وجود باری تعالی

منہج سلف نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏جولائی 29, 2009 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. منہج سلف

    منہج سلف --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2007
    پیغامات:
    5,047
    وجود باری تعالی


    اللہ تعالی خود بخود موجود ہے ،اپنے وجود میں کسی کا محتاج نہیں۔

    اللہ تعالی واجب الوجود ہے ،یعنی اسکا موجود ہونا ضروری ہے اور اسکاعدم (نہ ہونا) محال یعنی نا ممکن ہے۔ اللہ تعالی کے سوا کوئی چیز واجب الوجود نہیں ۔

    اللہ تعالی کے دو طرح کے نام ہیں، ایک ذاتی، دوسرے صفاتی، ذاتی نام اللہ ہے،صفاتی نام احادیث مبارکہ میں ننانوے بتلائے گئے ہیں جو کہ مشہورو معروف ہیں ، یہ ننانوے نام اللہ تعالی کی تمام صفات کمالیہ کی بنیاد اور اصل ہیں ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف یہی ننانوے نام ہیں ان کے علاوہ اللہ تعالی کے اور نام نہیں ہیں ،بلکہ ان کے علاوہ اور بھی بے شمار نام ہیں جن میں سے بعض قرآن وحدیث میں ذکر فرمائے گئے ہیں ،مثلاً: ذو الفضل، ذی المعارج، ذی الطول، ملیک، اکرم، رفیع، قاہر ، شاکر، دائم، وتر، فاطر، وغیرہ۔

    اللہ تعالی کے لئے صفت قدرت بھی ثابت ہے کہ وہ ذات قادر مطلق ہے ، کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں، وہ ہر چیز پر قادر ہے، عجز کا وہاں نام ونشان نہیں۔

    اللہ تعالی کے لئے صفت ارادہ بھی ثابت ہے، یعنی اپنے ارادہ و اختیار سے جو چاہتا ہے کرتا ہے ، جس کو چاہتا ہے وجود بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے معدوم کر دیتا ہے ،اس نے ازل میں جو ارادہ کیا تھا، اسی کے مطابق ہو رہا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ اسی کے مطابق ہوتا رہے گا ، وہ جس کا ارادہ کرتا ہے وہ ہو کے رہتا ہے ، کوئی چیز بھی اس کے ارادہ و اختیار سے باہر نہیں۔

    اللہ تعالی کو صفت سمع بھی حاصل ہے ، سمع کا معنی ہے: سننا یعنی اللہ تعالی تمام مخلوق کی ہر بات کو سنتا ہے ،ایک کی بات سننے سے، اسے دوسروں کی بات سننے میں رکاوٹ نہیں ہوتی ، وہ بیک وقت انسانوں ،فرشتوں،جنوں، جانوروں، پرندوں، پانی میں مچھلیوں، کیڑے مکوڑوں اور ان کے علاوہ دیگر تمام مخلوقات عالم کی تمام باتوں کو سنتا اور سمجھتا ہے ،انسانوں اور دوسری مخلوق کی مختلف زبانوں سے اسے کسی قسم کا کوئی اشتباہ نہیں ہوتا،اتنی زبردست قوت سماعت کے باوجود وہ کانوں سے پاک ہے۔

    اللہ تعالی کے لئے صفت بصر بھی ثابت ہے ، بصر کا معنی ہے :دیکھنا ، اللہ تعالی ہر چیز کو دیکھتا ہے ، کوئی چیز روشنی میں ہو یا اندھیرے میں، نزدیک ہو یا دور ، دن میں ہو یا رات میں ، بڑی ہو یا چھوٹی، مخلوق کو نظر آئے یا نہ آئے ،اللہ تعالی سب کو ہر وقت یکساں طور پر دیکھتا ہے ،کسی بھی وقت کوئی چیز اس سے چھپ نہیں سکتی ۔ بایں ہمہ وہ مخلوق جیسی آنکھوں سے اور آنکھوں کی ہر قسم کی شکل وصورت سے پاک ہے۔

    اللہ تعالی صفت خلق اور صفت تکوین کے ساتھ بھی موصوف ہیں ، خلق کا معنی پیدا کرنا اور تکوین کا معنی وجود میں لانا ہے ، یعنی اللہ تعالی ہی ہر چیز کو پیدا کرتے ہیں اور وجود میں لاتے ہیں۔

    اللہ تعالی عرش پر مستوی ہے مگر اس کو اسکی حاجت اور ضرورت نہیں ہے اور کیفیت استویٰ ہمیں معلوم نہیں ،وہ عرش و غیر عرش کل عالم کا محافظ ہے اﷲ تعالیٰ صفت معیت کے ساتھ بھی متصف ہے۔ معیت الٰہی کا معنی یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے علم‘ سمع‘ بصر اور احاطہ کے اعتبار سے اپنی مخلوق اور بندوں کے ساتھ ہے اسکو معیت عامہ کہا جاتا ہے دوسری معیت خاصہ ہے جو خاص مومنین کیلئے ہے اور اس معیت کا معنی بندوں کی نصرت‘ تائید اور حفاظت ہے اسکی معیت اور قرب مخلوق کی معیت اور مخلوق کے قرب کی طرح نہیں ہے۔

    اﷲتعالیٰ نے مخلوق کے رزق کا ذمہ لیا ہے ، حلال کا نہیں، رزق جیسے حلال ہوتا ہے حرام بھی رزق ہوتا ہے، رزق کیلئے حلال ہونا ضروری نہیں۔

    نیک اﷲ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے اور برا اﷲ تعالیٰ سے دور ہوتا ہے ، یہ قرب وبعد مسافت کے اعتبارسے نہیں بلکہ یہ قرب بلا کیف ہے اور یہ بعد بھی بلا کیف ہے۔

    جو شخص اﷲ تعالیٰ کے وجود کا منکر ہے وہ بے د ین اور کافر ہے اور اس جرم کی پاداش میں ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔

    اﷲ تعالیٰ ہر قسم کے نقص و عیب ، کمزوری ومحتاجی اور تمام لوازمات وعاداتِ بشریہ مثلاً پیدا ہونا،بیماری، صحت، بچپن، جوانی، بڑھاپا، نیند، اونگھ، تھکاوٹ اور نسیان وغیرہ سے پاک ہے۔

    اﷲ تعالیٰ ہی نے ہر چیز کو وجود بخشا ہے اور ہر چیز کے خواص اور تاثیر کا بھی وہی خالق ہے، کوئی چیز ذاتی طور پر موثر‘ مفید یا نقصان دہ نہیں، بلکہ اﷲ تعالیٰ ہی ہر چیز میں موثر حقیقی ہے اور ہر چیز کا نفع اور نقصان اسی کے قبضہ میں ہے۔

    مخلوق کی زندگی اور موت ،صحت اور بیماری ،اچھائی اور برائی سب اسی کے قبضہ میں ہے، وہ جب تک چاہتا ہے مخلوق کو زندہ رکھتا ہے او رجب چاہتا ہے اسکو موت دے دیتا ہے ،اسی طرح جب تک چاہے گا کائنات کو باقی رکھے اور جب چاہے گا اس کو فناءکر کے قیامت برپا کر دے گا ۔

    اللہ تعالیٰ جب آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں تو ان کا نزول بلا کیف ہوتا ہے اور جب قیامت کے دن میدان محشر میں نزول فرمائیں گے توان کا نزول بلا کیف ہو گا۔

    اللہ تعالیٰ کی ذات او رصفات میں تغیر او رفنا نہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات بھی ہمیشہ باقی رہے گی اور اسکی صفات بھی ہمیشہ باقی رہیں گی ،اسکے سوا ہر مخلوق فانی ہے اور ہلاک ہونے والی ہے۔

    اﷲ تعالیٰ کسی چیز کیساتھ متحد نہیں ہوتا، جیسے دو چیزیں مل کر ایک ہو جاتی ہیں، جیسے برف پانی میں گھل کر پانی ہوجاتی ہے نہ ہی اﷲتعالیٰ کسی چیز میں حلول کرتا ہے، حلول کا معنی ہے : ایک چیز کا دوسری چیز میں سما جانا، پیوست ہوجانا‘ ایک چیز کا دوسری چیز میں حل ہوجانا‘ جیسے کپڑے میں کوئی رنگ حلول کرتا ہے یعنی پیوست ہوتا ہے، اور حل ہو جاتا ہے ۔عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضرت عیسٰی علیہ السلام میں حلول کرگیا تھا، ہندووں کا عقیدہ ہے کہ اﷲتعالیٰ انسان‘ حیوان‘ درخت اور پتھر میں حلول کرتا ہے۔

    اﷲ تعالیٰ کی اولاد نہیں، نہ ہی وہ کسی کی اولاد ہے۔ نہ ہی اسکے بیوی بچے اور خاندان ہے ۔

    اﷲ تعالیٰ کا اس جہان میں دیدار نہیں ہوسکتا، آخرت میں اہل جنت اﷲ تعالیٰ کا دیدار کرینگے، جس کی حقیقت وکیفیت اﷲتعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔

     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں