سورة إبراهیم -------- از تفسیر احسن البیان ‏

irum نے 'تفسیر قرآن کریم' میں ‏نومبر 6, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [​IMG]

    [AR]سورة إبراهیم[/AR]

    [AR]بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ[/AR]




    [AR]الر‌ ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِ‌جَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ‌ بِإِذْنِ رَ‌بِّهِمْ إِلَىٰ صِرَ‌اطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ﴿١﴾[/AR]

    الرٰ! یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف ﻻئیں، ان کے پروردگار کے حکم سے، زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف (1)

    تفسیر


    ١۔١ جس طرح دوسرے مقام پر بھی اللہ نے فرمایا '(ھو الذی ینزل علی عبدہ ایت بینت لیخرجکم من الظلمت الی النور) سورہ الحدید۔ وہی ذات ہے جو اپنے بندے پر واضح آیات نازل فرماتی ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائے '(اللہ ولی الذین امنوا یخرجھم من الظلمت الی النور) البقرۃ۔ اللہ ایمان داروں کا دوست ہے، وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے۔
    ١۔٢ یعنی پیغمبر کا کام ہدایت کا راستہ دکھانا ہے۔ لیکن اگر کوئی اس راستے کو اختیار کر لیتا ہے تو یہ صرف اللہ کے حکم اور مشیت سے ہوتا ہے کیونکہ اصل ہادی وہی ہے۔ اس کی مشیت اگر نہ ہو، تو پیغمبر کتنا بھی واعظ و نصیحت کر لے، لوگ ہدایت کا راستہ اپنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے، جس کی متعدد مثالیں انبیائے سابقین میں موجود ہیں اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم باوجود شدید خواہش کے اپنے مہربان چچا ابو طالب کو مسلمان نہ کر سکے۔
     
  2. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar]
    اللَّـهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ ۗ وَوَيْلٌ لِّلْكَافِرِ‌ينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَ‌ةِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ ﴿٣﴾ [/ar]


    جس اللہ کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اور کافروں کے لئے تو سخت عذاب کی خرابی ہے (2) جو آخرت کے مقابلے میں دنیوی زندگی کو پسند رکھتے ہیں اور اللہ کی راه سے روکتے ہیں اور اس میں ٹیڑھ پن پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ پرلے درجے کی گمراہی میں ہیں (3)


    تفسیر


    ٣۔١ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں لوگوں کو بدظن کرنے کے لئے مین میکھ نکالتے اور انہیں مسخ کر کے پیش کرتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنی اغراض و خواہشات کے مطابق اس میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔
    ٣۔٢ اس لئے کہ ان میں مزکورہ متعدد خرابیاں جمع ہوگئی ہیں۔ مثلاً آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینا، اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنا اور اسلام میں کجی تلاش کرنا۔
     
  3. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar]وَمَا أَرْ‌سَلْنَا مِن رَّ‌سُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿٤﴾ [/ar]


    ہم نے ہر ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کر دے۔ اب اللہ جسے چاہے گمراه کر دے، اور جسے چاہے راه دکھا دے، وه غلبہ اور حکمت واﻻ ہے (4)


    تفسیر


    ٤۔١ پھر جب اللہ تعالٰی نے اہل دنیا پر یہ احسان فرمایا کہ ان کی ہدایت کے لئے کتابیں نازل کیں اور رسول بھیجے، تو اس احسان کی تکمیل اس طرح فرمائی کہ ہر رسول کو قومی زبان میں بھیجا تاکہ کسی کو ہدایت کا راستہ سمجھنے میں دقت نہ ہو۔
    ٤۔٢ لیکن اس بیان و تشریح کے باوجود ہدایت اسے ملے گی جسے اللہ چاہے گا۔
     
  4. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar]وَلَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِ‌جْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ‌ وَذَكِّرْ‌هُم بِأَيَّامِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ‌ شَكُورٍ‌ ﴿٥﴾[/ar]

    (یاد رکھو جب کہ) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ تو اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی میں نکال اور انہیں اللہ کے احسانات یاد دﻻ۔ اس میں نشانیاں ہیں ہر ایک صبر شکر کرنے والے کے لئے (5)

    تفسیر


    ٥۔١ یعنی جس طرح اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو اپنی قوم کی طرف بھیجا اور کتاب نازل کی تاکہ آپ اپنی قوم کو کفر اور شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف لائیں۔ اسی طرح ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو معجزات و دلائل دے کر ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ تاکہ وہ انہیں کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی عطا کریں۔ آیات سے مراد وہ معجزات ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کو عطا کئے گئے تھے، یا وہ نو معجزات ہیں جن کا ذکر سورہ بنی اسرائیل میں کیا گیا ہے۔
    ٥۔٢ اَ یَّامَ اللّٰہِ سے مراد اللہ کے وہ احسنات ہیں جو بنی اسرائیل پر کئے گئے جن کی تفصیل پہلے کئی مرتبہ گزر چکی ہے۔ یا ایام وقائع کے معنی میں ہے، یعنی وہ واقعات ان کو یاد دلا جن سے وہ گزر چکے ہیں جن میں ان پر اللہ تعالٰی کے خصوصی انعامات ہوئے۔ جن میں سے بعض کا تذکرہ یہاں بھی آرہا ہے۔
    ٥۔٣ صبر اور شکر یہ دو بڑی خوبیاں ہیں اور ایمان کا مدار ان پر ہے، اس لئے یہاں صرف ان دو کا تذکرہ کیا گیا ہے دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ صبار، بہت صبر کرنے والا، شکور، بہت شکر کرنے والا اور صبر کو شکر پر مقدم کیا ہے اس لئے کہ شکر، صبر کا نتیجہ ہے۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اللہ تعالٰی اس کے لئے جس امر کا بھی فیصلہ کرے، وہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، اگر اسے تکلیف پہنچے اور وہ صبر کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے اور اگر اسے کوئی خوشی پہنچے، وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے '(صحیح مسلم ، کتاب الزد باب “ المومن امرہ کللۃ خیر)
     
  5. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar]وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اذْكُرُ‌وا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْ‌عَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ عَظِيمٌ ﴿٦﴾[/ar]

    جس وقت موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کے وه احسانات یاد کرو جو اس نے تم پر کیے ہیں، جبکہ اس نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بڑے دکھ پہنچاتے تھے۔ تمہارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زنده چھوڑتے تھے، اس میں تمہارے رب کی طرف سے تم پر بہت بڑی آزمائش تھی (6)


    تفسیر


    ٦۔١ یعنی جس طرح یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی اسی طرح اس سے نجات اللہ کا بہت بڑا احسان تھا، اسی لئے بعض مترجمین نے بَلَاَء کا ترجمہ آزمائش اور بعض نے احسان کیا ہے۔
     
  6. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar] وَإِذْ تَأَذَّنَ رَ‌بُّكُمْ لَئِن شَكَرْ‌تُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْ‌تُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ ﴿٧﴾ [/ar]


    اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاه کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیاده دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے (7)


    تفسیر


    ٧۔١ تَأَذَّنَ کے معنی اَعلَمَکُم بِوَعدِہِ لَکُم اس نے اپنے وعدے سے تمہیں آگاہ اور خبردار کر دیا ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ قسم کے معنی میں ہو یعنی جب تمہارے رب نے اپنی عزت و جلال اور کبریائی کی قسم کھا کر کہا (ابن کثیر)
    ٧۔٢ نعمت پر شکر کرنے پر مذید انعامات سے نوازوں گا،
    ٧۔٣ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کفران نعمت (ناشکری) اللہ کو ناپسند ہے، جس پر اس نے سخت عذاب کی وعید بیان فرمائی ہے، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ عورتوں کی اکثریت اپنے خاوندوں کی ناشکری کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائے گی (صحیح مسلم العیدین اوائل کتاب الصلوۃ )
     
  7. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar]وَقَالَ مُوسَىٰ إِن تَكْفُرُ‌وا أَنتُمْ وَمَن فِي الْأَرْ‌ضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّـهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ ﴿٨﴾[/ar]


    موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اگر تم سب اور روئے زمین کے تمام انسان اللہ کی ناشکری کریں تو بھی اللہ بے نیاز اور تعریفوں واﻻ ہے (8)


    تفسیر


    ٨۔١ مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کی شکر گزاری کرے گا تو اس میں اسی کا فائدہ ہے۔ ناشکری کرے گا تو اللہ کا اس میں کیا نقصان ہے؟ وہ تو بےنیاز ہے سارا جہان ناشکرگزار ہو جائے تو اس کا کیا بگڑے گا جس طرح حدیث قدسی میں آتا ہے اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔ یا عبادی !لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی اتقی قلب رجل واحد منکم مازاد ذلک فی ملکی شیئا، یا عبادی! لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی افجر قلب رجل واحد منکم ما نقصٓ ذلک فی ملکی شیئا یا عبادی لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم قاموا فی صٓعید واحد فسالونی فاعطیت کل انسان مسالتہ مانقصٓ ذلک من ملکی شیئا الا کما ینقض المخیط اذا ادخل فی البحر۔ (صحیح مسلم ، کتاب البر ، باب تحریم الظلم ) اے میرے بندو! اگر تمہارے اوّل اور آخر اور اسی طرح تمام انسان اور جن، اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں، جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پرہزگار ہو، (یعنی کوئی بھی نافرمان نہ رہے) تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں اضافہ نہیں ہوگا اے میرے بندو! اگر تمہارے اول و آخر اور تمام انسان اور جن ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں، جو تم میں سب سے بڑا نافرمان اور فاجر ہو تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اول اور آخر اور انسان و جن، سب ایک میدان میں جمع ہوجائیں اور مجھ سے سوال کریں، پس میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کر دوں تو اس سے میرے خزانے اور بادشاہی میں اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے ' فَسُبْحَانَہُ وَ تَعَالَی الْغَنِیُّ الْحمِیْدُ '۔
     
  8. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar]أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّـهُ ۚ جَاءَتْهُمْ رُ‌سُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرَ‌دُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْ‌نَا بِمَا أُرْ‌سِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِ‌يبٍ ﴿٩﴾ [/ar]

    کیا تمہارے پاس تم سے پہلے کے لوگوں کی خبریں نہیں آئیں؟ یعنی قوم نوح کی اور عاد وﺛمود کی اور ان کے بعد والوں کی جنہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا، ان کے پاس ان کے رسول معجزے ﻻئے، لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منھ میں دبالیے اور صاف کہہ دیا کہ جو کچھ تمہیں دے کر بھیجا گیا ہے ہم اس کے منکر ہیں اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو ہمیں تو اس میں بڑا بھاری شبہ ہے (9)


    تفسیر


    ٩۔١ مفسرین نے اس کے مختلف معانی بیان کئے ہیں 1 مثلاً انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں رکھ لئے اور کہا ہمارا تو صرف ایک ہی جواب ہے کہ ہم تمہاری رسالت کے منکر ہیں، ٢۔ انہوں نے اپنی انگلیوں سے اپنے مونہوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ خاموش رہو اور یہ جو پیغام لے کر آئے ہیں ان کی طرف توجہ مت کرو،٣۔ انہوں نے اپنے ہاتھ رسولوں کے مونہوں پر استہزاءً اور تعجب کے طور پر رکھ لیے جس طرح کوئی شخص ہنسی ضبط کرنے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ ٤۔ انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے رسولوں کے مونہوں پر رکھ کر کہا خاموش رہو،۔٥۔ بطور غیظ وغضب کے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں لے لیے جس طرح منافقین کی بابت دوسرے مقام پر آتا ہے عضوا علیکم الانامل من الغیظ۔ ال عمران۔119 وہ تم پر اپنی انگلیاں غیظ وغضب سے کاٹتے ہیں۔ امام شوکانی اور امام طبری نے اسی آخری معنی کو ترجیح دی ہے۔
    ٩۔٢ مریب یعنی ایسا شک، کہ جس سے نفس سخت قلق اور اضطراب میں مبتلا ہے۔
     
  9. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar]قَالَتْ رُ‌سُلُهُمْ أَفِي اللَّـهِ شَكٌّ فَاطِرِ‌ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ‌ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَ‌كُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ‌ مِّثْلُنَا تُرِ‌يدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴿١٠﴾[/ar]

    ان کے رسولوں نے انہیں کہا کہ کیا حق تعالیٰ کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے واﻻ ہے وه تو تمہیں اس لئے بلا رہا ہے کہ تمہارے گناه معاف فرما دے، اور ایک مقرر وقت تک تمہیں مہلت عطا فرمائے، انہوں نے کہا کہ تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان خداؤں کی عبادت سے روک دو جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے۔ اچھا تو ہمارے سامنے کوئی کھلی دلیل پیش کرو (10)

    تفسیر


    ١٠۔١ یعنی تمہیں اللہ کے بارے میں شک ہے، جو آسمان و زمین کا خالق ہے۔ علاوہ ازیں وہ ایمان و توحید کی دعوت بھی صرف اس لئے دے رہا ہے کہ تمہیں گناہوں سے پاک کر دے۔ اس کے باوجود تم اس خالق ارض و سماء کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور اس کی دعوت سے تمہیں انکار ہے؟
    ١٠۔ ٢ یہ وہی اشکال ہے جو کافروں کو پیش آتا رہا کہ انسان ہو کر کس طرح کوئی وحی الٰہی اور نبوت و رسالت کا مستحق ہو سکتا ہے؟
    ١٠۔٣ یہ دوسری رکاوٹ ہے کہ ہم ان معبودوں کی عبادت کس طرح چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے آباء و اجداد کرتے رہے ہیں؟ جب کہ تمہارا مقصد ہمیں ان کی عبادت سے ہٹا کر اللہ واحد کی عبادت پر لگانا ہے۔
    ١٠۔٤ دلائل و معجزات تو ہر نبی کے ساتھ ہوتے تھے، اس سے مراد ایسی دلیل یا معجزہ ہے جس سے دیکھنے کے وہ آرزومند ہوتے تھے جیسے مشرکین مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف قسم کے معجزات طلب کئے تھے، جس کا تذکرہ بنی اسرائیل میں آئے گا۔
     
  10. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar]قَالَتْ لَهُمْ رُ‌سُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ‌ مِّثْلُكُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١١﴾[/ar]

    ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے۔ اللہ کے حکم کے بغیر ہماری مجال نہیں کہ ہم کوئی معجزه تمہیں ﻻ دکھائیں اور ایمان والوں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے (11)


    تفسیر


    ١١۔١ رسولوں نے پہلے اشکال کا جواب دیا کہ یقینا ہم تمہارے جیسے بشر ہی ہیں۔ لیکن تمہارا یہ سمجھنا غلط ہے کہ بشر رسول نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالٰی انسانوں کی ہدایت کے لئے انسانوں میں سے ہی بعض انسانوں کو وحی و رسالت کے لئے چن لیتا ہے اور تم سب میں سے یہ احسان اللہ نے ہم پر فرمایا ہے۔
    ١١۔٢ ان کے حسب منشاء معجزے کے سلسلے میں رسولوں نے جواب دیا کہ معجزے کا صدور ہمارے اختیار میں نہیں، یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔
    ۱۱۔۳ یہاں مومنیں سے مراد اولا خود انبیاء ہیں یعنی ہمیں سارا بھروسہ اللہ پر ہی رکھنا چاہیے جیسا کہ آگے فرمایا “آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ رکھیں۔“
     
  11. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar] وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّـهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا ۚ وَلَنَصْبِرَ‌نَّ عَلَىٰ مَا آذَيْتُمُونَا ۚ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ ﴿١٢﴾ [/ar]


    آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ رکھیں جبکہ اسی نے ہمیں ہماری راہیں سمجھائی ہیں۔ واللہ جو ایذائیں تم ہمیں دو گے ہم ان پر صبر ہی کریں گے۔ توکل کرنے والوں کو یہی ﻻئق ہے کہ اللہ ہی پر توکل کریں (12)


    تفسیر


    ١٢۔١ کہ وہی کفار کی شرارتوں اور سفاہتوں سے بچانے والا ہے۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہم سے معجزات طلب نہ کریں، اللہ پر توکل کریں، اس کی مشیت ہوگی تو معجزہ ظاہر فرما دے گا ورنہ نہیں۔
     
  12. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar]وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لِرُ‌سُلِهِمْ لَنُخْرِ‌جَنَّكُم مِّنْ أَرْ‌ضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۖ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ رَ‌بُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ ﴿١٣﴾ [/ar]


    کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ۔ تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ﻇالموں کو ہی غارت کر دیں گے (13)


    تفسیر


    ١٣۔١ جیسے اور بھی کئی مقامات پر اللہ تعالٰی نے فرمایا '(ولقدسبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین)۔ (انھم لھم المنصٓورون)۔ (وان جندنا لھم الغلبون)۔ سورۃ الصٓافات171 , 173۔ پہلے ہو چکا ہمارا حکم اپنے ان بندوں کے حق میں جو رسول ہیں کہ بیشک وہ منصوراور کامیاب ہوں گے اور ہمارا لشکر بھی غالب ہوگا '(کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی)۔ المجادلہ21۔ اور اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہونگے۔
     
  13. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar]وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْ‌ضَ مِن بَعْدِهِمْ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ ﴿١٤﴾[/ar]


    اور ان کے بعد ہم خود تمہیں اس زمین میں بسائیں گے۔ یہ ہے ان کے لئے جو میرے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھیں اور میری وعید سے خوفزده رہیں (14)


    تفسیر


    ١٤۔١ یہ مضمون بھی اللہ نے کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے مثلاً، (ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصٓلحون)۔ الانبیا۔ 105ہم نے لکھ دیا زبور میں، نصیحت کے پیچھے کہ آخر زمین کے وارث ہوں گے میرے نیک بندے ' چنانچہ اس کے مطابق اللہ تعالٰی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی، آپ کو با دل نخواستہ مکے سے نکلنا پڑا لیکن چند سالوں بعد ہی آپ فاتحانہ مکے میں داخل ہوئے اور آپ کو نکلنے پر مجبور کرنے والے ظالم مشرکین سر جھکائے، کھڑے آپ کے اشارہ ابرو کے منتظر تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلق عظیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے (لَا تَثْرِیبَ عَلیْکُمْ) کہہ کر سب کو معاف فرما دیا۔صٓلوات اللہ وسلامہ علیہ
    ۱٤۔۲ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ۔(واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی۔ فان الجنۃ ہی الماوی)۔ النازعات۔41 42 جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکے رکھا یقینا جنت اس کا ٹھکانہ ہے۔ ۔(ولمن خاف مقام ربہ جنتن)۔ الرحمن46۔ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔
     
  14. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar]وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ‌ عَنِيدٍ ﴿١٥﴾[/ar]


    اور انہوں نے فیصلہ طلب کیا اور تمام سرکش ضدی لوگ نامراد ہوگئے (15)


    تفسیر

    ١٥۔١ اس کا فاعل ظالم مشرک بھی ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے بالآخر اللہ سے فیصلہ طلب کیا۔ یعنی اگر یہ رسول سچے ہیں تو یا اللہ ہم کو اپنے عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر دے جیسے مشرکین مکہ نے کہا (اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِر عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنْ السَّمَآءِ اَوِائُتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ) سورۃ انفال۔ ٣٢) ' اور جب کہ ان لوگوں نے کہا، اے اللہ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کر دے '۔ جس طرح جنگ بدر کے موقع پر مشرکین مکہ نے اس قسم کی آرزو کی تھی جس کا ذکر اللہ نے (انفال۔ ١٩) میں کیا ہے یا اس کا فاعل رسول ہوں کہ انہوں نے اللہ سے فتح و نصرت کی دعائیں کیں، جنہیں اللہ نے قبول کیا۔
     
  15. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar] مِّن وَرَ‌ائِهِ جَهَنَّمُ وَيُسْقَىٰ مِن مَّاءٍ صَدِيدٍ ﴿١٦﴾[/ar]


    اس کے سامنے دوزخ ہے جہاں وه پیﭗ کا پانی پلایا جائے گا (16)


    تفسیر


    ١٦۔١ صَدِیْد، پیپ اور خون جو جہنمیوں کے گوشت اور ان کی کھالوں سے بہا ہوگا۔ بعض احادیث میں اسے وصاۃ احل النار(مسند احمد جلد 5 صفحہ 171) (جہنمیوں کے جسم سے نچوڑا ہوا) اور بعض احادیث میں ہے یہ صدید اتنا گرم اور کھولتا ہوا ہوگا کہ ان کے منہ کے قریب پہنچتے ہی ان کے چہرے کی کھال جھلس کر گر پڑے گی اور اس کا ایک گھونٹ پیتے ہی ان کے پیٹ کی آنتیں پاخانے کے راستے باہر نکل پڑیں گی۔ اَعَاذَنَا اللہ مِنہُ
     
  16. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar]يَتَجَرَّ‌عُهُ وَلَا يَكَادُ يُسِيغُهُ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍ ۖ وَمِن وَرَ‌ائِهِ عَذَابٌ غَلِيظٌ ﴿١٧﴾[/ar]


    جسے بمشکل گھونٹ گھونٹ پئے گا۔ پھر بھی اسے گلے سے اتار نہ سکے گا اور اسے ہر جگہ سے موت آتی دکھائی دے گی لیکن وه مرنے واﻻ نہیں۔ پھر اس کے پیچھے بھی سخت عذاب ہے (17)

    تفسیر


    ١٧۔١ یعنی انواع و اقسام کے عذاب چکھ چکھ کر وہ موت کی آرزو کرے گا۔ لیکن، موت وہاں کہاں؟ وہاں تو اسی طرح دائمی عذاب ہوگا ۔
     
  17. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar] مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِرَ‌بِّهِمْ ۖ أَعْمَالُهُمْ كَرَ‌مَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّ‌يحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ ۖ لَّا يَقْدِرُ‌ونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَىٰ شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ ﴿١٨﴾[/ar]


    ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اپنے پالنے والے سے کفر کیا، ان کے اعمال مثل اس راکھ کے ہیں جس پر تیز ہوا آندھی والے دن چلے۔ جو بھی انہوں نے کیا اس میں سے کسی چیز پر قادر نہ ہوں گے، یہی دور کی گمراہی ہے (18)

    تفسیر


    ١٨۔١ قیامت والے دن کافروں کے عملوں کا بھی یہی حال ہوگا کہ اس کا کوئی اجر و ثواب انہیں نہیں ملے گا۔
     
  18. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar]أَلَمْ تَرَ‌ أَنَّ اللَّـهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ بِالْحَقِّ ۚ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ ﴿١٩﴾ وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ بِعَزِيزٍ ﴿٢٠﴾[/ar]


    کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اور زمین کو بہترین تدبیر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اگر وه چاہے تو تم سب کو فنا کردے اور نئی مخلوق ﻻئے (19) اللہ پر یہ کام کچھ بھی مشکل نہیں (20)


    تفسیر


    ٢٠۔١ یعنی اگر تم نافرمانیوں سے باز نہ آئے تو اللہ تعالٰی اس پر قادر ہے کہ وہ تمہیں ہلاک کر کے، تمہاری جگہ نئی مخلوق پیدا کر دے۔
    (یہی مضمون اللہ نے سورۃ فاطر 15، 17 سورۃ محمد 38 المعائدہ 54 اور سورۃ نساء 133 میں بھی بیان کیا ہے )
     
  19. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar]وَبَرَ‌زُوا لِلَّـهِ جَمِيعًا فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُ‌وا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ ۚ قَالُوا لَوْ هَدَانَا اللَّـهُ لَهَدَيْنَاكُمْ ۖ سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْ‌نَا مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍ ﴿٢١﴾[/ar]


    سب کے سب اللہ کے سامنے روبرو کھڑے ہوں گے۔ اس وقت کمزور لوگ بڑائی والوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابعدار تھے، تو کیا تم اللہ کے عذابوں میں سے کچھ عذاب ہم سے دور کرسکنے والے ہو؟ وه جواب دیں گے کہ اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم بھی ضرور تمہاری رہنمائی کرتے، اب تو ہم پر بے قراری کرنا اور صبر کرنا دونوں ہی برابر ہے ہمارے لیے کوئی چھٹکارا نہیں (21)

    تفسیر


    ٢١۔١ یعنی سب میدان محشر میں اللہ کے ربرو ہوں گے، کوئی کہیں چھپ نہ سکے گا۔
    ٢١۔٢ بعض کہتے ہیں کہ جہنمی آپس میں کہیں گے کہ جنتیوں کو جنت اس لئے ملی کہ وہ اللہ کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے تھے، آؤ ہم بھی اللہ کی بارگاہ میں آہو زاری کریں چنانچہ وہ روئیں گے اور خوب آہو زاری کریں گے۔ لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، پھر کہیں گے کہ جنتیوں کو جنت ان کے صبر کرنے کی وجہ سے ملی، چلو ہم بھی صبر کرتے ہیں، وہ صبر کا بھرپور مظاہرہ کریں گے، لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا، پس اس وقت کہیں گے ہم صبر کریں یا جزع و فزع، اب چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں۔ یہ ان کی باہمی گفتگو جہنم کے اندر ہوگی۔ قرآن کریم میں اس کو اور بھی کئی جگہ بیان کیا گیا ہے مثلاً سورہ مومن ٤٧۔٤٨ سورہ اعراف ٣٨۔٣٩ سورہ الاحزاب ٦٦۔٦٨۔ اس کے علاوہ آپس میں جھگڑیں گے بھی اور ایک دوسرے پر گمراہ کرنے کا الزام دھریں گے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ جھگڑا میدان محشر میں ہوگا۔ اس کی مذید تفصیل اللہ تعالٰی نے سورہ سبا ٣١۔٣٣ میں بیان فرمائی ہے۔
     
  20. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    [ar] وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ‌ إِنَّ اللَّـهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِ‌خِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِ‌خِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْ‌تُ بِمَا أَشْرَ‌كْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٢٢﴾ [/ar]


    جب اور کام کا فیصلہ کردیا جائے گا تو شیطان کہے گا کہ اللہ نے تو تمہیں سچا وعده دیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدے کیے تھے ان کے خلاف کیا، میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں، ہاں میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری مان لی، پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمہارا فریاد رس اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے، میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے، یقیناً ﻇالموں کے لیے دردناک عذاب ہے (22)


    تفسیر


    ٢٢۔١ یعنی اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر و شرک جہنم میں چلے جائیں گے تو شیطان جہنمیوں سے کہے گا
    ٢٢۔٢ اللہ نے جو وعدے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے کئے تھے کہ نجات میرے پیغمبروں پر ایمان لانے میں ہے۔ وہ حق پر تھے ان کے مقابلے میں میرے وعدے تو سراسر دھوکا اور فریب تھے۔ جس طرح اللہ نے فرمایا يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ ۖ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُ‌ورً‌ا ﴿١٢٠﴾ ' شیطان ان سے وعدے کرتا ہے اور آرزوئیں دلاتا ہے لیکن شیطان کے یہ وعدے محض دھوکا ہیں ' (النساء۔١٢٠)
    ٢٢۔٣ دوسرا یہ کہ میری باتوں میں کوئی دلیل و حجت نہیں ہوتی تھی، نہ میرا کوئی دباؤ ہی تم پر تھا۔
    ٢٢۔٤ ہاں میری دعوت اور پکار تھی، تم نے میری بےدلیل پکار کو مان لیا اور پیغمبروں کی دلیل و حجت سے بھرپور باتوں کو رد کر دیا۔
    ٢٢۔٥ اس لئے قصور سارا تمہارا اپنا ہی ہے تم نے عقل و شعور سے ذرا کام نہ لیا، دلائل واضحہ کو تم نے نظر انداز کر دیا، اور مجرد دعوے کے پیچھے لگ رہے، جس کی پشت پر کوئی دلیل نہیں تھی۔
    ٢٢۔٦ یعنی نہ میں تمہیں عذاب سے نکلوا سکتا ہوں جس میں تم مبتلا ہو اور نہ تم اس قہر و غضب سے مجھے بچا سکتے ہو جو اللہ کی طرف سے مجھ پر ہے۔
    ٢٢۔٧ مجھے اس بات سے بھی انکار ہے کہ میں اللہ کا شریک ہوں، اگر تم مجھے یا کسے اور کو اللہ کا شریک گردانتے رہے تو تمہاری اپنی غلطی اور نادانی تھی، جس اللہ نے ساری کائنات بنائی تھی اور اس کی تدبیر بھی وہی کرتا رہا، بھلا اس کا کوئی شریک کیونکر ہو سکتا تھا۔
    ٢٢۔٨ بعض کہتے ہیں کہ یہ جملہ بھی شیطان ہی کا ہے اور یہ اس کے مذکورہ خطبے کا تتمہ ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ شیطان کا کلام مِنْ قَبْلُ پر ختم ہوگیا، یہ اللہ کا کلام ہے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں