قصیدہ بردہ شریف

فرحان دانش نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏مئی 14, 2009 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. فرحان دانش

    فرحان دانش -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 3, 2007
    پیغامات:
    434
    قصیدہ ء بردہ شریف (عربی:قصيدة البردة) ایک شاعرانہ کلام ہے جوکہ مصر کے معروف صوفی شاعر ابو عبد اللہ محمد ابن سعد البوصیری (1211ء-1294ء) نے تحریر فرمایا۔ آپ کی تحریر کردہ یہ شاعری پوری اسلامی دنیا میں نہایت معروف ہے۔

    مقبولیت

    تصوف اور ولیوں کے ماننے والے مسلمانوں نے شروع ہی سے اس کلام کو بے حد عزت و توقیر دی۔ اس کلام کو حفظ کیا جاتا ہے اور مذہبی مجالس و محافل میں پڑھا جاتا ہے اور اس کے اشعار عوامی شہرت کی حامل عمارتوں میں مسجدوں میں خوبصورت خطاطی میں لکھے جاتے ہیں۔ کچھ مسلمانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر قصیدہ بردہ شریف سچی محبت اور عقیدت کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ بیماریوں سے بچاتا ہے اور دلوں کو پاک کرتا ہے۔ اب تک اس کلام کی نوے (90) سے زائد تشریحات تحریر کی جاچکی ہیں اور اس کے تراجم فارسی، اردو، ترکی، بربر، پنجابی، انگریزی، فرینچ، جرمنی، سندھی و دیگر بہت سے زبانوں میں کئے جا چکے ہیں۔

    طرزِ تحریر

    مولاي صلــــي وسلــــم دائمـــاً أبــــدا
    علـــى حبيبــــك خيــر الخلق كلهـم
    أمن تذكــــــر جيــــــرانٍ بذى ســــــلم
    مزجت دمعا جَرَى من مقلةٍ بـــــدم
    َمْ هبَّــــت الريـــــحُ مِنْ تلقاءِ كاظمــةٍ
    وأَومض البرق في الظَّلْماءِ من إِضم
    فما لعينيك إن قلت اكْفُفاهمتـــــــــــــــا
    وما لقلبك إن قلت استفق يهـــــــــم
    أيحسب الصب أن الحب منكتـــــــــــم
    ما بين منسجم منه ومضطــــــــرم
    لولا الهوى لم ترق دمعاً على طـــــللٍ
    ولا أرقت لذكر البانِ والعلــــــــــمِ
    فكيف تنكر حباً بعد ما شـــــــــــــهدت
    به عليك عدول الدمع والســـــــــقمِ
    وأثبت الوجد خطَّيْ عبرةٍ وضــــــــنى
    مثل البهار على خديك والعنــــــــم
    نعم سرى طيف من أهوى فأرقنـــــــي
    والحب يعترض اللذات بالألــــــــمِ
    يا لائمي في الهوى العذري معـــــذرة
    مني إليك ولو أنصفت لم تلــــــــــمِ
    عدتك حالي لا سري بمســــــــــــــتتر
    عن الوشاة ولا دائي بمنحســـــــــم
    محضتني النصح لكن لست أســـــمعهُ
    إن المحب عن العذال في صــــــممِ
    إنى اتهمت نصيح الشيب في عـــــذلي
    والشيب أبعد في نصح عن التهـــتـمِ​
     
  2. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    بھائی کیا یہ قصیدہ صحابہ کرام یا تابعین نے نقل کیا ہے۔ لاحول ولاقوۃ الا باللہ۔
    کیانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دین کی تمام تعلیمات پہنچائی یا نہیں!!!!
    اگر دین کو اللہ نے مکمل کرلیا تو پھر من گھڑت قصیدے گھڑ کر اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان تو نہیں باندھ رہے ہیں۔
    اس من گھڑت قصیدے کو لاکھوں بار پڑھنے سے اچھا ہے کہ بندہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سنت سے ثابت درود پڑھے کیوں کہ اللہ کے ہاں وہی عمل قابل قبول ہے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی مہر لگی ہو۔
     
  3. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623

    منسلک فائلیں:

    • qasida1.gif
      qasida1.gif
      فائل کا حجم:
      45.1 KB
      مشاہدات:
      5
    • qasida2.gif
      qasida2.gif
      فائل کا حجم:
      46.5 KB
      مشاہدات:
      4
    • qasida3.gif
      qasida3.gif
      فائل کا حجم:
      10.1 KB
      مشاہدات:
      60
  4. فاروق

    فاروق --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏مئی 13, 2009
    پیغامات:
    5,127
    اللہ بدعت سے بچاۓ اور شرک جو کہ سب سے بڑا ظلم ہے اس سے بھی آمین
     
  5. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    فوری طور پر یہ مشورہ میکسیکو کی حکومت اور دیگر متاثرہ ممالک کو دیا جانا چاہیئے تاکہ سوائن فلو پر قابو پا سکیں، ویسے پاکستان میں تو ہسپتالوں‌کا نام و نشان ہی نہیں ہونا چاہیئے تھا کیونکہ یہاں جس زور و شور سے سچی محبت و عقیدت کا دعویٰ کیا جاتا ہے اس کی تو مثال ہی نہیں ملتی اور تو اور حکومتی سطح پر بھی 12 ربیع الاول کی چھٹی منائی جاتی ہے، لیکن لگتا ہے کہ اس کا اثر الٹا ہو رہا ہے۔ آئے روز جسمانی و ذہنی بیماریوں کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور سماجی بیماریوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، نہ تو قصیدے اثر دکھا رہے ہیں نہ ہی غوث، ولی اور ابدال، قیامت کی نشانی ہے بھائی!
     
  6. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    بھائی رفی ان قصیدوں سے صرف وہ لوگ شفاء یاب ہوئے ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں
    فضائل اعمال و فضائل صدقات کی طرح ہمیشہ جس کی کرامات کا ذکر کیا جاتا ہے تو پھر مصنف ہمیشہ کسی ایسی شخصیت کا حوالہ دیتے ہیں‌جو برسوں پہلے مرچکا ہو یا پھر کسی گمنام شخصیت کی طرف بات کو منسوب کیا جاتا ہے کہ ایک صوفی صاحب کو جنت اور جہنم کا کشف ہوتا ہے۔ اب ظاہر ہے جب پوچھنے والا پوچھے گا کہ آپ نے کہا ںسنا تو پھر اس کا آسان جواب یہ ہے کہ سنانے والے کا انتقال ہوگیا ہے یا مجھے کسی دوست نے یہ قصہ سنایا تھا اس کو جس نے سنایا تھا وہ مرچکا ہے۔

    ہمیشہ کرامات مرنے کے بعد ذکر کی جاتی ہیں حالانکہ وہ شخص جب زندہ ہوتا ہے تو پھر اس کی کرامت کوئی بیان نہیں‌کرتا۔
     
  7. حافظ کامران

    حافظ کامران -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏مئی 2, 2009
    پیغامات:
    65
    حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مخلوق میں سب سے افضل ہیں‌یہ کون نہیں مانتا یہ سب مانتے ہیں
    نبی کریم میں دونوں‌صفات پائی جاتی ہیں نوری بھی اور بشری بھی اگر کوئی حضور کو بشر نہ مانے وہ بھی کافر ہے اور جو نور نہ مانے وہ بھی کافر ہے
    اگر آپ کا اختلاف ہو تو بندہ ناچیز حاضر ہے
    رہی بات حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو مشکل میں‌ پکارنا مدد مانگنا تو یہ اللہ تعالٰی کا حکم ہے کہ

    اگر یہ لوگ جس وقت اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو یہ تمہارے پاس آ جائیں بخشش مانگیں اللہ تعالٰی سے اور بخشش مانگیں ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا پائیں گے
    ابن حجر مکی نے کہا کہ یہ آیت دلالت کرتی ہے مسلمانوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کی رغبت دلانے پر برائے استغفار اور دلالت کرتی ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی دعائے شریفہ کے حصول کے لیے بعد وفات حاضری پر کیونکہ تحقیق حضور پاک صٌی اللہ علیہ و سلم زندہ ہیں‌
    بدن اور روح کے ساتھ اور اس ہیءت کے ساتھ ہیں جیسے قبل وفات تھے اور آپ میں کچھ تغیر بھی نہیں ہوا
     
  8. حافظ کامران

    حافظ کامران -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏مئی 2, 2009
    پیغامات:
    65
    یہ کیا ہے شکر جو کہ سب سے بڑا ہے اس سے بھی
    اس سے کیا مراد ہے جناب
     
  9. حافظ کامران

    حافظ کامران -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏مئی 2, 2009
    پیغامات:
    65
    کیا آپ کی یہ باتیں صحابہ اور تابعین سے منقول ہیں لاحول ولاقوۃ الا باللہ۔

    کی نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف سے آپ کو ہیضہ ہو جاتا ہے

    اللہ تعالٰی نے تو قرآن میں بے شمار جگہ پر تعریف کی ہے

    کیا آپ اللہ تعلٰی پر بھی سوال کریں گے کہ صھابہ اور تابعین نے ایسا کیا ہے ( نعوذ باللہ

    اپنی اصلاح فرمائیں
    مہربانی ہو گی جناب کی
     
  10. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    اللہ کی توحید بیان کرنے سے آپ لوگوں کو ہیضہ ہوجاتا ہے۔
    کیا اس قصیدے کو ثواب کی نیت سے پڑھنا ثابت ہے۔
    کوئی دلیل نہیں آپ لوگوں‌کے پاس ۔ کیا دین خوابوں اور من گھڑت قصوں کا نام ہے۔
    آپ لوگوں‌کو سنت سے چو کچھ ثابت ہے اس عمل سے چڑ ہے اس لئے یہ چیزیں نکالی ہے۔
    ذرا اپنی اصلاح بھی ضروری کیجئے۔
     
  11. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    پیارے بھائی حافظ کامران
    میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں‌کسی ایک صحابی اور تابعی یا فقہ حنفی سے ثابت کریں‌کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نور نہ ماننے والا کافر ہے۔


    برائے مہربانی دلائل کے ساتھ بحث کریں۔
     
  12. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    محترم برادر حافظ کامران
    میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں بے شمار جگہ پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تعریف کی ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ سے بھی منقول ہے۔
    مگر ان تمام مبارک ہستیوں نے تعریف صرف انہی حدود میں رہ کر کی ہے جن حدود کا اشارہ خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) بیان فرما چکے ہیں۔
    جبکہ متذکرہ بالا قصیدہ میں ان حدود کو واضح طور پر توڑا گیا ہے۔ بتائیے کہ کیا یہ توہینِ رسالت (صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں ہے؟؟
    اس قصیدہ سے ہمیں کوئی تکلیف نہیں اور نہ ہی ہمارا یہ تقاضا ہے کہ اسے دنیا سے نیست و نابود کر دیا جائے۔ ہمارا تقاضا تو صرف معمولی سا ہے۔ اور وہ بس یہی کہ اس قصیدے سے وہ تمام اشعار حذف کر دئے جائیں جن سے ان حدود کی خلاف ورزی ہوتی ہو جن حدود کا بیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں۔

    اور دوسری بات یہ کہ ۔۔۔۔۔
    یہ جو آپ نے لکھا ہے :
    بھائی محترم ! مطلق تعریف سے نہیں بلکہ ان باتوں سے تکلیف پہنچتی ہے جن سے کتاب و سنت کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ مثلاً ملاحظہ فرمائیں کہ جو یہ لکھا گیا ہے :
    ایسے کلام کو حفظ کرنے کا کیا فائدہ جس کے ذریعے کتاب و سنت کی حدود کو توڑا گیا ہو؟
    اگر مذہبی مجالس و محافل میں متنازعہ اشعار نکال کر پڑھے جائیں تو ٹھیک ہے۔ مگر کیا ایسا ہوتا ہے؟؟
    مساجد میں تو اللہ کا کلام یا حدیثِ رسول کافی ہوتے ہیں۔ کیا ایسے قصیدوں کو بھی ساتھ فریم کروا کر دانستہ دین میں غلو کا راستہ کھولنے کی کوشش نہیں کی جا رہی؟
    اور آخر میں ۔۔۔۔ کچھ مسلمانوں کا اگر ایسا ماننا ہو جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے تو کیا یہ چیز شریعت میں شامل ہو جائے گی یا بدعقیدگی پھیلانے کا سبب بنے گی؟؟

    امید ہے کہ اس وضاحت سے آپ کچھ غور و فکر کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ اللہ ہم تمام کو ہدایت سے نوازے۔
     
  13. حافظ کامران

    حافظ کامران -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏مئی 2, 2009
    پیغامات:
    65
    کیا یہ توحید نہیں ہے کہ اللہ تعالٰی نے امام بوصیری کو آپنے محبوب کی تعریف کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے
    کیا کبھی آپ نے اللہ کے محبوب کی تعریف میں کوئی جملہ بولا ہے نہیں اس لیے کہ اللہ نے آپ کو توفیق نہیں دی

    یہ من گھڑت قصے نہیں رب کی عطا ہے

    جناب شاہ جی
     
  14. حافظ کامران

    حافظ کامران -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏مئی 2, 2009
    پیغامات:
    65
    جناب پہلے تو وہ شعر تحریر فرمائیں جن میں حدود کو توڑا گیا ہے

    اور رہی بات حفظ کی تو یاد کرنا کوئی گناہ نہیں ہے
    اور مساجد میں پڑھنا یا لگا دینا اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا اس میں کوئی فوٹو تو نہیں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف ہے
    وہ مسجد میں بیان نہ ہو تو سینما میں‌ بیاں کی جائے گی ؟

    خدارا ہوش کریں جس کی حدیثیں سناتے ہیں ان کی عزت بھی کیا کریں

    ایمان تو رب نے انہی کے در سے دیا ہے تو
    اب ان کے در سے دور ہو کر ایمان کہاں ملے گا ؟

    کیا انہیں چھوڑ کر رب ہماری طرف دیکھے گا ؟

    ہمارا رب سے ملنیں کا وسیلہ وہی ہیں
     
  15. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    وہ شعر اور اس کا تجزیہ اسی تھریڈ کی پوسٹ نمبر:3 میں بیان کیا جا چکا ہے کہ کن دلائل سے یہ کتاب و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے؟
     
  16. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    حافظ کامران بھائی!

    کیا سنت طیبہ اور احادیثِ نبوی پر عمل رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت نہیں ہے، یا پھر ہر ایرے غیرے کے خواب پر مبنی اقوال پر عمل کرنے کو آپ محبت سمجھتے ہیں؟

    حافظ صاحب مجھے نہیں معلوم کہ آپ کسی قصیدے کے حافظ ہیں یا قرآن کریم کے، اگر قرآنِ کریم کے حفظ کی سعادت آپ نے حاصل کر رکھی ہے تو اسے سمجھنے کی بھی کوشش کیجیئے تاکہ آپ حفاظتِ قرآن کا مبارک فریضہ صحیح معنوں میں سر انجام دے سکیں، اللہ تعالٰی نے تو واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ ہم نے انہی میں سے آپ کو بھیجا ورنہ کسی فرشتے کو مبعوث کرنا کونسا مشکل کام تھا، اب آپ ہیں‌کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو بشر و نور کا مرکب قرار دے کر انہیں مافوق الفطرت قرار دے رہے ہیں، نعوذ باللہ!

    بھائی عزت اور محبت کا تقاضا یہی ہے کہ جس کی عزت کی جائے اس کے کسی حکم کے نا فرمانی نہ ہونے پائے، اور محبت بھی وہی ہے کہ ان جیسا عمل کرنے کی سعی کی جائے، نہ کہ کسی دیوانے، مجذوب، معذور کے خوابوں کی پیروی کرتے ہوئے ان کی شان کو بڑھانےکے لیے لغو اقوال کی پیروی کی جائے۔

    آپ کو بھی معلوم ہے کہ قرآن پاک کے ایک حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں، قصیدے پر ثواب کہاں سے ثابت ہے، اس تھریڈ کی ابتدائی ریپلائی میں یہی کہا گیا نا کہ اس طرح کے ڈھکوسلوں پر عمل کرنے کے بجائے آپ قرآن و سنت سے ثابت درود شریف پڑھ لیجیئے، پھر رسولِ کریم کی شان پر ہیضہ ہونے کا طعنہ کیسا؟ جبکہ اس بات سے تو آپ کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے کہ کہیں قصیدے کی فضیلت کم نہ ہوجائے!

    امید ہے کہ آپ اتفاق کریں گے کہ کسی بھی انسان کے کلام سے اللہ کا کلام کئی گنا بہتر ہے، جب قرآن کریم میں جا بجا تعریفِ رسول بیان ہوئی ہے تو ایسی چیزوں کی فضیلت کیونکر تسلیم کی جائے، کیا بیمار کو قرآن کی تلاوت کافی نہیں جو قصیدے کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔

    آپ ہی بتائیے کہ آپ نے یا آپ کے گھر والوں نے اس قصیدے کے متعلق پہلی بار کب سُنا؟ یقیناً اس عمر میں نہیں سنا ہوگا جب آپ نے قرآن پڑھنا شروع کیا ہوگا، جبکہ قرآن کے متعلق تو ایک مسلمان گھرانے کا بچہ ہوش سنبھالتےہیں جان لیتا ہے، پھر فضیلت کس شئے کی ہے؟

    جبکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف بیماریوں، دکھوں ، پریشانیوں سے نجات کے لیے کئی دعائیں صحابہ کرام کو سکھائیں، کیا یہ ان سے بھی افضل ہے، یا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم آپکے کے عقیدے کے مطابق غیب کا علم رکھتے تھے تو انہوں نے یہ کیوں‌نہ کہا کے اتنے سال بعد اس نام کا ایک شخص ایک قصیدہ لکھے گا جسے ہر بیمار کو پڑھنا چاہیئے؟

    رہا قصیدہ بردہ بذاتِ خود تو اس کے بارے میں بھی طرح طرح کی روایات آپ لوگوں کی ہی بیان کردہ ہیں، کوئی اسے بوصیری سے منسلک کرتا ہے تو کوئی اصحابہ صفہ رضی اللہ عنہما سے، جو کہ اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے۔
     
  17. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    ہائے پیارے بھائی!!!
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف تو اللہ نے قرآن میں کی ہے۔
    بھائی اس قصیدے سے اچھا ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجیں کیوں کہ اس کا حکم خود اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےدیا ہے۔
    کیا شفاء کے جو فوائد یہاں‌ذکر ہیں وہ آپ کے نزدیک ٹھیک ہیں؟
     
  18. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    فويل لهم مما كتبت ايديهم وويل لهم مما يكسبون (2) سورة البقرة - سورة 2 - آية 79

    کسی کی تعریف زیادہ جامع ہو گی اللہ کی یا کسی انسان کی گئی تعریف؟ پھر جو اللہ کی بتائی گئی تعریف میں اضافہ کرے اور جو اس اضافے کو مانے کیا وہ اپنے ہاتھ سے لکھ کر اسے اللہ کی طرف منسوب کرنے کی جسارت نہیں کرتا؟ جیسے آپنے کہا کہ اللہ نے بوصیری کو توفیق دی، تو بھائی کیا اللہ کو نعوذ باللہ اپنی کی گئی تعریف میں کوئی کمی نظر آئی جو اس کی ضرورت محسوس ہوئی، اللہ ہمیں ہدایت دے۔
     
  19. فاروق

    فاروق --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏مئی 13, 2009
    پیغامات:
    5,127
    لکھنا تھا کہ شرک مگر لکھا گیا شکر میری غلطی ہے سو سوری
     
  20. قمر بخاری

    قمر بخاری -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 21, 2009
    پیغامات:
    41
    باب: سیدنا حسان بن ثابت رض کی فضیلت کا بیان۔

    صحیح مسلم

    1713: سیدنا ابوہریرہ رض سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رض سیدنا حسان رض کے پاس سے گزرے اور وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے حضرت عمر رض نے ان کی طرف (غصہ سے) دیکھا۔ سیدنا حسان رض نے کہا کہ میں تو مسجد میں (اس وقت بھی) شعر پڑھتا تھا جب تم سے بہتر شخص (یعنی نبی (ص)) موجود تھے۔ پھر سیدنا ابوہریرہ رض کی طرف دیکھا او رکہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم نے رسول اللہ (ص) سے سناہے؟ آپ (ص) فرماتے تھے کہ اے حسان! میری طرف سے جواب دے، اے اللہ اس کی روح القدس (جبریل ں) سے مدد کر۔ سیدنا ابوہریرہ رض نے کہا ہاں میں نے سنا ہے یااللہ تو جانتا ہے۔

    1714: سیدنا براء بن عازب رض کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا، آپ (ص) سیدنا حسان بن ثابت رض سے فرماتے تھے کہ (کافروں کی) ہجو کر اور جبرئیل تیرے ساتھ ہیں۔ (کسی کی برائی بیان کرنے کو ہجو کہتے ہیں)۔

    1716: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: قریش کی ہجو کرو کیونکہ ہجو ان کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوار ہے۔پھر آپ (ص) نے ایک شخص کو سیدنا ابن رواحہ رض کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ قریش کی ہجو کرو۔ انہوں نے ہجو کی لیکن آپ (ص) کو پسند نہ آئی۔ پھر سیدنا کعب بن مالک رض کے پاس بھیجا۔ پھر سیدنا حسان بن ثابت رض کے پاس بھیجا۔ جب سیدنا حسان آپ (ص) کے پاس آئے توانہوں نے کہا کہ تم پر وہ وقت آگیا کہ تم نے اس شیر کو بلا بھیجا جو اپنی دُم سے مارتا ہے (یعنی اپنی زبان سے لوگوں کو قتل کرتا ہے گویا میدانِ فصاحت اور شعر گوئی کے شیر ہیں)۔ پھر اپنی زبان باہرنکالی اور اس کو ہلانے لگے اور عرض کیا کہ قسم اس کی جس نے آپ (ص) کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے میں کافروں کو اپنی زبان سے اس طرح پھاڑ ڈالوں گا جیسے چمڑے کو پھاڑ ڈالتے ہیں۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اے حسان! جلدی مت کر! کیونکہ ابوبکر رض قریش کے نسب کو بخوبی جانتے ہیں اور میرا بھی نسب قریش ہی ہیں، تو وہ میرا نسب تجھے علیحدہ کر دیں گے۔ پھر حسان سیدنا ابوبکر رض کے پاس آئے، پھر اس کے بعد لوٹے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ (ص)! سیدنا ابوبکر رض نے آپ (ص) کانسب مجھ سے بیان کر دیا ہے، قسم اس کی جس نے آپ (ص) کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا، میں آپ (ص) کو قریش میں سے ایسا نکال لوں گا جیسے بال آٹے میں سے نکال لیا جاتا ہے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا، آپ (ص) حسان سے فرماتے تھے کہ روح القدس ہمیشہ تیری مدد کرتے رہیں گے جب تک تو اللہ اور اس کے رسول (ص) کی طرف سے جواب دیتا رہے گا۔ اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہاکہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا، آپ (ص) فرماتے تھے کہ حسان نے قریش کی ہجو کی تو مومنوں کے دلوں کو شفا دی اور کافروں کی عزتوں کو تباہ کر دیا۔ حسان نے کہا کہ #

    تو نے محمد (ص) کی بُرائی کی تو میں نے اس کا جواب دیا اور اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ دے گا۔
    تو نے محمد (ص) کی بُرائی کی جو نیک اور پرہیزگار ہیں، اللہ تعالیٰ کے رسول (ص) ہیں اور وفاداری ان کی خصلت ہے۔
    میرے باپ دادا اور میری آبرو محمد (ص) کی آبرو بچانے کے لئے قربان ہیں۔
    اگر کداء (مکہ کے دروازہ پر گھاٹی ) کے دونوں جانب سے غبار اڑتا ہو نہ دیکھو تو میں اپنی جان کو کھوؤں۔
    ایسی اونٹنیاں جو باگوں پر زور کریں گی اور اپنی قوت اور طاقت سے اوپر چڑھتی ہوئیں، انکے کندھوں پر وہ برچھے ہیں جو باریک ہیں یا خون کی پیاسی ہیں
    اور ہمارے گھوڑے دوڑتے ہوئے آئیں گے، انکے منہ عورتیں اپنے دوپٹوں سے پونچھتی ہیں۔
    اگر تم ہم سے نہ بولو تو ہم عمرہ کر لیں گے اور فتح ہو جائے گی اور پردہ اٹھ جائے گا۔
    نہیں تو اس دن کی مار کے لئے صبر کرو جس دن اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا عزت دے گا۔
    اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ایک لشکر تیار کیا ہے جو انصار کا لشکر ہے، جس کا کھیل کافروں سے مقابلہ کرنا ہے۔
    اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ایک بندہ بھیجا جو سچ کہتاہے اس کی بات میں کچھ شبہہ نہیں ہے۔
    ہم تو ہر روز ایک نہ ایک تیاری میں ہیں، گالی گلوچ ہے کافروں سے یا لڑائی ہے یا کافروں کی ہجو ہے۔
    تم میں سے جو کوئی اللہ کے رسول (ص) کی ہجو کرے او ران کی تعریف کرے یا مدد کرے وہ سب برابر ہیں ۔
    جبرائیل اللہ کے رسول ہم میں ہیں اور روح القدس جن کا کوئی مثل نہیں ہے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں