میں اللہ ہی کا شکر ادا کروں گی نہ آپ کا نہ کسی اور کا

عبد الرحمن یحیی نے 'سیرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا' میں ‏مئی 8, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312
    سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ‘ وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں ۔ انہون نے بیان کیا کہ میں اور عائشہ رضی اللہ عنہا بیٹھی ہوئی تھیں کہ ایک انصاری خاتون آئیں اور کہنے لگیں کہ اللہ فلاں فلاں کو تباہ کرے ۔ سیدہ ام رومان رضی اللہ تعالی عنہا نے پوچھاکہ کیا بات ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میرا لڑکا بھی ان لوگوں کے ساتھ شریک ہو گیا ہے ‘ جنہوں نے اس طرح کی بات کی ہے ۔ ام رومان رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ آخر بات کیا ہے ؟ اس پر انہوں نے تہمت لگانے والوں کی باتیں نقل کردیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا ‘ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ باتیں سنیں ہیں ؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہاں ۔ انہوں نے پوچھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ‘ انہوں نے بھی ۔ یہ سنتے ہی وہ غش کھاکر گر پڑیں اور جب ہوش آیا تو جاڑے کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا ۔ میں نے ان پر ان کے کپڑے ڈال دیئے اور اچھی طرح ڈھک دیا ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ انہیں کیا ہوا ہے ؟ میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ ! جاڑے کے ساتھ بخار چڑھ گیا ہے ۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ غالبااس نے اس طوفان کی بات سن لی ہے ۔ ام رومان رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جی ہاں ۔ پھرسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیٹھ کر کہا کہ اللہ کی قسم ! اگر میں قسم کھاؤں کہ میں بے گناہ ہوں تو آپ لوگ میری تصدیق نہیں کریں گے اور اگر کچھ کہوں تب بھی میرا عذر نہیں سنیں گے ۔ میری اور آپ لوگوں کی یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں جیسی کہا وت ہے کہ انہوں نے کہا تھا ” واللہ المستعان علی ما تصفون “ یعنی اللہ ان باتوں پر جو تم بناتے ہو ‘ مدد کرنے والا ہے ۔ ام رومان رضی اللہ عنہا نے کہا ‘ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ تقریر سن کر لوٹ گئے ‘ کچھ جواب نہیں دیا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کی تلافی نازل کی ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگیں بس میں اللہ ہی کا شکر ادا کرتی ہوں نہ آپ کا نہ کسی اور کا
    ایک روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں :
    پس اللہ ا کی قسم ! میری اورلوگوں کی مثال سیدنا یوسف علیہ السلام کے والد جیسی ہے ۔ جب انہوں نے کہا تھا﴾فصبر جمیل واللہ المستعان علی ما تصفون﴿ ( یوسف : ۸۱ ) ( پس صبر جمیل بہتر ہے اور اللہ ہی کی مدددرکار ہے اس بارے میں جو کچھ تم کہہ رہے ہو ) پھر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کرلیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی ۔ اللہ خوب جانتا تھا کہ میں اس معاملہ میں قطعاً بری تھی اور وہ خود میری برا‘ت ظاہر کرے گا ۔ کیونکہ میں واقعی بری تھی لیکن اللہ کی قسم ! مجھے اس کا کوئی وہم وگمان بھی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ قرآن مجید میں میرے معاملے کی صفائی اتارے گا کیونکہ میں اپنے کو اس سے بہت کمتر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملہ میں خود کوئی کلام فرمائے ‘مجھے تو صرف اتنی امید تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی خواب دیکھیں گے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ میری برا‘ت کردےگا لیکن اللہ اکی قسم ! ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس سے اٹھے بھی نہیں تھے اور نہ اور کوئی گھر کا آدمی وہاں سے اٹھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونی شروع ہوئی اور آپ پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو وحی کی شدت میں طاری ہوتی تھی ۔ موتیوں کی طرح پسینے کے قطرے آپ کے چہرے سے گر نے لگے ۔ حالانکہ سردی کا موسم تھا ۔ یہ اس وحی کی وجہ سے تھا جو آپ پر نازل ہورہی تھی ۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر آپ کی وہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ تبسم فرمارہے تھے ۔ سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا وہ یہ تھا ۔ آپ نے فرمایا اے عائشہ( رضی اللہ عنہا )! اللہ نے تمہاری برا‘ت نازل کردی ہے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میری والدہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہوجاؤ ۔ میں نے کہا ‘ نہیں اللہ کی قسم ! میں آپ کے سامنے نہیں کھڑی ہوں گی ۔ میں اللہ عزوجل کے سوا اور کسی کی حمد وثنا نہیں کروں گی ( کہ اسی نے میری برا‘ت نازل کی ہے )
    اے ماں تیری عظمت کو سلام
    (ماہِ تشکر)
     
  2. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    جی ہاں توحید یہی سکھاتی ہے۔
    میری ماں اُم المؤمنین رضی اللہ عنھا نے یہی سبق دیا ہے۔ رضی اللہ عنھا
     
  3. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ خیرا بھائی
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں