امام اعظم كا لقب

عائشہ نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏ستمبر 15, 2009 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825
    بدبختی یہ ہے کہ البانی کے مقلدین خلط مبحث کے مرض میں مبتلاہوتے ہیں۔ ایک بات مکمل نہیں ہوئی دوسری بات چھیڑ دی ۔تیسری بحث کااختتام نہیں ہوا کہ چوتھی راگنی راگنے لگے۔
    ابھی امام اعظم کے لقب کے بحث سے فراغت نہیں ہوئی اوربات چھیڑی میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کے تذکرہ کی۔
    آج کل عموماحوالہ دینے کا جوٹرینڈ عرب ممالک میں بطور خاص چل پڑ اہے میں نہیں سمجھتاکہ اس سے سوائے کتاب کو ضخیم بنانے اوراورمقالہ کو بوجھل کرنے کے علاوہ کوئی اوربھی فائدہ حاصل ہوتاہے کتابوں میں توایک حد چل بھی سکتاہے لیکن مقالہ جات میں بالکل بیکار سی بات ہے۔اورمراسلات میں مطبع اورسنہ اشاعت کا حوالہ دینا ایک اورلغوبات ہے۔ صرف اتناکافی ہے کہ کتاب کا حوالہ دیاجائے اوراگر کتاب ضخیم ہو تو جلد نمبر کا حوالہ دے دیاجائے۔
    علی طنطاوی کی بات کو صرف اسلئے رد کردینا کہ وہ ان کے خودنوشت سوانح حیات ذکریات میں آئی ہے۔ایسی بات ہے جس کا علم وتحقیق سے دور کا واسطہ نہیں۔ علی طنطاوی بطور مورخ فقیہ اورادیب کافی مشہور رہے ہیں۔اگرکوئی علمی اورتحقیقی بات انہوں نے اپنے ذکریات میں بیان کی توکیاصرف اسلئے وہ ناقابل قبول ہوجائے گی۔کسی بھی بات کا وزن صاحب مقولہ کے اعتبار سے ہوتاہے۔کتاب کی نوعیت کے اعتبار سے نہیں۔
    کتاب الانساب لامام السمعانی جلد3/صفحہ379،مطبع دارالجنان سنہ اشاعت 1988تحقیق عبداللہ عمرالباروحی
    محمد بن یوسف الصالحی الدمشقی کی کتاب ہے۔ عقودالجمان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ النعمان،حیدرآباد دکن سے لجنہ احیائ المعارف النعمانیہ سے 1394 میں چھپی ہے۔
    ایساکہنے کی ضرورت اسلئے پیش آئی ہے کہ سابقہ میں دیکھاگیاہے کہ کچھ لوگ حوالہ اورتاثر کے فرق تک کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔
    ویسے بھی جسے مانناتھاوہ مان گئے جیسے ابوعبداللہ بردار اورجنہیں نہیں مانناہے وہ قیامت تک نہیں مانیں گے۔بات سمجھنے کیلئے صرف ایک حوالہ بھی کافی ہواکرتاہے اوربات نہ ماننے والوں کیلئے پوری انسائیکلوپیڈیابھی بیکار ہے۔
    بیکار موضوعات پر تھریڈ بناکر صفحات کالے کرنے خواہش کسے ہوسکتی ہے لوگ سمجھ رہے ہوں گے۔
     
    Last edited by a moderator: ‏ستمبر 28, 2009
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جی بالکل۔ جیسے ماننے والے صرف قرآن کے حوالے سی ہی مان جاتے ہیں کہ درست لفظ ان شاء اللہ ہے۔

    جب کہ نہ ماننے والے اڑے رہتے ہیں کہ انشاء اللہ ہی درست ہے!!!! (سبحانی ما اعظم شانی والا معاملہ ہے(

    حوالہ اس لئیے نہیں دیتے کہ مقال طویل ہو جائے گا۔ مگر طنز و طعن میں خواہ کتنا وقت و صلاحیت برباد ہو چنداں نہیں گھبراتے۔

    جواب دینے کی ذمہ داری از خود سر لے لیتے ہیں مگر حوالہ دینے کے مطالبہ پر گھبرا کر حوالہ دینے کی روایت ہی پر نفرین بھیجنے لگتے ہیں۔

    ارے ترمیم بھیا، حوصلہ کیجئیے۔ آپ کاہے کو دل چھوٹا کرتے ہیں؟؟؟ بھلا جواب آپ پر فرض ہی کب کیا گیا ہے؟؟؟ نا چیز کو تو بہت پہلے اندازہ ہو گیا تھا کہ حوالے کے معاملے میں آپ کا دل ذرا کمزور ہے۔ اور یہ بھی کہ ہر بحث میں آپ کا آخری جواب لال زبان والی سمائل ہوتی ہے ۔
    آپ آرام کیا کیجئیے۔ یا بی بی سی کی حجت پر بحث فرمایا کجئیے۔ آپ بھلا شیخ الالبانی رحمت اللہ علیہ کا نام لے کر اختلاج قلب کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟؟۔
    اللہ تعالی شیخ البانی کو بھی جانتا ہے، اور میری اور آپ کی بھی خوب خبر رکھتا ہے۔
    مجھے چنداں پرواہ نہیں کہ آپ اپنی علمیت کی کینچلی سے باہر آ رہے ہیں۔ آئیے بصد شوق آئیے۔ اچھا ہے ہم بھی تماشا دیکھیں گے۔
     
  3. بشیراحمد

    بشیراحمد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اپریل 1, 2009
    پیغامات:
    1,568
    یہ سوال تو بہت ہی زبردست ہے لیکن کچھ عجیب بھی محسوس ہوتا ہے امام ابو حنيفہ رحمت اللہ عليہ قابل صد احترام شخصیت ہیں لیکں ائمہ جرح وتعدیل کے نزدیک ان کی بیان کردہ روایت قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کرتی جب ایک شخص کی روایات کو سند قبولیت حاصل نہ ہوسکے تو ان کو امام اعظم کا درجہ ایں سوال است عجبیب است
    اگر میں یہاں کتاب الضعفاء سے رایوں کی ایک فھرست نقل کروں اور یہ سوال کروں کیا ان کو امام کو درجہ دیا جائے گا تو اھل علم اس سوال کو کس زاویے سے دیکھیں گے ؟؟؟؟؟؟؟؟
    لھذا سب سے پہلا امر تو یہ ہے امام ابو حنيفہ رحمت اللہ عليہ کو امام اعظم منوانے والوں کو چاہئے کہ یہ ثابت کریں کہ ان کی روایت قابل قبول ہے یا نہیں امامیت کی بحث بعد کی
    لھذا جمشید صاحب محدثین پر تشنیع کرنے بجائے اصل موضوع پر آکر محدثین کی اسلوب پر الجرح والتعدیل کے قواعد کی روشنی میں امام ابو حنيفہ رحمت اللہ عليہ کی ثقاہت ثابت کریں
     
    Last edited by a moderator: ‏اکتوبر، 9, 2009
  4. ابوسفیان

    ابوسفیان -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 30, 2007
    پیغامات:
    623
    موضوع سے غیرمتعلق گفتگو یہاں منتقل کی گئی ہے۔
     
  5. Taha

    Taha محسن

    شمولیت:
    ‏اگست 20, 2009
    پیغامات:
    222
    ماشاء الله
    کيا خوب قطع و بريد کي هے

    اور تحريف کسے کہتے هيں۔۔۔؟؟
     
  6. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825
    درج ذیل تھریڈ

    http://www.vblinks.urdumajlis.net/showthread.php?t=8489
    کا مطالعہ کیجئے شاید کچھ فکروآگہی حاصل ہوسکے۔والسلام
     
  7. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825
    درج ذیل تھریڈ

    http://www.vblinks.urdumajlis.net/showthread.php?t=8489
    کا مطالعہ کیجئے شاید کچھ فکروآگہی حاصل ہوسکے۔اسی کے ساتھ ساتھ اسلامی متفرقات میں ہی’’میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ والا موضوع پڑھئے ۔شاید کچھ مزید افاقہ ہو والسلام
     
  8. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
    السلام علیکم
    اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے:‌

    يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِۦ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسۡلِمُونَ (١٠٢) وَٱعۡتَصِمُواْ بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعً۬ا وَلَا تَفَرَّقُواْ‌ۚ
    اے وہ لوگو جو ایمان لاے ہو! اللہ سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ اور تمھیں موت نہ آے ، سواے اس کے کہ تم مسلمان ہو۔ اورسب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو ( سورۃ آل عمران آیت 102-103(

    صرف کارتوس خان بھائی کی تحریر پڑھ کر دل کو تھوڑی تسلی ہوئی کہ الحمدللہ لوگ ہیں جو امت کو انتشار سے بچانا چاہتے ہیں۔ انہی کی تحریر کے حوالے سے کچھ اضافہ کروں گا اپنی بات میں۔

    میں کافی عرصے سے اس تھریڈ کا مطالعہ تو کر رہا تھا لیکن ایک چیز جس کی سمجھ نہیں آتی ، وہ یہ ہے کہ ہم کن موضوعات کو لے کر بحث کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس تھر یڈ میں بھی ایک ہی چیز دیکھی اور وہ یہ کہ تنقید براے تنقید۔ عمدہ تنقید یقیناً ٹھیک ہے اگر اس کا تنیجہ اچھا ہو۔ لیکن اگر یہ تنقید فرقہ واریت کو فروغ دے، لڑائی جھگڑے کو فروغ دے، ایک ایسی لا حاصل بحث کو فروغ دے کہ جس کے بعد ایک شخص صرف دوسرے کے لیے دل میں‌ کینہ رکھ کر اس بحث کو ختم کرے تو میرے خیا ل میں ایسی تنقید در تنقید کا کوئی فائدہ نہیں۔ البتہ نقصان ضرور ہے۔ چاہے کوئی میری بات سے اتفاق کرے یا نہ کرے، اس تھریڈ پر بھی اس تنقید براے تنقید کا نقصان ہی ہوا ہے، فائدہ نہیں ہو۔ اور وہ نقصان کیا ہوا ہے ؟ وہ یہ کہ دونوں‌ فریقوں‌ نے ہی دانستہ ، یا غیر دانستہ علماے امت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اللہ ہمیں ہدایت دے۔ آمین۔
    ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں‌ اور وہ یہ کہ ماشاءاللہ یہاں بہت ہی صاحب علم حضرات ہیں ، جن کا مطالعہ ماشاءاللہ بہت ہی وسیع ہے۔ مچھ ناچیز کا ان دلائل کے معاملے میں مطالعہ بہت ہی کم ہے۔ اسی لیے تھوڑا سا موضوع سے ہٹ کر بات کروں گا۔ کیونکہ دلائل کے ساتھ بحث کا نتیجہ تو دیکھ ہی لیا ہے۔
    سب سے پہلی بات وہ یہ کہ اگر ہمارے وہ سب علماء ، وہ سب محدتین ، وہ سب فقہا جن کا توحید اور رسالت دونوں کا عقیدہ بالکل قرآن اور حدیث کے مطابق ہے، تو ہمیں‌کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم ان کی شان میں گستاخی کریں۔ ان سب نے دین کے لیے محنت کی، اس پر تحقیق کی، ان سے غلطیاں بھی ہوئیں۔ لیکن پھر بھی وہ ہمارے لیے علم کا ایک خزانہ چھوڑ گئے ہیں۔ اور میں نے فقہا میں سے یا محدثین میں سے کسی کے بارے میں بھی یہ نہیں پڑھا کہ میری تقلید کرنا، اور میرے تقلید کرنے والوں کو ایک خاص نام دے دینا، اگر کسی نے ایسی بات پڑھی ہو تو وہ تصحیح کر دے۔
    اب اگر ان کی گراں قدر خدمات کے پیشِ نظر کسی نے انہیں امام اعظم کہہ دیا، یا کچھ اور لقب سے نواز دیا، تو اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ اس میں لڑنے والی کون سی بات ہے۔ اگر وہ امام اعظم تھے تو اپنے دور کے تھے۔انہوں نے دین کے لیے محنت کی۔ ہاں اگر کوئی ان کا موازنہ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کے ساتھ کرے، نبی کے ساتھ کرے تو یہ سرا سر زیادتی ہو گی۔ کیونکہ ہم سب کا ایمان ہے اس چیز پر کہ فقہا میں سے کوئی بھی، محدثین میں سے کوئی بھی، ہمارے علما میں سے کوئی بھی کسی ادنی سے ادنی صحابی کے بھی ایمان کے درجے کو نہیں پہنیچ سکتا، کیونکہ اللہ ان صحابہ سے راضی اور وہ صحابہ اللہ سے راضی۔۔ اور ہمارے امام اعظم صرف ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

    اپنی سوچ کو تھوڑا سا مثبت کریں۔ بخدا جن مکاتب فکر کا عقیدہ توحید ٹھیک ہے ، ان کے درمیان فروعی اختلافات کے علاوہ اور کوئی بڑا جھگڑا نہیں ہے۔ جھگڑے والی باتوں کو ایک طرف رکھیں اور جو چیزیں متفرق ہیں ، قرآن و حدیث کے مطابق ہیں ان کو لے لیں۔ قرآن کے بعد ہمارے پاس ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیٹ صحاح ستہ کی شکل میں تو موجود ہیں۔ جس امام، جس عالم کی بات قرآن و حدیث کے مطابق ہے اسے لے لیں اور جو اس کے مطابق نہیں ہے اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ اب اگر کسی کو صحاح ستہ پر ہی شک ہے تو اس کا اللہ ہی حافظ ہے۔
    تھوڑا سا آپ لوگوں کی باتوں پر گفتگو کرنا بھی مناسب سمجھوں گا:
    جمشید بھائی نے لکھا:

    جمشید بھائی، یقیناً امام ابوحنیفہ رح اپنے دور کے بہت بڑے عالم تھے، مگر پھر بھی اختلافات تو موجود ہیں۔ مگر میں پھر یہی کہوں گا کہ اگر کوئی اختلاف واقعی قرآن اور حدیث سے تصادم کرتا ہے تو اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ باقی ان کی جو چیزیں قرآن وحدیث کے مطابق ہیں، ان کو تو ہمارے ہر مکاتب فکر کے علما ء لے سکتے ہیں نا؟ اپنے اپنے مدارس میں ان چیزوں کو پرھا تو سکتے ہیں؟؟

    میری بہن عین نے لکھا:
    بہن کیا اسی قسم کی باتوں نے امت کو انتشار کی طرف نہیں دھکیل دیا؟ ابوغدہ پر اللہ اپنی رحمتیں نازل کرے۔ اگر انہوں نے کسی پر غلط تنقید کی ہے، اسلام کے مطعلق غلط بات لوگوں تک پہنچائی ہے تو اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ لیکن الفاظ استعمال کرتے وقت اگر تھوڑا سا افہام و تفہیم سے کام لیا جاے تو میرا خیال ہے کہ بات زیادہ نہیں بڑھتی۔

    جمشید بھائی نے پھر لکھا:

    بہت ہی محترم جمشید بھائی،کیا اس طرح کی باتوں نے امت کو فرقوں میں نہیں بانٹ دیا؟؟۔ اور جناب یہ جو بغیر حوالہ دے کر بات کرنا ہے نا، اسی چیز نے تو پاکستان ، انڈیا، بنگلہ دیش ، مصر اور شام میں بدعات کو بہت زیادہ فروغ دے دیا ہے۔ اللہ ہمیں ہدایت دے۔بہت سے ہمارے مکاتب فکر ہیں جو قرآن کے ظاہری اور باطنی معانی کی بات کر کے بے حوالہ باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔ آمین۔

    امید ہے آپ سب کو اس آیت کا مفہوم بھی سمجھ میں آگیا ہو گا جس کا حوالہ میں نے اوپر دیا ہے۔
    حجۃ الوداع کے موقع پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    "اور میں تمھارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم نے اسے مضوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہرگز گمراہ نا ہو گے۔ اور وہ ہے اللہ کی کتاب" (صحیح مسلم، باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم 397/1 )
    علامہ اقبال کی مشہور نظم جواب شکوہ کے یہ اشعار تو سب کو ہی یاد ہوں گے:
    منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
    ایک ہے سب کانبی ، دین بھی، ایمان بھی ایک
    حرم پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
    کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
    فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
    کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔

    امت مسلمہ پر یہ کڑا وقت اس طرح کے بحث و مباحتہ کا نہیں ہے۔ دیکھیں فلسطین میں مسلمان کس طرح پس رہے ہیں، کشمیر میں مسلمانوں کی کیا حالت ہے، افغانستان، عراق۔۔۔ یہ وقت ہمارے اوپر بھی آ سکتا ہے۔ بلکہ شاید کسی حد تک آ بھی گیا ہے۔ اگر ہم اسی طرح کے بحث و مباحثہ میں پڑے رہے اور کس طرح متحد ہو کر کفر کی یلغار کا مقالہ کریں گے۔ جبکہ ہمارے دلوں میں تو ایک دوسرے کے خلاف باتیں ہوں گی۔ قرآن کی ایک آیت لکھ کر بات ختم کرتا ہوں۔ ترجہ اور تشریح آپ لوگوں پر چھوڑتا ہوں، ان شاءاللہ موقع ملا تو اپنے علم کے مطابق بھی پیش کروں گا: (سورۃ النساء ، آیت 59 )
    يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللہ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَأُوْلِى ٱلۡأَمۡرِ مِنكُمۡ‌ۖ فَإِن تَنَـٰزَعۡتُمۡ فِى شَىۡءٍ۬ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّہ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمۡ تُؤۡمِنُونَ بِٱللہ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأَخِرِ‌ۚ ذَٲلِكَ خَيۡرٌ۬ وَأَحسَنُ تَأۡوِيلاً
    اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرماے۔ اور ہمیں آپس کے انتشار سے بچائے۔ آمین۔
    وضاحت: اس تحریر کے ذریعے میرا مقصد ہرگز کسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہے۔ اگر میری کوئی بات کسی کو بری لگی ہو، تو براے مہربانی معاف کر دیجیے گا۔
     
  9. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825
    بہت دیر کی مہرباں آتےآتے
    یہ صرف آپ ذاتی خیال ہے یاپھراس کے حق میں کچھ ‌ثبوت اوردلائل بھی ہیں۔اعتراض نہیں تحقیق مقصود ہے۔والسلام
     
  10. بشیراحمد

    بشیراحمد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اپریل 1, 2009
    پیغامات:
    1,568
    آپ کے اس تھریڈ کا مطالعہ کرلیا ہے کھود پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق ہے آپ کے اسی تحریر کی روشنی میں آپ سے سوالات ہیں آپ نے اس تھریڈ کی پوسٹ نمبر ۲ میں لکھا ہے
    کچھ ایسے بھی بزرگ گزرے ہیں جنہوں نے امام ابوحنیفہ کے خلاف کچھ باتیں غلط فہمی میں کہیں لیکن حقیقت حال آشکارا ہونے کے بعد اپنے قول سے رجوع کرلیا۔
    امام ابوحنیفہ پر جرح کرنے والے محدثیں میں سے چند کے نام یہ ہیں
    امام بخاری
    امام علی بن مدینی
    امام مسلم
    امام نسائی
    امام ابن حبان
    امام ابن عدی
    امام سفیان ثوری
    امام یحی بن معین
    امام دارقطنی
    امام ابونعیم
    امام عبداللہ بن مبارک
    امام عقیلی رحمھم اللہ اجمعین
    بتائیں ان ائمہ میں سے کس کس نے رحوع کیا ہے اور ان کو کیا غلط فھمی تھی کیا یہ سب تعصب کا شکار تھے یا ان کی کتابون میں تبدیلی ہوئی ہے

    آپ نے اُس تھریڈ کی پوسٹ نمبر ۲ میں لکھا ہے
    کچھ لوگوں نے امام ابوحنیفہ سے حسد اورتعصب کا شکار ہوکر یہ وطیرہ اختیارکرلیا اجل علمائ ومحدثین کی تصنفیات میں اپنی جانب سے امام ابوحنیفہ کے خلاف باتیں داخل کردیں ۔


    دوست بتائیں وہ کون سی کتابیں ہیں جن میں امام صاحب کے دشمنوں نے امام صاحب کے خلاف باتیں ملادیں
    اس کا مطلب یہ ہواکہ رجال کی جن کتب میں امام صاحب پر جرح ہے اس میں دشمنوں نے تبدیلیاں کی ہیں لھذا یہ کتابیں مستند نہیں نہ جانیں کتنے لوگوں نے اپنی دشمنی نکالی ہو آپ بتائیں آپ کے اس کلیہ سے اسماء الرجال کی کتب مستند ہے یا مشکوک اور محرف ؟؟؟

    پوسٹ نمبر دو ۲ میں آپ نے لکھا ہے
    امام ابوحنیفہ پر خطیب بغدادی کی تاریخ بغداد میں جو مثالب مذکور ہوئے ہیں ان کا کافی وشافی جواب علامہ زاہد الکوثری نے تانیت الخطیب میں دے دیاہے۔


    تانیب الخطیب پر ہی کیوں رک گئے آگے بھی لکھیں نہ تانیب الخطیب کا علمی تعاقب بھی ہوا ہے

    اس تھرہڈ کی پوسٹ نمبر پوسٹ نمبر ۳ میں فقاھت اور ورع کی بحث ہے جو کہ زیر بحث نہیں

    اس تھریڈ کے پوسٹ نمبر ۴ میں‌ آپ نے لکھا ہے
    امام ابوحنیفہؒ کومشہور محدث عقیلی نے بھی اپنی کتاب ضعفاء میں ذکرکیاہے۔لیکن خود عقیلی نے صرف امام ابوحنیفہ کو ہی نہیں بلکہ کئی اورمشہور محدثین کا اپنی ضعفاء میں ذکر کیاہے


    کیا امام ابوحنیفہ کو ضعیف قرار دینے والے اکیلے امام عقیلی ہیں یا ان کی متابعت کرنے والے دیگر محدثیں بھی ہیں آپ اپنی اس لمبی تقریر روشنی میں واضح کریں کہ امام عقیلی کا کسی راوی کو ضعیف کہنا معتبر ہے یا نہیں ؟


    جناب آپ کا وہ تھریڈ بالکل غیر مستنند جس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لھذا میرا سوال اپنی جگہ پر باقی ہے
    امام ابو حنيفہ رحمت اللہ عليہ قابل صد احترام شخصیت ہیں لیکں ائمہ جرح وتعدیل کے نزدیک ان کی بیان کردہ روایت قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کرتی جب ایک شخص کی روایات کو سند قبولیت حاصل نہ ہوسکے تو ان کو امام اعظم کا درجہ ایں سوال است عجبیب است
    اگر میں یہاں کتاب الضعفاء سے رایوں کی ایک فھرست نقل کروں اور یہ سوال کروں کیا ان کو امام کو درجہ دیا جائے گا تو اھل علم اس سوال کو کس زاویے سے دیکھیں گے ؟؟؟؟؟؟؟؟
    لھذا سب سے پہلا امر تو یہ ہے امام ابو حنيفہ رحمت اللہ عليہ کو امام اعظم منوانے والوں کو چاہئے کہ یہ ثابت کریں کہ ان کی روایت قابل قبول ہے یا نہیں امامیت کی بحث بعد کی
    لھذا جمشید صاحب محدثین پر تشنیع کرنے بجائے اصل موضوع پر آکر محدثین کی اسلوب پر الجرح والتعدیل کے قواعد کی روشنی میں امام ابو حنيفہ رحمت اللہ عليہ کی ثقاہت ثابت کریں ؟؟؟؟؟؟؟
     
    Last edited by a moderator: ‏اکتوبر، 14, 2009
  11. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    دیر آید درست آید ۔۔ :)

    جناب یہ صرف میرا ذاتی خیال نہیں ہے، بلکہ تحقیق ہے۔ ان شاءاللہ دلائل بھی پیش کروں گا۔ لیکن ان دلائل کے ساتھ پھر ایک لاحاصل بحث چھڑ جائے گی۔
    جو آخری آیت میں نے اپنی تحریر میں لکھی تھی، ان شاءاللہ اس کی تشریح کے ساتھ کچھ باتیں بھی شیئر کروں گا جن کے بارے میں ہمارا ایک مخصوص طبقہ صرف بزرگوں کے اقوال سے ہی انہیں صحیح ثابت کرتا ہے۔
    ابھی کچھ آفس کے کام کی وجہ سے کافی مصروف ہوں، ان شاءاللہ ان بغیر حوالہ والی باتوں کو ایک الگ تھریڈ میں زیرِبحث لایئں گے۔ جیسے ہی کچھ فرصت ملتی ہے تو آپ کو کچھ لنکس بھیجوں‌گا۔
    ۔۔ ویسے ایسی باتوں سے متعلق کافی تھریڈ تو اس فارم پر پہلے سے ہی ہیں۔۔۔۔
     
  12. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825
    ؟؟؟؟؟؟؟
    میرانہیں خیال کہ ناظم اعلی صاحب یہاں موضوع سےہٹ کر جوگفتگو ہورہی ہے یعنی امام اعظم کے لقب پر بحث کے بجائے ان کو امام ثابت کرنا اس پر کچھ کہیں گے وہ توصرف البانی پر تنقید جب ہوگی تواسے موضوع سے خارج سمجھیں گے۔اس موضوع کیلئے الگ سے تھریڈ بنالیں
     
  13. بشیراحمد

    بشیراحمد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اپریل 1, 2009
    پیغامات:
    1,568
    [font="alvi nastaleeq v1.0.0"]جناب اس بات کا اظھارتو آپ پوسٹ نمبر 26 میں کرتے وہاں پر بڑی دیدہ دلیری سے اپنے تھریڈ کا حوالہ دے دیا جس کی (بتوفیق اللہ ) اصل حقییقت کو واضح کردیا ہے امام صاحب کو امام اعظم ماننا اور ان کی ثقاھت کو ثابت کرنا دو الگ الگ بحثیں نہیں ہیں‌
    جب امام صاحب کی ثقاھت ہی ثابت نہیں کرسکتے تو ان کیلئے امام اعظم کا دعوی کس بنیاد پر ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    جب خشت اول ہی ثابت نہ ہو اتنی بلندی کا دعوی چہ معنی دارد؟؟؟؟؟؟؟؟یہ بالکل ایسے ہے کوئی شخص کسی کیلئے ایم اے پاس ہونے کا دعوی کرے اگر اسے کہا جائے جناب پہلے ان کیلئے میٹرک پاس ہونا تو ثابت تو کرو اور وہ کہے کہ نہیں میں تو انہیں ایم پاس ہی ثابت کروں گا میٹرک پاس کرنے کا الگ موضوع ہے اس کیلئے الگ تھریڈ بناؤ اس شخص کے اس جواب پرکیا کہا جائے
    لہذابھائی ! آپ اس قسم کا بہانہ نہیں کریں پوسٹ نمبر 30 میرے تمام سوالات کے جوابات دیں اور میرا اصل سوال اپنی جگہ پر برقرار ہے دوبارہ ملاحظہ کریں
    امام ابو حنيفہ رحمت اللہ عليہ قابل صد احترام شخصیت ہیں لیکں ائمہ جرح وتعدیل کے نزدیک ان کی بیان کردہ روایت قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کرتی جب ایک شخص کی روایات کو سند قبولیت حاصل نہ ہوسکے تو ان کو امام اعظم کا درجہ ایں سوال است عجبیب است
    اگر میں یہاں کتاب الضعفاء سے رایوں کی ایک فھرست نقل کروں اور یہ سوال کروں کیا ان کو امام کو درجہ دیا جائے گا تو اھل علم اس سوال کو کس زاویے سے دیکھیں گے ؟؟؟؟؟؟؟؟
    لھذا سب سے پہلا امر تو یہ ہے امام ابو حنيفہ رحمت اللہ عليہ کو امام اعظم منوانے والوں کو چاہئے کہ یہ ثابت کریں کہ ان کی روایت قابل قبول ہے یا نہیں امامیت کی بحث بعد کی
    لھذا جمشید صاحب محدثین پر تشنیع کرنے بجائے اصل موضوع پر آکر محدثین کی اسلوب پر الجرح والتعدیل کے قواعد کی روشنی میں امام ابو حنيفہ رحمت اللہ عليہ کی ثقاہت ثابت کریں
    [/font]
     
    Last edited by a moderator: ‏اکتوبر، 14, 2009
  14. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825
    ذراتین چارایسے راویوں کا حوالہ دینا تو جوقابل صداحترام ہو لیکن ان کی روایت مقبول نہ ہو۔
     
  15. بشیراحمد

    بشیراحمد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اپریل 1, 2009
    پیغامات:
    1,568

    بھائی آپ نے بہت ہی زبردست سوال پوچھا ہے صحیح لمسلم کے مقدمہ سے مندرجہ ذیل عبارات کو ملاحظہ فرمائیں تو آپ کی یہ غلط فھمی ختم ہوجائے گی

    حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِىٍّ الْجَهْضَمِىُّ حَدَّثَنَا الأَصْمَعِىُّ عَنِ ابْنِ أَبِى الزِّنَادِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَدْرَكْتُ بِالْمَدِينَةِ مِائَةً كُلُّهُمْ مَأْمُونٌ. مَا يُؤْخَذُ عَنْهُمُ الْحَدِيثُ يُقَالُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِهِ.

    مقدمہ صحیح لمسلم
    نصر بن علی جہضمی ، اصمعی ، حضرت ابن ابی الزناد عبداللہ بن ذکوان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے مدینہ میں سو آدمی ایسے پائے جو نیک سیرت تھے مگر انہیں روایت حدیث کا اہل نہیں سمجھا جاتا تھا اور ان سے حدیث نہیں لی جاتی تھی ۔
    وَحَدَّثَنِى مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُهْزَاذَ - مِنْ أَهْلِ مَرْوَ - قَالَ أَخْبَرَنِى عَلِىُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ قُلْتُ لِسُفْيَانَ الثَّوْرِىِّ إِنَّ عَبَّادَ بْنَ كَثِيرٍ مَنْ تَعْرِفُ حَالَهُ. وَإِذَا حَدَّثَ جَاءَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ فَتَرَى أَنْ أَقُولَ لِلنَّاسِ لاَ تَأْخُذُوا عَنْهُ قَالَ سُفْيَانُ بَلَى. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَكُنْتُ إِذَا كُنْتُ فِى مَجْلِسٍ ذُكِرَ فِيهِ عَبَّادٌ أَثْنَيْتُ عَلَيْهِ فِى دِينِهِ وَأَقُولُ لاَ تَأْخُذُوا عَنْهُ.
    مقدمہ صحیح لمسلم ​
    عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ میں نے سفیان ثوری سے کہا کہ تم عباد بن کثیر کے حالات سے واقف ہو کہ وہ جب کوئی حدیث بیان کرتا ہے تو عجیب وغریب بیان کرتا ہے آپ کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے کہ میں لوگوں کو ان سے احادیث بیان کرنے سے روک دوں ؟ حضرت سفیان نے کہا کیوں نہیں ابن مبارک نے فرمایا کہ جس مجلس میں میری موجودگی میں عباد بن کیثر کا ذکر آتا تو میں اس کی دینداری کی تعریف کرتا لیکن یہ بھی کہہ دیتا کہ اس کی احادیث نہ لو عبداللہ بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ میرے باپ نے کہا کہ عبداللہ بن مبارک نے فرمایا کہ میں شعبہ کے پاس گیا کہ عباد بن کثیر سے روایت حدیث میں بچو

    یحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمْ نَرَ الصَّالِحِينَ فِى شَىْءٍ أَكْذَبَ مِنْهُمْ فِى الْحَدِيثِ.
    قَالَ ابْنُ أَبِى عَتَّابٍ فَلَقِيتُ أَنَا مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ فَسَأَلْتُهُ عَنْهُ فَقَالَ عَنْ أَبِيهِ لَمْ تَرَ أَهْلَ الْخَيْرِ فِى شَىْءٍ أَكْذَبَ مِنْهُمْ فِى الْحَدِيثِ. قَالَ مُسْلِمٌ يَقُولُ يَجْرِى الْكَذِبُ عَلَى لِسَانِهِمْ وَلاَ يَتَعَمَّدُونَ الْكَذِبَ

    مقدمہ صحیح لمسلم​
    سعید بن قطان اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے نیک لوگوں کا کذب فی الحدیث سے بڑھ کر کوئی جھوٹ نہیں دیکھا ابن ابی عتاب نے کہا کہ میری ملاقات سعید بن قطان کے بیٹے سے ہوئی میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میرے باپ کہتے تھے کہ ہم نے نیک لوگوں کا جھوٹ حدیث میں کذب سے بڑھ کر کسی بات میں نہیں دیکھا امام مسلم نے اس کی تاویل یوں ذکر کی ہے کہ جھوٹی حدیث ان کی زبان سے نکل جاتی ہے وہ قصدا جھوٹ نہیں بولتے .
    نوٹ : عربی عبارات کا ترجمہ ایزی قرآن وحدیث سافٹویئر سے ماخوذ ہے
    جناب اب بھی آپ اگر کسی راوی پر جرح کو اس راوی کے احترام کے خلاف سمجھتے ہیں تو بتائیں کیا جرح والتعدیل کے ائمہ کرام جرح کرنے کی وجہ کئی مسلمانوں کے احترام کے بجائے ان توھین کرتے رہے ؟
    اب آپ کے ذمہ پوسٹ نمبر ۳۰ کے سوالات ادھار ہیں اور میرا اصل سوال اپنی جگہ برقرار ہے دوبارہ ملاحظہ فرمائیں
    امام ابو حنيفہ رحمت اللہ عليہ قابل صد احترام شخصیت ہیں لیکں ائمہ جرح وتعدیل کے نزدیک ان کی بیان کردہ روایت قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کرتی جب ایک شخص کی روایات کو سند قبولیت حاصل نہ ہوسکے تو ان کو امام اعظم کا درجہ ایں سوال است عجبیب است
    اگر میں یہاں کتاب الضعفاء سے رایوں کی ایک فھرست نقل کروں اور یہ سوال کروں کیا ان کو امام کو درجہ دیا جائے گا تو اھل علم اس سوال کو کس زاویے سے دیکھیں گے ؟؟؟؟؟؟؟؟
    لھذا سب سے پہلا امر تو یہ ہے امام ابو حنيفہ رحمت اللہ عليہ کو امام اعظم منوانے والوں کو چاہئے کہ یہ ثابت کریں کہ ان کی روایت قابل قبول ہے یا نہیں امامیت کی بحث بعد کی
    لھذا جمشید صاحب محدثین پر تشنیع کرنے بجائے اصل موضوع پر آکر محدثین کی اسلوب پر الجرح والتعدیل کے قواعد کی روشنی میں امام ابو حنيفہ رحمت اللہ عليہ کی ثقاہت ثابت کریں
     
  16. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825
    سوال چناں اورجواب چنیں
    یہ تو سب کو معلوم ہے کہ صالحین اوردیندار لوگ احادیث کے حفظ کا اتنا اہتمام نہیں رکھتے تھے بلکہ بسااوقات فضائل اعمال میں لوگوں کو تشویق کیلئے حدیثیں وضع بھی کیاکرتے تھے میری مراد یہ تھی کہ کسی علم وفن کا امام ہو اوربطورخاص فقہ کا چونکہ احادیث کے بغیر اس میں گزارا ہی نہیں ہے۔ایسے کسی دوچار راوی کا نام بتائیں۔
    ویسے لگے ہاتھوں یہ بھی پوچھتاچلوں کہ حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں امام ابوحنیفہ کا ذکر بطور حافظ حدیث کیاہے یافقیہ؟امید ہے کہ آپ اپنی رائے سے نوازیں گے ۔
     
  17. بشیراحمد

    بشیراحمد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اپریل 1, 2009
    پیغامات:
    1,568
    جناب آپ کا سوال یہ تھا
    ذراتین چارایسے راویوں کا حوالہ دینا تو جوقابل صداحترام ہو لیکن ان کی روایت مقبول نہ ہو۔ ؟
    جواب یہ ہے
    مقدمہ صحیح لمسلم
    نصر بن علی جہضمی ، اصمعی ، حضرت ابن ابی الزناد عبداللہ بن ذکوان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے مدینہ میں سو آدمی ایسے پائے جو نیک سیرت تھے مگر انہیں روایت حدیث کا اہل نہیں سمجھا جاتا تھا اور ان سے حدیث نہیں لی جاتی تھی ۔
    امام ابوحنیفہ کی اپنی ورع اور نیک سیرت کی وجہ سے قابل احترام شخصیت ہیں لیکن محدثین نے ان کی روایت کو معتبر نہیں سمجھا
    اب بتائیں کہ جواب سوال کے موافق ہے یانہیں

    لیکن آپ اپنے اس سوال سے فورا پھر گئے ہیں نیا سوال یہ کردیا ہے
    میری مراد یہ تھی کہ کسی علم وفن کا امام ہو اوربطورخاص فقہ کا چونکہ احادیث کے بغیر اس میں گزارا ہی نہیں ہے۔ایسے کسی دوچار راوی کا نام بتائیں۔

    تو اس کا جواب اپنے ہی ہم نوا سے سن لیجئے
    ملاعلی قاری فرماتے ہیں
    نہایہ اور دیگر ھدایہ کے شارحین کا کوئی اعتبار نہیں‌ کیونکہ وہ محدثین میں سے نہیں ہیں اور نہ ہی وہ حدیث کی سند کو محدثیں تک پہنچاتے ہیں‌
    موضوعات کبیر ​
    علامہ ابوغدہ نے ملاعلی قاری کے اس تبصرے کی تحسین فرمائی ہے
    علامہ عبدالحی لکھتے ہیں کہ کہ کتبہ فقہ اگرچہ مسائل فرعیہ میں میں معتبر ہیں اور ان کے مصنفین بھی قابل اعتبار اور فقھائ کاملین میں سے ہیں لیکن ان میں منقولہ احادیث پر کلیہ اعتماد نہیں جائے گا (مقدمہ عمدہ الرعایۃ )
    امام ابن جوزی نے فرماتے ہیں‌
    میں نے اکثر فقھاء کو کی حدیث کے بارے میں پونجی کھوٹی دیکھی ہے ان میں سے اکثر صحاح سے اعراض کرتے اور ایسی احادیث کی طرف رجوع کرتے ہیں جو کہ ضعیف ہوتی ہیں‌
    التحقیق فی اختلاف الحدیث

    جناب یہ وہ فقھاء ہیں جن کا احادیث کے بغیر گذرا نہیں لیکن علم حدیث میں ان کی حیثیت واضح ہوگئی ہے
    آپ نے لکھا ہے
    میری مراد یہ تھی کہ کسی علم وفن کا امام ہو اوربطورخاص فقہ کا چونکہ احادیث کے بغیر اس میں گزارا ہی نہیں ہے۔ایسے کسی دوچار راوی کا نام بتائیں۔
    جناب کہین اور جانے کی کیا ضرورت ہے اس کی مثال امام ابوحنیفہ ہیں جن کو بقل شما فقھہ کا امام سمجھا گیا ہے لیکن ابھی تک ثقاہت ثابت نہیں کرسکے ہیں‌ باقی نئے سوالات کرنے بجائے پوسٹ نمبر 30 میں کئے گئے سوالات اور اصل سوال کا جواب دیں دوبارہ ملاحظہ فرمائیں‌
    امام ابو حنيفہ رحمت اللہ عليہ قابل صد احترام شخصیت ہیں لیکں ائمہ جرح وتعدیل کے نزدیک ان کی بیان کردہ روایت قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کرتی جب ایک شخص کی روایات کو سند قبولیت حاصل نہ ہوسکے تو ان کو امام اعظم کا درجہ ایں سوال است عجبیب است
    اگر میں یہاں کتاب الضعفاء سے رایوں کی ایک فھرست نقل کروں اور یہ سوال کروں کیا ان کو امام کو درجہ دیا جائے گا تو اھل علم اس سوال کو کس زاویے سے دیکھیں گے ؟؟؟؟؟؟؟؟
    لھذا سب سے پہلا امر تو یہ ہے امام ابو حنيفہ رحمت اللہ عليہ کو امام اعظم منوانے والوں کو چاہئے کہ یہ ثابت کریں کہ ان کی روایت قابل قبول ہے یا نہیں امامیت کی بحث بعد کی
    لھذا جمشید صاحب محدثین پر تشنیع کرنے بجائے اصل موضوع پر آکر محدثین کی اسلوب پر الجرح والتعدیل کے قواعد کی روشنی میں امام ابو حنيفہ رحمت اللہ عليہ کی ثقاہت ثابت کریں
     
  18. abdullah100098

    abdullah100098 -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 3, 2009
    پیغامات:
    13
    ابوعبداللہ صاحب ویسے آپ نے کمال کا لکھا ھے۔ اللہ آپ کے علم میں اضافہ فرماے۔آمین
     
  19. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825
    دوسری صدی ہجری کے ا اواخراورتیسری صدی ہجری کی ابتداء میں اہل حدیث اورمحدثین کے درمیان زیادہ ترنزاعات شروع ہوئے۔ اہل حدیث اوراہل الرائی دونوں بعض بعض غٖلط فہمیوں کے سبب ایک دوسرے کو غلط سمجھتے تھے ۔اہل الرائ کے خیال میں محدثین صرف لکیر کے فقیر تھے اورانہیں حدیث کے معانی اورفقہ سے کوئی واسطہ نہ تھا جب کہ دوسری جانب محدثین اہل الرائی کو مخالفت حدیث کا الزام دیتے تھے کہ وہ اپنے بنائے ہوئے معیارات کی بناء پر صحیح حدیث رد کردیتے ہیں۔ یہ غلط فہمی اس حد تک پہنچی تھی کہ بقول امام احمد بن حنبل اہل الرائی محدثین پر اورمحدثین اہل الرائی پر لعنت کیاکرتے تھے۔ جاء فی ترتیب المدارک للقاضی عیاض رحمہ اللہ تعالی 1/91 و3/181"قال احمد بن حنبل مازلنانلعن اھل الرائی ویلعوننا ،حتی جاء الشافعی فمزج بیننا"الرفع والتکمیل صفحہ422
    (اہل الرائی اوراہل حدیث کے درمیان نزاع کی مزید تفصیل دیکھنی ہو تو الاتجاہات الفقیہ عنداصحاب الحدیث فی القرن الثالث کے مقدمہ کا مطالعہ کریں انہوں نے دوڈھائی سو صفحات میں محدثین اوراہل الرائی کی حقیقت اوران دونوں کے طرز استدلال اورمنہج کے بارے میں خوبصورت اورنفیس بحث کی ہے)
    محدثین اوراحناف جسے اہل الرائی کا نام دیاگیااورجسے ابن قتیبہ نے فقہاء کے معنی میں استعمال کیاہے۔کے درمیان اختلاف کے اوربھی کئی وجوہات تھے۔جن کی بناء پر محدثین امام ابوحنیفہ سے بدظن ہوئے اوراسی وجہ سے بیشتران پر جرح کی گئ۔ اس جرح کا منشاء اکثر لاعلمی اورامام ابوحنیفہ کی شخصیت کے گرد اس دور میں پھیلاہوئی غلط سلط باتیں تھیں۔اس سے انکار نہیں کہ کچھ لوگوں نے امام ابوحنیفہ پر حسد کی وجہ سے بھی کلام کیاہے اوراس سلسلے میں حد سے تجاوز کیاہے (اس کے دلائل آگے ذکر ہوں گے)
    یہ کوئی اتنی زیادہ عجیب بات بھی نہیں ہے۔ہم جانتے ہیں کہ ایک دو رمیں امام ابن تیمیہ کوبعض غلط فہمیوں کے سبب کیاسمجھ لیاگیاتھا اوران کو کیاکیانہ کہاگیاتھا۔اسی طرح شیخ عبدالوہاب کی شخصیت بھی غلط معلومات کی وجہ سے علماء کے اعتراضات کا نشانہ بنی۔جس پر مولانا مسعود عالم ندوی نے کتاب بھی لکھی مصلح مظلوم ومفتری علیہ ۔بعدازاں جب سعودی حکومت نے شیخ عبدالوہاب کی کتابیں بڑے پیمانے پر شائع کراکے دنیابھر میں عام کیں توعلماء اورعوام الناس کو حقیقت حال کا علم ہوا۔
    امام ابوحنیفہ پر محدثین نے جرح کیاہے اس سے کسی کو انکار نہیں ہے مگر کیا یہ جرح ان کے حق میں معتبر ہے یانہیں؟زیرنظرتحریر میں اسی پرروشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
    مجھے جہاں تک یاد پڑتاہے۔شیخ البانی نے بھی سلسلۃ الاحادیث الضعفیہ کی کسی جلدمیں امام ابوحنیفہ پر جرح کرنے والے محدثین کے نام گنائے ہیں۔وہی تمام نام محترم بشیراحمد نے بھی ذکر کردیاہے شاید انہوں نے وہیں سے اخذکیاہو۔واللہ اعلم بالصواب
    ویسے مناسب محسوس ہوتاہے کہ قبل ازیں بحث شروع کی جائے جرح وتعدیل کی بعض اہم امور ذکر کردی جائیں۔
    جرح دراصل غیبت ہے لیکن اس کاجواز ایک عظیم مقصد کیلئے ہواہے کہ تاکہ شریعت محفوظ رہے اوررسول اللہ ﷺ کا کلام محرفین وضاعین اورکمزور حافظہ والوں کے بگاڑ سے محفوظ رہے۔(دیکھئے ریاض الصالحین باب مایباح من الغیبۃ اوراحیاء علوم الدین بکتاب فی آفات اللسان 65/9)جب جرح کا جواز ضرورت کی بناء پر ہواتواسے ضرورت تک ہی محدود رکھاجائے گا۔ یہی قاعدہ ہے الضرورات تتقدر بقدرالضرورہ کہ ضرورت کو ضرورت کے بقدرعمل میں لایاجاءے گا۔اس سے تجاوز نہیں کیاجائے گا۔ چنانچہ حافظ سخاوی فتح المغیث میں لکھتے ہیں
    لایجوز التجریح بشیئین اذاحصل بواحد(فتح المغیث صفحہ482)علاوہ ازیں حافظ سخاوی الاعلان باالتوبیخ لمن ذم التاریخ صفحہ68/69میں رقمطراز ہیں
    واذاامکنہ الجرح بالاشارۃ المفھمۃ اوبادانی تصریح لاتجوز لہ الزیادۃ علی ذلک ،فالامورالمرخص فیھا للحاجۃ لایرتقی فیھاالی زائد علی مایحصل الغرض۔محدثین نے سنت نبویہ کی حفاظت وصیانت کیلئے جوگراں قدرخدمات انجام دی ہیں اس سے انکار مکابرہ کے علاوہ کچھ اورنہیں ہوسکتا۔تاہم یہ بات بھی ذہن میں رہناچاہئے کہ بسااوقات محدثین سے انسانی اوربشری کمزوریوں کے تحت غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔انہوں نے جہل،حسد ،غضب میں کسی کے خلاف جرح کردی ہے۔جیساکہ کتب جرح وتعدیل میں مذکور ہے ۔
    ان امور کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ علماء کا ایک دوسرے پر کلام معتبر نہیں ہے اورنہ ہی ایساہے کہ کتب جرح وتعدیل میں جس کے بارے میں اگر کوئی کلام مل جائے تووہ مجروح ہی ہوگا۔ بسااوقات جارح خود مجروح ہوتاہے۔اسی بناء پر حافظ مغرب ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم وفضلہ میں یہ قاعدہ وضع کیاہے کہ جس کی امامت اورعدالت ثابت شدہ ہو اس پر کسی کی جرح کااعتبار نہیں ہوگا۔چنانچہ وہ کہتے ہیں
    "الصحیح فی ہذاالباب ان من ثبتت عدالتہ وصحت فی العلم امامتہ ،وبانت ثقتہ وبالعلم عنایتہ ،لم یلتفت فی الی قول احد الاان یاتیہ فی جرحتیہ بینۃ عادلۃ ،تصح بھاجرحتہ علی طریق الشہادات"اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے تاج السبکی قاعدۃ فی الجرح والتعدیل میں کہتے ہیں کہ ابن عبدالبر کا یہ کلام باوجود بہتر ہونے کے صاف نہیں ہے پھر وہ آگے ذکر کرتے ہیں کہ جس کی امامت اورعدالت ثابت شدہ ہو اس پر کسی کی جرح کا اعتبار نہ ہوگا اگر جارحین کی جرح مفسر بھی ہوتوچنانچہ وہ کہتے ہیں
    ہم تمہیں پہلے بتاچکے کہ جرح اگر چہ مفسر ہو لیکن اس شخص کے حق میں قبول نہیں ہوگی جس کی نیکیاں گناہوں سے زیادہ ہوں، اوراس کی تعریف کرنے والے اس کی برائی بیان کرنے والوں سے زیادہ ہوں۔ اوراس کی تعدیل کرنے والے جرح کرنے والے زیادہ ہوں(قاعدۃ فی الجرح والتعدیل)
    ایسابھی ہوا ہے کہ محدثین نے اہل الرائے کی بات کو پوری طرح سمجھے بغیر یاغلط طورپر سمجھ کر ان پر جرح کردیا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب امام الجرح والتعدیل ابن معین نے امام شافعی پر جرح کیااورکہالیس بشیء توامام احمد بن حنبل نے فرمایا"ومن این یعرف یحیی الشافعی،ھولایعرف الشافعی،ولایعرف مایقول "امام ابن عبدالبر امام احمد بن حنبل کا قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں صدق احمد بن حنبل :ان ابن معین کان لایعرف مایقول الشافعی رحمہ اللہ
    یہ بہت اہم بات ہے جو امام احمد بن حنبل نے فرمایااگر یہ بات ذہن میں رہے توپھر بہت سے گتھیاں سلجھ جائیں گی۔
    اس سے کم از کم اتناضرور پتہ چلتاہے کہ بسااوقات محدثین نے فقہاء کرام کا کلام اوران کی بات کی مراد سمجھے بغیر یاغلط طورپر سمجھ کر ان پر کلام کیاہے ۔اگر یہ بات امام الجرح والتعدیل ابن معین کے بارے میں کہی جاسکتی ہے اورصحیح ہوسکتی ہے توپھر دیگر محدثین کے بارے میں ایساکیوں نہیں کہاجاسکتاکہ انہوں نے امام ابوحنیفہ کے کلام کو سمجھنے میں غلطی کی ہوگی ۔یہاں سے صرف اتناہی اشارہ کافی سمجھئے ۔بقیہ مباحث آگے ذکر ہوں گی ۔
    جاری ہے
     
    Last edited by a moderator: ‏اکتوبر، 20, 2009
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں