** عمران دی گریٹ **

ابومصعب نے 'گوشۂ ابن صفی' میں ‏مارچ 1, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    سوٹ پہن چکنے کے بعد عمران آئینے کے سامنے لچک لچک کر ٹائی باندھنے کی کوشش کررہا تھا ۔ ”اوہنہ ....پھر وہی ....چھوٹی بڑی ....میں کہتا ہوں ٹائیاں ہی غلط آنے لگی ہیں ۔ “ وہ بڑبڑاتا رہا ۔ ”اور پھر ٹائی ....لاحول والا قوة ....نہیں باندھتا !“
    یہ کہہ کر اس نے جھٹکا جو مارا تو ریشمی ٹائی کی گرہ پھسلتی ہوئی نہ صرف گردن سے جالگی بلکہ اتنی تنگ ہوگئی کہ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آنکھیںابل پڑیں ۔
    ”بخ ....بخ ....خیں“....اس کے حلق سے گھٹی گھٹی سی آوازیں نکلنے لگیں اور وہ پھیپھڑوں کا پورا زور صرف کرکے چیخا۔”ارے مرا ....بچاو ¿ سلیمان“
    ایک نوکر دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہوا ....پہلے تو وہ کچھ سمجھا ہی نہیں کیونکہ عمران سیدھا کھڑا ہوا دونوں ہاتھوں سے اپنی رانیں پیٹ رہا تھا !
    ”کیا ہوا سرکار۔ ”بھرائی ہوئی آواز میں بولا !
    ” ارے ....لیکن ....مگر ....؟“
    ”لیکن ....مگر ....اگر ....”عمران دانت پیس کرناچتا ہوا بولا “ابے ڈھیلی کہ “
    ”کیا ڈھیلی کروں !“نوکر نے متحیر آمیز لہجے میں کہا ۔
    ”اپنے باوا کے کفن کی ڈوری ....جلدی کر....ارے مرا۔“
    ” تو ٹھیک سے بتاتے کیوں نہیں؟“نوکر بھی جنجھلا گیا ۔
    ”اچھا بے تو کیا میں غلط بتا رہا ہوں ! میں یعنی عمران ایم ایس سی پی ، ایچ ڈی کیا غلط بتا رہا ہوں ابے کم بخت اسے اردو میں استعارہ اور انگریزی میں مٹیا فرکہتے ہیں ۔ اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو باقاعدہ بحث کر مرنے سے پہلے یہ ہی سہی ۔
    نوکرنے غور سے دیکھا تو اس کی نظر ٹائی پر پڑی ۔ جس کی گرہ گردن میں بری طرح سے پھنسی ہوئی تھی اور رگیں ابھری ہوئی سی معلوم ہورہی تھیں اور یہ اس کے لئے کوئی نئی بات نہ تھی ! دن میں کئی بار اسے اس قسم کی حماقتوں ا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔
    اس نے عمران کے گلے سے ٹائی کھولی۔
    ”اگر میں غلط کہہ رہا تھا تو یہ بات تیری سمجھ میں کیسے آئی !“ عمران گرج کر بولا ۔
    ”غلطی ہوئی صاحب !“
    ”پھر وہی کہتا ہے ، کس سے غلطی ہوئی ؟“
    ” مجھ سے !“
    ” ثابت کرو کہ تم سے غلطی ہوئی ۔ “عمران ایک صوفے میں گراکر اسے گھورتا ہوا بولا ۔ نوکر سرکھجانے لگا ۔

    جوئیں ہیں کیا تمہارے سر میں !“عمران نے ڈانٹ کر پوچھا ۔
    ” نہیں تو “
    ” تو پھر کیوں کھجا رہے تھے ؟“
    ’ ’یونہی “
    ” جاہل .... گنوار ....خواہ مخواہ بے تکی حرکتیں کرکے اپنی انرجی برباد کرتے ہو ۔ ، نوکر خامو ش رہا ۔
    ”یونگ کی سائیکالوجی پڑھی ہے تم نے ؟“عمران نے پوچھا ۔
    نوکر نے نفی میں سر ہلادیا ۔
    ” یونگ کی ہجے جانتے ہو ۔“
    ” نہیں صاحب !“نوکر اکتا کر بولا ۔
    ”اچھا یاد کراو....جے ....یو....این....جی ....یونگ ! بہت سے جاہل اسے جنگ پڑھتے ہیں اورکچھ جونگ ....!جنہیں قابلیت کا ہیضہ ہوجاتا ہے وہ ژونگ پڑھنے اور لکھنے لگ جاتے ہیں ....فرانسیی میں جے ”ژ“کی آواز دیتا ہے مگر یونگ فرانسیی نہیں تھا ۔“
    ”شام کو مرغ کھائیے گا ....یا تیتر۔“ نوکر نے پوچھا ۔
    ”آدھا تیتر آدھا بٹیر ۔“عمران جھلا کربولا ۔ ” ہاں میں ابھی کیا کہہ رہا تھا ....“وہ خاموش ہوکرسوچنے لگا
    آپ کہہ رہے تھے کہ مسالہ اتنا بھوناجائے کہ سرخ ہوجائے ۔ “ نوکر نے سنجیدگی سے کہا ۔ ”ہاں اور ہمیشہ نرم آنچ پر بھونو ! “عمران بولا ۔ ”کفگیر کو اس طرح دیگچی میں نہ ملاو ¿ کہ کھنک پیداہواور پڑوسیوں کی رال ٹپکنے لگے ۔ ویسے کیا تم مجھے بتا سکتے ہوکہ میں کہاں جانے کی تیاری کررہا تھا۔“
    ”آپ!“نوکر کچھ سوچتا ہوا بولا ۔ ”آپ میرے لئے ایک شلوار قمیض کا کپڑا خریدنے جارہے تھے ! بیس ہزار کا لٹھا اور قمیض کےلئے بوسکی ۔“
    ”گڈ! تم بہت قابل اور نمک حلال ہو اگر تم مجھے یاد نہ دلاتے رہو تو میں سب کچھ بھول جاو ¿ں ۔“
    ” میں ٹائی باندھ دوں سرکار! نوکر نے بڑے پیار سے کہا ۔
    ”باندھ دو۔“
    نوکر ٹائی باندھتے وقت بڑبڑاتا جارہا تھا ۔” بیس ہزار کا لٹھا اور قمیض کےلئے بوسکی ۔ کہئے تو لکھ دوں !“
    ” بہت زیادہ اچھا رہے گا !“ عمرا ن نے کہا ۔
    ٹائی باندھ چکنے کے بعد نوکر نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر پنسل سے گھسیٹ کر اس کی طرح بڑھادیا ۔ ” یوں نہیں !“عمران اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے سنجیدگی سے بولا ” اسے یہاں پن کردو ۔“ نوکر نے ایک پن کی مدد سے اس کے سینے پر لگادیا ۔
    ”اب یاد رہے گا ۔ ” عمران کہتے ہوئے کمرے سے نکل گیا
    (ماخوذ۔۔۔خوفناک عمارت۔۔ابن صفی)​
     
    Last edited by a moderator: ‏مارچ 1, 2010
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں