اسلامی درسگاہوں میں تعلیم قرآن کا جامع اور مؤثر طریقہ کار

ابن عمر نے 'عربی علوم' میں ‏اکتوبر، 12, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابن عمر

    ابن عمر رحمہ اللہ بانی اردو مجلس فورم

    شمولیت:
    ‏نومبر 16, 2006
    پیغامات:
    13,354
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم​


    یہ امر کسی صاحب علم سے مخفی نہیں کہ ہمارے ملک بلکہ برصغیر پاک وہند کے پورے علاقے کی اسلامی درسگاہوں بلکہ سرکاری سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی ، قرآن کریم کی تعلیم وتدریس کا جو طریقہ عرصہ دراز سے رائج چلا آ رہا ہے وہ ’ترجمہ قرآن کریم‘ کے نام سے معروف ہے ۔ یہ بچوں کی ابتدائی تعلیم کے مرحلے میں تین چار سال تک جاری رہتا ہے ۔ اور اس کی تدریس یوں ہوتی ہے کہ درس کے آغاز پر ایک طالبعلم مقررہ آیات تلاوت کرتا ہے ، پھر معلم ان آیات کریمہ کا اپنی مقامی زبان اردو ، پشتو یا سندھی وغیرہ میں ترجمہ سکھاتا ہے ۔ وہ ان کا ترجمہ کرتے ہوئے ان میں مذکور مشکل الفاظ اور تراکیب کی حسب ضرورت تشریح بھی کرتا جاتا ہے ۔ طلبہ اور طالبات اس ترجمہ اور تشریح کو نہایت توجہ اور انہماک سے سنتے ہوئے یاد کرلیتے ہیں ۔ کچھ مدرسین اور شیوخ خصوصاً تفسیر قرآن کے مرحلے میں قرآنی مطالب کی تفسیر کو املاء بھی کرادیتے ہیں ۔

    بلا شبہ قرآن کریم کی تعلیم وتدریس اور تفسیر کے اس منہج سے زیر تعلیم طلبہ کو متنوع تعلیمی اور دینی فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔
    1۔ وہ قرآن کریم کے لفظی اور بامحاورہ معانی سیکھ لیتے ہیں ۔

    2۔ وہ قرآن کریم کے الفاظ اور تراکیب کو سمجھنے لگتے ہیں اور کسی حد تک ان کی لغوی ، صرفی اور نحوی تشریح سے آگاہ ہوجاتے ہیں ۔

    3۔ وہ قرآن حکیم کا ترجمہ اور تشریح نیز تفسیر پڑھ کر اس کے متن کے براہ راست فہم ومطالعہ کی اہلیت حاصل کرلیتے ہیں ، اور قرآنی احکام اور ارشادات سے استفادہ کے اہل ہوجاتے ہیں ۔

    چنانچہ ان متعدد فوائد کی بنا پر ’ترجمہ قرآن حکیم‘ کا یہ مضمون ہماری تمام چھوٹی اور بڑی درسگاہوں میں جاری وساری ہے اور اس کی افادیت پر تمام علماءاور مدرسین کا اتفاق ہے ۔

    اصلاحی نقطہ نظر :
    میں اس امر سے اتفاق کرتا ہوں کہ ترجمہ قرآن کریم کی تدریس سے مذکورہ بالا فوائد حاصل ہوتے ہیں ، اور اس مضمون کے مروجہ طریقہ تدریس کی اتنی افادیت ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ لیکن قرآن کریم کی تعلیم وتدریس کے یہ فوائد خود ناکافی اور محدود ہیں اور یہ اس کی تعلیم وتدریس کے کئی بنیادی تعلیمی مقاصد کا احاطہ نہیں کرتے ۔ کیونکہ یہ طریقہ تدریس عالمی سطح پر مسلّمہ تعلیمی معیار پر پورا نہیں اترتا اور بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت کے کم از کم لازمی تقاضوں کی تکمیل نہیں کرتا ۔ چنانچہ انہی اسباب کی بنا پر ہمارے نونہالوں کی تعلیم وتربیت کے کئی اہم اور بنیادی گوشے تشنہ رہ جاتے ہیں ۔ اور مملکت پاکستان میں ہماری دینی اور تعلیمی ضروریات کی تکمیل کیلئے جس سطح کے ماہر معلمین ، اساتذہ ، علماءاور اسکالرز کی ضرورت ہے ان کی تعلیم وتربیت میں بھی یہی ناقص طریقہ تدریس نافذ وغالب ہے ، اسلئے بہتر نتائج حاصل نہیں ہوتے ۔ اس طریقہ تدریس کے فوائد کے مقابلے میں نقصانات زیادہ ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس میں زیر تعلیم بچوں کو قرآن کریم کی آیات کریمہ کا صرف مقامی زبان میں ترجمہ کرنے پر لگا کر اس کی آسان عربی زبان اور ادب کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور انہیں اس کو لکھنے یا بولنے کی کوئی تربیت نہیں دی جاتی ۔ بلکہ انہیں ایسی تربیت یا مشق سے کئی سال تک مسلسل لا تعلق رکھتے ہوئے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اتنا جامد کردیا جاتا ہے کہ اس کے بعد وہ عربی زبان وادب میں اچھی صلاحیت یا بلند مقام کا سوچ بھی نہیں سکتے ، اور اس بارے میں ہمیشہ کیلئے مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔

    اس لیے تعلیم قرآن کریم کے مروجہ طریقہ تدریس کی فوری اصلاح کرتے ہوئے اسے اپنے قومی اور ملی مقاصد اور تعلیم وتربیت کے جدید تقاضوں کے مطابق ترقی دینا ضروری ہوجاتا ہے ۔ میں دینی مدارس کے اساتذہ ، مہتمم حضرات اور تعلیمی وفاقوں کے ذمہ دار بلند مرتبہ علماءاور شیوخ سے درخواست کرتا ہوں کہ میری ان گزارشات پر توجہ فرمائیں۔ ان ارید لا الاصلاح ما استطعت وما توفیقی لا باﷲ ۔

    ہمارے پورے تعلیمی نظام کا اہم ترین مضمون تعلیم قرآن کریم ہے اور زیر تعلیم طلبہ وطالبات کو اس کی بہتر تعلیم وتفہیم کی خاطر انہیں عربی زبان وادب اور حدیث وفقہ نیز اصول کے کئی علوم وفنون کی تعلیم بھی دی جاتی ہے ۔ اس لیے ایک ایسی جماعت جسے ہم مستقبل میں امت کی تعلیمی اور فکری قیادت کے لیے تیار کر رہے ہیں اور وہ عنقریب معلم ، ادیب ، مفتی وخطیب اور محدث ومفسر کی عظیم ذمہ داریوں کو سنبھالیں گے ، کو کتاب اللہ اور فرقان حمید کی تعلیم وتدریس کا طریقہ اور منہج ایسا جامع ، منظم اور مثالی ہونا چاہیے جو انہیں قرآنی الفاظ اور عبارتوں کا ترجمہ سکھانے کے ساتھ ساتھ ان کی عمدہ فکری ، لسانی اور ادبی تربیت ومہارت کی اساس بن سکے ۔

    صرف لفظی ترجمہ رٹنے کا نقصان :
    اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تعلیم قرآن کریم کا یہ عظیم ترین مضمون اس کی عبارت کا صرف لفظی اور زبانی ترجمہ رٹنے اور رٹانے تک محدود چلا آ رہا ہے اور تین چار سال تک اسی نہج پر چلتا رہتا ہے ، اور ایسا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا کہ اس مضمون کے دوسرے سال یا اگلے سالوں میں اس کے تعلیمی مقاصد یا تدریسی نہج میں مزید ترقی کرتے ہوئے اس میں مزید تعلیمی مقاصد کا اضافہ کردیا جائے ۔ نتیجتاً معلمین اور طلبہ وطالبات سب کی نظریں اسی لفظی ترجمہ کو پڑھنے اور پڑھانے اور یاد کرنے تک مرکوز اور محدود رہتی ہیں ۔ رہا قرآن کریم کا اصل عربی متن تو وہ ان سب کی نظروں سے اس قدر اوجھل رہتا ہے کہ اس پورے عرصے میں انہیں اس کی عبارتوں ، استعمالات اور الفاظ کے فہم ومطالعہ پر کوئی بحث یا مشق نہیں کرائی جاتی ۔ اس لیے وہ قرآن کریم کے نہایت آسان عربی استعمالات اور محاوروں سے بھی ناواقف رہتے ہیں اور مشہور قرآنی افعال کے مادوں اور ان کے صلات تک کو نہیں سمجھتے ۔

    ہماری اسلامی درسگاہوں میں تعلیم قرآن ایسے بنیادی اور اہم اسلامی مضمون کا یہ جمود نسل در نسل چلا آرہا ہے اور اس نے ہمارے لاکھوں ذہین اور محنتی نوجوانوں کی تعلیم وتربیت پر کئی منفی اثرات ڈالے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ نمایاں نقصان یہ ہے کہ ان لاکھوں نوجوانوں کو کتاب حکیم کی عربی زبان وادب کے فہم ومطالعہ سے اس حد تک محروم رکھا جاتا ہے کہ اس کی تدریس تین چار سال کا طویل عرصہ جاری رہنے کے باوجود معلمین یا طلبہ کو اس پر عربی زبان میں چند صفحات لکھنے یا بولنے کی مشق نہیں کرائی جاتی ۔

    آپ کو شاید دنیا کے کسی ترقی یافتہ تعلیمی نظام میں کسی کتاب یا کورس کا محض لفظی ترجمہ رٹانے کے اس جمود کی ایسی کوئی مثال نہ ملے جو ہماری درسگاہوں میں برسوں تک جاری رہتا ہے ۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ جمود عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے ۔

    یہاں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ عام لوگ جو کسی مستند تعلیمی درسگاہ میں نہ پڑھتے ہوں وہ اگر اپنی کاروباری مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر صرف ترجمہ قرآن کریم پڑھیں تو یہ ان کے لیے بہت کام کی بات ہے ، کہ وہ اس طرح قرآن کریم کے الفاظ کا لفظی ترجمہ یاد کرکے اللہ تعالیٰ کے احکام اور ارشادات سے آگاہ ہورہے ہیں ۔ لیکن جس گروہ نے اپنی عمروں کا بہترین وقت کسب وتعلم کیلئے وقف کیا ہوا ہے اور وہ اسلامی تعلیم اور عربی زبان کے تمام بنیادی علوم وفنون کو سالہا سال پڑھیں گے اور مستقبل میں بلند علمی مناصب پر فائز ہوں گے ، کیا وہ بھی ان عام لوگوں کی طرح سالوں تک قرآن کریم کا صرف لفظی ترجمہ ہی رٹتے رہیں ؟

    ایسی صورتحال میں یہ لازمی اور مفید ہوگا کہ جب ان میں مناسب صلاحیت موجود ہوتی ہے اور وقت کی گنجائش بھی ہوتی ہے تو انہیں اس کتاب حکیم کا مقامی زبان میں ترجمہ کرنے کے علاوہ اس کی آسان اور مبارک عربی لغت ، محاوروں اور استعمالات پرمفید معلومات فراہم کی جائیں اور پھر ان معلومات کو ان کے ذہنوں میں راسخ کرنے اور ان کے عملی استعمالات کی تربیت دینے کی غرض سے ان سے متنوع مشقیں حل کرائی جائیں ۔

    ہم تعلیم قرآن اور عربی زبان کے اچھے معلم کیوں تیار نہ کرسکے ؟ :
    ہماری عظیم درسگاہوں میں کتاب اللہ کی تعلیم وتدریس جس سادہ اور ناقص طریقے پر چلی آ رہی ہے اس کے مضر اثرات کی وسعت کا جائزہ لینے کیلئے ان پہلوؤں پر غور کرنا مفید ہوگا :

    اولاً :
    ہمارے طلبہ اور طالبات اپنی نوعمری میں پوری لگن اور شوق سے اپنا تعلیمی سفر شروع کرتے ہیں ، اسلئے یہ ان کی عمدہ تعلیم ، بہتر تربیت اور تخلیقی صلاحیتوں کی اچھی نشو ونما کا سنہری وقت ہوتا ہے ، اور انہیں عربی زبان کو لکھنے اور بولنے کا ابتدائی سلیقہ اور تربیت دینے کا بھی یہی فطری وقت ہوتا ہے لیکن چونکہ ہماری درسگاہوں میں مروجہ طریقہ تدریس کا زیادہ زور عربی عبارتوں کا لفظی ترجہ رٹنے اور صرف ونحو کی گردانوں اور قواعد کو استعمالات کے بغیر یاد کرنے پر ہی رہتا ہے ، اسلئے ہمارے نہایت ذہین اور محنتی بچے بھی عربی ایسی آسان زبان کو لکھنے اور بولنے کی مشق نہیں کرتے ۔ اور وہ قدرتی طور پر اس پہلو میں جمود کا شکار ہوتے ہیں جو آگے جا کر عملی زندگی میں ان کیلئے طرح طرح کی مشکلات کا باعث بنتا ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت جو طریقہ تدریس ہمارے ہاں رائج ہے اس میں طالبعلم سورہ فاتحہ سے لے کر والناس تک پڑھتے ہوئے عربی میں چند صفحات بھی لکھنے کی مشق نہیں کرتا ۔

    ثانیاً :
    پھر اس ایک مضمون کے طریقہ تدریس کی پسماندگی صرف اس ایک مضمون تک محدود نہیں ، بلکہ اکثر معلمین تعلیم وتدریس کے فن سے نا آشنا ہوتے ہیں اور مدارس کی انتظامیہ بھی انہیں فن تعلیم میں تربیت اور تدریب کے مواقع فراہم نہیں کرتی ، اسلئے وہ اس پرانے طریقہ تدریس کو آسان اور چلتا ہوا سکہ خیال کرتے ہوئے اپنائے چلے جاتے ہیں ۔ چنانچہ اس وقت ہماری درسگاہوں میں اکثر مضامین کی تدریس اسی لفظی اور زبانی ترجمہ اور تشریح تک محدود رہتی ہے اور یہ طرز تدریس سال اول سے لے کر شہادۃ العالیۃ اور شہادۃ العالمیۃ تک بلکہ اس سے بھی آگے تخصص کی اقسام ( تخصص فی التفسیر ، تخصص فی الحدیث ، تخصص فی الفقہ ، تخصص فی الافتاءوغیرہ ) اور یونیورسٹی کے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے کورس میں بھی جاری رہتا ہے ۔ یوں کاہلی اور جمود کا یہ غیر مفید طریقہ نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے ۔

    ثالثاً :
    ہمارے عربی مدارس اور اسلامی درسگاہوں میں رائج اس ناقص اور مضر طریقہ تدریس کا ایک وسیع اور قومی سطح کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ یہ درسگاہیں آج تک سرکاری اور غیر سرکاری سکولوں اور کالجوں میں عربی زبان وادب اور اسلامی علوم کی معیاری تدریس کیلئے اچھے معلمین اور اساتذہ تیار نہیں کرسکیں کیونکہ جن معلمین نے خود ایسے ماحول میں تعلیم پائی ہوتی ہے وہ عملی زندگی میں تدریس کا جدید اور ترقی یافتہ انداز اپنانے سے قاصر ہوتے ہیں ۔ یہ مسلّمہ قاعدہ ہے فاقد الشیءلا یعطیہ ( جو شخص خود کسی خوبی سے محروم ہو وہ اسے دوسروں کو نہیں دے سکتا ) ۔ انہی اسباب کی بنا پر ہم قیام پاکستان کے بعد آج تک ماہر معلمین اور اساتذہ کی تیاری کے اس خلا کو پر نہیں کرسکے ۔


    اپنا مختصر تعارف :
    چونکہ زیر بحث مسئلہ ملک بھر کے اسلامی مدارس کے نظام تعلیم سے متعلق ہونے کی وجہ سے نہایت اہم ہے اور عمیق غور وفکر کا متقاضی ہے اسلئے میں اس موقع پر محترم علماءاور اساتذہ کی اطلاع اور اطمینان کیلئے اپنا مختصر تعارف عرض کرنا مفید خیال کرتا ہوں ۔

    میں یہ گذارشات بتوفیقہ سبحانہ وتعالٰی تعلیم وتربیت کے میدان میں اپنے طویل تجربات اور غور وفکر کی روشنی میں ان عظیم اسلامی درسگاہوں کو بہتر علمی وتعلیمی ترقی دینے کی غرض سے پیش کر رہا ہوں ۔ میں خود متعدد اسلامی درسگاہوں کا بانی ہوں ، اور دن رات ان کے بہتر اور ترقی یافتہ نصاب کی ترتیب وتصنیف میں مشغول رہتا ہوں ۔ ماضی میں ملت کے جن اکابر علماءاور مفکرین سے میرا کسی طرح کا تعلق رہا ہے میں ان کی قیمتی آراءسے استفادہ کرتے ہوئے ہی اسلامی علوم اور عربی زبان کی خدمت کر رہا ہوں ۔ ان میں اولاً میرے اساتذہ مولانا عبدالغفار حسن ، مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی ، مولانا معاذ الرحمن ، مولانا عبد اللہ امرتسری ، مولانا مفتی سیاح الدین کاکاخیل اور مولانا مفتی ابوالبرکات احمد مدراسی ہیں ۔ ان کے علاوہ مولانا عبدالرحیم اشرف ، مفتی محمد شفیع ، مولانا محمد یوسف بنوری ، مولانا محمد اسماعیل سلفی ، مولانا محمد حنیف ندوی ، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ، مولانا امین احسن اصلاحی ، مولانا خلیل احمد حامدی ، مولانا عطاءاللہ حنیف نیز مولانا ابوالحسن علی ندوی ، مولانا منظور احمد نعمانی ، اور معلم الانشاءکے مؤلف مولانا عبدالماجد ندوی نیز اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ کے وائس چانسلر اور سعودی عرب کے مفتی اکبر شیخ عبدالعزیز بن باز ، الطریقۃ الجدیدۃ کے مؤلف ڈاکٹر احمد امین مصری کے اسماءگرامی شامل ہیں ۔ رحمہم اﷲ جمیعا وغفر لہم ورفع درجاتہم ۔

    میں 1973 ء کے آخر میں اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ میں اعلیٰ تربیتی کورس کیلئے گیا تو وہاں اپنے قیام کے دوران مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ سے گاہے گاہے ملاقات ہوتی تو ان سے دار العلوم ندوۃ العلماءکے اس وقت کے نصاب تعلیم اور برصغیر پاک وہند میں عربی زبان وادب کی اشاعت پر تبادلہ خیال ہوتا ۔ وہ اکثر میری سوچ اور جذبہ عمل کی حوصلہ افزائی فرماتے ۔

    ایک بار انہوں نے حرم مکی میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
    بشیر صاحب ، مملکت پاکستان میں عربی زبان کے ایک سپاہی کی ضرورت ہے اور وہ آپ ہی ہوسکتے ہیں ۔ لہٰذا سفارتخانے کی ملازمت کو چھوڑ کر پاکستان جائیے ۔
    میں پہلے ہی اسی نظریے کو لے کر عالم عرب میں عربی زبان وادب کی ترقی کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنے کی غرض سے سعودی عرب گیا تھا ۔ مزید کسی ڈگری یا سروس کا حصول میرا مقصد نہ تھا ۔ اس لیے ان کی اس رائے سے میرے پرانے تصور کو تقویت ملی ۔ میں نے جدہ کے پاکستانی سفارتخانے میں ملازمت کے دنوں میں اقرا الجزءالاول کا مسودہ تیار کر لیا تھا اور الجزءالثانی کی ترتیب جاری تھی ۔

    آخر میں اپنے مہربان دوست اور تعلیم عربی کے عالمی ماہر جناب ڈاکٹر عبدالرحیم مؤلف کتاب دروس اللغۃ العربیۃ ( تین حصے ) کا تذکرہ ضروری ہے ۔ سعودی عرب میں اپنے قیام کے دوران اور کئی تعلیمی کانفرنسوں میں میرا ان سے تبادلہ خیال ہوتا ، اور ان کے تجربات سے استفادہ کرتا ۔

    مولانا محمد بشیر ( مدیر معہد اللغۃ العربیۃ اسلام آباد )
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. دانیال ابیر

    دانیال ابیر محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 10, 2008
    پیغامات:
    8,415
    بہت بہترین تحریر ہے ، جزاک اللہ شداد بھائی
     
  3. فتاة القرآن

    فتاة القرآن -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 30, 2008
    پیغامات:
    1,444
    جزاک اللہ بھائی
     
  4. گل خان

    گل خان -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 5, 2007
    پیغامات:
    515
    جزاک اللہ
     
  5. Abu Abdullah

    Abu Abdullah -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 7, 2007
    پیغامات:
    934
    جزاک اللہ خیرا!
     
  6. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    یہ تو واقعی سوچنے والی بات ہے کہ ہم لوگ لفظی ترجمہ تو یاد کر لیتا ہیں لیکن قرآن کا اصلی عربی متن سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے یا یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات سمجھانے والا بھی صحیح طرح سمجھا نہیں پاتا۔
    جزاک اللہ خیرا شداد بھائی، بہترین مضمون شیئر کیا آپ نے۔
    اللہ تعالٰی مولانا محمد بشیر کی کوششوں میں‌ انکی مدد فرمائے اور اس ضمن میں انکی کاوشوں کو قبول فرمائے۔ آمین۔
     
  7. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ خیرا!
     
  8. hameedjan

    hameedjan -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 1, 2010
    پیغامات:
    12
    جزاک اللہ خیر:00001:
     
  9. ابو ابراهيم

    ابو ابراهيم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 11, 2009
    پیغامات:
    3,871
    جزاک اللہ خیرا
     
  10. ام القری

    ام القری رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مارچ 29, 2013
    پیغامات:
    217
    جزاك الله الجنة الفردوس الأعلى۔۔۔آمین یا رب
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں