گناہوں کے بد اثرات

شفیق نے 'اسلامی مہینے' میں ‏اکتوبر، 30, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. شفیق

    شفیق ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جنوری 24, 2010
    پیغامات:
    137
    انسان کے نفس پرگناہوں کے اثرات

    دل کا اطمینان ، گھر میں سکون وراحت ،آپس میںپیار ومحبت ، صحت وعافیت اور ذہنی سکون وہ نعمتیں ہیں جن کا شمار اور صحیح قدر وقیمت کااندازہ لگانا ہر ایک کے لیے نا ممکن ہے۔ نیک اعمال کرنے سے ان نعمتوںکو بقاء اور دوام ملتاہے ،اور گناہ کرنے پر یہ نعمتیں سلب کرلی جاتی ہیں۔
    انسان کا گناہ خواہ اس کی ذات تک محدود ہو ، یا دوسرے لوگ بھی اس میں شامل ہوں،ہر حال میںجس طرح نیک اعمال کے نتائج واثرات ظاہر ہوتے ہیں ، ایسے ہی بد اعمال کے بھی نتائج اور اثرات ہیں ، اور ان پر جزا و سزا مرتب ہوتے ہیں۔ ان میں بعض اثرات اس دنیا کی زندگی میں ہی ظاہر ہوجاتے ہیں ، اور بعض کو آخرت تک کے لیے مؤخر کردیا جاتا ہے۔کبھی تو ہم ان اثرات کودیکھ کر سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ہمارے فلاں عمل کا نتیجہ ہے ، اورکبھی کام کی بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ اسے عادت کے مطابق معمول کا حصہ سمجھ کر ٹال دیتے ہیں، یا اس کا سامنا کرتے ہیں۔اگر ہمیں سمجھ آجائے تو یہ اللہ کا ایک بہت بڑا فضل ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیا ہے ، وہ ہمیں توبہ کی طرف ہدایت دینا چاہتاہے۔ اور اگر اس کی وجوہات کو نہ سمجھ پائیں ،اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے دلوں کو تالے لگ چکے ہیں۔ بہر حال اسے سمجھنے کے لیے ہی آئندہ سطور تحریر کی جارہی ہیں، اللہ اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔
    بہت سارے لوگ جو دل کی سختی، برکت کے خاتمہ، شیطانی وسوسوں، دنیامیں مشغولیت اور آخرت سے غفلت کی شکایت کرتے ہیں ،اصل میں یہ سب گناہ ہی کی وجہ سے تو ہے، اور ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو بھول گئے ہیں :
    (وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً عَمَّا یَعْمَلُ الظَّالِمُوْنَ اِنَّمَا یُؤَخِّرُہُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ) (ابراہیم:٤٢)
    '' اور آپ اللہ تعالیٰ کو اس چیز سے غافل نہ سمجھیں جو کچھ یہ ظالم لوگ کرتے ہیں، بے شک ہم انہیں اس دن تک مہلت دیتے ہیں جب آنکھیں پھٹی ہوئی رہ جائیں گی۔''
    گناہ اور برائیاں ایسی مہلک بیماریاںہیں جن سے معاشرے اور قومیں ہلاک و برباد ہوجاتے ہیں اور منکرات و معاصی یا برائیوں کے راستے بند کرنے اور ان کا خاتمہ کرنے میں کمی و کوتاہی برتنا اللہ کے عذاب و عقاب کے نازل ہونے کا اہم سبب ہے ، چنانچہ ام المومنین ام الحکم زینب بنت جحش cسے مروی ہے کہ نبی اکرم a ان کے یہاں تشریف لائے ، آپaکی زبان سے یہ کلمات نکل رہے تھے :
    ((لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَیْل لِّلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ، فُتِحَ الْیَوْمَ مِنْ رَدْمِ یَأْجُوْجَ وَ مَأْجُوْجَ مِثْلَ ھٰذِہ ، وَحَلَّقَ بِاِصْبَعِہِ الْاِبْھَامِ وَ الَّتِیْ تَلِیْھَا،فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِA! أَنَھْلِکُ وَفِیْنَا الصَّالِحُوْنَ، قَالَ: نَعَمْ،اِذَا کَثُرَ الْخَبَثُ))]متفق علیہ [
    ''اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، ہلاکت ہے عربوں کے لیے اس شر سے جو قریب آگیا ہے، آگے فرمایا: آج یاجوج ماجوج کی دیوار سے اتنا سا سوراخ کردیا گیا ہے، اور سوراخ کی مقدار بتانے کے لیے آپaنے انگوٹھے اور انگشت شہادت کو باہم ملا کر گول دائرہ بنایا۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! کیا ہم ہلاک ہوجائیں گے جبکہ ہمارے مابین بکثرت نیک و صالح لوگ موجود ہوںگے ؟آپaنے فرمایا: ''ہاں، جب ''خبث '' کی کثرت ہوگی۔''
    خبث سے مراد:'' فسق وفجور اور گناہوں کی کثرت ہے؛ نبی اکرمa کا ارشاد گرامی ہے :
    ''اللہ تعالیٰ کچھ خاص لوگوں کے گناہوں کی سزا عامة الناس کو نہیں دیتا ، یہاں تک کہ وہ اپنے مابین منکرات اور برائیاں دیکھیں اور وہ اس سے منع کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہوں ؛ مگر اس کے باوجود وہ اس سے نہ روکیں، اور نہ ہی اس کا سد باب کریں ؛اگر ایسا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ پھر خاص وعام سب کو عذاب دیتا ہے۔'' ]مسند أحمد ١٧٧٥٦، صحیح[
    نیز: نبی اکرمa کا ارشاد گرامی ہے :
    '' جب کسی قوم میں گناہوں کا ارتکاب ہو اور وہ ان کا سدباب کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہوں مگر ایسا نہ کریں تو پھر قریب ہے کہ اللہ تمام لوگوں کو عمومی عذاب میں مبتلا کردے گا۔'' ]ابوداؤد ٤٣٣٨/ صحیح [
    سیدنا عمر بن عبدالعزیزk نے اپنے بعض علاقوں کے گورنروں کو خط لکھا جس میں حمدوثنا کے بعد لکھا :
    '' کسی قوم میں اگر برائی عام ہوجائے اور اس کے نیک لوگ دوسروں کو منع نہ کریں تو اللہ انہیں اپنی طرف سے کسی عذاب میں مبتلا کر دے گا یا اپنے بندوں میں سے جس کے ہاتھوں چاہے لوگوں کو مبتلائے عذاب کردے گا اور جب تک باطل پرستوں کی سرکوبی اور حرمتوں کے ساتھ کھیلنے والوں کا قلع قمع کرنے والے موجود رہیں گے ، لوگ عذابوں اور سزاؤں سے محفوظ رہیں گے۔''
    دین میں کمزوری دکھانا ، اور آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے منع نہ کرنا لعنت کے استحقاق اور ارحم الراحمین کی رحمت سے دوری کے بڑے اسباب میں سے ہے۔ لوگ اپنے اعمال کے انجام سے غافل ہیں،مگر اللہ تعالیٰ اپنے علم اور بصر سے ہر ایک چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ذیل میں چند ایک گناہوں کے اثرات تحریر کیے جارہے ہیں تاکہ انسان انہیں سمجھ کر اپنے نفس کا محاسبہ اور پھر گناہ سے توبہ کرے۔
    ١۔جرم کا ارتکاب:
    گناہ کا اثر ایک تو وہ بڑا فرق ہے جو اللہ کے ہاں نیک اور بد کے درمیان ہے ، خود لوگوں کی نظروں میں بھی یہ فرق کسی بیان کا محتاج نہیں۔ ہر مذہب اور معاشرہ کے لوگ نیک وکار کی تعریف اور بدکار کی مذمت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
    (أَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْکَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَائً مَّحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَ )
    (الجاثیہ:٢١)
    '' کیا وہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں جنہوں نے گناہ کمائے کہ ہم انہیں ان لوگوں کی مانند کردیں جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، ان کی زندگی اور موت برابر ہو ؟ سو بہت ہی بری بات ہے جس کا وہ فیصلہ کرتے ہیں۔''
    ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ مجرمین کی صف میں شمار کرتے ہیں ، اگر توبہ نہ کی تو روزِ محشر انجام بھی مجرموںکے ساتھ ہوگا ، فرمایا:
    (اَ فَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ) (القلم: ٣٥)
    '' کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کی طرح کردیں۔''
    ٢۔خواہش نفس کا غلبہ
    نفس پرستی کے سامنے عاجزی ، قوت ارادی اور عزیمت کا خاتمہ اور حوصلوں کی پستی گناہ کے اثرات میں سے ہے۔یہ اس لیے براہے کہ خواہش پرست اور حیوان کے درمیان کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔دونوں ہی اپنی خواہش کے لیے جاتے ہیں۔ گناہ اس وقت تک صادر نہیں ہوتا جب تک غفلت اور شہوت کا غلبہ نہ ہوجائے۔کیوںکہ شہوت پرستی ہی تمام برائیوں کی جڑ اور بنیاد ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
    (وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہ وَلَا تَعْدُ عَیْْنَاکَ عَنْہُمْ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہ وَکَانَ اَمْرُہُ فُرُطاً)
    (الکہف: ٢٨)
    ''اور اپنے آپ کوان لوگوں کے ساتھ رکھا کریں جو اپنے پروردگار کوصبح وشام پکارتے ہیں ،اوراس کی رضامندی چاہتے ہیں ؛ خبردار آپ کی نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں کہ دنیوی زندگی کی زینت میں لگ جاؤ۔ اور اس کا کہنا بھی نہ مانیے جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیاہے ، اورجو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہوا ہے ، اورجس کا معاملہ حد سے گزرچکا ہے۔''
    ٣۔بندے اور رب کے درمیان پردہ:
    مومن کے لیے دنیا اور آخرت کی سب سے بڑی خوشی آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے ، اسی لیے دنیا میں وہ محنت کرتا ہے ،اور آخرت میں اس کا مشتاق اور طلب گار رہے گا؛مگر گناہ گار کو یہ دیدار الٰہی نصیب نہیں ہوگاجب تک وہ سچی توبہ نہ کرلے:
    ( کَلَّا اِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ ےَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ) (الانشقاق :١٥)
    ''ہر گز نہیں ، بے شک آج کے دن وہ اپنے رب سے پردہ میں رہیں گے۔''
    ٤۔دل میں خوف اور بے چینی:
    ( سَنُلْقِیْ فِیْ قَلُوْبِ الَّذِےْنَ کَفَرُوا الْرُّعْبَ ) (آل عمران:١٥٠)
    '' ہم عنقریب ان لوگوں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے جنہوں نے کفر کیا۔''
    ٥۔ معاشی پریشانیاں:
    (وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہ مَعِےْشَةً ضَنْکاً) (طٰہٰ:١٢٤)
    ''اور جوکوئی میری یاد سے رو گردانی کرے گا، پس بے شک اس کے لیے زندگی بہت تنگ کردی جائے گی۔''
    ٦۔دل کی سختی اور اندھیرا :
    ایمان اور اطاعت اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ وہ نور ہیں جن سے مومن اس دنیا میں بھی استفادہ کرتا ہے ، اور آخرت میں بھی پل صراط پار کرنے کے لیے یہ نور کام آئے گا:
    ( وَجَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قَاسِےَةً ) (المائدہ:١٢)
    '' اور ہم نے ان کے دلوں کو بہت سخت کردیا۔''
    ٧۔گناہ کا زنگ:
    جس طرح لوہا اگر نمی میں پڑا رہے تو اسے زنگ لگ جاتاہے ،ایسے ہی انسان کے دل پر گناہ کرتے رہنے سے اس کا زنگ لگ جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    (کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّاْ کَانُوْا ےَکْسِبُوْنَ )
    (المطففین:١٤)
    '' ہر گز نہیں ، ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ لگ چکا ہے۔''
    اس کا علاج اللہ تعالیٰ کی یاد اورکثرت سے اس کا ذکر، توبہ واستغفار ہے۔انھی امور سے یہ زنگ ختم ہوتا ہے دل میں چمک اور نور پیدا ہوتے ہیں۔
    ٨۔دلوں کا پردہ:
    اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    (وَجَعَلْنَا عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّةً اَنْ یَّفْقَہُوْہُ وَفِیْ اٰذَانِہِمْ وَقْراً وَاِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَةٍ لَّایُؤْمِنُوْا بِہَا) (الانعام:٢٥)
    '' اور ہم نے اُن کے دلوں پر تو پردے ڈال دیے ہیں کہ اُن کو سمجھ نہ سکیں اور کانوں میں بوجھ پیدا کر دیا ہے (کہ سن نہ سکیں) اور اگر یہ تمام نشانیاں بھی دیکھ لیں تب بھی تو اُن پر ایمان نہ لائیں۔''
    یہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان گناہ میں منہمک ہوجاتا ہے تواللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے دلوں پر پردے ڈال دیتے ہیں ، جس کی وجہ سے خیر وشر کی معرفت کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ ہدایت کی راہیں بند ہوجاتی ہیں،کبھی انسان اس چیز کو خود بھی محسوس کرتا ہے ، اورشعوری یا لاشعوری طور پر اس کا اقرار بھی کرتا ہے ؛ فرمانِ الٰہی ہے :
    ( وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْف) (البقرہ :٨٨)
    '' اور وہ کہنے لگے ہمارے دلوں پر پردے ہیں۔''
    اس کا علاج اللہ تعالیٰ کی آیات میں غور وفکر اور کثرت سے قرآن کی تلاوت ، اس کے ترجمہ اور معانی کوسمجھنا ،اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کرنا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
    (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰ یَاتِ رَبِّہ فَاَعْرَضَ عَنْہَا وَنَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدَاہُ اِنَّا جَعَلْنَا عَلَی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّةً أَن یَّفْقَہُوْہُ وَفِیْ اٰذَانِہِمْ وَقْراً وَاِنْ تَدْعُہُمْ اِلَی الْہُدَی فَلَنْ یَّہْتَدُوْا اِذاً اَبَداً ) (الکہف: ٥٧)
    '' اور اُس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جسے اس کے رب کے کلام سے سمجھایا گیا تو اُس نے اس سے منہ پھیر لیا اور جو اعمال وہ آگے کر چکا اُسے بھول گیا، ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ اُسے سمجھ نہ سکیں اور کانوں میں بوجھ (پیدا کر دیا ہے کہ سن نہ سکیں) اور اگر تم ان کو راستے کی طرف بلاؤ تو کبھی راستے پر نہ آئیں گے۔''
    ٩۔چہرے کی سیاہی:
    چہرہ کی رونق وتابانی، جاذبیت وکشش، درخشندگی وتازگی، نور و جمال اور اس کے نورانی آثار اللہ تعالیٰ کی ان بڑی نعمتوں میں سے ہیں جن کا الفاظ میں بیان کرنا میرے بس میں نہیں۔ایسا ہزار بار مشاہدہ میں آتا ہے کہ کسی انسان کوایک نظر دیکھنے سے ہی خیر اوربھلائی کی توقع کی جاتی ہے ،اورکتنے چہرے نظر پڑتے ہی برائی اور شر کے آثار جھلکتے نظر آتے ہیں۔جب انسان گناہوں میں مگن ہوجاتا ہے تو یہ تمام نعمتیں ختم کردی جاتی ہیں، چہرہ بے رونق وبے نور ہی نہیں ہوتا بلکہ سیاہ پڑ جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    (فَاَمَّا الَّذِےْنَ اَسْوَدَّتْ وُجُوْہُہُمْ اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِےْمَانِکُمْ )
    (آل عمران:١٠٦)
    '' سو وہ لوگ جن کے چہرے سیاہ ہوئے ا نہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا۔''

    ١٠۔دنیا میں سخت پکڑ اورآزمائش سے دوچار ہونا:
    اس میں کوئی شک نہیں کہ گنہگار جب توبہ نہیں کرتا تو اللہ اسے اپنی نصرت وحمایت سے بری کردیتے ہیں؛انسان ہرطرح آزمائشوں اور پریشانیوں کا شکارہوجاتا ہے، اور شیطان اسے مختلف مصیبتوں میںڈال دیتا ہے۔ فرمایا:
    ( فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہِ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَة اَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَاب اَلِیْم ) (النور:٦٣)
    ''جو لوگ آپ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ (ایسا نہ ہو کہ) ان پر کوئی آفت پڑ جائے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو۔''
    ١١۔آخرت میں عذاب:
    مومن وکافر اور ان کے سواء جتنی بھی آخرت پر ایمان رکھنے والی قومیں اور مذاہب ہیں ، خواہ وہ اسے تناسخ أرواح کانام دیں یا اگلے جنم ، موت کے بعد دوبارہ زندگی سے تعبیر کریں یاکچھ بھی کہہ لیں ، ان میں سے ہر ایک کا عقیدہ ہے کہ جو بھی اورجیسا بھی عمل اس دنیا میں کرلیا جائے گا آخرت میں اس کے مطابق بدلہ ملے گا۔یہ معاملہ نیکی ، بدی اور خیر وشرسے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
    ( اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْْنَا اَنَّ الْعَذَابَ عَلیٰ مَن کَذَّبَ وَتَوَلّٰی )
    (طہ :٤٨)
    '' بے شک ہماری طرف یہ وحی آئی ہے کہ جو جھٹلائے اور منہ پھیرے اُس کے لیے عذاب (تیار) ہے۔''
    اور فرمایا:
    (وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰ یَاتِنَا اُولٰئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ) (التغابن:١٠)
    '' اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی اہلِ دوزخ ہیں ہمیشہ اس میں رہیں گے اور وہ بُری جگہ ہے۔''
    ١٢۔ گناہ سے نعمتیں ختم اور آزمائشیں شروع ہوجاتی ہیں:
    گناہ کرنے سے انسان پر نعمتیں ختم او ر آزمائشیں شروع ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    (وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْ عَن کَثِیْرٍ)
    (الشوری:٣٠)
    '' اورتمہیں جوکچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے کرتوتوں کا بدلہ ہے ،اور وہ بہت سی باتوںسے در گزر فرما لیتا ہے۔''
    ١٣۔ قبول حق کی توفیق کا سلب ہونا :
    اپنی خواہش نفس کی وجہ سے حق بات کا رد کرنا ایسا معاملہ ہے جس کے بارے میں روزِ قیامت ضرور پوچھ گچھ ہوگی۔اور حق اسی وقت رد کیا جاتا ہے جب انسان کا دل خواہشات سے بھر گیا ہو، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    (وَنُقَلِّبُ اَفْئِدَتَہُمْ وَاَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُوْمِنُوْا بِہ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ) (الانعام:١١٠)
    '' اور ہم اُن کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (تو) جیسے یہ اس (قرآن) پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے؛ اور ان کو چھوڑ دیں گے کہ اپنی سرکشی میں بہکتے رہیں۔''
    ١٤۔ نفسیاتی اورجسمانی امراض:
    ان کے ساتھ دل کی تنگی اور گمراہی اور بد بختی کا لازم ہونا ؛ گناہ کے سب سے خطرناک آثار میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے نتیجہ میں بہت ہی برے اور خطرناک قسم کے روحانی اوربدنی امراض جنم لیتے ہیں۔ اور انسان نفسیاتی دباؤ کا شکار رہنے لگتا ہے جس کی وجہ سے انسان تنگی ، سستی اور عاجزی محسوس کرتا ہے۔اور اس کے سامنے خیر کے تمام دروازے بند ہوجاتے ہیں، شر کے دروازے کھل جاتے ہیں ، اور انسان اب اس حالت سے اگر نکلنا بھی چاہے تو اس کا کوئی راستہ نہیں پاتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
    (وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہ یَجْعَلْ صَدْرَہ ضَیِّقاً حَرَجاً کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِیْ السَّمَآئِ کَذٰلِکَ یَجْعَلُ اللّٰہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لاَ یُوْمِنُوْنَ )
    (الانعام:١٢٥)
    '' اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے، اس طرح اللہ اُن لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے، عذاب بھیجتا ہے۔''
    ١٥۔ نعمتوں کا زوال :
    جیساکہ شکر اداکرنے سے نعمتیں بڑھتی ہیں اور انہیں دوام نصیب ہوتا ہے ، ایسے ہی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اورناشکری کرنے سے یہ نعمتیں ختم ہوجاتی ہیں ، اور ان کا وجود باقی نہیں رہتا ؛ فرمان الٰہی ہے :
    ( لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد)
    (ابراہیم:٧)
    ''اگر تم میری شکر گزاری کروگے، میں تمہیں اورزیادہ دوںگا، اور اگر میری نعمتوں کا کفرکرو گے تو جان لو کہ میرا عذاب بہت سخت ہے۔''
    ١٦۔ مخلوق کے دل میں نفرت وبغض اور جہنم کے عذاب کا استحقاق:
    رسول اللہ a نے فرمایا:
    ((مَنْ أَثْنَےْتُمْ عَلَےْہِ خَےْراً وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّةُ، وَمَنْ أَثْنَےْتُمْ عَلَےْہِ شَرّاً وَجَبَتْ لَہُ النَّارُ، أَنْتُمْ شُہَدَآئُ اللّٰہِ فِ الْاَرْضِ، أَنْتُمْ شُہَدَآئُ اللّٰہِ فِ الْاَرْضِ، أَنْتُمْ شُہَدَائُ اللّٰہِ فِ الْاَرْضِ.)) ]متفق علیہ[
    '' جس کے لیے تم بھلائی کی تعریف کرو، اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، اور جس کی تم برائی بیان کرو، اس کے لیے جہنم واجب ہوگئی۔ تم اس زمین میں اللہ کے گواہ ہو، تم اس زمین میں اللہ کے گواہ ہو، تم اس زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔''
    ١٧۔ اللہ کا غضب اور ایمان کا نقصان :
    (فَبَائُ وْا بِغَضَبٍ عَلیٰ غَضَبٍ) (البقرہ:٩٠)
    '' وہ غضب پر اللہ کا غضب کما لائے۔''
    ١٨۔گناہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں انسان کی ذلت کا باعث بنتا ہے :
    اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
    (وَمَنْ یُّہِنِ اللّٰہُ فَمَا لَہُ مِنْ مُّکْرِمٍ ) (الحج:١٨)
    '' اور جسے اللہ تعالیٰ ذلیل کردیں اسے کوئی عزت دینے والا نہیں۔''
    ١٩۔گناہ سے ذلت انسان کا مقدر بن جاتی ہے:
    گناہ سے ذلت انسان کا مقدر بن جاتی ہے، کیوںکہ ہر قسم کی عزت وعظمت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    ( وَلِلّٰہِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِہ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ)
    (منافقون:٨)
    ''حالانکہ عزت اللہ کی ہے اور اس کے رسول کی اور مومنوں کی لیکن منافق نہیں جانتے۔''
    ٢٠۔ ملائکہ اور مرسلین کی دعاؤں سے محرومی کا اصل سبب گناہ ہیں:
    اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    (الَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا …) (الغافر:٧)
    '' فرشتے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں ، اور جو اس عرش کے ارد گرد ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ بیان کرتے ہیں اور اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور مومنوں کے لیے استغفار کرتے ہیں…''۔
    ٢١۔ گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انسان کو بھلا دیتے ہیں:
    گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انسان کو بھلا دیتے ہیںجس کی وجہ سے انسان ہر قسم کی خیر وبرکت سے محروم ہوجاتا ہے۔ فرمایا:
    (وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوْا اللّٰہَ فَاَنْسٰہُمْ اَنْفُسَہُمْ اُوْلٰئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ) (الحشر:١٩)
    '' اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے اللہ کو بھلایا، اللہ نے ان کے لیے اپنے نفسوں کو بھلا دیا؛ سو یہی لوگ پکے فاسق ہیں۔''
    ٢٢۔ گناہ کی وجہ سے انسان کا حقیر ہو جانا:
    گناہ کی وجہ سے انسان کا نفس حقیر ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاہَا) (الشمس ٩ـ١٠)
    '' وہ کامیاب ہوگیا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا اور وہ نامراد ہوا جس نے اسے گناہوں میں ملوث کیا۔''
    ٢٣۔ اعضا کی خیانت اور ان کی مدد سے محرومی:
    عین ضرورت کے وقت انسان کے اعضا کی خیانت اور ان کی مدد سے محرومی ؛فرمایا:
    ( فَمَا اَغْنَی عَنْہُمْ سَمْعُہُمْ وَلَا اَبْصَارُہُمْ وَلَا اَفْئِدَتُہُمْ مِّنْ شَیْْئٍ اِذْ کَانُوْا یَجْحَدُوْنَ بِاٰ یَاتِ اللّٰہِ وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہ یَسْتَہْزِئُ وْنَ) (الاحقاف:٢٦)
    ''اورانہیں ان کے کان اوران کی آنکھیں اوردل کچھ بھی کام نہ آئے ، جبکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرنے لگے ،اور جس چیز کامذاق اڑایا کرتے تھے ،وہی ان پر الٹ گئی۔''

    ٢٤۔دنیا میں رزق میں تنگی اور بے اطمینانی وبے چینی اور آخرت میں برا انجام
    یعنی اندھا کرکے اٹھایا جانا :
    اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
    (وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہ مَعِیْشَةً ضَنْکاً وَّنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ اَعْمٰی oقَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ اَعْمٰی وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْراًo قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰی)
    (طہ ١٢٤ـ ١٢٦)
    '' اور جوکوئی میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے قیامت والے دن اندھا کرکے اٹھائیں گے۔وہ کہے گا : اے میرے رب! مجھے کیوں اندھا اٹھایا ہے ، حالانکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا۔( جواب میں)کہا جائے گا: ایسے ہی تیرے پاس میری آیات بھی پہنچی تھیں، تو نے ان کو بھلا دیا تھا، پس اسی طرح آج تجھے بھلادیا جائے گا۔''
    ٢٥۔ اعمال صالحہ پر مقرر فرشتوں کی صحبت سے محرومی:
    اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ دو ملائکہ مقرر کر رکھے ہیں جو انسان کے اعمال کو لکھ کر محفوظ کرتے ہیں ؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    (کِرَاماً کَاتِبِیْنَo یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ) (الانفطار١١۔١٢)
    '' عالی قدرلکھنے والے۔ جو کچھ تم کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں۔''
    جو نیکو کار لوگ ہوتے ہیںانہیں یہ فرشتے خوش خبریاں سناتے ہیں ، اور بدکار و بد بخت لوگ اس سے محروم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    (اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْْہِمُ الْمَلَائِکَةُ اَ لَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَأَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ)
    (فصلت:٣٠)
    '' بے شک جن لوگوںنے کہا: ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ڈٹ گئے ، ان پر ملائکہ نازل ہوں گے ، نہ ہی تم گھبراؤ اور نہ غم کھاؤ ، اور تمہیں اس جنت کی خوشخبری ہو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔''
    رسول اللہaنے فرمایا:
    ((ِذَا کَذَبَ الْعَبْدُ تَبَاعَدَ مِنْہُ الْمَلِکُ مِنْ نَتْنِ رِےْحِہِ.))
    ]ترمذی / حسن[
    '' جب انسان جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو کی وجہ سے ساتھ والا فرشتہ دور ہٹ جاتا ہے۔''
    ٢٦۔ علم سے محرومی:
    چونکہ علم ایک ایسا نور ہے جسے اللہ تعالیٰ انسان کے دلوں میں ڈالتے ہیں اور گناہ اس نور کو بجھا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    (وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْْئٍ عَلِیْم )
    (البقرہ :٢٨٢)
    '' اللہ سے ڈرو اللہ تمہیں علم عطا کریں گے ،اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کے جاننے والے ہیں۔''
    جب تقویٰ کی جگہ نافرمانی اور گناہ لے لیں تو علم اٹھ جاتا اور جہالت باقی رہ جاتی ہے۔ امام شافعی نے اپنے مشہور قصیدہ میں اسی چیز کو نقل کیا ہے ؛ فرمایا :
    ((شکوت لی وکیع سوء حفظی فأرشدنی لی ترک المعاصی وأخبرن بأن العلم نور ونور اللہ لا یعطی فلعاصی.))
    '' میں نے وکیع (بن جراح امام شافعی کے استاد ) کے پاس حافظہ خراب ہونے کی شکایت کی تو انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ معاصی ترک کردی جائیں اور انہوںنے مجھے بتایا کہ علم ایک نور ہے۔ اور اللہ کا نور گنہگار کو نہیں دیاجاتا۔''
    ٢٧۔ وحشت اور خوف کا طاری رہنا:
    عام لوگوں سے بھی انسان کو ایک خوف سا رہتا ہے ، اور خاص کر اہل خیر اور اہل علم سے انسان کو بہت خوف محسوس ہوتا ہے ، اور انسان ان کی صحبت کی برکت سے محروم رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
    (اَفِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَض اَمِ ارْتَابُوْآ اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْْہِمْ وَرَسُوْلُہ بَلْ اُولٰئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ) (النور:٥٠)
    '' کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے یا (یہ) شک میں ہیں یا ان کو یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے حق میں ظلم کریں گے؟ (نہیں) بلکہ یہ خود ظالم ہیں۔''
    ٢٨۔ کاموں میں رکاوٹ:
    جب بھی وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اپنے سامنے تمام تر راہیں بند پاتا ہے ، یا وہ کام اس کے لیے اتنا دشوار ہوجاتا ہے کہ وہ اسے بجالانے سے محروم رہتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والے پرہیز گار انسان کے لیے تمام تر راہیں آسان سے آسان تر ہوتی جاتی ہیں۔ فرمان ِ الٰہی ہے :
    (وَاَمَّا مَنْ م بَخِلَ وَاسْتَغْنٰیo وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُہ لِلْعُسْرٰی) (اللیل٨ـ١٠)
    '' اور جس نے بخل کیا اور بے پروا بنا رہا۔ اور نیک بات کو جھوٹ سمجھا۔ اسے ہم سختی میں پہنچائیں گے۔''
    ٢٩۔ بصیرت سے محرومی:
    گناہوں کے سبب انسان کی بصیرت ختم ہوجاتی ہے۔ دیکھتے بوجھتے بھی اسے کسی چیز کی کچھ سمجھ نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    ( فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلَکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِیْ الصُّدُوْرِ)
    (الحج: ٤٦)
    '' بے شک ان کی آنکھیں اندھی نہیں ہیں ، لیکن ان کے دل اندھے ہیں، جوسینوں میںہیں۔''
    ٣٠۔ اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور پکڑ کا شکار ہونا:
    اللہ تعالیٰ کی تدبیر اوراس کی پکڑ کا شکار ہوکر عذاب میں مبتلا ہونا، فرمایا:
    (وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْْرُ الْمَاکِرِیْنَ) (آل عمران:٥٤)
    ''وہ چال چلے اور اللہ بھی چال چلا اور اللہ خوب چال چلنے والا ہے۔''
    ٣١۔ گناہ آپس میں جڑے ہوتے ہیں:
    گناہ آپس میں ایک دوسرے کو جنم دیتے ہیں ، ایک سے دوسرے کی پیوند کاری روبہ عمل میں آتی ہے اور آخر کار انسان پر ان گناہوں کا ترک کردینا بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے۔فرمایا:
    (وَجَزَائُ سَیِّئَةٍ سَیِّئَة مِّثْلُہَا ) (الشوری:٤٠)
    ''اور بُرائی کا بدلا تو اسی طرح کی بُرائی ہے۔''
    ٣٢۔ گناہ سے بدن اور دل کمزور ہوجاتے ہیں:
    گناہ سے انسان کا بدن اور دل کمزور ہوجاتے ہیں۔ مومن کی تمام تر قوت اس کے دل میں ہوتی ہے۔ جتنا اس کا دل مضبوط ہوگا اس کا بدن بھی اتنا ہی قوی ہوگا۔ گنہگار اور فاجر اس کا بدن خواہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو وہ ضرورت کے وقت سب سے بڑھ کر کمزور اور بزدل ہوتا ہے ؛ فرمایا:
    (اَوَلَمْ یَہْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِ اَہْلِہَا اَنْ لَّوْ نَشَائُ اَصَبْنَاہُمْ بِذُنُوْبِہِمْ وَنَطْبَعُ عَلَی قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لاَ یَسْمَعُوْنَ)
    (الاعراف:١٠٠)
    '' کیا ان لوگوں کو جو اہل ِ زمین کے (مر جانے کے) بعد زمین کے مالک ہوتے ہیں یہ امر موجب ہدایت نہیں ہوا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے سبب ان پر مصیبت ڈال دیں اور ان کے دلوں پر مہر لگا دیں کہ کچھ سن ہی نہ سکیں۔''
    ٣٣۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے سے ثواب سے محرومی:
    گناہ انسان کو نیکی کے کاموں سے روکتے ہیں اور نیکیوں کی جگہ لے لیتے ہیں؛ اور یہ لوگ اگر اچھا عمل کر بھی لیںتو برائی اس اچھے عمل کو ختم کردیتی ہے ، اور وہ اجروثواب سے محروم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
    ( اُولٰئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِیْ الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ وَاُولٰئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُوْنَ)
    (التوبہ:٦٩)
    '' یہ وہی لوگ ہیں جن کے ا عمال دنیااور آخرت میں ضائع ہو گئے اور یہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔''
    ٣٤۔ عمر میں کمی اور برکت کا خاتمہ:
    جیسے نیکی سے انسان کی عمر بڑھتی ہے اس کے برعکس گناہ سے کم ہوتی ہے۔ انسان کی زندگی اس وقت تک بامعنی نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنے رب کے سامنے سرتسلیم خم نہ کرلے۔ جب کہ فاجر انسان ایسے کھاتے پیتے اور عیش کرتے ہیں جیسے مویشی کھاتے اور پیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میںبد اعمال میں عمریں ضائع کرنے پر مذمت کی ہے؛ جو اتنی لمبی عمر پانے کے باوجود نہ ہی راہ ہدایت پر آئے اور نہ ہی کفر سے اسلام کی طرف نہ نکلے ان کی بابت فرمایا:
    ( اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا ےَتَذَکَّرُ فِےْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَائَ کُمُ النَّذِےْرُ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰالِمِےْنَ مِنْ نَصِےْرٍ ) (فاطر:٣٧)
    ''کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کرسکتا تھا، اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آپہنچا تھا ، سو اب تم مزہ چکھو کہ ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ہے۔''
    ٣٥۔ گناہ سے خیر کا ارادہ کمزور اور شر کا ارادہ قوت پکڑتا ہے:
    انسان کے دل میں خیر کا ارادہ کمزور ہوجاتا ہے اور شر اور برائی کا ارادہ مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر پلیدی مسلط کردیتے ہیں ، فرمان ِ الٰہی ہے:
    ( فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہ یَجْعَلْ صَدْرَہ ضَیِّقاً حَرَجاً کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِیْ السَّمَائِ کَذٰلِکَ یَجْعَلُ اللّٰہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ) ( الانعام:١٢٥)
    ''تو جس شخص کو اللہ چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اُس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے۔ اس طرح اللہ اُن لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے، عذاب بھیجتا ہے ۔''
    ٣٦۔ حیاء کا خاتمہ:
    گناہ سے حیاء کا خاتمہ ہو جاتا ہے، جو دلوں کی زندگی اور ہر خیر کا اصل مادہ ہے۔ اور حیاء کا ختم ہوجانا ان تمام چیزوں کا ختم ہوجانا ہے۔رسول اللہ a نے فرمایا:
    (( ِنَّ مِمَّا أَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَامِ النُّبُوَّةِ الْأُوْلیٰ : '' ِذَا لَمْ تَسْتَحْ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ.))
    ]سنن أب داؤد باب: الحیاء ح: ٤٧٩٩۔قال الألبان: صحیح[
    '' بے شک لوگوں نے گزشتہ نبوت کی تعلیمات سے جو چیز پائی وہ یہ ہے کہ جب تم میں حیاء نہ رہے ، جو چاہو سو کرو۔''
    ٣٧۔ مسلسل گناہ سے گناہ کی قباحت جاتی رہتی ہے:
    گناہ مسلسل کرتے رہنے سے انسان کے دل سے اس کی قباحت ختم ہوجاتی ہے، اور وہ کام اس انسان کے لیے ایک عادت بن جاتا ہے اور پھر اس کے لیے اس گناہ سے توبہ کا دروازہ بند کردیا جاتا ہے۔رسول اللہ a نے فرمایا:
    (( کُلُّ أُمَّتِْ مُعَافیً اِلاَ الْمُجَاہِرِےْنَ.)) ]بخاری ٥٧٢١[
    '' میری ساری امت کو معافی مل جائے گی سوائے اعلانیہ گناہ کرنے والے کے۔''
    ٣٨۔ انسان کی عقل خراب ہو جاتی ہے:
    گناہ انسا ن کی عقل کو خراب کردیتے ہیں کیوںکہ عقل کا ایک نور ہے جسے گناہ کے اندھیرے مٹا کر رکھ دیتے ہیں۔ اگر اس انسان کی عقل حاضر ہوتی تو گناہ کا ارتکاب نہ کرتا۔
    بلال بن سعدk فرماتے ہیں : '' گناہ کے چھوٹا ہونے کو نہ دیکھو، بلکہ یہ دیکھو کہ کس کی نافرمانی کررہے ہو۔'' ]زہد /امام احمد٤٦٠[
    ٣٩۔ رزق سے محرومی :
    رسول اللہaنے فرمایا:
    '' بے شک انسان اپنے گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا جاتا ہے۔''
    ]مسند احمد ٥/٢٨٠[
    ٤٠۔عقل کا فساد اورخاتمہ :
    عقل میںایک نور اللہ کی عنایت ہوتا ہے ،جب انسا ن گناہ کرتا جاتا ہے اس نور میں ایسے ہی کمی آتی جاتی ہے ،اورآخر کار کمزور ہوتے ہوتے یہ نور ختم ہوجاتا ہے۔ بعض سلف صالحین فرماتے ہیں: '' کوئی انسان بھی اس وقت تک گناہ نہیں کرتا جب تک اس کی عقل غائب نہ ہو کیوںکہ اگر اس کی عقل حاضر ہوتی تو ضرور اسے گناہ سے روکے رکھتی،کہ تم اللہ کے قبضہ اور اس کے تصرف میںہو، وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ،اور ملائکہ بھی دیکھ بھی رہے ہیں اور جو کچھ ہورہا ہے اسے لکھ بھی رہے ہیں،توپھر عقل کی موجودگی میں اس قسم کا اقدام معصیت محال ہے۔
    ٤١۔ غیرت کا خاتمہ :
    غیرت ہی انسان کی زندگی ہے ،اور یہی وہ ہتھیار ہے جس سے زندگی کے ہر میدان میں کام لیا جاسکتا ہے ، اور یہی وہ گل سر سبد ہے جس سے رونق چمن اور زینت حیات ہے ، اگر غیرت نہ رہے تو انسان اور حیوان میں، اور زندہ اور مردہ میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ ایک ادنیٰ سی مثال لیجیے :
    دیوث (بھڑوا) جس پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کردیا ہے ، اس کی غیرت کتنی ہی مرچکی ہوتی ہے جو وہ اس حرکت پر اتر آتا ہے کہ خود بھی گناہ کرتا ہے اورگناہ کے اسباب مہیا کرکے لوگوں کوبھی اس کی دعوت دیتا ہے۔بس جس انسان میں جتنی غیرت ہوگی وہ برائیوں سے اتنا ہی دور رہنے والا ہوگا۔
    ٤٢۔ احسان اور بھلائی کا خاتمہ :
    گناہ کرنے کی وجہ سے انسان احسان اور محسنین کے دائرہ سے نکل جاتا ہے کیوںکہ جب انسان احسان کے معنی اور مفہوم کومد نظر رکھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے تو پھر اس سے گناہ کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    (اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰہُ اَنْ یُّطَہِّرَ قُلُوْبَہُمْ لَہُمْ فِیْ الدُّنْیَا خِزْی وَّلَہُمْ فِیْ الاٰخِرَةِ عَذَاب عَظِیْم ) (المائدہ:٤١)
    ''یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا نہیں چاہا اُن کے لیے دنیا میں بھی ذلت ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے۔''
    ٤٣۔ مرنے کے وقت کی سختیاں اور اضطراب:
    اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
    ( وَلَوْ تَرٰی اِ ذِ الظَّالِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِکَةُ بَاسِطُوْا اَیْْدِیْہِمْ اَخْرِجُوْا اَنْفُسَکُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیَاتِہ تَسْتَکْبِرُوْنَ)
    (الانعام:٩٣)
    ''اوراگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے ؛ اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑہا رہے ہوںگے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو، آج تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی،اس سبب سے کہ تم اللہ کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے، اورتم اللہ کی آیات سے تکبر کرتے تھے۔''
    اورفرمایا:
    (وَلَوْ تَرٰی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُواْ الْمَلآئِکَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِo ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْْدِیْکُمْ وَاَنَّ اللّٰہَ لَیْْسَ بِظَلاَّمٍ لِّلْعَبِیْدِ) (الانفال:٥٠ـ٥١)
    '' کاش! آپ دیکھتے جب فرشتے کافروںکی روحیںقبض کرتے ہیں اورا ن کے منہ پر اورسرینوں پر مار مارتے ہیں، (اورکہتے ہیں) تم آگ کا عذاب چکھو۔ یہ بہ سبب ان کاموںکے ہے جوتمہارے ہاتھوںنے پہلے ہی بھیج رکھا تھا ، بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوںپرظلم کرنے والے نہیں ہیں۔''
    ٤٤۔ محشر کی سختیاں:
    گنہگار انسان مرنے سے لے کر قبر تک اور پھر وہاں سے حشر تک مختلف قسم کی پریشانیوں کا سامنا کرتا ہے ؛ اور آخر کار اس کابدلہ جہنم کے عذاب کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ ایسے انسان کو جہنم جانے سے پہلے ہی جب نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جاتا ہے تو اس وقت سے اس کی حسرت وپریشانی شروع ہوجاتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    (وَاَمَّا مَنْ اُوتِیَ کِتَابَہ بِشِمَالِہ فَیَقُوْلُ یَا لَیْْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ کِتَابِیَہْo وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَہْ o یَا لَیْْتَہَا کَانَتِ الْقَاضِیَةَo مَا اَغْنٰی عَنِّیْ مَالِیَہْo ہَلَکَ عَنِّیْ سُلْطَانِیَہْo خُذُوْہُ فَغُلُّوْہُo ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْہُ )
    (الحاقہ:٢٥ـ٣١)
    '' اور جس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا: اے کاش! مجھے میرا اعمال نامہ نہ دیا جاتا۔ اور مجھے معلوم نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے؟ اے کاش! موت میرا کام تمام کر چکی ہوتی۔میرا مال میرے کچھ بھی کام نہ آیا۔ میری سلطنت خاک میں مل گئی۔ (حکم ہو گا ) اسے پکڑ لو اور طوق پہنا دو۔ پھر دوزخ کی آگ میں جھونک دو۔''
    ٤٥۔ جہنم کا عذاب:
    آخر کار اس انسان کوبہت ہی بری طرح سے اس کے جرم کا احساس دلا کر جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائے گا ، فرمایا:
    ( وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَہُوَ اَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُوْنَo وَسِیْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی جَہَنَّمَ زُمَراً حَتَّی اِذَا جَائُ وْہَا فُتِحَتْ اَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُل مِّنْکُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْْکُمْ اٰیَاتِ رَبِّکُمْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَائَ یَوْمِکُمْ ہَذَا قَالُوْا بَلیٰ وَلٰکِنْ حَقَّتْ کَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَی الْکَافِرِیْنَo قِیْلَ ادْخُلُوْا اَبْوَابَ جَہَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْہَا فَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ) (الزمر ٧٠ـ٧٢)
    '' اور جس شخص نے جو عمل کیا ہوگا اس کو اس کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور جو کچھ یہ کرتے ہیں اس کو سب کی خبر ہے۔ اور کا فروں کو گروہ گروہ بنا کر جہنم کی طرف لے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیںگے تو اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے تو اس کے داروغے ان سے کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم کو تمہارے پروردگار کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور اس دن کے پیش آنے سے ڈراتے؟ کہیں گے کیوں نہیں لیکن کافروں کے حق میں عذاب کا حکم ثابت ہو چکا تھا۔ کہا جائے گا کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ ہمیشہ اس میں رہو گے تکبر کرنے والوں کا بُرا ٹھکانہ ہے۔''
    ٤٦۔ آخرت میں حسرت اورافسوس:
    جس کی وجہ سے اس عذاب کی سختی اور بڑھ جائے گی،فرمایا:
    (وَہُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْہَا رَبَّنَا اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحاً غَیْْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُم مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَائَ کُمُ النَّذِیْرُ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ) (فاطر: ٣٧)
    '' وہ اس میں چلائیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو نکال لے ؛ہم نیک عمل کیا کریں گے نہ وہ جو (پہلے) کرتے تھے کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا تو اب مزے چکھو ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔''
    امام ابن جوزیk فرماتے ہیں: ''کسی بد بخت نے اپنے والد کو مارا اور زمین پر گھسیٹا؛ باپ اس سے کہنے لگا: ''بس یہاں تک کافی ہے ، میں نے اپنے باپ کو بھی یہاں تک گھسیٹا تھا۔'' صید الخاطر ٣٩١، اسے کہتے ہیں: ''جیسا کروگے ویسا بھر وگے۔ ''

    یہ مضمون کتاب ‘‘ توبہ و تقوی’’ سے‌ماخوذ ہے‌۔‌
    تالیف/ شفیق الحمن شاہ آل عبد الکبیر الدراوی
    ناشر : الفرقان ٹرسٹ لاہور
     
  2. Innocent Panther

    Innocent Panther محسن

    شمولیت:
    ‏نومبر 12, 2011
    پیغامات:
    600
    امام شافعی رحمہ الله سے یہ قصیدہ ثابت نہیں ہے -
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں