اسلام علیکم امید ہے آپ سب بخیروعافیت ہونگے آج ایک بہت مشہور زمانہ ناول نگار بانو قدسیہ کے ایک ناول پر تبصرہ کیا گیا ہے امید ہے آپکو پسند ئے گا حال ہی میں بانو قدسیہ کا ناول ’حاصل گھاٹ‘ شائع ہوا جس میں افغانستان سے پیدا ہونے والی صورت حال اور پیچیدگیوں کی وجہ سے مسلمانوں، خاص طور پر پاکستانیوں کےلیے امریکہ میں جو مشکلات پیدا ہوئی ہیں ان کا احاطہ کیا گیا ہے۔ بانو قدسیہ نے مشرق اور مغرب کی تفریق کو قائم رکھتے ہوئے پاکستانی کمیونٹی کے بحران کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کی ہے۔ ظاہر ہے اس ناول میں جو لوگ اپنا وطن چھوڑ کر پیسے اور دنیاوی چمک دمک کی خاطر مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں ان کے بارے میں تہنیت کے کلمات نہیں ہیں اور ان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ناول کا ہیرو ایک بوڑھا شخص ہے جواپنی بیٹی اور بیٹے سے ملنے امریکہ جاتا ہے، وہاں کچھ عرصہ قیام کرتا ہے اور پھر وطن واپس آنےکا فیصلہ کر لیتا ہے۔ اس کا اپنے وطن میں کوئی بھی قریبی رشتہ دار یا اولاد نہیں۔ وہ تو سب امریکہ میں رہتے ہیں مگر پھر بھی وہ وہاں نہیں رہنا چاہتا۔ امریکہ کا طرز زندگی اور وہاں کے لوگوں کی منزل اس کی سمجھ سے باہر ہے۔ وہ وہاں کی ایشیائی کمیونٹی کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے جو کہ ایک طرف اپنی شناخت برقرار رکھنے میں مصروف ہے اور دوسری طرف امریکیوں کی طرح زندگی گزارنا پسند کرتی ہے یا زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس تضاد کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں جن کا ذکر ’حاصل گھاٹ‘ میں بھرپور طریقے سے کیا گیا ہے۔ بانو قدسیہ کا قہر نسوانی کرداروں پر گرتا ہے۔ ان کے نسوانی کردار قابلِ نفرت ہیں اور یوں لگتا ہے کہ وہ اپنے مردوں کو ایک خاص نہج پر لانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ رجحان بانو قدسیہ کی تحریروں میں گزشتہ دو دہائیوں سے نظر آتا ہے۔ عورتوں کے کردار اپنی بھاگ دوڑ میں اپنے صحیح کردار سے گمراہ ہو جاتے ہیں جو انہیں فطرت نے ودیعت کیا ہے۔ اسی سے تمام خامیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بانو قدسیہ نے مغرب اور مشرق کی روایتی تفریق کو چیلنج نہیں کیا بلکہ اس کو بنیاد بنا کر اپنےکرداروں کی سرزنش کی ہے۔ اس تفریق کو دوبارہ سے دیکھنے، پرکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انسانوں کا ایک جمِ غفیر مغرب کی طرف جا رہا ہے۔ اسے تحمل اور ایمانداری سے سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسے محض مسترد کر دینے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔
آپی یہ حال میں تو شائع نہیں ہوا،تاریح تو مجھے یاد نہیں لیکن کافی عرصہ پہلے شائع ہوا تھا ،اگر کسی کو اس کی سافٹ کاپی سی ایم ایچ فارمیٹ میںچاہیے ہو تو مجھے اپنا ای میل ایڈریس پی ایم کر دیں ،میں ارسال کر دوں گا. اور شکیل بھائی یہ ابھی کاپیوںمیں سے ہے جن کا ذکر میں نے کیا تھا.ہاہاہا
کانوں سے روئی نکلے تو آپ کو کچھ نظر آئے:00019: :00019: :00023: ایک عدد ناول پیشِنظر کیا ہے اس پر آپ کے تاثرات کا انتظار ہے:00009: