ایک دفعہ کا ذکر ہے، ہم بچے ہوا کرتے تھے اور ایک بہت مشہور کارٹون "پاپائی دی سیلر مین" بہت شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ ایک وجہ یہ بھی تھی، کہ وہ طاقت حاصل کرنے کے لئے پالک کھا لیتا اور بس پھر۔۔ اسکا کوئی دشمن اسکے آگے نہ ٹکتا تھا اور وہ انکی خوب دھلائی کیا کرتا تھا۔ ۔۔۔:00031: انہی دنوں کی بات ہے کہ ہم نے کچھ مزدوری کرنے والے حضرات کو دیکھا کہ جب وہ ادھ موئے ہونے لگتے تھے، تو کافی اندرونی قسم کی جیب سے ایک لفافہ نکلاتے اور اس میں سے سبز گھاس کی شکل کی کوئی چیز نکالتے، ہاتھ میں اسے گوندتے، پھر ایک گولی بناتے اور پھر منہ میں رکھ لیتے۔ ہم بہت مدت تک یہی سمجھتے رہے کہ پاپائی دی سیلر مین کی طرح یہ بھی طاقت حاصل کرنے کے لئے پالک کی گولی بنا کر منہ میں رکھ لیتے ہیں۔۔۔۔ تصدیق کے لئے پوچھنے پر پتا چلا کہ انہوں نے اسکا نام نسوار رکھا ہوا تھا۔۔ ہم یہی سمجھے کہ ان کی زبان میں شائید پالک کو نسوار کہا جاتا ہے۔۔۔:00013: ۔ اب ہوا کچھ یوں کہ جب گھر میں اماں نے آلو پالک بنائے جو اتفاق سے ہمیں پسند بھی تھے، تو ہم نے باآواز بلند اپنے علمی اضافے کے اعلان کے طور پر فرمایا کہ آج تو "آلو نسوار" بہت ہی مزے کا ہے۔ :00029:۔ یہ سنتے ہی ابا جان کا نوالہ عین انکے منہ کے سامنے جا کر پتھر کا ہو گیا، اور ان کی آنکھیں ایسی ہوگئیں کہ عینک اور آنکھوں میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا تھا۔:00020:۔ اور اماں کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔ اور آنکھیں انکے پکائے ہوئے "آلو نسوار" پر جم گئیں۔:00024:۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ وقت رُک گیا ہو، ہر چیز اپنی جگہ ساکت ہو گئ۔۔۔ مگر چند سیکنڈ کے بعد ہی ایسا لگا جیسے کوئی فلم پھنس جانے کے بعد ایک دم تیزی سے فارورڈ ہو گئی ہو۔۔۔ یعنی ہم پر ہمارے والدین نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔۔جو کچھ یوں تھے۔:animstick:۔ تمہیں نسوار کا کیسے پتا چلا؟ کتنے دوست نسوار استعمال کرتے ہیں اور کونسی قسم کی ہوتی ہے؟ تم نہیں کھا تو نہیں لی؟ منہ کھولواور سنگھاؤ؟ ۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ بہرحال، کافی گھمبیر قسم کی تفتیش کرنے کے بعد انہیں ہماری معصومیت کا انداز ہوہی گیا۔۔۔ مگر ایک بات کا ہمیں بھی پتا چل گیا، کہ "پاپائی دی سیلر مین" کونسا پالک استعمال کرتا ہے جسکے بعد وہ یوں اپنے دشمنوں کی ٹھکائی لگا دیتا ہے۔۔"۔۔:hehehahaha: وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحقیق ہوتی گئی علمِ نسوار میں مزید اضافہ ہوا، جس میں سے کچھ آپ کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں۔۔ آپس کی بات ہے۔۔ اس کی رنگت اسی مواد سے ملتی جلتی ہے جو جانوروں کو چارہ کھلا کرو حاصل کی جاتی ہے، اور گاؤں میں نہ صرف کھیتوں کی زرخیزی میں کام آتی تھی ہے، بلکہ گاؤں کی عورتوں اسکی بڑی بڑی ٹکیاں (اوپلے) بنا کر دیواروں پر چپکاتی ہیں اور سوکھنے کے بعد ان کو جلا کر مزید فوائد حاصل کئے جاتے ہیں۔ ہم نے اس رنگت اور فوائد کا موازنہ کرنے کے بعد اندازہ لگایا کہ اس میں کس قدر توانائی ہے، جبھی تو تھکے ماندے لوگ، ایک چھوٹی سی گولی منہ میں رکھی کر بالکل نئے ہنڈا 125 کی طرح بھاگنے دوڑنے لگتے ہیں۔ :scooter: گواہوں کے بیانات اورسالہاسال کی تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ آپ کی نس پر ، بلکہ شائید ہر نس پر وار کرتی ہے،لہٰذا نسوار کہلاتی ہے۔ دیکھنے میں یہ کچھ یوں لگتی ہے گویا پودینے کی چٹنی کو سکھایا گیا ہو اور پھر اسے زنگ لگ گیاہو۔ اسکے ذائقے کے متعلق صرف وہی علماء بتا سکتے ہیں جو اسکا علم رکھتے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی ایسے صاحب ملیں، جن کا اوپر کا یا پھرنیچے کا مسوڑا سوجا ہوا محسوس ہو، اور اگر وہ ہمارے پٹھان بھائیوں میں سے بھی ہیں تو زیادہ قیاس یہی ہے کہ وہ دراصل نسوار چوس ہیں۔۔ مگر اب یہ قیاس آرائی دوسری اقوام میں بھی جا بجا دیکھنے میں آرہی ہے۔ اسلئے نسوار کے دھوکے میں ہر ایک کو پٹھان مت سمجھ لیجئے گا، مباداء آپ کو پنجابی، پٹھواری (پنجابی کی ایک گھمبیر قسم)، سرائیکی، بلوچی، سندھی وغیرہ میں گالیاں بھی وصول ہو سکتی ہیں۔ اور یقین کریں کہ یہ وہ لمحہ ہے جب آپ کو دوسری زبانوں سےلاعلمی پر شکر گزار ہونا چاہئیے۔۔ :Ut_;o: اور ہاں یاد آیا، کہ مسوڑے کی سُجاوٹ کی وجہ دراصل نسوار کی گولی ہوتی ہے ۔۔ جس سے نسوار چوس، نسوار کا رس حاصل کرتا رہتا ہے۔ ۔سنا ہے کہ اس رس کے اثرات اتنے دور رس ۔ہوتے ہیں کہ سوکھے سے سوکھا نسوار چوس ، بھی ایک بھاری بھرکم پہلوان کے برابر کام کرنے لگتا ہے۔۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ نسوار چوس حضرات روٹیاں بھی ڈھیروں کے حساب سے کھا جاتے ہیں۔۔ مگر ان کے سوکھے پن کو دیکھتے ہوئے یقین نہیں آتا۔۔۔ اور اگر نسوار چوس دیکھنے میں پہلوان جیسا لگتا ہو تو۔.تواسکا مطلب ہے کہ وہ پیدائشی ایسا ہے، نسوار کے فوائید میں کسی بھی تحقیق سے ایسا ثابت نہیں کیا جا سکا۔ :bb: نوٹ: یہ علم ہم نے ان علماء سے حاصل کیا ہے جو دراصل اس علم کے ماہر ہیں اور انہی کی تجربات کی روشنی میں ہم نے یہی فیصلہ کیا تھا۔۔کہ ہم اس سے دور ہی اچھےکیونکہ ماہرین کے مطابق یہ دیکھنے میں یہ جس چیز سے ملتی جلتی ہے اورجسے اگر مٹی میں ملا دیا جائے تو زرخیزی میں کافی اضافہ ہو جاتا ہے، اور درخت اورفصلیں خوب پھلتے پھولتے ہیں،صرف اور صرف ایک ہی جانور کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے۔یہ وہی جانور ہے جو چاہے جتنا بھی معصوم اور بے گناہ ہو، مگر گاؤں میں اکثر مجرماں کو اسی پر بٹھا کر اور منہ کالا کرکے پورے گاؤں میں پھرایا جاتا ہے۔ ۔DT_bud:۔ مگر جناب، نسوار کے استعمال سے پھلنا پھولنا تو کبھی نہیں دیکھا البتہ صرف مسوڑہ ہی سوجا نظر آئے گا.......اُمید ہے آپ کو پھلنے پھولنے میں اور سوجنے میں فرق معلوم ہوگا۔DT_smile:۔۔ اور ہاں آخری بات، اگر آپ نسوار چوس ہیں، تو یہ مضمون آپ کے لئے نہیں ہے۔۔ (فرخ)
بھائی یہ کارٹون تو بچپن میں میں بھی دیکھتا۔ لیکن اگر اصلی صورت حال دیکھا جائے کہ ایک طرف دشمن آگیا اور آپ پالک ڈھونڈ ڈھونڈ کر دیگ میں ڈالیں اور پھر آگ کیلئے لکڑیاں تلاش کریں اتنی دیر میں دشمن نے اپنا کام دکھا دیا ہوگا۔ ویسے اگر پٹھان یہ کارٹون دیکھے تو شاید یہی سمجھے گا کہ یہ نسوار ہی ڈالتا تھا۔۔۔۔۔
بہت خوب اچھی تحریر ہے ۔ ا س کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ غربت اور پریشانیاں لوگو ں کو نشے پر لگا دیتی ہیں ۔ حالات بہت تلخ ہیں ۔
اس پہلو میں انسان بہت سے ایسے کاموں کا مرتکب ہو جاتا ہے جسے وہ شاید کرنا نہیں چاہتا ۔ بہرحال اللہ تعالی کسی کو کسی کا محتاج نہ کرے آمین
بہت عمدہ مزہ آگیا پڑھتے پڑھتے۔۔ ایک دفعہ میں اپنی ٹوٹی پھوٹی مارگلہ پہ سفر کر رہا تھا۔ بیچاری کا ریڈی ایٹر بھی اسی کی طرح عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے کہیں سے لیک تھا۔ جسکی وجہ سے مجھے ہر ۵۰ کلو میٹر پہ رک کر اسے پانی پلانا پڑھتا تھا، پانی پلاتے پلاتے ایک نسوار چوس ڈرائیور اپنے ٹرک سے اتر کر آئے اور پوچھنے لگے، میرے بتانے پر حضرت نے اک اور فائیدہ بتایا کہ حضرت صاحب ریڈی ایٹر کے اندر نسوار کی اک گولی فائیر کردیں اس سے آپ کا ریڈی ایٹر جہاں سے لیک ہو گا وہاں یہ گولی جا کر کے ویلڈنگ کا کام کرے گی اور ریڈی ایٹر کا سوراخ کو بند کر دے گی۔۔۔ خیر میں نے انکو تو ہا ں کر دی مگر ڈر گیا کہیں ایسا نہ ہو کہ گولی کسی چوکی پہ جا کر کے دھماکے کا کام کر دے اور اگلے دن اخبار میں میر ی تصویر آئ ہو کہ ایک خود کش بمبار نے پولیس چوکی پر اپنی گاڑی اڑا دی۔۔۔ دوسرا تجربہ بھی بڑا قابل عبرت ہے ان علماء کے لیے جن کی مدد سے یہ مضمون معرض وجد میں آیا۔ بچپن میں ہم ایک لڈو گیم کے میچ میں بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ لینے کے لیے ہمہ تن گوش تھے کہ ایک نسوار چوس کھلاڑی کو غصہ آگیا اس نے گو ٹ چلنے سے پہلے جیب سے پالک کا پیکٹ نکالا اور ایک گولی بنا کر یون منہ میں پھینکی جیسے یہ یہ میچ اب ان صاحب کے نام رجسٹرڈ ہو گیا ہو۔۔ خیر ہم نے بھی ڈیش گیری کے طور پر صاحب کی تقلید کرتے ہوئے ان سے پیکٹ لیا اور لڈو کو گھورتے گھورتے پالک کو گوندھنا شروع کر دیا۔ زہے نصیب کہ ہم اس گوندھی گولی کو منہ میں ڈالے بنا ہی مین آف دی میچ قرار پائے اور پالک کو وہ تھیلا بمع گوندھی ہوئ گولی کے نسوار چوس بھائ کی طرف اچھال دیا۔۔ ٹائیم گزر نے کے ساتھ ساتھ ہم یہ بات بھول گئے کہ ہم نے پالک کا آٹا گوندھا تھا، اچانک ناک پہ کچھ کھجلی سی ہوئ تو ہم اپنی انگلی کو ناک کے قریب لے جا کر تڑپ سے گئے۔۔۔ یا اللہ خیر ۔۔۔۔ اتنی ہلاکو خان بدبو۔۔۔۔ کافی سوچ و بچار کے بعد یاد آیا کہ اس انگلی سے ہم نے پالک کا آٹا گوندھا تھا۔۔۔۔ بس وہ دن اور آج کا دن ۔۔ اب کوئ اپنے نس پر وار کرتا بھی نظر آجائے تو ہم اپنے ناک کو رومال میں جکڑ دیتے ہیں کہ مبادا کہیں ہوا سے پالک کا کوئ ٹکڑا ہماری طرف نہ اڑ کے آجائے۔۔۔
بالکل صحیح ۔۔ ابتسامہ بہت خوب عبدالقہار محسن بھائی، ابھی یہ سلسلہ رکا نہی ۔۔۔۔۔ اس "قیمتی"چیز" کو کہاں کہاں نہی دیکھا۔ ٹرین میں ، جہاز کی سیٹوں کے پاکٹس میں اس کی باقیات پائی گئیں۔ ایک ٹریننگ کے سلسلہ میں اٹلی جانے کا اتفاق ھوا۔ وھاں پہ اک " بھائی" ملے جو اس قیمتی چیز سے لطف اندوز ھو رہے تھے۔ دبیئ میں ایک سیشن میں ایک بیلجیئم کے گورے کا نیچے والا ھونٹ تھوڑا سوجا ھوا دیکھا تو پوچھ ھی لیا کہ آپ نسوار کھاتے ھیں؟ وٹ نسوار اس نے کہا ۔ میں نے تھوڑا سمجھانے کی کوشش کی تو فورا جیب سے خوبصورت سی ڈبیا نکالی (جیسے نسوار چوس کے پاس ھوتی ھے)۔ اس میں بہت چھوٹے چھوٹے تمباکو کے بیگ بنے ھوئے تھے جیسا ٹی بیگ ھوتے ھیں ۔ یہ نسوار کا شاید "امپرووڈ" ورژن تھا ۔ جس میں گولی نہی بنانا پڑتی۔ ایک پاکستانی ڈرائیور نسوار سمیت مل گئے۔ ان سے ایک گولی مستعار لے کر گورے کو دی ۔ اور اس کے دو تین گھنٹے تک وہ سیشن میں جھومتا ھی رھا ۔۔۔۔۔ یعنی دیسی نسوار کا قائل ھو گیا :00006: افسوس تب ھوا جب حرم مکی جیسے مقدس مقام پر بھی اس کا استعمال دیکھا گیا ۔
بہت سے تجربات ہیں لوگون کے نسوار کے بارے میں۔ ایک بار صدر کراچی میں بس کے انتظار میں نسوار بیچنے والی ایک دکان کے آگے کھڑے ہوگۓ۔ کچھ دیر کے بعد ہوا کے جھونکے کے ساتھ جب اس کی "خوشبو" ناک کے قریب آئ تو بمشکل معدے کے اندر موجود اشیاء کو باہر آنے سے روکا۔ میرے خیال میں اس کا استعمال ہمارے ملک ہی نہیں بلکہ میں اکثر سوڈانیوں کو بھی اسی طرح کی کوئ چیز اسی طریقے سے مسوڑھوں اور دانتوں کے بیچ رکھتے دیکھا ہے۔ اور پھر اس کے بعد وہ وہی کچھ کرتے ہیں جو کچھ ہمارے نسوار خور ہم ملک کیا کرتے ہیں۔
جی افریقی خواتین کو میں نے ایسا کرتے دیکھا ہے لیکن جھجک کے مارے پوچھا نہیں کہ یہ کیا ہے ۔ سگریٹ کی بو بھی کتنی بری ہوتی ہے، سر میں درد ہونے لگتی ہے لیکن جن کو عادت ہے ان کو کوئی فکر نہیں ہوتی ۔
ہاہا۔۔۔برادر اب نسوار اتنی بری چیز بھی نہیں ،جتنا آپ اعلی قسم کے کھاد سے مطابقت فرما رہے ہیں ۔۔یقین نہیں آتا تو خود کبھی اک ''چونڈہ'' ڈال کر دیکھیں۔۔:00006:۔۔نسوار کے بارئے میں آپ کے علم میں کچھ مزید اضافہ کروں آپ نے نسوار چوسوں کو تو دیکھا ہوگا نسوار کھاتے کسی کو نہیں دیکھا ہوگا جی ہاں جب نسوار چوسوں کا نشہ انتہا کو پہچنتا ہے تو پھر وہ نسوار کو چوستے نہیں کھاتے ہیں اور نسوار کی چھوٹی ڈبیا اپ پرانی وقتوں کی بات ہے اب تو ٹشو پیپر میں نسوار کو رکھ کر منہ میں رکھا جاتا ہے اس سے منہ خراب نہیں ہوتا اور نشے میں بھی فرق نہیں آتا،نوجوان طبقہ خاص طور پر نئے نویلے دولہے صاحبان مذکورہ بالا طریقے سے نسوار ڈالتے ہیں ۔۔۔ عموما نسوار کو مرد حضرات کا نشہ خاص سمجھا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں ایسی عورتوں کو بھی بہ چشم خود دیکھا ہے جو نسوار ڈالتی ہیں اور انجوائے کرتی ہیں بلکہ کئی بار تو ان کے لئے بازار سے نسوار لانے کا فریضہ بھی ہم ادا کرچکے ہیں۔۔مزید برآں مشہور تو سبز رنگ کی زیادہ مشہور ہے جس کی آپ نے ساگ سے تشبہہ فرمائیں مگر اصل میں کالے رنگ کے نسوار کو اعلٰی قسم کا نسوار نسوار تصور کیا جاتا ہے ،اعلی قسم کے نسوار حاصل کرنے کے لئے آپکو بنوں شہر جانا پڑے گا۔۔۔۔۔۔
ہاہا۔۔بیشتر پٹھان بھائیوں کو تو میں نے یہ کہتا سنا ضرور ہے کہ دیکھو وہ پاپائی دہ سیلر کارٹون والا بھی نسوار کھاتا ہے ۔۔۔ہاہا۔۔ویسے برادر آپ نسوار ڈالتے ہیں یا نہیں؟۔۔:00016:۔
السلام و علیکم ورحمۃ اللہ۔۔۔۔ ویسے مجھے اُمید بھی تھی کہ برادران اپنے اپنے تجربات بھی شئیر کریںگے۔۔ مگر مجھے یہ معلوم نہیںتھا کہ برصغیر سے باہر کے لوگ بھی اسی قسم کی حرکتیںکرتے ہیں۔ میرے ناقص علم میںابھی تک چرس، افیون، ہیروئن اور بھنگ ہی انٹرنیشل معیار کی شہر حاصل کر پائے۔۔۔۔ اب کہیں پاکستانی، نسوار کی سمگلنگ نہ شروع کردیں کہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی دعاؤں میںیاد رکھا کریں بھائی۔۔ کوشش تو رہتی ہے، مگر دفتری اوقات اور گھر کی مصروفیات کی وجہ سے وقت کم ہی ملتا ہے۔۔۔۔ جزاک اللہ خیرا
اگر علاقوں یا اقوام کا نام لے کر ان کا عیب بیان کرنا میرے مسلک میں جائز ہوتا تو ایک فہرست تیار ہو جاتی ۔ غیر ملکیوں سے جو تھوڑا بہت واسطہ ہے اس کی بنیاد پر کئی بار میں نے اس طرح کی ثقافتی معاملات پر لکھنے کا سوچا لیکن خیال آیا کہ اس طرح کسی کی دل آزاری نہ ہوجائے ۔ حالاں کہ عام زندگی میں ہم ان چیزوں پر ہنستے ہیں اور برا نہیں مانتے لیکن باقاعدہ تحریر سے کوئی ناراض ہو سکتا ہے۔ بھنگ اسلام آباد میں بہت ہوتی ہے ، ہماری ایک غیرملکی کلاس فیلو نے ایک جگہ بھنگ کا بہت بڑا جنگل دیکھا تو اس کے قریب گئیں ، ہم سب چلانے لگے کہ مچھر کاٹ لیں گے۔ ایک شاخ توڑ کر لے آئیں اور کہنے لگیں میرے ہموطنوں کو پتہ چل جائے تو سب تمہارے ملک پہنچ جائیں ۔ یہ ہمارے یہاں بہت مہنگا نشہ ہے ۔
بات اب بهنگ تک آ گئی هے. ابتسامه اس کا مثبت استعمال بهی هے. لوگ اس کو خشک کر کے اس کو بطور ایندهن استعمال کرتے هیں. اور اس کی عارضی چهت بهی ڈالی جاتی هے. جیسے چهپر وغیره....