سعودیہ میں 47 دہشت گردوں کو پھانسی کی سزا

زبیراحمد نے 'اسلام اور معاصر دنیا' میں ‏جنوری 2, 2016 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    مشرق وسطیٰ کے شیعہ سیاسی حلقوں کی طرح ایران نے بھی سعودی شیعہ رہنما نمر کو دی گئی سزائے موت کی سخت مذمت کی ہے۔

    نمر النمر کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کی اطلاع ملنے اور سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی ویژن کی طرف سے اس سزا پر عمل درآمد کی تصدیق کے بعد تہران میں ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ ریاض حکومت کو اس کی ’بہت بھاری قیمت‘ چکانا پڑے گی۔

    ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان حسین جابر انصاری نے نمر کو پھانسی کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ’’سعودی حکومت خود تو انتہا پسندوں اور دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتی ہے لیکن ملک کے اندر سے کی جانے والی تنقید کا جواب جبر اور موت کی سزاؤں کے ساتھ دیا جاتا ہے۔‘‘

    نمر اور دیگر شیعہ مظاہرین کو سنائی گئی سزائے موت کے حوالے سے تہران حکومت نے سعودی عرب سے کئی بار مطالبہ کیا تھا کہ وہ ان سزا یافتہ سعودی شہریوں کے لیے معافی کا اعلان کرتے ہوئے انہیں رہا کر دے۔ اس سزائے موت پر عمل درآمد کے خلاف باسیج ملیشیا تہران میں کل اتوار کو سعودی سفارت خانے کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرے کرے گی۔

    نمر النمر کو پھانسی پر ایران کے سرکردہ مذہبی رہنما آیت اللہ خاتمی نے بھی مذمت کی۔ خاتمی نے کہا کہ نمر کی موت سعودی حکومت کے زوال کی وجہ بنے گی۔ آیت اللہ احمد خاتمی کے ایران میں حکمران طبقے کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ خاتمی نے کہا کہ سعودی حکومت ان کے بقول جس جبر اور انتقام کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

    http://urdu.alarabiya.net/ur/middle...کو-پھانسی-پر-تہران،-سعودی-عرب-پر-برس-پڑا.html
     
    • معلوماتی معلوماتی x 2
  2. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    ایران اور ان کے حمایتیوں کو مرچیں لگ رہی ہیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • متفق متفق x 1
    • ظریفانہ ظریفانہ x 1
  3. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    لیکن ایران جو سنیوں کو پھانسیاں دے رہا ہے وہ کسی کو نظر نہیں آتا۔
    دہشت گرد چاہے کسی بھی مسلک کا ہو اس کو زمین سے ختم کرنا چاہیے۔
    دہشت گرد شیعی، وہابی، بریلوی، دیوبندی ہو یا عیسائی، یہودی اور ہندو سب کا نظریہ بے گناہ کا خون بہانا ہوتا ہے۔
     
    • متفق متفق x 3
  4. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    دوسرے ملکوں میں دہشت گردوں کو امداد بھیجتے ہوئے ایران بھول گیا تھا کہ تابوت وصول کرنے پڑیں گے۔
     
    • متفق متفق x 1
    • ظریفانہ ظریفانہ x 1
  5. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    بالکل درست فرمایا آپ نے
     
    • متفق متفق x 1
  6. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    دہشت گردی میں ملوث 47 مجرموں، بشمول ایران نواز شیعہ عالم نمر النمر، کو سزائے موت دینے پر ایران اور اس کے ساتھی سعودی عرب کا یہ دہشت گردوں کو سزا دینے کا حق تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ دہشت گردوں کو پھانسی دینے پر ایران کے دوست اس وقت 'القاعدہ' کے ساتھ ملکر سعودی عرب کے خلاف آواز بلند کر ہے ہیں۔

    خامنہ ای، لبنانی ملیشیا حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ، یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی، سابق عراقی وزیر اعظم نوری المالکی اور المقدسی سعودی شہریوں کو دہشت گردی کے الزام میں دی جانے والی سزائے موت پر مل کر احتجاج کر رہے ہیں۔

    ایرانی ذرائع ابلاغ میں نمر النمر کی سزائے موت کو شیعہ مسلک کا پیروکار ہونے کی وجہ سے نمایاں کیا جا رہا ہے جبکہ ان ہی کی طرح 43 دوسرے سزائے موت پانے والوں کا ذکر گول کیا جا رہا ہے جبکہ اس تمام کو ایک ہی جرم دہشت گردی اور سیکیورٹی اہلکاروں سے جھڑُپوں کی پاداش میں سزا سنائی گئی۔ یہ لوگ پرامن داعی نہیں تھے۔

    تہران میڈیا شیعہ رہنما نمر النمر اور القاعدہ کے نظریاتی پرچارک فارس آل شویل اور دیگر جنگجوؤں کے درمیان تقابل نہیں کر رہا حالانکہ النمر کئی بار سعودی سیکیورٹی فورسز کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اپیلیں کرتا رہا ہے اور اسے ایک مسلح جھڑپ کے دوران زخمی حالت ہی میں گرفتار کیا گیا۔

    نہ ہی ایرانی میڈیا آل شویل اور نمر النمر کے درمیان اس موازنے کو تیار ہے کہ اول الذکر نمر پر کفر کا الزام عاید کر چکے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو غیر مسلم قرار دیتے تھکتے نہیں تھے، تاہم ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کے حاشیہ بردار مل کر سعودی عرب کے خلاف فتوی صادر کر رہے ہیں اور اس کے جائز قانونی حق کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔

    ایرانی میڈیا النمر کو "آیت اللہ" کا لقب دے رہے ہیں۔ یہ علمی مقام وہ کسی مجتھد یا خطیب کو دینے کو تیار نہیں۔ النمر کی علمی خدمات کا تو علم نہیں تاہم حکومت کے خلاف ان کی تقاریر کی ویڈیو اور مقالے ان کی علمی قدر ومنزلت کا پتا ضرور دیتے ہیں۔ بعینہ القاعدہ بھی اپنی 'مبلغین' کو 'علامہ' اور 'محقق' جیسے غیر دقیق القابات سے یاد کرتی ہے۔

    ایرانی میڈیا سعودی عرب پر دہشت گردی کا الزام عاید کرتے نہیں تھکتا حالانکہ امریکی دفتر خارجہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں دہشت گردی کی سب سے زیادہ حمایت کرنے والا ملک ایران ہے۔

    ایران کا سرکاری اور نجی میڈیا اس حقیقت کو نجانے کیوں فراموش کر رہا ہے کہ تہران نے خود اقوام متحدہ میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ 15 مہینوں کے دوران ایران میں 852 افراد کو پھانسی دی گئی، جو دنیا بھر میں دی جانے والی پھانسیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

    ایران ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے القاعدہ کے حامیوں نے بھی سعودی عرب میں پھانسیوں پر تنقید کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے تجزیہ کار یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی دین اور مذہب نہیں ہوتا۔ سعودی عرب نے دہشت گردی کے الزام میں اپنے ہی شہریوں پر اپنے قانون کا اطلاق کیا ہے تو ایسے میں دوسرے ملکوں کو کیونکر اس پر اعتراض ہو رہا ہے؟

    http://urdu.alarabiya.net/ur/intern...ن-دہشت-گردوں-سے-قصاص-لینے-پر-معترض-کیوں؟.html
     
    Last edited by a moderator: ‏جنوری 7, 2016
  7. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    ایران میں اہل سنت مبلغین، مذہبی شخصیات اور سرگرم کارکنوں کے خلاف پھانسیوں کے معاملے نے پھر سے سر اٹھا لیا ہے ۔ گزشتہ ہفتے تہران کی اعلیٰ عدالت نے ایرانی صوبے کردستان سے تعلق رکھنے والے 27 مبلغین اور دینی علوم کے طلبہ کے خلاف سزائے موت کے فیصلے کی توثیق کردی تھی ۔ دارالحکومت تہران کے نزدیک کرج شہر کی جیل رجائی شہر میں قید ان افراد کو کسی بھی وقت موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا ۔

    اس سے قبل بھی حکام نے مارچ میں 6 سنی کرد ایرانی کارکنوں کو رجائی شہر جیل میں سزائے موت دے دی تھی ۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی سطح پر اپیلوں کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے سزا پر عمل درامد کیا گیا ۔ انقلابی ٹریبونل نے 2012ء میں "اللہ کے خلاف جنگ" اور "زمین میں فساد پھیلانے" کے الزام میں، حامد احمدی، کمال ملائی، جمشید دہقانی، جہانگیر دہقانی، صدیق محمدی اور ہادی حسینی کو سزائے موت سنائی تھی ۔

    درایں اثنا انسانی حقوق کے ذرائع کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی کہ یہ افراد پرامن مذہبی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے، ان سرگرمیوں میں ایرانی کردستان میں سنیوں کی مسجدوں میں مذہبی بیانوں کا انعقاد شامل ہے ۔تاہم حکام نے ان افراد پر کردستان صوبے میں ایرانی حکومت نواز ایک سنی مذہبی شخصیت کے قتل کا الزام تھوپ دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سزائے موت پانے والے افراد نے اس الزام کو یکسر مسترد کردیا تھا۔

    حالیہ طور پر جن افراد کو سزائے موت سنائی گئی ہے، ان میں سنی کرد مبلغ شہرام احمدی بھی ہیں ۔ گزشتہ 6 برسوں سے گرفتار احمدی پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ ایک سلفی تنظیم سے تعلق رکھتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ عقائد اور سیاسی افکار کے ذریعے حکومت مخالف نظریات کو فروغ دے رہا تھا، اس مقصد کے لیے اس نے بعض کتابیں اور سی ڈیز بھی فروخت کیں۔ شہرام کے ایک 17 سالہ بھائی کو بھی 2012ء میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔

    انسانی حقوق کے ایرانی ذرائع نے بتایا ہے کہ دوران حراست احمدی کو بدترین جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ ایرانی انٹیلجنس نے اس کے چھوٹے کم عمر بھائی کو پانچ دیگر قیدیوں کے ساتھ پھانسی دے دی۔

    بے بنیاد الزامات پر سزائے موت
    ایران میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے زیر انتظام ایجنسی "ہرانا" کے مطابق، اعلیٰ عدالت نے نے گزشتہ منگل 29 دسمبر کو 27 سنی کارکنوں کے خلاف بے "بنیاد الزامات" کے تحت فیصلہ جاری کیا ۔ ان الزامات میں "حکومت کے خلاف پروپیگنڈة" ، "سلفی گروپوں کی رکنیت"، "زمین میں فساد" اور "اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ" شامل ہیں ۔

    ایجنسی کے مطابق عدالت نے بعض گرفتار شدگان پر مسلح کارروائیوں میں شرکت کا الزام بھی عائد کیا تھا۔ مقدمات کی سماعت کے دوران ملزمان نے اس کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی تمام تر سرگرمیاں اہل سنت کے حوالے سے مذہبی اور تبلیغی مجالس میں شرکت تک محدود تھیں۔ ایرانی انٹیلجنس کی وزارت نے ان کارکنان، مبلغین اور دینی علوم کے طلبہ کو ایران کے مغرب میں واقع کردستان صوبے میں 2009 سے 2011 کے درمیان گرفتار کیا گیا۔

    ان 27 قیدیوں کے نام یہ ہیں: 1- ﮐﺎﻭہ ﻭﯾسی 2- ﺑﻬﺮﻭﺯ ﺷﺎﻧﻈﺮی 3- ﻃﺎﻟﺐ ﻣﻠكی 4- ﺷﻬﺮﺍﻡ اﺣﻤﺪی 5- ﮐﺎﻭﻩ ﺷﺮﯾفی 6- ﺁﺭﺵ ﺷﺮﯾفی 7- ﻭﺭﯾﺎ ﻗﺎﺩﺭﯼ ﻓﺮﺩ 8- ﮐﯿﻮﺍﻥ ﻣؤﻣنی ﻓﺮﺩ 9- ﺑﺮﺯﺍﻥ ﻧﺼﺮالله ﺯﺍﺩه 10- ﻋﺎﻟﻢ ﺑﺮﻣﺎﺷتی 11- بوﺭﯾﺎ ﻣﺤﻤﺪی 12- أﺣﻤﺪ ﻧﺼﯿﺮی 13- ﺍﺩﺭﯾﺲ ﻧﻌمتی 14- ﻓﺮﺯﺍﺩ ﻫﻨﺮﺟﻮ 15- ﺷﺎﻫﻮ ﺍﺑﺮﺍﻫﯿمی 16- ﻣﺤﻤﺪ ﯾﺎﻭﺭ ﺭﺣﯿمی 17- ﺑﻬﻤﻦ ﺭﺣﯿمی 18- ﻣﺨﺘﺎﺭ ﺭﺣﯿمی 19- ﻣﺤﻤﺪ ﻏﺮﯾبی 20- ﻓﺮﺷﯿﺪ ﻧﺎﺻﺮی 21- ﻣﺤﻤﺪ ﮐﯿﻮﺍﻥ ﮐﺮﯾمی 22- اﻣﺠﺪ ﺻﺎﻟحی 23- ﺍوﻣﯿﺪ بيوند 24- ﻋلی ﻣﺠﺎﻫﺪی 25- ﺣﮑﻤﺖ ﺷﺮﯾفی 26- ﻋﻤﺮ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠهی 27- ﺍوﻣﯿﺪ ﻣﺤﻤﻮﺩی۔

    ایسے وقت میں جب کہ سنی کارکنان ایران میں حکام پر مذہبی اور قومیتی ظلم وستم اور امتیاز کا الزام عائد کر رہے ہیں، ایران اپنے سرکاری پیغامات اور ذرائع ابلاغ میں یہ بات باور کرانے پر زور دے رہی ہے کہ وہ رنگ، نسل، زبان اور مسلک کی بنیاد پر اپنے شہریوں میں کوئی امتیاز نہیں برت رہی ۔

    فرقہ وارانہ امتیاز
    سرگرم سنی کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہیں ظلم اور امتیازی سلوک کے خلاف آواز بلند کرنے کے سبب گرفتار کیا جاتا ہے ۔ ایران میں اہل سنت عام طور پر فرقہ وارانہ امتیاز کی شکایت کرتے ہیں۔ ساتھ ہی حکام پر یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ سنیوں کو سیاسی عمل سے دور رکھا جاتا ہے ، ملکی امور کی انتظامیہ میں شرکت سے روکا جاتا ہے ، اپنے دینی فرائض کی انجام دہی سے منع کیا جاتا ہے اور ایرانی دارالحکومت میں سنیوں کو اپنی مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ جولائی کے مہینے میں تہران کی بلدیہ نے سیکورٹی فورسز کی مدد سے دارالحکومت میں اہل سنت کے واحد مصلّے (اجتماعی نماز کی جگہ) کو منہدم کردیا تھا ۔ اس اقدام کے سبب سنی حلقوں کے بیچ ردعمل کی شدید لہر دوڑا گئی تھی ۔

    ایران کی کل آبادی میں 20 سے 25 فی صد سنیوں پر مشتمل ہے، جو تعداد میں تقریبا 1.5 کروڑ سے 1.7 کروڑ افراد بنتے ہیں ۔ یہ سب غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ہیں، اس لیے کہ ایرانی حکام ایسے کسی بھی اعداد وشمار کو جاری کرنے سے منع کرتے ہیں جن سے ملک میں مسلکی اور نسلی تقسیم کا اظہار ہو، اس کے علاوہ عام شماریات میں بھی مسلک اور قومیت کا اندراج نہیں کیا جاتا ہے۔

    ایران میں سنیوں کی اکثریت جن صوبوں میں پائی جاتی ہے ان میں صوبہ کردستان (مغرب میں)، صوبہ بلوچستان (جنوب مشرق میں)، صوبہ چولستان (شمال مشرق میں) کے علاوہ خلیج عربی پر پھیلے ہوئے ساحلی صوبے شامل ہیں ۔ دوسری جانب اہل سنت اقلیت کی شکل میں صوبہ مغربی آذربائیجان (شمال مغرب میں)، صوبہ عربستان (اھواز – جنوب مغرب میں)، صوبہ خراسان (شمال مشرق میں) اور صوبہ جیلان (شمالی علاقے طالش) میں پائے جاتے ہیں۔

    سنیوں کی پھانسیوں سے بھرپور تاریخ
    - نومبر 2014 میں سنی بلوچی اقلیت سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں وحید شاہ بخش (22سالہ) اور محمود شاہ بخش (23سالہ) کو زاہدان کی سینٹرل جیل میں پھانسی دی گئی ۔ ان پر "اللہ اور رسول سے جنگ اور قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے" کے الزامات تھے ۔ انسانی حقوق کی ایرانی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایرانی انٹیلجنس نے دونوں بھائیوں کو مختلف قسم کے جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا تاکہ من گھڑت اعترافات کے ذریعے بعد ازاں دونوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاسکے۔

    - جولائی 2014 میں حکام نے زاہدان کی سینٹرل جیل میں بلوچی کارکن یاسین کرد کو 5 برس قید میں رکھنے کے بعد پھانسی دے دی ۔ اس پر "اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ" کا الزام عاید کیا گیا ۔ یاسین وہ اکیلا کارکن تھا جس نے بلوچستان صوبے میں ایرانی ظلم وستم کے خلاف آواز اٹھائی، اور اسی سبب وہ ایرانی انٹیلجنس کے ہاتھوں گرفتار کرلیا گیا۔ یہ ادارہ ان بلوچی کارکنان کے تعاقب کا ذمہ دار ہے جو صوبے میں اپنے شہری ، سیاسی اور مذہبی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔

    اس کے علاوہ ایرانی حکام نے 2013 میں حبیب اللہ ریگی کو موت کے گھاٹ اتارا ۔ یہ حبیب اللہ سنی تنظیم "جند اللہ" کے سربراہ عبدالمالک ریگی کا بھائی تھا، عبدالمالک کو جون 2010 میں حکام نے پھانسی پر چڑھا دیا تھا۔

    - عبدالملک ریگی کو دیگر 15 سنیوں کے ساتھ 26 اکتوبر 2013 کو زاہدان کی جیل میں پھانسی دی گئی ۔ ایرانی حکومت نے ان افراد پر سراوان میں سرحدی محفافظین کے قتل کا الزام عاید کیا تھا ۔ انسانی حققوق کے ایرانی کارکنان نے اس الزام کا پول کھولتے ہوئے بتایا کہ جس وقت قتل کا واقعہ رونما ہوا تو اس وقت موت کی سزا پانے والے یہ ملزمان جیل میں تھے ۔ سزائے موت پانے والوں میں 8 افراد پر "اللہ کے خلاف جنگ" اور "زمین میں فساد پھیلانے" کے الزامات کے تحت فرد فرم عاید کی گئی۔

    عبدالملک نے اپنی یادداشتوں میں تحریر کیا کہ : انہوں نے میرے پاؤں کے ناخن اکھاڑ ڈالے، مجھے بجلی کے جھٹکے دیے گئے ، مجھے تاروں سے پیٹا اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا، وہ جب بھی مجھے پوچھ گچھ کے لیے لے جاتے تو ہمیشہ لاتوں اور گھونسوں کا استعمال کرتے ۔ یہ بات ایران میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے کارکنان نامی ایک تنظیم نے عبدالملک کے حوالے سے بتائی۔

    علاوہ ازیں ایران نے 27 دسمبر 2012 کو اہل سنت والجماعت کے ایک خطیب اصغر رحیمی کو غزل حصار نامی جیل میں پھانسی دی ۔ رحیمی پر جس کو مختلف طریقوں سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے کا الزام عاید کیا گیا۔ اس کے ساتھ 6 دیگر افراد کو بھی موت کے گھاٹ اتارا گیا جن میں رحیمی کا بھائی بہنام بھی شامل تھا۔ اس دوران سزائے موت پانے والوں کو پھانسی سے قبل اپنے اہل خانہ کو دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی ان کی نعشوں کو ان کے گھر والوں کے حوالے کیا گیا ۔ سنی مبلغ اصغر رحیمی کی گرفتاری کے وقت اس کی عمر صرف 18 برس تھی ۔ اس کے بعد دوران حراست اس کو پوری مدت سنندج جیل اور بعد ازاں رجائی جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔

    - اپریل 2009 میں ایرانی حکام نے شیخ خلیل اللہ زارعی اور شیخ حافظ صلاح الدین سیدی کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ دونوں افراد پر غیرقانونی طور سے اسلحہ رکھنے ، حکومت کی مخالفت اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ بننے کے الزامات عاید کیے گئے۔

    ایران کے مختلف صوبوں میں اہل سنت کی درجنوں مذہبی شخصیات اور کارکنان کے خلاف پھانسیوں اور وحشیانہ ایذا رسانی کی کثیر کارروائیوں کی یہ ایک چھوٹی سی جھلک تھی۔ ان صوبوں میں زیادہ اہم بلوچستان، کردستان، اھواز ہیں۔ اس کے علاوہ سیکڑوں سنی اپنے عقیدے کی دعوت کی پاداش میں ابھی تک جیلوں میں سڑ رہے ہیں ، ان میں سے بہت سے لوگوں کو کسی بھی لمحے موت کے گھاٹ اتارے جانے کا خطرہ ہے۔

    http://urdu.alarabiya.net/ur/editor...ن-اور-کارکنوں-کی-سزائے-موت-کا-سلسلہ-جاری.html
     
    Last edited by a moderator: ‏جنوری 8, 2016
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • معلوماتی معلوماتی x 1
  8. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    جب سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ایران کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا تو یہ ایسے ہی لگا جیسے ایک اور دہشت گرد کو تہ تیغ کردیا گیا ہے۔

    دراصل کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ایرانی رجیم دہشت گردی کے ایک واحد بڑے خطرے کے مشابہ ہے اور اس سے نہ صرف سعودی عرب اور خطے بلکہ عالمی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ایران روایتی انداز میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ اس نے مظاہرین کو تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہونے اور اس کو آگ لگانے سے روکنے کی کوشش کی تھی لیکن درحقیقت وہ ایسا نہیں کرسکا۔(اگر یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ ایرانی رجیم نے مظاہرین کی حوصلہ افزائی کی تھی تو یہ باعث حیرت نہیں ہوگی)

    ایران نے سعودی عرب میں منافرت پھیلانے والے مبلغ نمرالنمر کا سرقلم کیے جانے پرتنقید کی ہے۔سعودی حکام نے اس شیعہ مبلغ پر بغاوت کی شہ دینے کا الزام عاید کیا تھا۔ان پر سعودی مملکت میں غیرملکی مداخلت کو دعوت دینے سمیت مختلف الزامات میں فرد جرم عاید کی گئی تھی اور عدالت نے انھیں قصور وار قرار دے کر سزائے موت سنائی تھی۔

    ایران نے اپنے میڈیا اور بھونپوؤں کے ذریعے اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا ہے کیونکہ سعودی عرب ایک سُنی ریاست ہے اور نمر النمر شیعہ تھے۔ایرانی عہدے دار جان بوجھ کر اس حقیقت کو بیان کرنے سے گریز کررہے ہیں کہ سعودی عرب میں جن سینتالیس دہشت گردوں کے سرقلم کیے گئے ہیں،ان میں صرف تین شیعہ تھے۔باقی سب نہ صرف سُنی تھے بلکہ انتہا پسند سُنی تھے۔ان میں القاعدہ کی سرکردہ شخصیات تھیں اور ان کے بارے میں سعودی عرب یہ الزام عاید کرچکا ہے کہ ایران ان کی خاص طور پر حمایت کرتا رہا ہے۔

    الریاض کی جانب نائن الیون حملوں کے حوالے سے یہ انگلی اٹھانا بہت آسان ہے کہ ان میں حصہ لینے والے انیس میں سے پندرہ ہائی جیکروں کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔القاعدہ کے مقتول سربراہ اسامہ بن لادن بھی پہلے ایک سعودی شہری ہی تھے اور سعودی عرب نے بعد میں ان کی شہریت منسوخ کردی تھی۔

    تاہم دہشت گردی کی حمایت کرنے والے رجیم ،جیسا کہ ایران ہے اور سعودی حکومت میں بہت فرق ہے۔عالمی طاقتوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کے کردار کو سراہا ہے اور اس کو اس جنگ میں ایک اہم اتحادی قرار دیا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ سعودی عرب القاعدہ اور داعش کے جنگجوؤں کے خلاف انتھک لڑرہا ہے۔اس کے اپنے جو بھی شہری ان گروپوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں،ان کے خلاف سخت کارروائیاں کررہا ہے(اس سلسلے میں حال ہی میں نشرکردہ العربیہ ٹی وی کی خصوصی دستاویزی فلم ضرور ملاحظہ کریں،جس کسی نے ابھی القاعدہ کے خلاف سعودی جنگ کی تفصیل پر مبنی یہ دستاویزی فلم نہیں دیکھی ہے،اس کو یہ ضرور دیکھنی چاہیے)

    سعودی عرب میں گذشتہ ہفتے کے روز جن دہشت گردوں کے سرقلم کیے گئے تھے،ان میں القاعدہ کا نظریاتی قائد فارس آل شویل بھی شامل تھا۔ان صاحب نے اپنی تحریروں کے ذریعے جنگجوؤں کی حکمت عملی اور حربوں کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی تھی۔نمر النمر کی طرح آل شویل نے شاید ذاتی طور پر تو لوگوں کو ہلاک نہ کیا ہو لیکن ان کی تعلیمات اور تقریریں بے گناہ شہریوں کی جانیں لینے کے عمل میں ایک براہ راست عامل ثابت ہوئی تھیں اور اس چیز نے انھیں مرتکبہ جرائم میں برابر کا ذمے دار بنا دیا تھا۔

    بہت سے لوگ شعوری یا غیر شعوری طور پر سعودی عرب کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوششوں اور اس محاذ پر اس کی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد کی جانی قربانیوں کو تسلیم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔یہ حیرت ناک امر نہیں کہ سعودی عرب کے کردار کو ابھی تک شک کی نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے جبکہ امریکا کے محکمہ خارجہ اور خزانہ کے مطابق ایران القاعدہ کے لیڈروں کو مالی اور لاجسٹیکل مدد مہیا کرتارہا ہے۔یہ حقیقت خود ہی اپنی قلعی کھول رہی ہے کہ القاعدہ نے اپنے فطری دشمن ایران کے بجائے سعودی حکومت ہی کو کیوں اپنا ہدف بنایا ہوا ہے۔معاملہ خواہ کچھ ہی ہو،تعجب خیز آمیز امر یہ ہے کہ ایران سعودی عرب پر سزایافتہ دہشت گردوں کو تہ تیغ کرنے پر نہایت دیدہ دلیری سے تنقید کررہا ہے۔

    انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایران میں گذشتہ سال کی پہلی ششماہی کے دوران سات سو سے زیادہ افراد کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔سال 2015ء میں ایران میں پھانسی چڑھنے والے تمام افراد کے اعداد وشمار ابھی جاری نہیں کیے گئے ،جب یہ تعداد سامنے آئے گی تو مصلوبین کی تعداد ایک ہزار سے اوپر ہی ہوگی۔(خیال رہے کہ یہ سب کچھ اعتدال پسند صدر حسن روحانی کی ناک کے نیچے ہورہا ہے)۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایران میں پھانسی پانے والوں کی کثیر تعداد سنی علمائے دین اورعام سنیوں کی ہے۔حالانکہ انھوں نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا اور انھیں منصفانہ ٹرائل کا موقع بھی نہیں دیا گیا ہے۔

    سعودی عرب میں بی بی سی کے صحافی فرینک گارڈنر پر حملہ کرنے اور ان کے کیمرامین کو 2004ء میں قتل کرنے والے القاعدہ کے مسلح شخص کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا تھا اور سرعام اس کا سرقلم کیا گیا تھا جبکہ ایرانی رجیم نے ابھی تک واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے جیسن رضیان کو زیر حراست رکھا ہوا ہے،ان کے خلاف کسی خفیہ مقام پر مقدمہ چلایا گیا تھا اور چپکے سے انھیں کوئی خفیہ سزا سنا دی گئی تھی۔

    یہ بات واضح رہے کہ ایرانی عوام کے ساتھ کوئی ایشو نہیں ہے۔وہ اپنے لیڈروں سے کہیں زیادہ اعتدال پسند اور روا دار ہیں۔مسئلہ تو دراصل ایرانی رجیم کے ساتھ ہے جو علاقے میں اپنی بالادستی کے لیے متحرک ہے۔ایران خطے میں مختلف دہشت گرد اور پیراملٹری گروپوں کی حمایت اور مالی معاونت کا ذمے دار ہے۔لبنان میں حزب اللہ سے عراق کی اصیب اہل الحق ملیشیا اور یمن میں حوثی باغیوں تک، سب کی ایران ہی پشت پناہی کررہا ہے۔(حزب اللہ لبنان میں ایک بنیادی تخریبی قوت ہے۔اسی نے بیروت میں 1983ء میں امریکی میرینز کی بیرکوں پر حملہ کیا تھا۔اصیب اہل الحق عراق میں عراقیوں ،برطانوی اور امریکی شہریوں اور فوجیوں کے قتل کی ذمے دار ہے)۔

    الریاض کی جانب سے ایران سے تعلقات منقطع کرنا یقینی طور پر درست سمت کی جانب ایک اہم قدم ہے،سعودی عرب کے اتحادیوں کو وہی کچھ کرنا چاہیے جو بحرین (اور سوڈان) نے کیا ہے۔اگر امریکا اور دوسری عالمی طاقتیں ایران کی جوہری خواہشات پر قدغنیں لگانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو پھر 2016ء میں ایران کا خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے کردار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجانا چاہیے۔

    http://urdu.alarabiya.net/ur/views/...ران-اور-47-دہشت-گردوں-کا-تہ-تیغ-کیا-جانا.html
     
    Last edited by a moderator: ‏جنوری 6, 2016
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  9. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    بہت اچھا تجزیہ ہے، شام،عراق، لبنان، یمن اور بحرین میں ایرانی دہشت گردی تاریخی حقیقت ہے۔
     
    • متفق متفق x 1
  10. arifkarim

    arifkarim محسن

    شمولیت:
    ‏جولائی 17, 2007
    پیغامات:
    256
    ایران اور سعودیہ کی پراکسی وار اب ختم ہونی چاہئے۔ اگر لڑنا ہے تو آمنے سامنے آکر لڑیں۔
     
  11. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    پراکسی وار آپ بھی ادھر کسی کی لڑ رہے ہیں کھل کر سامنے آئیں :)
     
    • متفق متفق x 1
    • ظریفانہ ظریفانہ x 1
  12. arifkarim

    arifkarim محسن

    شمولیت:
    ‏جولائی 17, 2007
    پیغامات:
    256
    میں تو اس مجلس کا اسوقت سے رُکن ہوں جب یہ اردو محفل کی طرح صرف اردو زبان کی خدمت میں مگن تھی۔ اب تو ماشاءاللہ ہر جگہ ہی مذہبی دھڑے بن گئے ہیں تو پرانے ممبران کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگے گا۔ اردو اور قرآن پاک کی انٹرنیٹ پر ترویج میں رات و دن محنت کے بعد تخلیق دئے گئے جمیل نوری نستعلیق اور القلم قرآن پبلشر جیسے بہترین فانٹس کے اجراء کے بعد بھی انتظامیہ ہم سے یہ سوال کرتی ہے کہ بتا تو ہے کون؟
    نوٹ: ہم نے اس مجلس میں آپ سے ٹھیک ایک ماہ قبل شمولیت اختیار کی تھی :)
     
  13. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب میں ایک معروف شیعہ عالم نمرالنمر سمیت سینتالیس سزایافتہ مجرموں کو تہ تیغ کرنے کی مذمت سے انکار کردیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور دیگر جرائم میں ملوّث مجرموں کو سزا دینا سعودی مملکت کا داخلی قانونی معاملہ ہے۔

    صدر طیب ایردوآن نے بدھ کو ٹیلی ویژن پر ایک نشری تقریر میں کہا ہے کہ ''سعودی عرب میں سرقلم کیا جانا ایک داخلی قانونی معاملہ ہے۔آپ اس فیصلے کی خواہ تائید کریں یا نہ کریں،یہ ایک الگ ایشو ہے''۔سعودی عرب میں گذشتہ ہفتے کے روز دہشت گردی اور بغاوت کے مقدمات میں ملوّث سزایافتہ مجرموں کے سرقلم کیے جانے کے بعد ان کا یہ پہلا ردعمل ہے۔

    انھوں نے اپنی تقریر میں اس رائے بھی کو مسترد کردیا ہے کہ سعودی عرب کا نمرالنمر کا سرقلم کرنے کا مقصد اہل تشیع کے ساتھ کشیدگی کو بڑھاوا دینا تھا۔انھوں نے کہا کہ ایران میں سعودی مشن پر حملہ بالکل ناقابل قبول ہے کیونکہ جن افراد کے سرقلم کیے گئے ہیں،ان میں سے صرف تین شیعہ تھے۔

    ترک وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے سوموار کو ایک بیان میں سعودی عرب اور ایران پر کشیدگی کم کرنے کے لیے زور دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ دو اہم مسلم طاقتوں کے درمیان کشیدگی سے پہلے سے بارود کے دھانے پر کھڑے خطے کے مسائل میں اضافہ ہو جائے گا۔واضح رہے کہ ترکی نے 2004ء میں یورپی یونین میں شمولیت کے لیے سزائے موت ختم کردی تھی۔

    ترک صدر نے گذشتہ ماہ سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے دوطرفہ تعلقات ،خلیج میں جاری تنازعات اور خاص طور پر شام اور عراق میں جاری بحرانوں کے حل کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کی تھی۔

    ترکی اور سعودی عرب شامی تنازعے پر یکساں مؤقف رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ شامی صدر بشارالاسد کی رخصتی ہی سے ملک میں گذشتہ پانچ سال سے جاری بحران حل ہوسکتا ہے جبکہ ایران بشارالاسد کا اقتدار بچانے کے لیے ان کی مالی ،عسکری ،سیاسی غرضیکہ ہر طرح سے مدد کررہا ہے۔

    اس کا ایک اور اتحادی روس بھی شامی صدر کی حمایت میں پیش پیش ہے اور اس کا شام کے سرحدی علاقے میں لڑاکا طیارے کو گرائے جانے پر ترکی سے تنازعہ چل رہا ہے۔روس ترکی کے خلاف تب سے تندوتیز بیانات جاری کررہا ہے اور ایران بھی اس کا مؤید ہے۔

    اب مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب میں ہفتے کے روز سینتالیس مجرموں کو تہ تیغ کیے جانے کے بعد حالات نے نیا پلٹا کھایا ہے اور ایک دوسرے کے اتحادی اور مخالف ممالک کی نئی صف بندی ہورہی ہے۔سعودی عرب میں جن چوالیس سنیوں کے سرقلم کیے گئے تھے،ان میں القاعدہ کی کئی سرکردہ شخصیات شامل تھیں لیکن ایران کی جانب سے صرف شیعہ عالم کا سرقلم کیے جانے پر سخت احتجاج کیا جارہا ہے۔

    مشتعل ایرانی مظاہرین نے اس کے ردعمل میں تہران میں سعودی سفارت خانے اور مشہد میں قونصل خانے کو نذرآتش کردیا تھا۔ایران میں سعودی سفارتی مشنوں پر حملوں کے ردعمل میں سعودی عرب ،بحرین،سوڈان اور جبوتی نے تہران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں اور کویت نے ایران سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔

    http://urdu.alarabiya.net/ur/intern...شیعہ-عالم-کا-سرقلم-کرنے-کی-مذمت-سے-انکار.html
     
    Last edited by a moderator: ‏جنوری 6, 2016
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • معلوماتی معلوماتی x 1
  14. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    جناب آپ کی طرح اور ممبرز بھی ہیں۔
    جو کام قرآن کے حوالے سے آپ نے کیا ہے ہم نے اس کی حوصلہ افزائی کی ہے !
    لیکن جس انداز سے آپ اسلامی پوسٹس پر تبصرے کرتے ہیں وہ یقینا شکوک وشبہات پیدا کررہے ہیں اور اس کی مثالیں موجود ہیں۔
    اس کے علاوہ آپ کی پوسٹیں صرف 219 ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کتنے ایکٹیو ہیں !
     
    • حوصلہ افزا حوصلہ افزا x 1
  15. arifkarim

    arifkarim محسن

    شمولیت:
    ‏جولائی 17, 2007
    پیغامات:
    256
    یہ شاید اسلئے کہ میں مسلکی و فرقہ وارانہ دھڑوں میں بٹے بغیر بات کرتا ہوں۔ اور ظاہر ہے یہ ہر اک کو برا لگتا ہے کہ آجکل مسلمانوں کا معیار ہی یہ بن گیا ہے کہ جنرل اسلام کو کوئی پسند نہیں کرتا جب تک اسمیں مسلک یا فرقہ کی آمیزش شامل نہ کی جائے۔
     
  16. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    جنرل اسلام تو قرآن وحدیث ہے اور اسی کی ہم دعوت دیتے ہیں!
     
    • متفق متفق x 2
  17. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    مجھے انتظامیہ مجلس سے پوچھنا ہے کہ یہ جنرل اسلام اور جنرل نبوت والے اسلام اور عصر حاضر سیکشن میں کیا کر رہے ہیں جب کہ ان کا جھوٹا نبی ختم نبوت کو ماننے والے مسلمانوں کو کافر کہتا تھا؟
     
  18. arifkarim

    arifkarim محسن

    شمولیت:
    ‏جولائی 17, 2007
    پیغامات:
    256
    یہ محض بہتان تراشی ہے جو مختلف فارمز پر موجود مختلف ممبران ہمارے خلاف کرتے رہتے ہیں۔ میرا تو دور دور تک اس قادیانی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔
     
  19. arifkarim

    arifkarim محسن

    شمولیت:
    ‏جولائی 17, 2007
    پیغامات:
    256
    ایران میں سُنی امتیازی سلوک کا شکار ہیں

    تہران حکومت اس وقت سعودی عرب میں شیعہ اقلیت کے ساتھ ناروا سلوک کی آواز بلند کیے ہوئے ہے لیکن خود ایران سُنی اقلیت کے خلاف امتیازی سلوک جاری رکھے ہوئے ہے اور درجنوں سُنیوں کو پھانسی کی سزائیں سنا چکا ہے۔

    تہران حکومت غصے میں ہے کہ سعودی عرب اپنے ملک میں شیعہ اقلیت کا تعاقب جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہفتے کی شب شیعہ مذہبی رہنما النمر کی پھانسی کے بعد ایران بھر میں احتجاجی مظاہروں کا طوفان امڈ آیا لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ایران خود اپنے ملک میں سُنی اقلیت کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔

    ایران میں سُنی قیدیوں کے لیے مہم چلانے والی تنظیم آئی سی ایس پی آئی کے مطابق اس وقت ایران کی صرف رجائی شہر جیل میں 27 سنی قیدی اپنے سزائے موت پر عملدرآمد کے انتظار میں ہیں۔

    ایران میں شیعہ عقیدے کو سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہے اور ہر دس ایرانیوں میں سے نو کا تعلق شیعہ عقیدے سے ہے۔ اس ملک میں سنیوں کی تعداد تقریباً دس فیصد بنتی ہے جبکہ دیگر اقلیتوں میں مسیحی، یہودی اور دیگر گروپ شامل ہیں۔

    ایرانی کے مشہور صحافی اور مصنف بهمن نیرومند کے مطابق ایرانی آئین تو سُنیوں کو برابر کی آزادی فراہم کرتا ہے اور ایرانی وزارت خارجہ بھی یہی کہتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ڈی ڈبلیو سے ان کا گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’عملی طور پر ایران میں سُنی اقلیت کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔‘‘

    آئی سی ایس پی آئی کے مطابق، جن ستائیس سُنیوں کو سزائے موت سنائی گئی ہے، ان کو قومی سلامتی کے خلاف جرائم کا مرتکب ٹھہرایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان پر ’’خدا سے دشمنی‘‘ کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق ان قیدیوں کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے سُنی عقیدے کی تبلیغ کی اور اسی عقیدے کی کتابیں تقسیم بھی کیں۔

    تہران میں سُنی مساجد پر ’پابندی‘

    اعداد و شمار کے مطابق ایران بھر میں سنی عقیدے والوں کی مساجد کی تعداد تقر یباً دس ہزار بنتی ہے جبکہ شیعہ عقیدے والوں کی مساجد تقریباً ستر ہزار ہے۔ اگر تناسب کے لحاظ سے دیکھا جائے تو سنیوں کی مساجد کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ لیکن حقیقت میں ان کو پابندیوں کا سامنا ہے۔

    انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا اپنی سن دو ہزار پندرہ کی سالانہ رپورٹ میں تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دارالحکومت تہران میں کسی بھی سنی مسجد کی تعمیر پر عملاً پابندی ہے جو کہ مذہبی آزادیوں کے برخلاف ہے۔

    فرانسیسی ٹیلی وژن فرانس24 کا حال ہی میں دو ایرانی سنیوں کے انٹرویو جاری کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہیں خفیہ کمروں میں نماز ادا کرنا پڑتی ہے کیوں کہ وہ شیعہ مسجد میں نماز نہیں ادا کرنا چاہتے اور حکام کو پتہ چلتے ہی اس طرح کی ایک عبادت گاہ کو مسمار کر دیا گیا۔ اس انٹرویو کے مطابق، ’’بعض سخت گیر شیعہ یقین رکھتے ہیں کہ شیعہ اکثریتی ملک میں سنیوں کواپنی مسجد بنانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔‘‘

    اسی طرح دوسرے شعبوں میں بھی سنی اقلیت کو امتیازی سلوک کا سامنا رہتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سول سروس اور سیاسی سطح پر بھی سُنیوں کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ سن دو ہزار تین میں اٹھارہ سنی اراکین پارلیمان نے ایران کے روحانی پیشوا کے نام ’کھلا خط‘ لکھا‍ تھا کہ ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق ایران میں پہلی مرتبہ سن دوہزار پندرہ میں کسی سنی عقیدت کے حامل شخص کو سفارتکار بنایا گیا ہے۔
    ماخذ

    جب تک ایران اپنی سنی مخالف اور سعودیہ اپنی شیعہ مخالف پالیسیز کا خاتمہ نہیں کرتا، خطے میں یہ سرد جنگ جاری رہے گی۔
     
    Last edited by a moderator: ‏جنوری 8, 2016
  20. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,953
    عارف کریم۔ جب ہم نے محفل میں شمولیت اختیار کی تھی اس وقت آپ سکول میں پڑھتے ہوں گے۔ محفل کی آئی ٹی اور اردو کی خدمت کا کسی کو انکار نہیں لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہاں قادیانی اور رافضی گٹھ جوڑ نے مخالفین مذہبی و سیاسی دھڑوں کے قابل لوگوں کو محفل سے بین کرکے باہر کردیا گیا۔ وہاں مخالفین کے لئیے کوئی جگہ نہیں۔ مجلس پر ایسی کوئی پابندی نہیں۔ باوجود مذہبی اختلاف کے انتظامیہ نے مجھ سمیت آپ کو بھی برداشت کیا ہوا ہے۔ اختلاف رائے کا حق تو ہر کسی کو حاصل ہے۔ لیکن قوانین محفل کے ہوں یا مجلس کے۔ سب کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔
     
    • متفق متفق x 2
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں