پندرہ سال بعد: بینظیر، لغاری لڑائی کی قیمت بیس ملین ڈالر!

زبیراحمد نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏ستمبر 6, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    رؤف کلاسراکے قلم سے
    بے نظیر بھٹو اور فاروق لغاری دونوں اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن 1996 میں ان دونوں کے درمیان شروع ہونے والی ذاتی لڑائی کے اثرات پندرہ سال بعد بھی نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی محسوس کیے جارہے ہیں کیونکہ اب پیرس کی ایک عدالت نے حکومت پاکستان کو کہا ہے کہ وہ سعودی عرب کی ایک ریئل اسٹیٹ فرم کو بیس ملین ڈالر ہرجانہ ادا کرے جس کے ساتھ $345ملین ڈالر کا معاہدہ تو بے نظیر بھٹو نے کیا تھا لیکن فاروق لغاری نے ان کی حکومت کے ساتھ یہ معاہدہ بھی توڑ دیا تھا ۔

    ٹاپ سٹوری آن لائن کو ملنے والی سرکاری دستاویزات سے یہ انکشاف ہو تا ہے کہ پاکستان کی وزارت مذہبی امور کو پیرس کی ایک عدالت نے اپنے چار سال پرانے فیصلہ پر عمل درآمد کرنے کا حکم دیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے ” ڈالہا ریئل اسٹیٹ گروپ ” (Dallah Real Estate Group)کو فوری طور پر 1996 میں بے نظیر بھٹو دور حکومت کے ساتھ ہونے والے $345ملین ڈالر ( موجودہ لاگت تیس ارب روپے) کے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر بیس ملین ڈالر ہرجانہ ادا کرے جو پاکستانی روپوں میں ایک ارب چوہتر کروڑ بنتے ہیں۔

    بے نظیر حکومت اور اس گروپ کے درمیان ہونے اس معاہدے کے تحت اس گروپ نے مکہ مکرمہ میں پاکستانی حاجیوں کی رہائش کے لیے تین ٹاورز تعمیر کر کے انہیں ننانونے سال کے لیے وزارت مذہبی امور کو لیز پر دینے تھے۔ یہ مقدمہ اب پیرس کی سپریم کورٹ میں چلنے کا امکان ہے کیونکہ پیرس کی عدالت نے پاکستان کی وزارت مذہبی امور کو اس معاہدے کو توڑنے کا ذمہ وار قرار دیتے ہوئے اس گروپ کو بیس ملین ڈالر ہرجانے کا حکم دیا ہے۔ وزارت مذہبی امور بیس ملین ڈالر ہرجانے کے اس فیصلے کو فرانس کی سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے لیے قانونی ماہرین سے مشورہ کر رہی ہے۔

    عالمی عدالت کے جن تین ججوں نے پاکستان حکومت کے خلاف بیس ملین ڈالر کی ادایئگی کا یہ فیصلہ دیا تھا ان میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ بھی شامل ہیں۔ پاکستان نے یہ کیس عالمی عدالت میں لڑنے کے لیے بارہ کڑور روپے غیر ملکی وکیلوں کو بھی ادا کئے تھے۔

    وزارت قانون نے اب پاکستان کی وزارت مذہبی امور کو یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ بہتر ہو گا کہ اس سعودی گروپ کے ساتھ ”آؤٹ آف کورٹ” سمجھوتہ کر لیا جائے اور پیسے ادا کر دئے جائیں۔ تاہم اگر یہ گروپ نہیں مانتا تو پھر اس فیصلے کو پیرس کی ایک اعلی عدالت میں چیلنج کیا جائے اور اس کے لیے پھر چوٹی کے وکیلوں کی خدمات حاصل کرنا ہونگی جن کی فیسیں بھی آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔

    سابق چئرمین سینٹ وسیم سجاد سے بھی قانون رائے لی گئی تھی۔ انہوں نے وزارت مذہبی امور کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ پیرس کی اس عدالت کے فیصلے کو فرانس کی سپریم کورٹ میں چیلنج کرے اور اس کے لیے انہوں نے فرانس کے ایک وکیل کا نام بھی تجویز کیا ہے۔

    یہ معاہدہ جس کی خلاف ورزی پر حکومت پاکستان کو ہرجانہ دینا پڑ سکتا ہے بے نظیر بھٹو نے 1995میں کیا تھا اور اس کا مقصد پاکستانی حاجیوں کے حج کے دنوں میں رہائش کے مسائل کا حل مسقل بینادوں پر نکالنا مقصود تھا۔ تاہم جب اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے بے نظیر حکومت کو برطرف کیا تو بقول کچھ واقفان حال انہوں نے عوام میں یہ ثابت کرنے کے لیے کہ بے نظیر بھٹو حکومت ہر کام غلط کر رہی تھی اور پیسے کمانے میں لگی ہوئی تھی، انہوں نے اس معاہدہ کو بھی ختم کردیا۔

    جب صدر لغاری نے نئی نگران حکومت بنائی تو اس کے کابینہ کے وزیروں کے سامنے یہ معاہدہ بھی پیش کیا گیا اور کابنیہ کے وزیروں کو کہا گیا کہ یہ معاہدہ قابل عمل نہیں تھا اور سب سے بڑھ کر یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں تھا۔ یوں اس معاہدے کو بے نظیر بھٹو حکومت کی کرپشن سے جوڑ کر نگران کابینہ نے ختم کر دیا۔ اس کابینہ میٹنگ کی صدارت ملک کے نگران وزیراعظم معراج خالد نے کی تھی جس میں اس معاہدے کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔

    اس فیصلے پر سعودی ریئل اسٹیٹ گروپ نے پیرس کی عدالت میں یہ کیس دائر کر دیا کہ اسے ہرجانہ پاکستان سے لے کر ادا کرایا جائے۔ ڈالہا گروپ شروع میں عالمی عدالت کے فیصلے سے خوش نہ تھا جس نے ’صرف بیس ملین ڈالر‘ ہرجانے کی ادایئگی کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ اس نے لندن کی ایک عدالت میں بھی مقدمہ داخل کر دیا تھا ۔ تاہم لندن کی عدالت نے ڈالہا گروپ کی ایک سو ملین ڈالر ہرجانے کی اپیل خارج کر دی تھی ۔

    اب اسی گروپ نے پیرس کی عالمی عدالت سے اس کی دو ہزار چھ میں دیے گئے فیصلہ پر عملدرآمد کرانے کے لیے ایک درخواست کی تھی کہ وہ حکومت پاکستان کو حکم دے کہ وہ بیس ملین ڈالر کی ادائیگی کرے۔ ٹاپ اسٹوری آن لائن کو ملنے والی سرکاری دستاویزات سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ وزارت مذہبی امور نے بے نظیر بھٹو دور میں 1995عوامی حج ٹرسٹ آرڈیننس جاری کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ڈالہا گروپ نے مکہ مکرمہ میں اپنے ایک پلاٹ پر تین ٹاورز تعمیر کرنے تھے جو کہ حرم سے پندرہ سو میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ ان تین ٹاورز میں 45000 پاکستانی حاجیوں کے ٹھہرنے کی گنجائش ہونی تھی۔ اس عمارت کو پاکستان سے عمرہ کرنے کے لیے جانے والوں نے بھی استمال کر سکنا تھا۔

    جب بے نظیر بھٹو اور صدر لغاری کے درمیان ذاتی جنگ کے نتیجہ میں یہ معاہدہ ختم کیا گیا تو اس سعودی گروپ نے مئی 1998 کو عالمی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا جس میں وزارت مذہبی امور اور حکومت پاکستان کو فریق بنایا گیا تھا۔ اس مقدمے کی کاروائی کے بعد عالمی عدالت نے جنوری 2004 میں اپنا پہلا فیصلہ سنایا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ حکومت پاکستان نے غلط طور پر یہ معاہدہ ختم کیا تھا لہذا سعودی گروپ کا ہرجانے کا دعوی جائز تھا اور اس ادائیگی کی جانی چاہیے تھی۔ تاہم یہ ہرجانہ کتنا ہونا چاہیے تھا اس کے لیے پاکستان اور اس سعودی گروپ کو کہا گیا کہ وہ اپنے اپنے کاغذات عدالت میں جمع کرائیں۔

    تاہم حکومت پاکستان نے عدالت میں اپنا جواب داخل نہ کرایا اور کئی دفعہ نوٹس بھی جاری کئے گئے۔پاکستان حکومت کے وکیل سلیم سہگل کو بھی نوٹس جاری کیا گیا کہ وہ اپنا جواب داخل کریں لیکن کوئی جواب نہ دیا گیا۔ اس پر سعودی گروپ کے دو گواہوں عبدالللا مراد اور شیزی نوکی کو عدالت نے بلایا اور ان کا بیان لے کر ان سے ججوں نے خود سوال و جواب کئے۔ کیس کی سماعت کے خاتمے پر سعودی گروپ نے عدالت سے درخواست کہ انہیں اپنے ہونے والے نقصان کی تفصیلات جمع کرانے کی اجازت دی جائے۔

    اس پر عالمی عدالت نے انہیں دو ماہ کا وقت دیا۔ اس اثناء میں عدالت نے ایک سعودی ماہر سے بھی رائے مانگی تاکہ فیصلہ دینے سے پہلے تمام پہلوؤں کو دیکھا جا سکے۔ آخر مارچ 2005 میں عدالت کے سامنے ایک گواہ عبدالللہ کا ایک اور سپلمنڑی بیان، ولید ٹمریک اور تیسرے گواہ شیزی نوکی کے بیانات بھی جمع کرائے گئے۔اس گروپ نے عدالت کے سامنے ایک سو ملین ڈالر ہرجانے کا دعوی کیا جو ان کے بقول اس معاہدے کے ختم ہونے سے نقصان ہوا تھا۔ اس گروپ کا کہنا تھا کہ انہیں توقع تھی کہ انہیں ایک سو ملین ڈالر ایڈوانس ادا کئے جانے تھے وہ بھی ضائع چلے گئے تھے۔ اس گروپ نے دعوی کیا کہ پلاٹ کی قیمت جس پر یہ تین ٹاورز بننے تھے اس کی قیمت ایک سو ملین ڈالر تھی۔ اس پر تعمیر کا خرچہ ایک سو پنتیس ملین ڈالر ہونا تھا۔ ڈویپلمنٹ کا خرچہ پندرہ ملین ڈالر اور تعمیر کے دوران فنانس کا اندازہ سترہ ملین ڈالر لگایا گیا تھا۔ یوں اس گروپ نے یہ دعوی کیا کہ اس کا کل ایک سو ملین ڈالر کا نقصان ہوا تھا جو اس ادا کیا جائے۔

    تاہم ٹریبونل نے فیصلہ کیا کہ اس گروپ کو جو نقصان اس پراجیکٹ کے لیے ڈرائنگ، بلڈنگ ڈیزائن اور تعمیراتی تخمینہ لگانے کا خرچہ کا ادا کیا جانا چاہیے جو کہ پندرہ ملین ڈالر کے قریب رقم بنتی تھی۔ اس کے علاوہ ہونے والے اخراجات کے لیے عدالت نے پانچ ملین ڈالر مزید ادائیگی کا بھی فیصلہ کیا۔ تاہم اس فیصلہ پر عملدرآمد کرانے کی بجائے اس سعودی گروپ نے لندن کی عدالت میں ایک سو ملین ڈالر ہرجانے کا دعوی کر دیا، جس کی پاکستانی حکومت نے بھرپور مخالفت کی کہ اس دعوی کا لندن میں سنے جانے کا جواز نہیں بنتا۔ لندن کی عدالت نے مقدمہ خارج کیا تو ڈالہا گروپ نے اس کے خلاف پہلے برطانیہ کی ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا لیکن اعلی عدالتوں نے بھی ماتحت عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اس سارے عمل میں پاکستان نے اپنے وکیل کو بارہ کروڑ روپے فیس ادا کی۔

    لندن میں ناکامی کے بعد ڈالہا گروپ نے پیرس کی عدالت میں دوبارہ ایک اپیل فائل کی کہ وہ اپنے بیس ملین ڈالر کے فیصلے پر عمل درآمد کرائے۔ اس پر حکومت پاکستان کو نوٹس دیا گیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے اس گروپ کو اس کے چار سالہ پرانے فیصلے کی روشنی میں بیس ملین ڈالر ادا کرے۔ تاہم اب پاکستانی حکومت اپنے قانونی ماہرین سے مشورے شروع کر دیے ہیں۔ وسیم سجاد کا کہنا ہے کہ پاکستان فرانس کی سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کرے جب کہ وزارت قانون کا کہنا ہے کہ پہلے ” آوٹ اف کورٹ” معاملہ طے کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ کوشش کامیاب نہ ہو تو پھر یہ کیس فرانس کی بڑی عدالت میں لڑا جائے۔

    یوں بے نظیر بھٹو اور صدر فاروق لغاری کے درمیان 1996 میں شروع ہونے والی ان کی ذاتی لڑائی جو اور بہت ساری باتوں کے علاوہ اس معاہدے کو ختم کرنے کا بھی سبب تھی، ان کی موت کے بعد بھی جاری ہے اور اس کی قیمت بیس ملین ڈالر اب پاکستانی عوام کو ادا کرنی پڑے گی جبکہ وکلیوں کی فیسیں اس کے علاوہ ہیں۔
    بشکریہ ٹاپ سٹوری
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں