مصری فوج کا مرسی کے حامیوں کے خلاف آپریشن شروع

dani نے 'اسلام اور معاصر دنیا' میں ‏اگست 14, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاک اللہ خیرا ۔
    ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان اور سید سلیمان ندوی پر کفر کے فتوے لگانے والے، زمیندار اور الہلال کے خلاف بائکاٹ کی مہم کے ساتھ حج بیت اللہ کا بائیکاٹ کرنے والی قوم کے متعلق کچھ حقائق :
    مسئلہ حجاز اور مولانا عطاء اللہ حنیف - URDU MAJLIS FORUM
    یہ وہی لوگ ہیں جو یوم انہدام بقیع مناتے ہیں قبو ں کے انہدام پر شور کرتے ہیں اور مزاروں کی خاطر حجِ
    بیت اللہ کا ہی بائکاٹ کر دیتے ہیں ۔ آج انہی کی نسل وہی کچھ کر رہی ہے یہاں تک کہ کعبہ پر حملے کی دھمکی دینے والوں کے ساتھ جا بیٹھی ہے ۔ مولانا ظفر علی خان نے درست لکھا تھا شیعہ اور قبر پرست صوفیوں کا قارورہ ہمیشہ ملتا ہے ۔
    بشار الاسد کی خاطر کعبہ تباہ کر دیں گے لبنانی وزیر - URDU MAJLIS FORUM
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    السلام علیکم!
    ان مراسلات کے حوالے سے ایک الجھن ہے۔ امید ہے غصہ ہوئے بغیر دور کرنے کی کوشش کریں گے!
    حرمین کے حوالے سے سعودی عرب کی حکومت کی خدمات تسلیم۔ لیکن سیاسی معاملات میں امت کے لیے کوئی خاص خدمات تو انہوں نے بھی انجام نہیں دیں۔ مصر میں حالیہ خونریزی میں ان کا موقف غیر جانب دارانہ سمجھا جا سکتا ہے جبکہ سعودی عرب سے ہی بہت سے علمائے کرام نے اس کی مذمت کی ہے۔ حوالہ
    اخوان سے اختلاف اپنی جگہ لیکن فی الحال تو وہ مظلوم ہیں۔ اس لیے اگر کوئی ان کے حق میں آواز اٹھاتا ہے اور سعودی عرب کے غیر جانب دارانہ موقف پر اعتراض کرتا ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ کیا سعودی حکومت بالکل معصوم ہے؟؟ اس کی بے جا حمایت اس لیے فرض ہے کیونکہ وہ حرمین کی خدمت کر رہی ہے؟؟ چاہے اس کے امریکہ سے سیاسی تعلقات بہت مضبوط ہوں اور وہ ہر خطے میں آمریت کی ہی حامی ہو قطع نظر اس کے کہ آمریت کے خلاف کون کھڑا ہے۔۔۔۔؟؟
    مصر کے حوالے سےسعودی حکومت کے حالیہ طرز عمل پر ایک رپورٹ یہاں
     
  3. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    السلام علیکم

    سب سے پہلی بات کہ مظلوم مصری عوام کاظالمانہ قتل عام انتہائی مذموم اور گھناونا فعل ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ اس کے بعد

    بنیادی طور پر آپ کے دو سوالات ہیں۔
    1- سعودی حکومت کا سیاسی کردار اور اس کے امریکہ سے تعلقات
    2-اخوان کی حمایت اور سعودی علماء کے بیانات

    پہلے سوال کا اشارتاً جواب عرض کرتا چلوں کہ سیاسی اعتبار سے سعودی حکومت کا کردار بہت مضبوط ہے۔ اگرچہ یہ ہمیں نظر نہیں آتا۔ بعینہ یہی معاملہ پاکستانی افواج اور آئی ایس آئی کے ساتھ بھی ہے۔ سیکرٹ‌ پاکستان ڈاکیومینٹری دیکھ لیں۔
    اصل قصور وار مغرب کا آلہ کار میڈیا ہے جو بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے اور مسلم ممالک اور سعودی عرب کے درمیان خلیج کو بڑھا رہا ہے۔ اس کے پیچھے ان کی واضح سوچ پوشیدہ ہے جس کی طرف اقبال نے اشارہ کیا تھا۔

    وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
    روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
    فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
    اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو​

    اگر آپ دنیا کے نقشے پر سیاسی حالات کو دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ہر جگہ حاملین کتاب و سنت کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور سعودی مخالف قوتوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے تاکہ شیعہ اور یہود کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملے۔
    اس حوالے سے نوجوانوں کے اذہان میں شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں اور علمائے حرمین سے دوری کی کوشش کی جا رہی ہے۔ الٹے سیدھے بیانات کو علمائے حرمین سے منسوب کیا جا رہا ہے تاکہ عوام اور حکومت کے مابین خلیج بڑھائی جائے جیسا کہ اس وقت پاکستان میں ہو چکا ہے۔ کفار اور رافضی کبھی ہمارے دوست نہیں ہو سکتے۔ اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے لیکن ہر کام کا ایک مناسب وقت اور طریقہ ہوتا ہے۔ دو لفظوں میں بات کروں تو آپ یہ دیکھیں کہ مغربی ممالک نے سعودی عرب کو کتنا ڈیویلپ کیا اور ایران و شام کو کتنی سپورٹ دی ہے؟

    جہاں تک مصری عوام اور اخوان کی حمایت کا تعلق ہے تو اس حوالے سے سعودی عرب کا کردار اور بیان بہت معتدلانہ ہے۔ اپنی ہی فوج سے لڑنے کا فائدہ اغیار کو ہوتا ہے۔ اس وقت اسرائیل میں جس قدر خوشیاں منائی جا رہی ہوں گی ، آپ کی سوچ ہے۔ یہ بات مت بھولیں کہ فوج سے عوام لڑ نہیں سکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی زندگیوں میں کتاب و سنت کی بالا دستی کو جگہ دی جائے اور جب اپنا معاملہ درست ہو تو پھر لوگوں کی اصلاح پر توجہ دی جائے اور صالح معاشرے کے ذریعے ایسے لوگ لائے جائیں کہ جو کتاب و سنت کی بالا دستی کو تسلیم کریں۔ میرے خیال میں‌ یہ لڑائی وہی ہرج ہے جس کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں اشارہ کیا تھا۔
    یہاں ایک سوال بنتا ہے کہ اخوان کی کم و بیش پون صدی کی جدوجہد میں‌ وہ کیوں ایسے لوگ پیدا کرنے میں ناکام رہے، جو فوج اور انتظامی مشینری میں ان کے حمایتی ہوتے۔ جو اخوان کے مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کر دیتے کہ مسلمان کا مسلمان کو قتل کرنا ایک بہت بڑا جرم ہے۔
    میرے خیال میں ایک بنیادی بات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ ہمارے حواری اور دشمن کون ہو سکتے ہیں اور کون ہیں؟
    مجھے سمجھ نہیں آتی کہ سعودی عرب پر ایک عرصہ سے طعن کیا جا رہا ہے اور ایران و روافض کے ساتھ آج بھی بعض مذہبی لوگ تعلقات درست کرنے کو کہتے ہیں۔ یہ بنیاد ہی کمزور ہے تو اس پر کھڑی عمارت ہی کمزور ہو گی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان اتحاد کی بنیاد کتاب و سنت ہو گی لیکن ایران کے ساتھ تعلقات کا مشورہ اور کوششیں مجھے صرف سیاسی بنیاد ہی لگتی ہے۔ آپ تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ سنی اکثریتی علاقے بالخصوص فہم سلف کے پیروکار سکڑتے اور رافضی ناسور پھیلتا نظر آئے گا۔
    اس کے بعد علمائے سلف اور معتدل علماء پر طعن و تشنیع، بھی لوگوں کو فہم و سوچ سے نکال کر جذباتیت کی طرف لے کر جانے کی کوشش ہے، یہ رافضی و یہودی گٹھ جوڑ ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
    سب سے آخری بات۔ کبار علمائے حرمین نے ایسا کوئی فتویٰ نہیں دیا بلکہ انہوں نے اس خون خرابے کو روکنے کی بات کی ہے جو مسلمانوں کے درمیان ہو رہا ہے۔ یہاں مجلس پر ہی شیخ‌ سعود الشریم کی طرف منسوب ایک جھوٹے بیان کا پول کھولا گیا ہے۔ اس لیے براہ کرم اس گھناؤنے میڈیا پراپیگینڈے کو سمجھیں۔ امام احمد ابن حنبل، ابن تیمیہ رحمہما اللہ نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، ماریں کھائیں لیکن صریح غلط عقیدے کے باوجود اپنی ہی مسلمان بھائیوں سے لڑنے پر قائل نہ ہوئے۔ محمد بن قاسم کو دیکھ لیں۔ موسی بن نصیر کو دیکھ لیں۔ چاہتے تو علم بغاوت بلند کر دیتے لیکن جان دے دی۔ عمر بھر ذلیل ہوتے رہے لیکن مسلمانوں میں فساد کا باعث نہ بنے۔

    آخری بات۔ سوچیں کہ اگر آج سعودی عرب میں بغاوت ہو جائے اور وہاں جمہوریت آ جائے تو کیا ہو گا؟
    کیا اخوان کی مدد کے لیے سعودی عرب اپنی فوجیں بھیج دے گا۔ دنیا کے باقی 55 ممالک بشمول پاکستان نے ایسا کیا ہے؟
    نہیں بلکہ بدعتی و رافضی ، شرک و بدعت کے اڈوں کو وہاں دوبارہ آباد کرنے لگیں گے جو کہ اللہ کی زمین پر سب سے بڑا ظلم اور جرم ہے۔ ہم آج تک یہ ہی نہیں‌سمجھ سکے کہ اس دنیا میں سب سے بڑا جرم اور ظلم کون سا ہے؟ اور جمہوری حکومت ہو تو اغیار کو اپنے گماشتے خریدنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس میں‌کوئی شک نہیں‌کہ بادشاہت ، ہمیشہ جمہوریت سے بہتر ہوتی ہے اور مضبوط نظام حکومت بھی۔

    سعودی عرب کا کردار اگر اتنا ہی مذموم ہوتا تو وہ کبھی بھی اخوانی زخمیوں کی طبی امداد کا اعلان نہ کرتا۔ سعودی عرب پر منفی تنقید کا کوئی پہلو ہاتھ سے نہ جانے دینے والے العربیۃ نیوز نے بھی اس کاوش کو تسلیم کیا ہے:‌حوالہ یہاں‌دیکھیں۔ رہ گئی بات مصری فوج کی حمایت کی تو یہ میڈیا کا گھناؤنا پراپیگینڈہ ہے۔ فیس بک پر اردو ٹائمز جدہ کی خبر واضح طور پر موجود ہے جس میں سعودی شاہ نے مصری مظلومین کی کھل کر حمایت کی ہے : حوالہ یہاں دیکھیں۔ مسلمانوں میں فساد اور لڑائی کی ہم میں‌ سے کوئی بھی حمایت نہیں کرتا۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ سازشی میڈیا نے اس بیان کو توڑ مروڑ دیا ہے۔

    رہ گئی بات کہ حکومتوں کا کیا کردار ہوتا ہے تو اس پر پھر کبھی بات کر لیں گے ان شا‌ء‌ اللہ

    مزید حالات حاضرہ پر شیخ رفیق طاہر حفظہ اللہ کا بیان "رمضان اور غلبہء اسلام" سماعت فرمائیں
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
    تاریخ انقلابات عالم کو پڑھنے والوں میں ایک بات معروف ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کی سازش اگر کامیاب ہو جائے تو انقلاب اور ناکام ہو جائے تو بغاوت ۔ تلخ زمینی حقیقت یہ ہے کہ مصر میں بائے ہک آر بائے کروک فوجی انقلاب آ چکا ہے ۔ کتنے ناجائز ذرائع سے آیا ہے کیا کیا کر کے آیا ہے یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اسلامی انقلاب کے رومانٹسزم میں مبتلا لوگوں کو صدماتی کیفیت کے سبب یہ بات تسلیم کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے ۔ ایسے میں جنرل سیسی کو برا بھلا کہنا بنتا ہے ، قنوت نازلہ پڑھ کر بددعا کرنا بنتا ہے لیکن جس طرح کچھ مذہبی سیاسی لوگوں نے یکایک توپوں کا رخ سعودی عرب کی جانب موڑا ہے وہ مضحکہ خیز ہے اور" گرا گدھے سے غصہ کمہار پر "کے مصداق ہے ۔ ​
    جب کسی ملک میں اقتدار کے حصول کی جنگ ہو رہی ہوتی ہے تو پڑوسی ممالک خاموشی سے انتظار کرتے ہیں کہ کون جیتتا ہے ۔ ایک مستحکم حکومت بن جانے کے بعد دو راستے ہیں :
    ۱- اسے باضابطہ تسلیم کر کے اس سے پڑوسی ریاست کی حیثیت سے تعلقات جاری رکھے جاتے ہیں ۔یہ دوست ممالک کے ساتھ ہوتا ہے ۔
    ۲- یا پھر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم فلاں ریاست کا مقاطعہ یا بائیکاٹ کرتے ہیں ۔ مقاطعہ کا مطلب ہے اب اس ملک سے آپ کے تجارتی و سفارتی تعلقات نہیں رہے ۔ یہ اس کے عوام سے بھی نفرت کا اظہار ہوتا ہے ۔ یہ دشمن ممالک کے لیے ہے ۔
    دوست ممالک میں عموما پہلا راستہ اختیار کیا جاتا ہے تا کہ ریاست میں ناپسندیدہ حکومت کے باوجود عوام سے تعلقات برقرا ر رہیں ، تجارت اور سفارت جاری رہے ۔یہ کام ہم نے افغانستان میں کیا تھا جونہی طالبان نے اہم شہروں پر اپنا قبضہ دیر پا ثابت کر دیا ہم نے انہیں افغانستان کی حکومت مان لیا ۔ بعد میں امریکا نے ان کی حکومت کو ختم کر دیا بھلے جائز یا ناجائز طریقے سے تو ہم نے کرزئی ریجیم کو افغانستان کی حکومت مان لیا گویا افغانستان ریاست سے ہمارے تعلقات جاری رہے خواہ کرزئی ریجیم جیسی پاکستان کے لیے ناپسندیدہ حکومت کے ذریعے ۔ کیوں کہ افغانی اور پاکستانی عوام کے سرحد کے دونوں اطراف گہرے تعلقات ہیں، افغانی عوام یا افغان ریاست کو اکیلا چھوڑا نہیں جا سکتا تھا ۔ نہ ہی پاکستان ضدی بچہ بن کر رو سکتا تھا کہ کھیلیں گے تو طالبان کے ساتھ ورنہ نہیں ۔ پاکستان میں پرویز مشرف نے نوازشریف کی حکومت کو کیسے بھی سہی چلتا کیا اور ہم نے پورا ایک عشرہ اس کو ظالم ہی سہی و حکمران مان کر اس کی رعایا بن کر ریاستِ پاکستان سے وفادار رہ کر زندگی گزاری ۔مشرف نے پاکستان میں بھی ایمرجنسی کا نفاذ کیا تھا ، عوامی مقامات پر اجتماعات پر پابندی تھی ۔ اگر ہم اس کی خلاف ورزی پر تل جاتے ، حکومت پاکستان کے احکامات ماننے سے انکار کر دیتے تو ریاست پاکستان کہاں کھڑی ہوتی ؟ یاد ہے ہماری حکومت پر عالمی اداروں نے جمہوریت کی مقدس گائے کی وجہ سے پریشر ڈال رکھا تھا تو دوسری طرف انڈیا اپنی فوجیں کہاں تک لے آیا تھا ؟ مصرپر بھی اسرائیل نظر جمائے بیٹھا ہے ۔ لال مسجد کے واقعے میں ہم سب گھروں میں کیوں بیٹھ گئے تھے ؟ کیوں کہ اپنے حکمران کے خلاف مسلح جدوجہد غلط ہے ۔ ریاست کمزور ہو گی ، دشمن مضبوط ہو گا اور نہیں تو خوش ہو گا ۔ یہی تو ہے شماتت اعداء جس سے ہم پناہ مانگتے ہیں دعا میں ؟ مسلم ممالک نے اس سارے عرصے کے دوران ریاست ِ پاکستان سے سفارتی تعلقات بحال رکھے ۔ اسی سفارت اور بیچ بچاو کے سبب مشرف اور نواز شریف میں سے کوئی بھی زندگی سے محروم ہوئے بغیر آج تک محض سیاسی مخالف ہیں ۔
    دوسرا راستہ وہ ہے جو ہم نے اسرائیل کے ساتھ اختیار کیا ۔ا س نے فلسطین کے ایک علاقے پر ناجائز قبضہ کر کے مستحکم ریاست بھی بنا لی لیکن ہم نے اسے ملک ہی تسلیم نہیں کیا ، نہ ہی اس سے سفارتی تعلقات بنائے کیوں کہ ریاست اسرائیل اور اس کے عوام سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ۔ ریاست بھی ہماری دشمن ، عوام سے بھی ہماری دشمنی ۔ ​
    شاہ عبداللہ کے جس بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے کہ جی انہوں نے ملٹری حکومت کو تسلیم کر لیا انہوں ے جنرل سیسی کی حمایت کر دی ۔ یہ سب جھوٹ ہے ۔ اس بیان کا عربی متن میں پہلے ہی پیش کر چکی ہوں ، اس میں ملٹری حکومت یا جنرل سیسی کا نام ہی نہیں ۔ انہوں نے کہا ہم مصر کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مطلب یہ کہ ہم ریاست ِ مصر سے تعلقات جاری رکھیں گے ۔ یہ وہی بات ہے جو میں اوپر لکھ چکی ہوں کہ دوست ممالک میں مستحکم حکومت بنتے ہی اسے ماننا ہوتا ہے ۔ اس بیان کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اسی روز سلامتی کونسل میں امریکا برطانیہ اور فرانس نے "مقدس جمہوریت" کا ایشو بنا کر مصر کے خلاف سخت بیانات دئیے تھے اور یورپی یونین کی ترجمان کا بیان آیا تھا کہ مصر پر جمہوری حکومت کو گرانے کی وجہ سے پابندیاں لگائی جائیں گی ۔ کیسی پابندیاں ؟ کیا یہ سب مصری عوام کے معصوم خون کے لیے بے چین تھے ، جی نہیں۔ ان کا ہم سے محبت کا کوئی رشتہ نہیں ۔ یہ عالمی چوروں اور ٹھگوں کا تحاد موقع سے فائدہ اٹھا کر کہہ رہا تھا ٹریڈ بند ہو گی جس مال کی قیمت مصر ادا کر چکا ہو گا مال کی سپلائی روک لی جائے گی ، یہی کام ہمارے ساتھ ہو چکا ہے جب ہمارے ایف سولہ جہاز قیمت ادا ہونے کے باوجود امریکی ہوائی اڈوں کے ہینگروں پر سالوں کھڑے رہے اور ہمیں نہیں دئیے گئے تھے ۔جب ٹیکنالوجی پرانی ہو چکی تو ایسے دئیے کہ ان مہذب چوروں ٹھگوں نے ان ہینگروں کا کرایہ بھی ہم سے ہی وصول کیا ۔ یہی عراق کے ساتھ ہو ا جب اس کی امداد بند کی گئی اور وہاں جان بچانے والی دواوں تک کی قلت ہو گئی ۔ سعودی شاہ عبداللہ نے مصر کے حق میں بروقت بیان دے کر اشاردہ دیا کہ مصر کو عرب مسلم ممالک میں سے کم از کم سعودی عرب اکیلا نہیں چھوڑے گا ۔ ساتھ ہی اس بیان میں واضح لفظوں میں کہا گیا کہ مصر کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت قبول نہیں کی جائے گی ۔ یہ کس کے حق میں بیان تھا ؟ اخوان کے یا جنرل سیسی کے ؟ ارے بھئی یہ بیان اخوان اور جنرل سیسی دونوں کے وطن مصر کے حق میں تھا کہ مصر کو بحیثیت ریاست عراق جیساتر نوالہ نہ سمجھا جائے مصر سفارتی لحاظ سے اکیلا نہیں ہے ۔ اس بیان کا ہی نتیجہ ہے کہ بعد میں یورپی یونین کی ترجمان کا ایک اور منمناتا بیان اگلے ہی روز آیا کہ یورپی یونین کے اجلاس میں مصر ایجنڈے پر ہو گا تو سہی لیکن کچھ زیادہ دباو نہیں ڈالا جا سکے گا ۔ اب بتائیے سعودی حکومت امریکی اور یورپی مفادات کی راہ میں دیوار بنی ہے یا نہیں ؟ کیا ہمیں زمرد خان جیسے بے وقوف ہیرو ہی پسند ہیں جو بس مکا لہرا دیں بعد میں جو نتیجہ نکلے ؟ سنجیدگی اور متانت بھی کوئی چیز ہے جو بدقسمتی سے مذہبی سیاسی جماعتوں کے رد عمل میں مفقود ہے ۔ چھوٹی چھوٹی جماعتوں جمعیتوں کے گھٹیا امیر، ناظم یا ناظمات ہونا الگ بات ہے اور عالمی سیاست سمجھنا الگ بات ۔ یہ تو دوسری جماعت کے اخبار اور جرائد کا مطالعہ کرنا حرام سمجھتے ہیں عالمی سیاست کی چال بازیاں خاک سمجھیں گے ۔ جب مشرف حکومت آئی تھی تو ہم پر بھی پابندیاں لگی تھیں وہ صرف مشرف پر نہیں تھیں ریاست پاکستان پر تھیں نتیجتا ہماری برآمدات سے لے کر معیشت اور دفاع تک ہر چیز متاثر ہوئی تھی ۔ تب بھی یہی سعودی عرب آپ کے ملک کی امداد کرتا رہا تھا کیوں کہ سعودی عرب مسلم لیگ ن یا پی پی پی کا ووٹر نہیں ہے ۔ اس کی محبت پاکستانی عوام کے ساتھ ہے ۔ بڑی قوتوں کا یہ کھیل پرانا ہے کہ پہلے ایک آمر کو شدت پسندی کا ہوا کھڑا کر کے لایا جائَے پھر جمہوریت کے نام پرپابندیاں لگا کر آمر کو اپنی بات ماننے پر مجبور کیا جائے اور اس کے ملک کو کھسوٹ کھایا جائے ۔ یہی ممالک جو اب جمہوریت کی خاطر چیخ کر حلق میں خراش ڈال رہے ہیں مرسی کی حکومت کو شدت پسند کی حکومت بنا کر پیش کر رہے تھے اور اس پر دباو ڈال رہے تھے ۔ یہی لوگ اخوان المسلمین کے خلاف ہر گھٹیا پراپیگنڈے میں ملوث ہیں ۔ جب ہم اخوان المسلمین کےخلاف ان کے پراپیگنڈے کو نہیں مانتے تو اب سعودی عرب کے خلاف ان کی نفرت انگیزی کو کیوں برداشت کریں ۔ خلاصہ یہ کہ یہ لوگ ہمارے ماموں زاد نہیں ۔ یہ ہر حال میں اپنا کھیل کھیلتے ہیں ایسے میں مصری عوام اور یاست کو ان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ اسی لیے عرب ممالک کا ایک گروپ فورا نئی حکومت کو تسلیم کر کے سفارتی تعلقات جاری رکھے ہوئے ہے ۔ باقی مسلم ممالک بھی آمریت پر لعن طعن کے بعد جلد یہی کریں گے کیوں کہ یہ سب مصری ریاست کے ساتھ ہیں تو دین اور عقیدے کے رشتے کے سبب ہیں ۔ جنرل سیسی ان میں سے کسی کا پھوپھی زاد نہیں ہے لیکن کم از کم وہ مصری ہی ہے ۔ مصر کی حکومت کیسی ہے یہ مصریوں کا اپنا مسئلہ ہے ۔ پاکستان نے بھی آمر کے مسئلے کا حل خود نکال لیا ہے ۔ مصر بھی نکال لے گا ۔ ​
    رہیں سعودی عرب کی ملی خدمات تو یہی بہت ہے کہ سعودی حکمران خاندان نے مرسی جیسا ایک سالہ ڈھلمل اسلامی انقلاب لانے کی بجائے جہاد کے زور پر سرزمین حجاز کو لٹیروں سے پاک کیا اور حج کے راستے سارے عالم اسلام کے لیے کھول دئیے ۔ اور آج تک وہ پاکستان سے حجم میں آدھی ہونے کے باوجود اتنی مضبوط ریاست ہے کہ پاکستان اور مصر جیسے اپنے سے کئی گنا بڑے مسلم ملکوں ہر مشکل میں امداد یہاں سے ہی پہنچتی ہے ۔افریقہ میں قحط سالی اور دعوت اسلام سے سارا عالم اسلام نظریں چرائے بیٹھا رہا سعودی عرب اس محاذ پر ڈٹا رہا ۔
    ذرا نقشے پر اپنی ایٹمی ریاست پاکستان او ر عظیم جمہوریہ مصر کا جثہ دیکھیں، جغرافیائی اور معدنی نعمتیں دیکھیں اور پھر سعودی عرب کو دیکھیں ۔ ان کی آبادیوں کا موازنہ کریں اور ان کا ریاستی استحکام دیکھیں ۔ پھر سوچیں یہ کس کی سیاسی بصیرت ہے کہ یہ اتنا سا ملک اتنا کچھ کر پا رہا ہے ؟صر ف تیل تیل کا شور کرنا آسان ہے آپ آزادی کے دو عشروں بعد ہی آدھا ملک گنوا بیٹھے ، آپ کہنے کو ایٹمی ریاست ہیں لیکن بلوچستان میں معدنی خزانوں کا علم ہوا نہیں اور بلوچستان آپ کے قابو سے نکل رہا ہے وہ اتنے عرصے سے اپنے ملک کا جغرافیہ، پیٹرول، حرمین اور سیاست سنبھال کر بیٹھے ہیں ، اور باہر کے بھوکے ننگوں کو بھی امداد بھیجتے ہیں جو کھا پی کر انہی پر انگلیاں اٹھاتے ہیں ۔
    سعودیہ کی یہ ملی خدمت کم ہے کہ وہاں اب تک کسی سیاسی بحران میں آپ کو جا کر ثالثی اور بیچ بچاو نہیں کروانا پڑا اور باقی ملت اسلامیہ میں جس ملک کی سیاست کی سوئی پھنستی ہے یہی سعودیہ آڑے وقت میں کام آتا ہے ۔ پاکستان کے کتنے سیاسی بحران اس نے حل کروائے ہیں ، ایٹمی دھماکوں کے بعد جب ساری دنیا آپ پر غرا رہی تھی تو کس ملک نے آپ کو امداد دی تھی ؟
    سعودیہ کی یہ ملی خدمت کم ہے کہ ہر سال باقاعدگی سے حج ہو رہا ہے کسی سال یہ سننے میں نہیں آیا کہ اخوان المسلمین کی ریلی کی وجہ سے حج کے راستے بند ہیں ؟
    سعودیہ کی یہ ملی خدمت کم ہے کہ ہر مسلک ہر اسلامی ملک کے لیے حج کی اجازت ہے ۔ ہر سال حج سے پہلے لوگ افواہیں پھیلاتے ہیں ، دھمکیاں دیتے ہیں اور سعودیہ اسی ملک اور اسی مسلک کے لوگوں پوری سہولیات کے ساتھ حج کرنے دیتا ہے ۔
    رابطۃ العالم الاسلامی اور موتمر جیسے ادارے کس کی وجہ سے فعال ہیں ؟
    ساری اسلامی دنیا کے اشاعتی ادارے قرآن کے نسخے قیمتا بیچتے ہیں ۔ ان میں کس ملک کو قرآن مجید کا شایان شان نسخہ چھاپ کر مفت تقسیم کرنے کی توفیق ہوئی ؟ مجمع الملک فہد کا قرآن کمپلیکس صرف ایک ادارہ اٹھا کر دیکھ لیں ساری دنیا کی زبانوں میں قرآن کا پیغام مفت تقسیم ہو رہا ہے ۔
    جب انٹرنیشنل پریس اخوان اور مصری اسلامی جماعتوں کے متعلق زہریلا پراپیگنڈا کرتا ہے تو بھی ہمیں تکلیف ہوتی ہے لیکن جب اخوان کا اندھا حامی اردو پریس سعودی عرب کے متعلق ہر مغربی پراپیگنڈے کو من و عن اچھالتا ہے تو تب بھی افسوس ہوتا ہے ۔ میں نے کسی تاریخ دان کا قول پڑھا تھا کہ تاریخی حقائق کو توڑا مروڑا جا سکتا ہے بدلا نہیں جا سکتا ۔ آج یا کل مذہبی سیاسی جماعتوں کی کذب بیانیوں کا پول ضرور کھلے گا ۔ اس وقت ان کے ورکر کو زیادہ دکھ ہو گا کہ ان کی قیادت نے انہیں اندھیرے میں رکھا ۔ سچائی میں ہی عافیت ہے ۔
    یہی مذہبی سیاسی جماعتیں جو آج شاہ عبداللہ کے متعلق بلا سبب زہر اگل رہی ہیں یہ بعثی صدام کو ہیرو بنا کر پیش کر چکی ہیں ، معمر قذافی جیسا متعصب فاطمی رافضی جو دنیا میں فاطمی ریاست کو زندہ کرنے کا خواب دیکھتا مر گیا وہ ان کا ہیرو ہوتا تھا ۔ ان کے اسلامی اخبار اور رسالے عمران خان کی بیوی کو باوجود اعلان اسلام کے یہودن کہتے تھے۔ اسی عمران خان کے وہ وہ سکینڈل چھاپتے تھے کہ ہم نے ایسی اسلامی صحافت پر پیسے ضائع کرنا بند کر دئیے آج وہی عمران خان ان کا اتحادی ہے ۔ مجھے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی تاریخ کے کسی موڑ پر سیاسی بلوغت کا ثبوت نہیں دیا ، یہ وہ جماعتیں ہیں جن میں آمریت اور جہالت شروع سے موجود ہےجب ان میں شامل کچھ علمائے کرام نے ان کو اپنے سیاسی موقف پر نظر ثانی کی تجویز دی تو ان کو توہین آمیز انداز میں خاموش کرایا گیا آخر کار وہ اصحاب علم اس جماعت سے نکل گئے اور اس پرنعیم صدیقی جیسے نیم خواندہ ، قاضی حسین احمد اور لیاقت بلوچ جیسے سیاسی شور و غل نعرے بازی کے شوقین چھا گئے ۔ آج تک یہ اہل علم کی اسی بے ادبی کی نحوست میں جکڑی ہیں ۔ اس وقت بھی یہ مصری صورت حال کے متعلق بالکل بچگانہ موقف پر اڑے ہوئے ہیں ، اسلام کسی صورت اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ نہتی عورتیں اور بچے لے کر ایک مسلح فوج کے سامنے سڑکوں پر نکلا جائے ۔ بے پردہ عورتیں سڑکوں پر احتجاج کو نکلیں اور ان کی بے حرمتی ہو۔مغربی پریس ہر ایسی تصویر اور زیادہ نمایاں کر کے چھاپ رہا ہے جس میں کسی سکارف والی خاتون کی تذلیل ہو ۔ مصری فوج گھروں میں گھس کر ان کو باہر نہیں لائی ۔یہ "اسلامی قیادت" کی کال پر سڑک پر نکلیں ۔ ہر مسلمان کا دل جل رہا ہے یہ سب دیکھ کر لیکن ان کے نزدیک یہ اسلامی انقلاب کی خاطر دی گئی قربانیاں ہیں ۔ یہ قربانیاں پی پی پی یا طاہرالقادری کی فی میل ورکرز سڑکوں پر دیں تو وہ بے حیا اور یہ اسلامی انقلاب کے رکھوالے ؟ یہ کون سا اسلام ہے اور یہی نہیں ان کا حامی پریس امام کعبہ اور شاہ عبداللہ کے بیانات میں اپنی مرضی کی تحریف کر کے بدترین بددیانتی کے مرتکب ہو رہا ہے ، جس غصے کا رخ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی جانب ہونا چاہیے اسے سرزمین حجاز اورحرم کی جانب موڑ کر کون سی ملی خدمت انجام دی جا رہی ہے ؟
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  5. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    قاضی صاحب کے بارے میں تو جماعت اسلامی کے احباب بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ بہت جذباتی تھے
     
  6. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    یہ متن ہے اصل شاہ عبداللہ کے اصل پیغام کا ۔ میرا چیلنج ہے اس میں سے کوئی وہ الفاظ نکال کر دکھائے جو شاہ سے منسوب کیے جا رہے ہیں ۔آپ کسی بھی غیر جانب دار سائٹ پر صرف متن کا ترجمہ ڈھونڈ کر دیکھیں ۔ اس کی پہلی سطر میں ہی مصر کے حالات پر شدید دکھ کا اظہار ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ حالات صرف مصر کے دشمنوں کو خوش کر رہے ہیں اور مصر اور مصری قوم سے محبت کرنے والوں کو دکھ پہنچا رہے ہیں ۔
     
  7. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    جزاک اللہ خیرا
    ناسازی طبع کے باوجود آپ لوگوں نے میرے سوالات کا جس تحمل سے جواب دیا اس کے لیے بے حد مشکور ہوں۔
    ایک وضاحت: سوالات طالبعلم کی حیثیت سے تھے نہ کے کسی مذہبی سیاسی جماعت کے ترجمان کے طور پر۔
    ان جوابات کی روشنی میں مطالعہ پر مزید سوالات ان شاء اللہ!
     
  8. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    وایاک عفراء یہ ایک عمومی تبصرہ ہے حالات پر،یہ خاص طور پر آپ کو مخاطب کر کے کہی گئی باتیں نہیں ہیں ، مجھے بھی کچھ چیزوں کے بارے میں لکھنا ہے ۔ سوالات اٹھانا اور ان پر بات کرنا بہت اچھی بات ہے ۔
     
  9. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    مصر کی بگڑتی ہوئی صورتحال ۔ نوائے وقت کا اداریہ
    مصر میں اخوان المسلمون کے سربراہ محمد بدیع گرفتار۔ مستعفی ہونیوالے سابق نائب صدر البرادعی پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ۔ اخوان نے روپوش رہنما محمود عزت کو عبوری سربراہ مقرر کر دیا۔ حکومت کی طرف سے مرنے والے 25 پولیس اہلکاروں کے سوگ میں 3 روز تک یوم سیاہ منانے کا اعلان۔ مصر کی سیاسی صورتحال فوج کی طرف سے منتخب صدر مرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد جس طرح ابتری کی طرف گامزن ہے اس سے مشرق وسطیٰ کے ممالک ہی نہیں پوری دنیا پریشان ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع املاک کی بربادی، سیاسی جماعتوں اور فوج کے درمیان خلیج سے مصری عوام بھی تقسیم ہو گئے ہیں۔ مصری فوجی حکومت اور اخوان المسلمون میں خونریز تصادم کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ مصر کی فوجی حکومت نے اخوان کے سربراہ محمد بدیع کو گزشتہ روز گرفتار کر لیا جس نے جلتی پہ تیل کا کام کیا ہے اور اخوان نے مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے جس سے مزید خون خرابے کا خطرہ ہے۔ ان حالات میں کسی وجہ سے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں مصر پر تجارتی پابندیاں لگانے پر غور ہو رہا ہے۔ امریکہ نے بھی مصر کی فوجی امداد ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر کی فوجی حکومت عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو رہی ہے تاہم سعودی عرب کی طرف سے مصر کو امداد دینے کے اعلان سے اس کی ڈھارس بندھی ہے۔ ترکی نے اس فوجی بغاوت کو اسرائیل کی کارستانی قرار دیا ہے۔ یہ تمام حالات و واقعات جس گھمبیر صورتحال کی عکاسی کر رہے ہیں اس میں مصر کی سیاسی جماعتوں اور فوجی حکومت پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مصر کو اس بدترین صورتحال سے نکالنے کے اقدامات کریں۔اخوان کی قیادت اور دیگر سیاسی جماعتیں اگر مل کر موجودہ حالات سے نکلنے کیلئے فوجی حکمرانوں کے ساتھ بات چیت کی راہ نکالیں تو یہ عمل مصر اور اس کے عوام کو ان حالات سے نکالنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
    مصر کی بگڑتی ہوئی صورتحال
     
  10. Ishauq

    Ishauq -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 2, 2012
    پیغامات:
    9,612
    کاش که ایسا هی هو
     
  11. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    آپ کی اس پوری تحریر کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے کہ پابندیوں کا مطلب کیا ہے اور مصری عوام پر اس کا کیا اثر ہو گا۔
     
  12. ابن عادل

    ابن عادل -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 17, 2008
    پیغامات:
    79
    خون پر سب کو دکھ ہے کہ وہ مسلم کا ہے ۔ افسوس اس پر ہے کہ مرنے والے کو کہا جارہا ہے تو ہی دہشت گرد ہے ۔
    اوپر ایک طویل مراسلہ تحریر ہے ۔ جس میں جذباتی انداز مذہبی سیاسی جماعتوں پر اس ساری صورتحال کا غصہ نکالا جارہا ہے ۔ کیا کیا جائے ایک طرف خون مسلم پر افسوس ہے اور ایک طرف اپنوں کے ہی نشتر ۔
    امریکہ سے کسی کو کوئی ہمدردی نہیں سب جانتے ہیں کہ اس نے لیپا پوتی کے لیے کچھ بیانات دے دیے ہیں ۔ سوال اپنوں کا ہے ۔ جن پہ تکیہ تا وہی پتے ہوا دیتے رہے ۔
    سعودی عرب مسلمانوں کے نزدیک قابل احترام تھا ۔ اور اس کے لائق تعریف کام لائق تعریف ہی رہیں گے ۔ اس قضیے میں ان خدمات کو گھسیٹنا نامناسب ہے ۔ لیکن کیا کسی کی خدمات کا مطلب یہ لیا جائے کہ اب غلطیوں سے پاک ہوگیا ۔ یا اس سے کوئی خطا نہیں ہوسکتی ۔ یقینا حرم کے زائرین ان کی خدمات سے مستفید ہوتے ہیں اور سعودی عرب کے لیے رطب اللسان بھی ۔ ہم بھی وہیں کے مصحف سے مستفید ہوتے ہیں ۔
    یہ بات کہ مصر کے ایشو میں آل سعود سے بہت بڑی غلطی ہوئی ماننے میں کیا حرج ہے ۔۔۔! اس کے اسباب کیا ہیں وہ بھی اہل عقل خوب جانتے ہیں ۔
    اول یہ کہ مرسی کی حکومت کے انہدام پر مظاہرے ۔۔ مرسی کے لیے نہیں بلکہ اپنے حق رائے دہی کے غصب ہونے پر تھے ۔ اخوان نہ کہیں بلکہ مرسی یا جمہوریت کے حامی کہہ لیں ۔ میڈیا کا کمال یہ ہے کہ وہ اسے اخوان کے مظاہرے باور کرا رہا ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کی قیادت ان کے ہاتھ میں ہے ۔ یاد رہے کہ اخوان پچھلے اسی سالوں سے قربانی دیتی رہی ہے ۔ لیکن اس نے اس طرح کا ردعمل کبھی بھی ظاہر نہیں کیا ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اخوان کا مسئلہ ہوتا تو بات اتنی بڑھتی ہی نہ ۔ بات تو بڑھی ہی اس لیے کہ ایک قوم کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ۔ اور وہ باہر نکل پڑی ۔یہ مظاہرے اخوان کے حامیوں کے نہیں بلکہ عوام الناس کے ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت کی رائے کو نظر انداز کردینا کیسا ہے ۔؟ تاریخ بتاتی ہے کہ آپ فوج کو شکست دے سکتے ہیں لیکن قوم کو نہیں۔ مرسی میں‌خامیاں ہوں گی انہیں کچھ عرصے برداشت کرلیتے وہ ناکام ہوجاتے اور اس طرح اخوان اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاتی ۔
    مذہبی سیاسی جماعتیں بھی کوئی معصوم نہیں ہیں ۔ ان سے بھی غلطیاں نہیں بلکہ مہا غلطیاں ہوتی ہیں ۔ لیکن ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیے ۔ کیا آپ کا دل نہیں چاہتا کہ یہاں پر بھی سعودی عرب کی طرح اسلامی سزاوں کا نفاذ ہو اور اسلام کی دوسری خوبیوں سے بھی لوگ مستفید ہوں ۔ اب یہ ہوگا کیسے ؟ یا تو تبلیغی جماعت کے نظریے کے مطابق سب نیک ہوجائیں ۔ یا پھر آل سعود کی طرح جہاد کیا جائے ۔ یا پھر وہ راستہ اختیار کیا جائے جس میں تبلیغ بھی ہو اور جدوجہد بھی اور مسلم کا خون بھی نہیں بہے ۔ اور وہ راستہ سیاست کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے ۔ ؟
    اور کس سیاسی جماعت سے غلطیاں نہیں ہوئی ۔ لیکن مصر کے واقعے نے سوائے اسامہ بن لادن کے نظریے فروغ کے اور کچھ نہیں کیا ۔ کیا آپ کو یہ منظور ہے ؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلح جدوجہد کی بالواسطہ مدد کس نے کی ؟
    ہم یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلامی ممالک کی فوج استعمار کے آلہ کار کے سوا کچھ نہیں ۔ اور اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ جب کبھی ان کی قوم سراٹھائے وہ اسے کچل دے اور استعمار کو آنے کی ضرورت پیش نہ آئے ۔ الجزائر ، مصر وغیرہ میں یہی کچھ ہوا ۔ آپ اگر فوج کی حمایت کرتے ہیں تو کسی حمایت کرتے ہیں ۔
    ایک صاحب ہوش اور عقل سلیم کا حامل شخص ان تمام حالات سے بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ دنیا تیزی سے تبدیل ہورہی ہے ۔ اور اس تبدیلی کو روکنا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا ۔ شوشلزم ناکام ہوا اور کیپیتل ازم نے دنیا کو ایک مرتبہ پھر تباہی ہے دورانیے پر کھڑا کردیا ہے ۔ پہلے تو شوشلزم کی آڑ مین اس کی بچت ہو گئی تھی لیکن اب دشمن کون ہے ۔ ؟ اسلام ۔
    لیکن اس سے نمٹنا مشکل اس لیے ہے کہ اس کا کوئی مرکز نہیں ۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ سیاسی اسلام ، صوفی اسلام ، تبلیغی اسلام وغیرہ کس کے دیے گئے عنوانات ہیں ۔سوال یہ ہے میں مسلم ہوں تو میرا وزن کس پڑے میں ہے ۔ اور اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک پاکستانی یا ایسے ملک کے شہری کی حیثیت سے جہاں مسلمانوں کی صورت مین طاغوت حکمران ہیں میں غلبہ اسلام کی اس عالمگیر تحریک مین کس طرح حصہ ڈال سکتاہوں ۔
    کہا گیا کہ خواتین کو سڑکوں پر لانا کہاں کی اسلامیت ہے ۔ میں عرض کروں گا کہ یہ اخوان کا مسئلہ نہیں عوام کا مسئلہ تھا ۔ عوام نکلے نوجوان ، بوڑھے ، باپردہ خواتین ، اسکارف والی اور بلاحجاب بھی ۔ الزامی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ مرسی مخالفین کے مظاہرون میں کتنی عورتوں کی آبرویزی ہوئی ۔گویا ثابت ہوگیا تھا کہ وہ مظاہرین نہیں کرائے کے غنڈے ہیں ۔ لیکن سعودی عرب نے ان کا ساتھ دینا گورا کیا نہ کہ ان باحجاب خواتین کا ۔
    آپ سیاسی اسلام ، مذہبی سیاسی تنظیموں ، ان کے قائدین ، جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام ، اخوان المسلمون ، جسٹس اینڈ ڈپویلپمینٹ اور دنیا بھی دیگر اسلام پسند سیاسی جماعتوں کو کوسیں ، برابھلاکہیں ، ان کے فیصلوں اورطریقہ کار پر دوحرف بھیجیں اورساتھ ہی میرے بھی چار حرف شامل کرلیں ۔ لیکن ازراہ کرم یہ بھی مان لیں کہ جس طرح ان سے غلطیاں ہوتی ہیں سعودی عرب سے بھی ہوئی ہے ۔ ہم دعا گوہیں اللہ مسلمانوں میں یکجہتی پیدا فرمائے ۔
    پس نوشت :
    بعض دوستوں نے اسی بحث کی آڑ میں حسن البناء اور سید قطب کو بھی لتاڑ دیا ۔ اور یہاں تک کہا گیا کہ وہ حکومت کی لالچ میں تھے ۔ حسن البناء ، سید قطب ، عبدالقادر عودہ اور ان جیسے بیسیوں ہیں جن کی تحقیق وعلم کو ایک دنیا نے تسلیم کیا آج تک وہ ماخذ ہیں ۔ اور انہوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی ۔ وہ چاہتے تو ان کےلیے کسی منصب کا حصول مشکل نہ تھا ۔
    میں شہید کہتے سے اس لیے اختراز کررہا ہوں کہ بعض دوستوں نے انہیں بے نظیر بھٹو شہید سے جاملایا ہے ۔ وہ شہید ہیں یا نہیں رب جانتا ہے ۔ لیکن ان کے خدمات سے کوئی ذی علم انکار نہیں کرسکتا ۔
     
  13. ابن عادل

    ابن عادل -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 17, 2008
    پیغامات:
    79
    مغربی ممالک نے مصر کی امداد روکی توعرب ممالک مدد کرینگے، سعودی عرب




    Print Version August 19, 2013 - Updated 2120 PKT


    ریاض…سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل نے کہا ہے کہ مغربی ممالک کی جانب سے مصر کی امداد روکے جانے کی صورت میں عرب ممالک مصر کی مدد کریں گے۔سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفیصل نے فرانس سے واپسی پر مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر مغربی ممالک نے مصر کے لئے اپنی امداد روکی تو تمام عرب اور اسلامی ممالک مصر کی بھرپور مدد کریں گے ، واضح رہے کہ مصرمیں گذشتہ ہفتے ہونے والی خونریزی پر امریکہ اور مغربی ممالک نے گہری تشویش کا اظہار کیا تھا اور اِسی صورتحال کے مد نظر یورپی یونین کے 28 وزرائے خارجہ کی ہنگامی ملاقات بدھ کو متوقع ہے جس میں یورپی ممالک کے مصر سے تعلقات پر نظر ثانی کی جائے گی اور مصر پر تجارتی پابندیاں لگائے جانے پر بھی غور کیا جائے گا۔
    ربط
     
  14. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    اچھا ،،کوئی مسئلہ نہیں ، اختلاف ہر کسی کا حق ہے ،اسی حیثیت کی وجہ سے میں نے آپ کے استفسارپر روشنی نہیں ڈالی۔

    ویسے طالب علموں کو شام کے مظلوم مسلمانوں اور بچوں کی شہات پر دعا نہ سہی ، تعزیت ہی کرلینی چاہے ۔ آخر وہ بھی تو مسلمان ہیں ۔
     
  15. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    اخوان کا ووٹر سڑکوں پر ٹینکوں کے سامنے ڈٹا رہا اور اخوان کے لیڈر گرفتاریوں سے بچنے کے لئے داڑھیاں منڈواتے رہے
    ''گرفتاریوں سے بچنے کے لیے داڑھی منڈوانا جائز ہے یا نہیں''
    اخوانی خطیب صفوت الحجازی کی گرفتاری کے بعد نئی بحث کا آغاز
    اخوان المسلمون سے وابستہ عالم دین صفوت الحجازی کی گرفتاری کے وقت چہرے پر داڑھی موجود نہ ہونے کے واقعے سے یہ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ اخوان المسلمون کے بعض حامیوں نے عبوری حکومت کی جانب سے باریش افراد کی بڑی تعداد میں گرفتاریوں کے بعد گرفتاریوں سے بچنے کی خاطر داڑھیاں منڈوانے کا فتوی حاصل کر لیا ہے۔:00003:
    http://urdu.alarabiya.net/ur/middle-east/2013/08/22/-%DA%AF%D8%B1%D9%81%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D9%88%DA%BA-%D8%B3%DB%92-%D8%A8%DA%86%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D9%84%DB%8C%DB%92-%D8%AF%D8%A7%DA%91%DA%BE%DB%8C-%D9%85%D9%86%DA%88%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%A7-%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2-%DB%81%DB%92-%DB%8C%D8%A7-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA-.html
     
  16. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    سلفی علماء کا داڑھیاں منڈوانے کے متعلق بیان
    اس حوالے سے مجلس علماء کے رکن شیخ ابو اسحاق الحوائینی نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ '' داڑھی منڈوانا غلط ہے، ایسا کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں کے خلاف ہے۔''
    http://urdu.alarabiya.net/ur/middle-east/2013/08/22/-%DA%AF%D8%B1%D9%81%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D9%88%DA%BA-%D8%B3%DB%92-%D8%A8%DA%86%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D9%84%DB%8C%DB%92-%D8%AF%D8%A7%DA%91%DA%BE%DB%8C-%D9%85%D9%86%DA%88%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%A7-%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2-%DB%81%DB%92-%DB%8C%D8%A7-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA-.html
     
  17. ابن عادل

    ابن عادل -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 17, 2008
    پیغامات:
    79
    دوست کچھ تو خیال کرو ۔ یہ بدیع کے جواں سال انجینئر بیٹے کی شہادت ۔ بلتاجی کی بیٹی کی شہادت ۔ کسی کے داماد اور بیٹی کی ، شاید ہی کوئی رہنما بچاہو جس کے جگر گوشے قربان نہ ہوئے ہوں ۔
     
  18. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    بھائن صفوت حجازی کی داڑھی میں نے تو نہیں مونڈی نہ ڈاکٹر محمد عبدالمقصود کا فتوی میں نے لکھا ہے مجھ پر کیوں ناراض ہوتے ہو :00026:
     
  19. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    یہ موضوع اس طرح کی طنز یا بحوث کے لیے نہیں ہے۔ اس لیے اس سے مستقبل میں گریز کریں۔ اس موضوع کا مقصد مصر کے حالات اور اس کے حوالے سے سیاسی لائحہ عمل کا کتاب و سنت کی روشنی میں‌جائزہ ہے۔
     
  20. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    کیا اخوان کے سیاسی موقف پر تنقید کا طلب جنرل سیسی کی حمایت ہے ؟


    پہلے اس نکتے پر بات ہو چکی ہے کہ کس طرح کچھ لوگوں نے مصر کے حالات کے غصے کا رخ کہیں اور موڑ دیا۔
    اس کے بعد دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اخوان اور ان کے حامی اپنے موقف پر اصرار میں انتہائی بے لچک رویہ اپنائے ہوئے ہیں ۔ دوسری طرف بھی کڑے تیوروں کے ساتھ مسلح فوج ہے ۔ جب فوج پر بس نہیں چلتا تو یہ باقی لوگوں پر برس پڑتے ہیں گویا ہمارا فرض ہو کہ ہم فوجیں لے کر مصر پر چڑھائی کر دیں کہ واپس کرو مرسی کی حکومت ۔
    مرسی کی حکومت ابھی باقی تھی کہ مرسی مخالف کچھ اقدامات کے خلاف مصر کی سڑکوں پر نکل آئے ، بجائے اس کے کہ اس معاملے کو سیاسی انداز میں سلجھایا جاتا مرسی حکومت کے حامی بھی اس کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے ۔ مصر میں خون بہنا جنرل سیسی کی حکومت میں شروع نہیں ہوا یہ خونی ہنگامے صدرمرسی کے عہد سے جاری ہیں ۔ آپ پرانی تاریخوں میں خبریں ڈھونڈ لیں ، مرسی مخالف مظاہرین اور پولیس میں تصادم میں کتنے افراد مارے گئے تھے ؟
    خلاصہ یہ کہ جس کا مطالعہ اور حافظہ ہے اس کو معلوم ہے مرسی کے زمانے میں بھی ہناگامے ہوئے ۔ دونوں طرف کے لوگ مرے ، زخمی ہوئے ، خون بہا ، ایک دن مصری کی حمایت میں اسلام پسندوں کا ملین مارچ ہوتا ، جواب میں مرسی مخالفین کے ملک گیر مظاہرے ہوتے ۔ مصر میں بے یقینی کی صورت حال تھی ۔صدر مرسی اسے سنبھال نہیں پائے ۔ فوج پہلے ہی موقعے کے انتظار میں تھی ۔ اگر جمہوریت کی بات کرنی ہے تو اپنی سیاسی ناکامیوں کو اسلام کے جاپ میں چھپانا غیر حقیقت پسندی ہے ۔ سب کو معلوم ہے مرسی کوئی بہت بڑی اکثریت سے منتخب نہیں ہوئے تھے کہ اسے مصر کی بلا شرکت غیرے فتح سمجھ لیا جاتا ۔ ۴۲ فی صد ٹرن آوٹ کے ساتھ ۵۱ یا ۵۲ فی صد ووٹ ملے تھے ۔ آپ کو پتہ ہے ایسی اکثریت کا پاکستانی انتخابات میں کیا حال ہوتا ہے ؟ درجن بھر تانگہ پارٹیوں یا آزاد امیدواروں کے ادھر سے ادھر لڑھکنے پر حکومت ہل جاتی ہے ، اکثریتی جماعت کے وزیراعظم کو دوسیٹ والی پارٹیوں سے بلیک میل ہونا پڑتا ہے ۔ مرسی اس اکثریت کے ساتھ حسنی مبارک پر مقدمہ چلانے چلے تھے ۔ یہ سوچنا غلط ہے کہ وہ اتنے طاقتور صدر ہو چکے تھے کہ پرانے مصر کے سب روایتی کرداروں کو سزا دے دیتے ۔ اسی قسم کے اقدامات اور ان سے بننے والی صورت حال کا فائدہ فوج اور مرسی مخالفین نے اٹھایا اور فوجی انقلاب آ گیا ۔ پھر فوج نے مذاکرات کی پیش کش بھی کی جو مرسی اور اخوان کی جانب سے ٹھکرا دی گئی ۔ عقل مندی یہ تھی کہ تشدد اور تناو کا راستہ اپنانے کی بجائے سیاسی رابطوں سے درمیانی حل نکالا جاتا ، لیکن فوج نے ایمرجنسی نافذ کرکے اپنے کڑے ارادے ظاہر کر دئیے ، دوسری طرف اخوان اور اسلامی جماعتوں کے اتحاد نے بھی ایمرجنسی کو ماننے سے انکار کر دیا ۔ ٹکراو کا نتیجہ کیا نکلا؟ سب کے سامنے ہے ۔
    اس ٹکراو پر تبصرے کرتے ہوئے ایک نیا رجحان پتہ چلا کہ اگر آپ اخوان اور اسلامی جماعتوں کے اتحاد کے یک طرفہ پراپیگنڈے پر آنکھیں بند کر کے ایمان لے آئیں تو آپ صاحب ایمان ہیں ۔ لیکن اگر آپ اخوان کے حامیوں کے سیاسی موقف کی کسی خامی کی نشان دہی کریں تو مذہبی سیاسی جماعتوں کے حامی کھٹ سے آپ کو جنرل سیسی کا حامی بنا کر ہدف پر رکھ لیتے ہیں ۔ سارے تیروں کا رخ آپ کی طرف بلکہ آپ کے دین ایمان کی طرف ہو جاتا ہے ۔ بھلے آپ برادر مسلم ملک میں یہ قتل عام دیکھ کر کتنا ہی روئے ہوں ، اس ظلم پر بے خوابی کا شکار رہے ہوں ، اور بھلے آپ کے سارے گھرانے نے غم کے مارے کئی وقت کھانا نہ کھایا ہو ، اس کے باوجود آپ کو اخوان جیسے پوتر فرشتوں پر سیاسی تنقید کا کوئی حق نہیں ۔
    ایمان داری سے تجزیہ کر کے بتائیں :
    کیا اخوان اور اسلامی سیاسی جماعتوں کے سیاسی موقف پر تنقید کا لازمی مطلب جنرل سیسی کی حمایت ہے ؟
    آخر ایک مسئلے میں تیسرا موقف رکھنا کچھ لوگوں نے جرم کیوں بنا دیا ہے ؟ جو آپ کے سیاسی موقف کی مخالفت کرے اس پر آیات قرآنیہ پڑھ پڑھ کر لعن طعن کی جا رہی ہے ۔ کسی کو یاد نہیں قرآن کریم یہ بھی کہتا ہے کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہےاور فتنہ قتل سے زیادہ بری چیز ہے ۔ یہ خونی ہنگامے فتنہ نہیں تو کیا تھے ۔ دونوں طرف مسلمان تھے ۔ لیکن مذہبی سیاسی جماعتو ں کے لوگ خود کو برتر مسلمان سمجھتے ہیں جو مریں گے تو لازما شہید ہوں گے اور فوجی یا پولیس وردی میں مرنے والے بے چارے اچھوت مسلمان ہوتے ہیں جو مریں گے تو بھی ہلاک ہوں گے ۔
    جب ان اپنے تئیں برتر مسلمانوں کو فتنہ گر ، گمراہ اور فسادی کہہ دیا گیا تو چیخ اٹھے ۔ جب یہ آیات دوسروں پر چسپاں کر رہے تھے تب انہیں پتہ نہیں تھا کیا کررہے ہیں ؟ یہ وہ جگہ ہے جہاں آ کر مذہبی سیاست سے نفرت ہوتی ہے ، جب آیات و احادیث ان کے سیاسی موقف کے تابع ہو جاتی ہیں اور یہ اپنی خود ساختہ تفسیر پر یوں اڑ جاتے ہیں جیسے اپنی حقانیت کا تازہ الہام ہو ا ہو ۔
    جتنے غیر جانب دار مبصرین ہیں سب یہی کہہ رہے ہیں کہ ملک کے سیاسی بڑے مل کر کچھ لو کچھ دو کے اصول کے تحت بیچ بچاو کروا دیتے ۔ایک انتہائی خونی ہفتے کے بعد بھی تو اخوان کے مظاہرے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں ، قیادت زیر زمین چلی گئی ہے حتی کہ اب لیڈر ہی ان کو بنا دیا ہے جو روپوش ہیں ۔ کیا ملا اس ضد سے ؟ اگر یہ کمپرومائز ایک مہینہ قبل کر لیا جاتا تو؟ نہ اخوان کو " شہید" اٹھانے پڑتے نہ مصری فوج اور پولیس کے مسلمان اہلکاروں کو اتنی نفرت کا نشانہ بننا پڑتا گویا وہ کافراسرائیلی ہوں ۔
    ہمارا موقف یہ ہے کہ اخوان اور فوج دونوں غلطی پر ہیں ۔ فوج گولی اور ٹینک کی بجائے آنسو گیس، واٹر کینن اور ہلکے لاٹھی چارج سے مظاہرین کو منتشر کر سکتی تھی ، یا رکاوٹیں لگا کر عوام کو جمع ہونے سے روک سکتی تھی ، اخوان اور اسلامی جماعتیں سیاسی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اپنے ورکرز کی قیمتی جانیں بچا سکتے تھے ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں