گناہوں سے استغفار :

ابو جزاء نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏اکتوبر، 17, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابو جزاء

    ابو جزاء -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏جنوری 11, 2012
    پیغامات:
    597
    گناہوں سے استغفار :​

    آدمی کو اپنے گناہوں سے تائب ہونا چاہئے کیونکہ دشمن کے مسلط ہونے کا سب سے بڑا سبب انسان کے اپنے گناہ ہوتے ہیں۔

    وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۝۳۰ۭ (۴۲:۳۰)
    جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کا کسب وعمل ہے۔

    نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام کو جو اس اُمت کے برگزیدہ ترین افراد کا مجموعہ تھے جنگ اُحد کے موقع پر اس طرح مخاطب کیا گیا ہے:

    اَوَلَمَّآ اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَيْھَا۰ قُلْتُمْ اَنّٰى ہٰذَا۰ۭ قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ۰ۭ
    کیا جب تم کو مصیبت پہنچی بحالیکہ تم اس سے دگنی مصیبت اپنے دشمنوں کو پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ ہیں! یہ مصیبت کہاں سے؟ اے محمد (ﷺ) ان سے صاف کہہ دیں کہ یہ مصیبت تمہارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔

    الغرض انسان کو جو تکلیف بھی آئے وہ اس کے گناہوں کا نتیجہ ہو گا خواہ اس کو اپنے ان گناہوں کا علم ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ جن گناہوں کا انسان کو علم ہوتا ہے ان سے کئی گنا ایسے گناہ ہوتے ہیں جن کا اس کو علم نہیں ہوتا اور وہ ان کو بھول جاتا ہے۔ ایک مشہور دعائے ماثورہ میں ہے:

    اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَیْئًا وَ اَنَا اَعْلَمُ وَاسْتَغْفِرُکَ لَا اَعْلَمُ
    الٰہی! میں تیرے ساتھ اس بات سے پنا ہ مانگتا ہوں کہ میں نے دانستہ تیرے ساتھ کسی کو شریک بنایا ہو اور میں ان گناہوں کی تجھ سے معافی چاہتا ہوں جن کو میں نہیں جانتا۔

    اس لیے انسان کو لازم ہے کہ وہ اپنے ان گناہوں کی بابت بھی معافی اور مغفرت طلب کرے جن کو نہیں جانتا اور جن کی شامت سے اس کو مصائب اور تکالیف پیش آتی ہیں۔

    ایک بزرگ سے منقول ہے کہ کسی نے اس سے سخت کلامی کی اور برا بھلا کہا، وہ بزرگ فوراً اپنے گھر میں داخل ہوا اور دروازہ بند کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کبریائی میں تضرع کی اور گڑگڑایا اور اپنے دانستہ یا نا دانستہ گناہوں کی بابت بخشش طلب کی، تب باہر نکل کر اس شخص سے اس طرح مخاطب ہوا۔ ’’میں نے اپنے گناہوں سے توبہ کر لی ہے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں مجھ پر مسلط فرمایا تھا‘‘۔

    جہاں بھر میں جتنی شر کی قسمیں پائی جاتی وہ بنی نوع انسان کے گناہوں اور ان کے نتائج و اسباب تک محدود ہیں۔ اگر انسان گناہوں سے سلامت رہے تو بالضرور ان کے نتائج سے بھی سلامت رہے گا۔ اس لیے اگر کسی شخص پر دشمن مسلط ہو اور اس پر ظلم و تعدی کرے اور اس کو تکلیف پہنچائے تو اس کی مفید ترین تدبیر یہ ہے کہ وہ سچے دل سے توبہ کرے اور اس کی سعادتمندی اسی میں ہے کہ بجائے اس کے کہ دشمن سے انتقام لینے کی فکر کرے، اپنے گناہوں اور عیوب پر نظر ڈالے، اور ان سے تائب ہو کر اپنے اعمال کی اصلاح میں مشغول ہو، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ خود اس کی حفاظت اور اس کی نصرت فرمائے گا۔
     
  2. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312
    اللہ آپ کو جزائے خیر دے ابو جزاء بھائی
     
  3. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    جزاک اللہ خیرا یا اخی
     
  4. Bilal-Madni

    Bilal-Madni -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2010
    پیغامات:
    2,469
    جزاک اللہ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں