اہل تصوف اور قبریں کتاب و سنت کی روشنی

ساجد تاج نے 'نقطۂ نظر' میں ‏جنوری 16, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    اہل تصوف اور قبریں کتاب و سنت کی روشنی



    سوال : ہمارے یہاں کچھ اہل تصوف رہتے ہیں ان کے علماءقبروں پر قبے اور مزارات تعمیر کرتے ہیں، اور لوگ انہیں نیک و صالح سمجھ کر ان کاموں میں ان کےساتھ ہیں ، اگر یہ چیز شرعاً درست نہ ہوتو ان لوگوں کے لئے آپ کی کیانصیحت ہے جبکہ لوگوں کی ایک بھاری تعداد انہیں اپنے لئے آئیڈیل اور نمونہ سمجھتی ہے؟
    سماحتہ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ نے کہا :
    اہل تصوف کے علماء اور دیگر اہل علم کومیری نصیحت یہ ہے کہ کتاب و سنت سے جن باتوں کی راہنمائی ملتی ہے ، انہیں مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیں، لوگوں کو ان کی تعلیم دیں، اور کتاب و سنت کے منافی امور میں پچھلے لوگوں کی پیروی سے بچیں کیونکہ دین علماء اور مشائخ کی اندھی تقلید کانام نہیں ، بلکہ دین وہ ہے جو کتاب و سنت اور صحابہ کرام و تابعین کے اجماع سےماخوذ ہو، دین اسی طرح کتاب و سنت اور اہل علم اجماع سے لیاجاتا ہےنہ کہ زید و عمر کی اندھی تقلید سے۔
    رسول اللہ ﷺ صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ قبروں پر قبے اور مساجد یاکسی بھی طرح کی عمارت تعمیر کرناجائز نہیں ہے، بلکہ احادیث نبویہ کی روشنی میں یہ ساری چیزیں حرام ہیں ۔
    جیساکہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ‘‘ یہود ونصاری پر اللہ کی لعنت ہوجنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کومسجدیں ، عبادت گاہیں ، بنالیا۔
    عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ آپ ﷺ اپنے اس فرمان کے ذریعہ اپنی امت کو ان کے کردار سے ڈرانا چاہتے تھے۔
    صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان دونوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک گرجاگھر اور اس کی تصویروں کاذکر کیاجسے انھوں نے سرزمیں حبشہ میں دیکھا تھا توآپ ﷺ نے فرمایا ۔
    ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی مر جاتا تواس کی قبر پر مسجد بنادیتے پھر اس میں اسی طرح کی تصویر بنادیتے، روز قیامت یہ لوگ اللہ تعالی کی بدترین مخلوق شمار ہونگے۔
    مذکورہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے آگاہ فرمادیا کہ قبروں پر مساجد تعمیر کرنے اور ان پر تصویریں آویزاں کرنے والے بدترین مخلوق ہیں، کیونکہ یہ عمل شرک کاپرچار کرنے کاباعث ہے اس لئے عوام الناس جب کسی قبر پر قبے اور مسجدیں بنی ہوئی دیکھتے ہیں توان میں مدفون بستیوں کی تعظیم کرنے لگتے ہیں ۔ پھر اللہ تعالی کے سوا ان سے فریادیں کرتے، ان کے لئے نذرو نیاز مانتے انہیں پکارتے اور ان سے مدد کاسوال کرتے ہیں، جبکہ یہ ساری چیزیں شرک اکبر کی قبیل سے ہیں ۔
    صحیح مسلم میں حضرت جندب بن عبدللہ الجلبی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ‘‘ بیشک اللہ تعالی نے مجھے اپنا خلیل بنالیا ہے جیساکہ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنالیاتھا ، اگر مجھے اپنی امت سے خلیل بنانا ہوتومیں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیل بناتا، یہ بات توجہ سے سن لو کہ تم سے پہلی امتیں اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کو مسجدیں بنالیتی تھیں، خبردار ! تم قبروں کومسجدیں بنانا، میں تمہیں اس بات سے منع کررہا ہوں’’(ہکذا رواہ فی صحیحہ)
    مذکورہ بالا حدیث سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور ان کے صحابہ میں سب سے افضل ہونے کاپتہ چلتاہے اور یہ کہ اگر نبی ﷺ کے لئے کسی کو خلیل بناناجائز ہوتاتوآپ ﷺ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیل بناتے، لیکن اللہ عزوجل نے آپ کو اس سے منع فرمادیا تاکہ آپ کی محبت صرف اللہ عزوجل کے لئے خاص رہے، واضح رہے کہ خلت محبت کے درجات میں اعلی ترین درجہ ہے، نیز مذکورہ حدیث سے قبروں پر عمارت تعمیر کرنے اور ان پر مسجدیں بنانے کی حرمت اور ایسا کرنے والے کی تین پہلووں سے مزمت ثابت ہوتی ہے۔
    پہلا پہلو: احادیث نبویہ میں ایسا کرنے والے کی مذمت۔
    دوسرا پہلو: نبی ﷺ کایہ فرمان ‘‘ تم قبروں کومسجدیں مت بنانا’’۔
    تیسرا پہلو: نبی ﷺ کایہ فرمان ‘‘ میں تمہیں اس عمل سے منع کررہا ہوں ’’۔
    چنانچہ آپ ﷺ نے تین طریقوں پر قبروں پر عمارت تعمیر کرنے سے ڈرایا ،جیساکہ آپ ﷺ نے فرمایا : ‘‘ آگاہ رہو تم سے پہلے جو امتیں گزریں ہیں وہ اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کوسجدہ گاہ بنالیتی تھیں’’، پھر آپ نے فرمایا : خبردار تم قبروں کومسجدیں مت بنانا ، یعنی تم ان کے طریقہ پر مت چلنا ، میں تمہیں اس بات سے منع کررہا ہوں۔
    ہربندہ مسلم کے لئے یہ ایک واضح وارننگ ہے کہ قبروں پر عمارت تعمیر نہ کی جائے اور انہیں سجدہ گان نہ بنایا جائے۔
    اہل علم نے ذکر کیاہے کہ قبروں پر عمارت یامساجد تعمیرکرنے کی حرمت میں حکمت یہ ہے کہ قبر والوں کی عبادت مثلاً اللہ کے سوا انہیں پکارنے ، نذر و نیاز اور قربانیاں دینے، ان سے فریاد کرنے،معاونت چاہنے اور مدد کاسوال کرنے جیسے بڑے شرکیہ کاموں کاذریعہ ہیں، جیسا کہ مصر میں بدوی ، حسین ،سیدہ نفیسہ ، سیدہ زینت وغیرہ کی قبروں کے پاس اس طرح شرکیہ کام کئے جاتے ہیں ، نیز سوڈان اور دیگر بہت سے ملکوں میں بعض افراد اور اسی طرح بہت سے نادان حجاج مدینہ منورہ میں نبی ﷺ اور اہل بقیع کی قبروں کے ساتھ اور مکہ مکرمہ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور دیگر قبروں کے پاس اس طرح کی شرکیہ حرکتیں انجام دی جاتی ہیں ۔
    واضح رہے کہ اس طرح کے شرکیہ کاموں کاارتکاب صحیح اسلام سے ناواقفیت کانتیجہ ہیں،لہذا ضرورت ہے کہ اہل علم لوگوں کو دین کی صحیح راہنمائی کریں، اور ان کی اصلاح پر اپنی توجہ مرکوز کریں، یہ جملہ اہل علم کی ذمہ داری ہےخواہ وہ تصوف سے منسلک علماء ہوں یاکوئی اور ہوں انہیں چاہیئے کہ اللہ تعالی سے ڈریں اور اس کے بندوں کے ساتھ خیر خواہی کرتے ہوئے انہیں صحیح دین سکھلائیں اور قبروں پر عمارت، مسجدیں، قبے وغیرہ تعمیرکرنے نیز مردوں کو پکارنے اور ان سے فریادیں کرنے سے ڈرائیں کیونکہ دعا عبادت ہے جو خالص ایک اللہ کاحق ہے ، جیساکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا : فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللہِ اَحَدًا۝۱۸ۙ
    ترجمہ: ‘‘ پس اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو’’۔
    نیز اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا : [qh]وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ۝۰ۚ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِــمِيْنَ۝۱۰۶ [/qh]
    ‘‘ اور اللہ کوچھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جوتجھ کو نہ توکوئی نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی نقصان پہنچاسکے ،پھر اگر ایسا کیاتوتم اس حالت میں ظالموں میں سے ہوجاؤگے ’’۔
    نبی ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا: ‘‘ دعا ہی عبادت ہے ’’۔
    نیز نبی ﷺ نے فرمایا : ‘‘ جب تم سوال کرو تواللہ سے کرو اور جب مدد طلب کرو تواللہ سے کرو’’(۱)۔
    انتقال کے بعد مردہ سے اعمال کاسلسلہ بند ہو جاتاہے ، لہذا مردہ اس بات کاضرورت مند ہوتا ہے کہ زندہ افراد اس کے لئے اللہ تعالی سے دعائیں کریں اور اس کے گناہوں کی معافی کاسوال کریں ، نہ کہ اللہ تعالی کے سوا ان مردوں کو اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکاریں ، جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ‘‘ جب انسان کاانتقال ہوجاتا ہے تواس کے عمل کاسلسلہ بند ہوجاتا ہے ، سوائے تین اعمال کے کہ مرنے کے بعد بھی ان کاثواب جاری رہتا ہے : صدقہ جاریہ، نفع بخش علم ، نیک اولاد جو اس کے حق میں دعائیں کرے’’۔
    چنانچہ اللہ تعالی کے سوا مردوں کو اپنی حاجت روائی کےلئے پکارنا کیسے جائز ہوسکتا ہے ؟ اسی طرح بتوں ، درختوں ، پتھروں ، سورج ، چاند اور ستاروں کوبھی اللہ تعالی کے سوا اپنی حاجت روائی اور فریاد رسی کے لئے پکارنا جائز نہیں ہے،نیز قبروں میں مدفون ہستیوں ، مثلاً انبیاء و صالحین اور اسی طرح فرشتوں اور جنوں وغیرہ کو بھی جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا : [qh]
    وَلَا يَاْمُرَكُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰۗىِٕكَۃَ وَالنَّبِيّٖنَ اَرْبَابًا۝۰ۭ اَيَاْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۸۰ۧ [/qh]
    ‘‘ اور یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ تمہیں فرشتوں اور نبیوں کو رب بنالینے کاحکم کرے، کیاوہ تمہارے مسلمان ہونے کے بعد بھی تمہیں کفر کاحکم دے گا’’۔
    مذکورہ آیت میں اللہ سبحانہ و تعالی نے فرشتوں اور نبیوں کو پکارنے اور ان سے فریادیں کرنے کو ان کارب بنانے کے مترادف کفر قرار دیا ہے ، اور اللہ تعالی قطعاً اس کاحکم نہیں دیتا ہے ،صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں : ‘‘ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قبر کو چونا کیاجائے، اس پر بیٹھا جائے یا اس پر عمارت تعمیر کی جائے’’۔
    چنانچہ قبروں کو پختہ بنانا ، ان پر عمارت تعمیرکرنا ،ان پر چادر چڑھانا اور ان پر قبے بنانا قبروں کی تعظیم ان کی بابت غلو اور ان میں مدفون ہستیوں کو اللہ تعالی کے سوا پکارنے کوذریعہ شرک تک پہنچانے والی چیزیں ہیں۔
    رہا مسئلہ قبر پر بیٹھنے کاتو یہ قبر کی بے حرمتی ہے، لہذا ایک مسلمان کے احترام کی وجہ سے اس کی قبر پر بیٹھنا اس پر پیشاب کرنا یاقضائے حاجت کرنا، اس پر ٹیک لگانا یاپیروں سے روندنا جائز نہیں ہے ۔
    چنانچہ مسلمان مردہ کی بابت غلو کرتے ہوئے نہ تواسے پیروں سے اللہ تعالی کے سوا پکارا جائے اور نہ ہی اس کی بے حرمتی کرتے ہوئے اس کی قبرکو پیروں سے روند ا جائے ، اس پر پیشاب نہ کیاجائے اور نہ ہی گندگی وغیرہ ڈالی جائے، بلکہ شریعت اسلامیہ نے ایک درمیانی راستہ پیش کیا وہ یہ کہ قبروں کے احترام ان کی زیارت اور مدفون افراد کے لئے دعائے رحمت و مغفرت کو مشروع قرار دیا ، اور ان کی ایذا رسانی سے منع فرمایا خواہ وہ قبروں پر گندگی ڈالنے، ان پر پیشاب کرنے یاان پر بیٹھنے کے ذریعہ ہو۔
    جیساکہ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ‘‘ قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ہی ان کی جانب رخ کر کرے نماز پڑھو’’۔
    لہذا قبروں کوقبلہ بنانا اور ان پربیٹھنا جائز نہیں ہے، چنانچہ ا س عظیم کامل شریعت نے دونوں ہی چیزوں کوملحوظ رکھاہے، اگر ایک طرف اس نے قبر والوں کے بارے میں غلو ، انہیں اللہ کے سوا پکارنے ، ان سے فریادیں کرنے، اور ان کے لئے نذرونیاز پیش کرنے کوحرام اور بڑا شرکیہ کام قرار دیا ہے تودوسری طرف قبروں پر بیٹھنے قدموں سے روندنے ، ان پرٹیک لگانے ،گندگی وغیرہ ڈالنے جیسے تمام کاموں سے منع فرمایا ہے جومردوں کی ایذا رسانی اور بے حرمتی کاذریعہہیں۔
    مذکورہ بالا سطور کو پڑھ کر ایک بندہ مسلم اور حق کاطلبگار اس بات کو جان سکتا ہے کہ شریعت اسلامیہ نے اس بارے میں ایک درمیانی راستہ پیش کیا ہے، اس پر چل کر نہ توشرک کاارتکاب ہوتاہے اور نہ ہی مردوں کے بے حرمتی اور ایذا ءرسانی ہوتی ہے۔
    چنانچہ قبر میں مدفون نبی و نیک و صالح شخص کے لئے دعا و استغفار کی جائے گی ، اور اس کی قبر کی زیارت کرتے ہوئے اس پر سلام بھی بھیجا جائے گا، لیکن اسے اللہ تعالی کے سوا اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارا نہیں جائیگا چنانچہ اس طرح نہیں کہاجائے گا :
    (اے میرے آقا میں آپ سے مدد کاطالب ہوں، اے میرے آقا میری مدد فرمائیے اے میرے آقا میرے مرض کو شفا دیجئے یافلاں معاملہ میں میری مدد فرمائیے ، ان ساری چیزوں کاسوال اللہ ہی سے کیاجائے گا )۔
    لیکن کسی زندہ شخص سے باہم تعاون کاسوال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ظاہری اسباب کے اختیار کرنے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
    جیسا کہ اللہ تعالی سبحانہ وتعالی نے موسیٰ کے قصہ میں فرمایا :
    [qh]فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِہٖ عَلَي الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّہٖ۝۰ۙ[/qh]
    ‘‘ موسیٰ کی قوم والے نے موسیٰ سے اس کے خلاف فریاد کی جو ان کے دشمنوں میں سے تھا’’۔
    موسیٰ علیہ السلام زندہ تھے اور وہی مطلوب فریاد تھے اسرائیلی اپنے دشمن قبطی کے خلاف انہیں سے مدد طلب کررہا تھا ایک انسان کااپنے دوست و احباب اور قربتداروں کے ساتھ یہی حال رہتا ہے کہ وہ اپنی کھیتی باڑی گھریلو امور اور گاڑیوں وغیرہ کے معاملات میں باہم ایک دوسرے سے مدد طلب کرتے ہیں، واضح رہے کہ ظاہری اسباب کے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جن کے انجام دینے کی انسان قدرت رکھتا ہو۔
    اسی طرح ٹیلیفون ، خط و کتابت ، ٹیلی گرام وغیرہ سے باہم ایک دوسرے کی مدد کرنا ظاہری تعاون کے قبیل سے ہے، اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ، بشرطیکہ اس کے انجام دینے کی قدرت ہو۔
    لیکن عبادت سے متعلق امور میں ان چیزوں کاسہارا نہیں لیاجائے گا ، چنانچہ کسی زندہ یامردہ میں کسی پوشیدہ اثر کااعتقاد رکھتے ہوئے اس سے یہ نہیں کہاجائے گا کہ تم میرے بیمار کو شفادو، میرے گمشدہ کولوٹا دو، یااپنے پوشیدہ اثر کے ذریعہ دشمنوں پر ہماری مدد کرو، اس کے خلاف کسی زندہ قادر شخص سے ظاہری اسباب کے ذریعہ مدد کا سوال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
    مثلاً کوئی شخص ڈاکٹر سے علاج طلب کرے اس میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن اگر اس میں کسی پوشیدہ اثر کا اعتقاد رکھ کر کہے ،جیساکہ یہ عقیدہ اہل تصوف وغیرہ کے نزدیک معروف ہے کہ میرے بیمار کو شفا دو یہ کفر ہے ،کیونکہ انسان ظاہری امور کے علاوہ کائنات میں تصرف کی قدرت نہیں رکھتا ہے جیسا کہ ڈاکٹر ظاہری امور مثلاً دواؤں وغیرہ میں تصرف کرتاہے۔
    اس طرح زندہ، قادر انسان ظاہری امور میں تصرف کرتا ہے مثلاً اپنے ہاتھ سے تمہاری مدد کردے ،ضرورت پر تمہارے ساتھ کھڑا ہوجائے تمہیں بطور قرض یابطور مدد کچھ مال دیدے جس سے تم مکان بنالو یہ تمہیں گاڑیوں کے پرزے دے یاکسی ایسے شخص کے پاس تمہارے لئے سفارش کردے جوتمہاری مدد کرے، یہ ظاہری امور ہیں ان کے اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے، اوریہ چیزیں مردوں سے فریاد رسی یاان کی عبادت میں داخل نہیں ہیں ، اور اس جیسی دیگر چیزیں ۔
    شرک کی جانب دعوت دینے والے بہت سے افراد اس طرح کے مسائل میں لوگوں کو شکوک و شبہا ت میں ڈالتے ہیں جبکہ یہ مسائل اس قدر واضح اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ ان کے بارے مهں شبہ کا شکار صرف وہی ہوسکتا ہے جو انتہائی درجہ کا جاہل اور احمق ہو۔
    زندوں سے مدد طلب کرنا اس کی معروف شروط کے ساتھ جائز ہے اس کے برخلاف مردوں کو پکارنا ، ان سے فریاد کرنا، ان کے لئے نذرو نیاز پیش کرنا شرعاً ممنوع ، اہل علم کے اتفاق کے ساتھ شرک اکبر ہے اور اس میں صحابہ کرام اور ان کے بعد علم و ایمان سے مزین صاحب بصیرت افراد میں کوئی اختلاف نہیں رہا ہے ۔
    اسی طرح اہل علم اس بات سے واقف ہیں اور انہیں اس کی یاد دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ قبروں پر عمارت تعمیر کرنا ان پر مسجدیں اور قبے بنانا شرعاً جائز نہیں ہیں چنانچہ اس طرح کے واضح مسائل اہل علم پرخلط ملط نہیں ہونے چاہیئں۔
    میں دوبارہ کہتاہوں کہ اہل علم پر واجب ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی رہیں اللہ تعالی سے ڈرتے رہیں اور اللہ کے بندوں کے ساتھ خیر خواہی اپنائیں اور انہیں اللہ تعالی کی شریعت سکھلانے میں کسی کی مزاج داری نہ کریں بلکہ ہر امیر و غریب ، چھوٹے بڑے کو حرام امور سے ڈرائیں ، اور مشروع چیزوں کی راہنمائی کریں، اہل علم جہاں کہیں بھی رہیں ان کی یہی ذمہ داری ہے ، اور وہ تبلیغ کے فریضہ کی ادائیگی اور بندوں کے ساتھ خیر خواہی میں دور حاضر میں پائے جانیوالے تمام تر وسائل کاسہارا لیں ،مثلاً بالمشافہ بات چیت ، خط و کتابت ، تصنیف وتألیف ،جمعہ وغیرہ میں خطابت ، ٹیلیفون ٹیلکس وغیرہ۔
    ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کو ہدایت نصیب فرمائے، اور اللہ تعالی کی مدد کے بغیر ہم ہدایت کے حصول کی قوت و طاقت نہیں رکھتے۔


    کتاب : توحید کا قلعہ
    تالیف : عبدالملک القاسم
    دارالقاسم للنشر والتوبیح
    کمپوزنگ برائے اُم تیمیہ سسٹر
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں