پردہ ، تجدد پسند اور اقبال !

عائشہ نے 'تاریخ اسلام / اسلامی واقعات' میں ‏نومبر 5, 2009 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    ان (علامہ اقبال ) سے ہر قسم کے لوگ ملنے آتے تھے اور وہ ان سب کی باتیں غور سے سنتے اور ان کا جواب دیتے تھے ۔دوسرے تیسرے دن کالجوں کے کچھ طلبہ بھی آجاتے تھے۔ ان میں کوئی ان کے اشعار کے معنی پوچھتا تھا ، کوئی مذہب کے متعلق سوالات کرتا تھا ، کوئی فلسفہ کی بحث لیے بیٹھتا تھا ۔

    ایک دفعہ گورنمنٹ کالج کے چار پانچ طالب علم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ جانتے ہیں کہ کالج کی مخلوق میں بننے سنورنے کا شوق زیادہ ہوتا جا رہا ہے ۔۔۔ ایک تو یہ چاروں پانچوں گل چہرہ ، اس پر بناؤ سنگھار کا خاص اہتمام ، انہوں نے آتے ہی پردے کی بحث چھیڑ دی اور ایک نو جوان کہنے لگا : ڈاکٹر صاحب ، اب مسلمانوں کو پردہ اٹھا دینا چاہئیے ۔

    ڈاکٹر صاحب مسکرا کر بولے : " آپ عورتوں کو پردے سے نکالنا چاہتے ہیں ، اور میں اس فکر میں ہوں کہ کالج کے نوجوانوں کو بھی پردے میں بٹھا دیا جائے ! "


    اقتباس از ،مردم دیدہ : چراغ حسن حسرت ​
     
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    پردہ آخر کس سے ہو

    اسی معنی میں بانگ درا میں کہتے ہیں :

    شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں
    مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بد ظن ہو گئے !
    وعظ میں فرما دیا کل آپ نے یہ صاف صاف
    پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گئے؟ ​

    (بانگِ درا : ظریفانہ )​
     
  3. کنعان

    کنعان محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 18, 2009
    پیغامات:
    2,852
    اقبال کی نظر مقام عورت

    عورت پر مرد کی برتری کی وجہ اقبال کی نظر میں وہی ہے جو اسلام نے بتائی ہے
    کہ عورت کا دائرہ کار مرد کی نسبت مختلف ہے اس لحاظ سے ان کے درمیان مکمل
    مساوات کا نظریہ درست نہیں۔ اس عدم مساوات کا فائدہ بھی بالواسطہ عورت کو
    ہی پہنچتا ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری مرد پر آتی ہے

    ایک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
    کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
    نے پردہ، نہ تعلیم ، نئی ہو کہ پرانی
    نسوانیت زن کا نگہبان ہے فقط مرد
    جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
    اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد


    یہی احتیاج اور کمزوری و ہ نکتہ ہے جس کے باعث مرد کو عورت پرکسی قدر برتری
    حاصل ہے اور یہ تقاضا ئے فطرت ہے۔ اس کے خلاف عمل کرنے سے معاشرے میں
    انتشار لازم آتا ہے۔ اقبال عورت کے لئے پردہ کے حامی ہیں کیونکہ شرعی پردہ عورت
    کی کسی سرگرمی میں حائل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں ایک عورت زندگی کی ہر
    سرگرمی میں حصہ لے سکتی ہے اور لیتی رہی ہے اسلام میں پردہ کا معیار
    مروجہ برقعہ ہر گز نہیں ہے۔ بلکہ اصل پردہ بے حجابی اور نمودو نمائش سے پرہیز
    اورشرم و حیا کے مکمل احساس کا نام ہے اور یہ پردہ عورت کے لئے دائرہ کار
    میں کسی سرگرمی کی رکاوٹ نہیں بنتا۔ اقبال کی نظر میں اصل بات یہ ہے کہ
    آدمی کی شخصیت اور حقیقت ذات پر پردہ نہ پڑا ہو او ر اس کی خودی آشکار ہوچکی ہو۔

    اس بارے میں پروفیسر عزیز احمد اپنی کتاب” اقبال نئی تشکیل“ میں لکھتے ہیں۔

    ” اقبال کے نزدیک عورت اور مرد دونوں مل کر کائنات عشق کی تخلیق کرتے ہیں
    عورت زندگی کی آگ کی خازن ہے وہ انسانیت کی آگ میں اپنے آپ کو جھونکتی
    ہے۔ اور اس آگ کی تپش سے ارتقاءپذیر انسان پیدا ہوتے ہیں
    ۔۔۔ اقبال کے نزدیک عورت کو خلوت کی ضروت ہے اور مرد کو جلوت کی۔“

    یہی وجہ ہے کہ اقبال، عورت کی بے پردگی کے خلاف ہیں ان کے خیال میں
    پردہ میں رہ کر ہی عورت کو اپنی ذات کے امکانات کو سمجھنے کا موقعہ ملتا
    ہے۔ گھر کے ماحول میں وہ سماجی خرابیوں سے محفوظ رہ کر خاندان
    کی تعمیر کا فرض ادا کرتی ہے ۔ جو معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے۔ اور سب
    سے بڑی بات یہ کہ اپنے گھر میں وہ یکسوئی کے ساتھ آئندہ نسل کی
    تربیت کا اہم فریضہ انجام دیتی ہے اس کے برعکس جب پردے سے باہر آ
    جاتی ہے تو زیب و زنیت ، نمائش، بے باکی ، بے حیائی اور ذہنی پراگندگی
    کا شکار ہوجاتی ہے چنانچہ یہ فطری اصول ہے کہ عورت کے ذاتی جوہر
    خلوت میں کھلتے ہیں جلو ت میں نہیں۔” خلوت“ کے عنوان سے ایک
    نظم میں اقبال نے کہا ہے۔

    رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
    روشن ہے نگہ آئینہ دل ہے مکدر
    بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدو ںسے
    ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
    آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
    وہ قطرہ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر
    خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیرو لیکن
    خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر!


    اقبال عورت کے لئے تعلیم ضروری سمجھتے ہیں لیکن اس تعلیم کا نصاب ایسا ہونا
    چاہیے جو عورت کو اس کے فرائض اور اس کی صلاحیتوں سے آگاہ کرے اور اس
    کی بنیاد دین کے عالمگیر اصولوں پر ہونی چاہیے۔ صرف دنیاوی تعلیم اور اسی
    قسم کی تعلیم جو عورت کو نام نہاد آزادی کی جانب راغب کرتی ہو۔ بھیانک
    نتائج کی حامل ہوگی۔ اقبال کے خیال میں اگر علم و ہنر کے میدان میں وہ کوئی
    بڑا کارنامہ انجام دے سکے تو اس کا مرتبہ کم نہیں ہوجاتا۔ اس کے لئے یہ شرف
    ہی بہت بڑا ہے کہ زندگی کے ہر میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے
    مشاہیر اس کی گود میں پروان چڑھتے ہیں اور دنیا کا کوئی انسان
    نہیں جو اس کاممنونِ احسان نہ ہو

    وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
    اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
    شرف میں بڑھ کر ثریا سے مشت خاک اس کی
    کہ ہر شرف ہے اسی درج کادر مکنوں!
    مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن!
    اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارا فلاطوں


    عورت کے بارے میں اقبال کے خیالات کا ہر پہلو سے جائزہ لینے کے بعد یہ الزام قطعاً
    بے بنیاد ثابت ہوجاتا ہے کہ انھوں نے عورت کے متعلق تنگ نظری اور تعصب سے کام
    لیا ہے دراصل ان کے افکار کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر ہے اور عورت کے متعلق بھی
    وہ انہی حدود و قیود کے حامی ہیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں۔ یہ حدود و قیود
    عورت کو نہ تو اس قدر پابند بناتی ہیں جو پردہ کے مروجہ تصور نے سمجھ لیا ہے۔
    اور نہ اس قدر آزادی دیتی ہیں جو مغرب نے عورت کو دے دی ہے۔ نہ یہ پردہ اسلام
    کا مقصد ہے اور نہ یہ آزادی اسلام دیتا ہے۔ اسلام عورت کیلئے ایسے ماحول اور
    مقام کا حامی ہے جس میں وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں بہتر طور پر استعمال کر
    سکے اور یہی بات اقبال نے کہی ہے۔ یہ فطرت کے بھی عین مطابق ہے اس کی
    خلاف ورزی معاشرت میں لازماً بگاڑ اور انتشار کا باعث بنتی ہے ۔
     
  4. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    سو فیصد درست !

    صاحب تحریر کا حوالہ عطا ہوتا تو سونے پہ سہاگہ والی بات ہو جاتی ۔
     
  5. کنعان

    کنعان محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 18, 2009
    پیغامات:
    2,852
    السلام علیکم

    عورت کا مقام

    اس تحریر کے نیوز پیپر کا لنک حاضر خدمت ھے

    والسلام
     
  6. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    وعليكم السلام ، شكريہ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں