شعبہ "آپ کے سوال / ہمارے جواب" کے لئے قواعد و ضوابط

رفی نے 'آپ کے سوال / ہمارے جواب' میں ‏فروری 22, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
    شعبہ "آپ کے سوال / ہمارے جواب" کے لئے قواعد و ضوابط

    1: سوال اور سوال کا عنوان جہاں تک ممکن ہو اردو رسم الخط میں پیش کیا جائے۔ سوال کی نوعیت و مفہوم صاف اور واضح الفاظ میں ہونا چاہئے۔

    2: جو رکن سوال کی شکل میں تھریڈ پوسٹ کرے ، صرف وہی رکن اپنے اس تھریڈ میں مزید استفسار یا وضاحت کی خاطر مزید پوسٹنگ کر سکتا ہے۔


    3: نئے سوالات کرنے والے اراکین کو چاہے کہ وہ سوال کرنے سے پہلے '' زمرہ سوال و جواب '' ميں تلاش كر ليں ۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے سوال کا جواب موجود ہو۔

    4: سوال کا جواب دینے میں دیر سویر ممکن ہے ، لہذا تاخیر کی صورت میں سوال کنندہ کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے۔

    5: غیرسنجیدہ سوال کنندہ کے تھریڈ کو انتظامیہ اپنی صوابدید پر مقفل کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہے تاکہ سوال کنندہ غیرضروری سوال در سوال کے ذریعہ الجھن کا باعث نہ بنے۔

    6: سوالات کے جواب دینے کے لیے اردو مجلس انتظامیہ نے ایک کمیٹی بنائی ہے جس کے نامزد اراکین ہی کو جواب دینے کا اختیار حاصل ہے۔ اس کمیٹی کے نامزد اراکین کی تعداد میں ردّ و بدل و اضافہ اردو مجلس انتظامیہ کی صوابدید پر منحصر ہے۔

    اس بات کا خاص خيال رکھيں کہ يہ ايک فيملی فورم ہے لہذا کسی بھی ايسے حساس قسم کے سوال سے اجتناب کريں جس سے ايک فيملی فورم کا تقدس پامال ہو۔ ایسے کسی بھی قسم کے سوال بذریعہ ذاتی پیغام ناظمین خاص کو ارسال کئے جا سکتے ہیں۔
    یہ قواعد و ضوابط آپ کی سہولت اور آسانی کے لئے ہی مرتب کیے گئے ہیں۔ تاکہ آپ کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اچھے اراکین کی حیثیت سے قواعد و ضوابط کا احترام کرنا ہم سب کا فرض ہے۔



    واضح رہے کہ : درج بالا قواعد و ضوابط میں ردّ و بدل یا اضافہ کا حق انتظامیہ اپنے پاس محفوظ رکھتی ہے۔

    شکریہ

    والسلام علیکم

    اردو مجلس انتظامیہ
    شعبہ سوال وجواب كے متعلق ضرورى اقدامات
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,950
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    "علماء کرام سے سوال پوچھنے کے آداب"

    السلام عليکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    کافی عرصہ قبل ہم نے اللہ تعالی کی توفیق سے علماء کرام سے سوالات پوچھنے کا سیکشن جاری کيا تھا، اس سلسلے میں سوالات موصول ہوتے رہے اور علماء کرام جوابات بھی دیتے رہے ۔۔اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ علماء کرام سے سوالات کرنے کے سلسلے میں جو صحیح شرعی آداب ہيں ان کا بھی اختصارا ذکر کردیا جائے تاکہ سائل مکمل علم وبصیرت کے ساتھ اور ان ضروری آداب کو ملحوظ خاصر رکھتے ہوئے سوالات ارسال فرمائیں۔

    علماء کرام سے سوالات پوچھنے کے متعلق ہدایات

    1- علماء کرام سے سوال پوچھنے کو اللہ تعالی کا حکم سمجھےکہ وہ ایک اہم دینی ذمہ داری سے عہدہ براء ہورہا ہے ،لہذا دل میں عمل کا جذبہ اور تقوی الہی موجزن ہو۔

    2- بلاضرورت کثرت سوال دین میں معیوب چیز ہے، مثلاً ایسے مسائل جو اب تک وقوع پذیر نہیں ہوئے ان کے لئے پرتکلف مفروضے بناکر سوالات کرنا۔

    3- خود سائل کو اپنے مسئلے کی مکمل تفاصیل کا بخوبی علم ہو اور اسے بروقت پیش کرسکے،تاکہ عالم کو جواب دینے میں وضوح حاصل ہو۔

    4- سوال واضح اور ملخص ہو تاکہ جواب بھی واضح ہو، اگر سوال میں کسی قسم کا ابہام یا غموض ہوگا تو یقیناً جواب بھی غیر واضح ہی رہے گا۔

    5- سائل کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ اکیلا نہیں جو مفتی حضرات سے سوال کررہا ہے بلکہ روزانہ بیسیوں اور اس سے بھی زائد لوگ ان سے رابطہ کرتے ہیں لہذا سوال کو دوٹوک، واضح اور مختصر الفاظ میں ہونا چاہیے۔

    6- سائل کو جس بات کا علم نہ ہو صرف اس کا سوال کرنا چاہیے ناکہ جواب ملنے پر اپنے یا کسی اور کے دلائل لاکر مناظرہ کرنا چاہیے، ہاں اگر کسی مسئلہ میں تحقیق مزید کرنا چاہیے تو اہل علم کی کتب ودروس کی طرف رجوع کریں۔ کیونکہ کتنی ہی ایسی دینی ذمہ داریاں اور فرائض ہیں کہ جو مفتی صاحب اور سائل کو ادا کرنے کے لئے وقت کی تنگی رہتی ہے، پس بجائے ان مفید کاموں میں وقت صرف کرنے کے پہلے سے معلوم شدہ مسئلہ کو باربار پوچھناغیرمناسب ہے۔

    7- کسی ثقہ عالم سے جواب ملنے کے بعد دوسرے عالم کے پاس جاکر پھر وہی سوال کرنا مناسب نہیں، جیسا کہ کسی عالم کو خوامخواہ دوسرے عالم کے دئے گئے فتوی کا حوالہ دینا۔ ایک تو علماء کے قیمتی وقت کو ضائع کرنا ہے دوسرا اپنے آپ کو پریشان کرنے کا سبب ہے کہ فلاں عالم تو یہ کہتا ہے اور فلاں یہ! اور آپ حیران وپریشان ہوجاتے ہیں کہ کس کی بات پر عمل کریں۔ جبکہ اللہ کا حکم تو ہے کسی بھی راسخ فی العلم ثقہ عالم سے پوچھیں اور برئ الذمہ ہوجائیں، نہ یہ کہ خواہش پرستی میں سب سے پوچھتے رہیں اور جو سہل ترین نفسانی بات ہو اسے لے لیں۔ تاہم اگر دلیل سمجھ نہ آئے تو ایک سے زائد مرتبہ سے پوچھا جاسکتا ہے۔

    8- سوال مبہم نہ ہو کہ ایسا ایسا کسی کے ساتھ ہوا وغیرہ بلکہ واضح ہو کس سے متعلق ہے اور کیا تفصیلات ہیں کیونکہ اہل علم سے سوال کرنا کوئی عیب نہیں کہ اسے شرم کرتے ہوئے چھپایا جائے، بلکہ صحابہ وصحابیات واضح ودین کے تعلق سے کھل کر سوال کیا کرتے تھے، وہ حیاء معیوب ہے جو دینی مسئلہ کو معلوم کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے جو مبہم سا سوال آپ نے کیا ہے اگر اسے مخصوص شخص یا حالت سے متعلق آپ دریافت کرتے تو شاید جواب یکسر اس دئے گئے جواب سے مختلف ہوتا۔

    9- سائل کو چاہیے اپنے لئے سوال پوچھے ناکہ کسی غیر کے لئے کیونکہ لازم ہے کہ عالم کو دیگر تفصیلات کی ضرورت ہوگی جس کا جواب آپ بروقت نہیں دے سکتے اور اکثر غیر تسلی بخش جوابات سائل کے کمزوربیانی وعدم وضاحت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

    10- سائل کے لئے جائز نہیں کہ عالم کی اجازت کے بغیر اس سے کی گئی ٹیلیفونک گفتگو کو ریکارڈ کرے، یا لکھ کر نشر کرے الا یہ کہ عالم سے پیشگی اجازت لے لی جائے، کیونکہ شرعی حکمت وقواعد کے اعتبار سے بہت سے ایسی باتیں ہوتی ہیں جو کچھ لوگوں سے کی جاتی ہیں ان کے حال کو جانتے ہوئے لیکن عوام الناس میں نشر کرنا مناسب نہیں ہوتا اور ایک عالم اس بات کو بخوبی جانتا ہے لہذا اس کی اجازت کے بغیر کوئی بھی چیز اس سے متعلق نشر کرنا ناجائز ہے۔

    11- عام لوگوں کی مجلس میں ایسے دقیق وعلمی واختلافی مسائل نہیں پوچھنے چاہیے کہ جسے اکثریت سمجھنے تک سے قاصر ہوں یا کسی کے لئے فتنے کا ہی باعث بن جائے۔

    12- سائل کو اگر جواب صحیح طور پر سمجھ نہ آیا ہو تو اسے دوبارہ پوچھنا چاہیے یا جو مفہوم وہ سمجھا ہے اسے بیان کرکے پوچھنا چاہیے کیا میں صحیح سمجھا ہوں؟، ناکہ اسی غیرواضح سمجھ وفہم کو لیکر عمل شروع کردے۔

    13- عالم سے انتہائی مناسب وقت کی اجازت لے کر سوال کرنا علماء کرام سے پیش آنے کے آداب میں سے ہے کیونکہ وہ بھی انسان ہیں اور ہمیشہ ایک ہی حالت میں نہیں ہوتے کبھی جلدی میں ہوتے ہیں کبھی کوئی ذاتی کام یا علمی تحقیق وغیرہ میں مصروف ہوتے ہیں تو جواب بھی ممکن ہے آپ کو تسلی بخش تفصیل کے ساتھ نہ مل پائے۔

    14- عالم کی وقار ومنزلت کو ہرحال میں ملحوظ خاصر رکھنا چاہیے کچھ علماء طبیعتاً نرم مزاج ہوتے ہیں اور کچھ تھوڑے سخت، کچھ کے جوابات آسان الفہم ہوتے ہیں تو کچھ کہ قدرے مشکل، ہمیں چاہیے کہ انہیں اس سلسلے میں معذور سمجھا جائے اور حسن ظن کو باقی رکھا جائے ناکہ ان کے بارے میں عوام میں بدگمانی کی ترویج شروع کردی جائے۔

    14- یہ بات علماء کرام کے ساتھ بے ادبی میں شمار کی جائے گی کہ خوامخواہ کسی عالم کو عوامی مجمع میں اپنے خاص سوال کے لئے یا کسی بھی موقع پر اللہ کی قسمیں دیکر پابند کیا جائے کہ اس کاجواب دیجئے وغیرہ اس لئے کہ یہ عالم کے لئے حرج واذیت کا سبب ہے، کیونکہ حدیث میں حکم ہے جو اللہ تعالی کی قسم دے کر سوال کرے تو اسے جواب دینا ضروری ہے دوسری طرف ہوسکتاہے کسی جائز شرعی مصلحت کے تحت وہ عوام میں جواب نہ دینا چاہتا ہو تو اسے ان دو مفاسد میں کسی ایک کو اختیار کرنے کے سلسلے میں پریشانی کا آپ سبب بنے۔


    (شیخ صالح آل الشیخ (حفظہ اللہ) کے درس "علماء کرام سے سوال پوچھنے کے آداب" سے ماخوذ) بشکریہ اصلی اہل سنت

    شعبہ سوال وجواب كے متعلق ضرورى اقدامات
     
    • متفق متفق x 3
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں