مکہ اور مدینہ کی مساجد میں نماز کی فضیلت کا بیان

ابوعکاشہ نے 'حدیث - شریعت کا دوسرا اہم ستون' میں ‏جولائی 12, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,954
    [AR]
    بسم الله الرحمن الرحيم
    [/AR]
    مکہ اور مدینہ ( زاد ہما اللہ شرفاً وتعظیماً ) کی مساجد میں نماز کی فضیلت کا بیان​

    [QH]حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ عَنْ قَزَعَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَرْبَعًا قَالَ سَمِعْتُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ غَزَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ غَزْوَةً ح حَدَّثَنَا عَلِيٌّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى [/QH]
    ( دوسری سند ) ہم سے علی بن مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے کجاوے نہ باندھے جائیں۔ ( یعنی سفر نہ کیا جائے ) ایک مسجد حرام، دوسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد اور تیسرے مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس۔ ( ان چارباتوں کا بیان آگے آرہا ہے )
    [QH]باب فضل الصلاة في مسجد مكة والمدينة[/QH]

    تشریح : مسجد اقصیٰ کی وجہ تسمیہ علامہ قسطلانی کے لفظوں میں یہ ہے۔ وسمی بہ لبعدہ عن مسجد مکۃ فی المسافۃ یعنی اس لیے اس کا نام مسجد اقصیٰ رکھا گیا کہ مسجد مکہ سے مسافت میں یہ دور واقع ہے۔لفظ رحال رحل کی جمع ہے یہ لفظ اونٹ کے کجاوہ پر بولاجا تا ہے۔ اس زمانہ میں سفر کے لیے اونٹ کا استعمال ہی عام تھا۔ اس لیے یہی لفظ استعمال کیا گیا۔

    مطلب یہ ہوا کہ صرف یہ تین مساجد ہی ایسا منصب رکھتی ہیں کہ ان میں نماز پڑھنے کے لیے، ان کی زیارت کے لیے سفرکیا جائے ان تین کے علاوہ کوئی بھی جگہ مسلمانوں کے لیے یہ درجہ نہیں رکھتی کہ ان کی زیارت کے لیے سفر کیا جاسکے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہی حدیث بخاری شریف میں دوسری جگہ موجود ہے۔
    مسلم شریف میں یہ ان لفظوں میں ہے: [QH]عن قزعة عن ابی سعید قال سمعت منه حدیثا فاعجبنی فقلت له انت سمعت هذا من رسول الله صلی الله علیه وسلم قال فاقول علی رسول الله صلی الله علیه وسلم مالم اسمع قال سمعته یقول قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم لا تشدوا الرحال الا الی ثلاثة مساجد مسجدی هذا والمسجد الحرام والمسجد الاقصیٰ الحدیث۔[/QH]
    [QH]صحيح مسلم بشرح النووي - كِتَاب الْحَجِّ -[/QH]
    یعنی قزعہ نامی ایک بزرگ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی جو مجھ کو بے حد پسند آئی۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا فی الواقع آپ نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے؟ وہ بولے کیا یہ ممکن ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حدیث بیان کروں جو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنی ہو۔ ہرگز نہیں بے شک میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ کجاوے نہ باندھومگر صرف ان ہی تین مساجد کے لیے۔ یعنی یہ میری مسجد اور مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ۔
    ترمذی میں بھی یہ حدیث موجود ہے اور امام ترمذی کہتے ہیں ھذا حدیث حسن صحیح یعنی یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ معجم طبرانی صغیر میں یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ان ہی لفظوں میں موجود ہے اور ابن ماجہ میں عبد اللہ بن عمرو بن عاص کی روایت سے یہ حدیث ان ہی لفظوں میں ذکر ہوئی ہے اور حضرت امام مالک نے مؤطا میں اسے بصرہ بن ابی بصرہ غفاری سے روایت کیا ہے۔ وہاں والی مسجد ایلیااوبیت المقدس کے لفظ ہیں۔

    خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث سند کے لحاظ سے بالکل صحیح قابل اعتماد ہے اور اسی دلیل کی بنا پر بغرض حصول تقرب الی اللہ سامان سفر تیار کرنا اور زیارت کے لیے گھر سے نکلنا یہ صرف ان ہی تین مقامات کے ساتھ مخصوص ہے دیگر مساجد میں نماز ادا کرنے جانا یا قبرستان میں اموات مسلمین کی دعائے مغفرت کے لیے جانا یہ امور ممنوعہ نہیں۔ اس لیے کہ ان کے بارے میں دیگر احادیث صحیحہ موجود ہیں۔ نماز باجماعت کے لیے کسی بھی مسجد میں جانا اس درجہ کا ثواب ہے کہ ہر ہر قدم کے بدلے دس دس نیکیوں کا وعدہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح قبرستان میں دعائے مغفرت کے لیے جانا خود حدیث نبوی کے تحت ہے۔جس میں ذکر ہے فانھا تذکر الاخرۃ یعنی وہاں جانے سے آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ باقی بزرگوں کے مزارات پر اس نیت سے جانا کہ وہاں جانے سے وہ بزرگ خوش ہو کر ہماری حاجت روائی کے لیے وسیلہ بن جائیں گے بلکہ وہ خود ایسی طاقت کے مالک ہیں کہ ہماری ہر مصیبت کو دور کر دیں گے یہ جملہ اوہام باطلہ اور اس حدیث کے تحت قطعا ناجائز امور ہیں۔

    اس سلسلہ میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں:

    [QH] واول من وضع الاحادیث فی السفر لزیارة المشاهد التی علی القبور اهل البدع الرافضة ونحوهم الذین یعطلون المساجد ویعظمون المشاهد یدعون بیوت الله التی امر ان یذکر فیها اسمه ویعبد وحده لا شریک له ویعظمون المشاهد التی یشرک فیها ویکذب فیها ویبتدع فیها دین لم ینزل الله به سلطانا فان الکتاب والسنة انما فیها ذکر المساجد دون المشاهد وهذا کله فی شدالرحال واما الزیارة فمشروعة بدونه۔[/QH]( نیل الاوطار )
    یعنی اہل بدعت اور روافض ہی اولین وہ ہیں جنہوں نے مشاہد اور مقابر کی زیارت کے لیے احادیث وضع کیں، یہ وہ لوگ ہیں جو مساجد کو معطل کر تے اور مقابر ومشاہد ومزارات کی حد درجہ تعظیم بجالاتے ہیں۔ مساجد جن میں اللہ تعالی کے ذکر کرنے کا حکم ہے اور خالص اللہ کی عبادت جہاں مقصود ہے ان کو چھوڑ کر یہ فرضی مزارات پر جاتے ہیں اور ان کی اس درجہ تعظیم کرتے ہیں کہ وہ درجہ شرک تک پہنچ جاتی ہے اور وہاں جھوٹ بولتے اور ایسا نیا دین ایجاد کرتے ہیں جس پر اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ کتاب وسنت میں کہیں بھی ایسے مشاہد اور مزارات ومقابر کا ذکر نہیں ہے جن کے لیے بایں طور پر شد رحال کیا جاسکے۔ ہاں مساجد کی حاضری کے لیے کتاب وسنت میں بہت سی تاکیدات موجود ہیں۔ ان منکرات کے علاوہ شرعی طریق پر قبرستان جانا اور زیارت کرنا مشروع ہے۔

    رہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرشریف پرحاضر ہونا اور وہاں جا کر آپ پر صلوۃ وسلام پڑھنا یہ ہر مسلمان کے لیے عین سعادت ہے۔مگر“گر فرق مراتب نہ کنی زندیقی”کے تحت وہاں بھی فرق مراتب کی ضرورت ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ زیارت سے قبل مسجد نبوی کا حق ہے۔ وہ مسجد نبوی جس میں ایک رکعت ایک ہزار رکعتوں کے برابر درجہ رکھتی ہے اور خاص طورپر روضۃ من ریاض الجنۃ کا درجہ اور بھی بڑھ کر ہے۔اس مسجد نبوی کی زیارت اور وہاں ادائے نماز کی نیت سے مدینہ منورہ کا سفر کرنا اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف پر بھی حاضر ہونا اور آپ پر صلوۃ وسلام پڑھنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت صدیق اکبروحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے اوپر سلام پڑھنا پھر بقیع الغرقد قبرستان میں جاکر وہاں جملہ اموات کے لیے دعائے مغفرت کرنا۔ اسی طرح مسجد قبا میں جانا اور وہاں دو رکعت ادا کرنا، یہ جملہ امور مسنون ہیں جو سنت صحیحہ سے ثابت ہیں۔

    اس تفصیل کے بعدکچھ اہل بدعت قسم کے لوگ ایسے بھی ہیں جو اہلحدیث پر ان کے اسلاف پر اورخاص کر حضرت علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف پر صلوۃ وسلام سے منع کرتے ہیں۔ یہ صریح کذب اور بہتا ن ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں جو فرمایا ہے وہ یہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔ باقی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر حاضر ہو کردرود وسلام بھیجنا، یہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مسلک میں مدینہ شریف جانے والوں اور مسجد نبوی میں حاضری دینے والوں کے لیے ضروری ہے۔

    چنانچہ صاحب صیانۃ الانسان عن وسوسۃ الشیخ الدحلان علامہ محمد بشیر صاحب سہسوانی مرحوم تحریرفرماتے ہیں:
    [QH]لانزاع لنا فی نفس مشروعیة زیارة قبر نبینا صلی الله علیه وسلم واما ما نسب الی شیخ الاسلام ابن تیمیة رحمه الله من القول بعدم مشروعیة زیارة قبر نبینا صلی الله علیه وسلم فافتراءبحت قال الامام العلامة ابو عبد الله محمدبن احمد بن عبد الهادی المقدسی الحنبلی فی الصارم المنکی ان شیخ الاسلام لم یحرم زیارة القبور علی الوجه المشروع فی شئی من کتبهولم ینه عنها ولم یکرهها بل استحبها وحض علیها ومصنفاته ومناسکه طافحة بذکر استحباب زیارة قبر النبی صلی الله علیه وسلم سائر القبور قال رحمه الله فی بعض مناسکه باب زیارة قبر النبی صلی الله علیه وسلم اذا شرف علی مدینة النبی صلی الله علیه وسلم قبل الحج او بعده فلیقل ما تقدم فاذا دخل استحب له ان یغتسل نص علیه الامام احمد فاذا دخل المسجد بدءبرجله الیمنیٰ وقال بسم الله والصلوة علی رسول الله اللهم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب رحمتک ثم یاتی الروضة بین القبر والمنبر فیصلی بها ویدعو بما شاءثم یاتی قبر النبی صلی الله علیه وسلم فیستقبل جدار القبر لا یمسه ولا یقبله ویجعل القندیل الذی فی القبلة عند القبر علی راسه لیکون قائما وجاه النبی صلی الله علیه وسلم ویقف متباعد کما یقف اوظهر فی حیاته بخشوع وسکون ومنکسر الراس خاض الطرف مستحضرا بقلبه جلالة موقفه ثم یقول السلام علیک یا رسول الله ورحمة الله وبرکاته السلام علیک یا نبی الله وخیرته من خلقه السلام علیک یا سید المرسلین ویاخاتم النبیین وقائد الغر المحجلین اشهد ان لا اله الا الله واشهد انک رسول الله واشهد انک قد بلغت رسٰلٰت ربک ونصحت لامتک ودعوت الی سبیل ربک بالحکمة الموعظة الحسنة وعبدت الله حتی اتاک الیقین فجزاک الله افضل ما جزی نبیا ورسولا عن امته اللهم آته الوسیلة والفضیلة وابعثه مقاما محمود الذی وعدته لیغبطه به الاولون والاخرون اللهم صلی علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراهیم وعلی آل ابراهم انک حمیدمجید اللهم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراهیم وعلی آل ابراهیم انک حمید مجید اللهم احشرنا فی ذمرته وتوف علی سنة واوردنا حوض واسقنا بکاسه شربا رویا لانظما بعده ابداً ثم یاتی ابا بکر وعمر فیقول السلام علیک یا ابا بکر الصدیق السلام علیک یا عمر الفاروق السلام علیکما یا صاحبی رسول الله صلی الله علیه وسلم وضجیعیه ورحمة الله وبرکاته جزا کما الله عن صحبة نبیکما وعن الاسلام خیر السلام علیکم بما صبر تم فنعم عقبی الدار قال ویزور قبور اهل البقیع وقبورالشهداءان امکن هذا کلام الشیخ رحمه اللهبحروفه انتهی مافی الصارم۔ [/QH]( صیانۃ الانسان عن وسوسۃ الدحلان، ص:3 )
    یعنی شرعی طریقہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی زیارت کرنے میں قطعا کوئی نزاع نہیں ہے اور اس بارے میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر یہ محض جھوٹا بہتان ہے کہ قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کو ناجائز کہتے تھے، یہ محض الزام ہے۔ علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد نے اپنی مشہور کتاب الصارم المنکی میں لکھا ہے کہ شرعی طریقہ پر زیارت قبور سے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ہرگز منع نہیں کیا نہ اسے مکروہ سمجھا۔ بلکہ وہ اسے مستحب قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے رغبت دلاتے ہیں۔انہوں نے اس بارے میں اپنی کتاب بابت ذکر مناسک حج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی زیارت کے سلسلہ میں باب منعقد فرمایا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ جب کوئی مسلمان حج سے پہلے یا بعد میں مدینہ شریف جائے تو پہلے وہ دعا مسنون پڑھے جو شہروں میں داخلہ کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ پھر غسل کر ے اور بعد میں مسجد نبوی میں پہلے دایاں پاؤں رکھ کر داخل ہو اور یہ دعا پڑھے [QH]بسم الله والصلوة علی رسول الله اللهم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب رحمتک[/QH] پھر اس جگہ آئے جو جنت کی کیاری ہے اوروہاں نماز پڑھے اور جو چاہے دعا مانگے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر آئے اور دیوار کی طرف منہ کرے نہ اسے بوسہ دے نہ ہاتھ لگائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو اورپھر وہاں سلام اور درود پڑھے ( جن کے الفاظ پیچھے نقل کئے گئے ہیں ) پھر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے آئے اور وہاں بھی سلام پڑھے جیسا کہ مذکور ہوا اورپھر ممکن ہو تو بقیع غرقد نامی قبرستان میں جاکر وہاں بھی قبور مسلمین اور شہداءکی زیارت مسنونہ کرے۔

    سابق امتوں میں کچھ لوگ کوہ طور اور تربت بابرکت حضرت یحیٰ علیہ السلام وغیرہ کی زیارت کے لیے دور دراز سے سفر کر کے جایا کرتے تھے۔ اللہ کے سچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تمام سفروں سے منع فرما کر اپنی امت کے لیے صرف یہ تین زیارت گاہیں مقرر فرمائیں۔ اب جو عوام اجمیر اورپاک پٹن وغیرہ وغیرہ مزارات کے لیے سفر باندھتے ہیں یہ ارشاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے کی وجہ سے عاصی نافرمان اور آپ کے باغی ٹھہرتے ہیں۔ ہاں قبور المسلمین اپنے شہر یا قریہ میں ہوںوہ اپنوں کی ہوں یا بیگانوں کی وہاں مسنون طریقہ پر زیارت کرنا مشروع ہے کہ گورستان والوں کے لیے دعا ئے مغفرت کریں اور اپنی موت کو یاد کر کے دنیا سے بے رغبتی اختیار کریں۔ سنت طریقہ صرف یہی ہے۔

    علامہ ابن حجر اس حدیث کی بحث کے آخر میں فرماتے ہیں
    [QH]فمعنی الحدیث لاتشد الرحال الی مسجد من المساجد او الی مکان من الامکنة لاجل ذلک المکان الا الی الثلاثة المذکورة وشد الرحال الی زیارة او طلب علم لیس الی المکان بل الی من فی ذلک المکان والله اعلم ( فتح الباری [/QH] یعنی حدیث کا مطلب اسی قدر ہے کہ کسی بھی مسجد یا مکان کے لیے سفر نہ کیا جائے اس غرض سے کہ ان مساجد یا مکانات کی محض زیارت ہی موجب رضائے الٰہی ہے ہاں یہ تین مساجد یہ درجہ رکھتی ہیں جن کی طرف شد رحال کیا جانا چاہیے اور کسی کی ملاقات یا تحصیل علم کے لیے شد رحال کرنا اس ممانعت میں داخل نہیں اس لیے کہ یہ سفر کسی مکان یا مدرسہ کی عمارت کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ مکان کے مکین کی ملاقات اور مدرسہ میں تحصیل علم کے لیے کیا جاتا ہے۔

    ترتیب و اضافہ روابط احادیث/پروف ریڈنگ :: عُکاشہ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ خیرا عُکاشہ بھائی
     
  3. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    جزاک اللہ خیرا بھائی
     
  4. ابو عبداللہ صغیر

    ابو عبداللہ صغیر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏مئی 25, 2008
    پیغامات:
    1,979
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں