14, 2008
    پیغامات:
    2,443
    ws
     
  8. ABU FOZAN

    ABU FOZAN -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 23, 2008
    پیغامات:
    3
    اچھا ہے
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں