13سال بعد برطانوی افواج کا افغانستان سے انخلاء

توریالی نے 'خبریں' میں ‏اکتوبر، 28, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    [​IMG]
    13سال بعد برطانوی افواج کا افغانستان سے انخلاء

    افغانستان کے جنوب میں واقع برطانوی فوجی اڈے کیمپ بیسچئین Camp Bastionسے برطانوی، امریکی اور نیٹو کے جھنڈے اتار لیے گئے۔ فوجی اڈہ افغان افواج کے حوالے کر دیا گیا۔

    افغانستان پر امریکا، برطانیا اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے افغانستان پر مسلط کی گئی جنگ کے تیرھویں سال میں برطانیا کی افغانستان کے خلاف فوجی مہم بروز اتوار 26اکتوبر 2014ء کو کسی واضح کامیابی کے بغیر اپنے اختتام کو پہنچی۔ گزشتہ اتوار کے دن افغانستان کے صوبے ہلمند کے ایک وسیع و عریض صحرا کے عین درمیان واقع برطانوی فوجی اڈے کیمپ بیسچئین پر ایک الوداعی فوجی تقریب جس میں امریکی اور برطانوی فوجیوں نے شانہ بشانہ حصہ لیا، میں فوجی بینڈ پربرطانیا اور امریکا کا قومی ترانہ بجاتے ہوئے فوجی اڈے سے برطانیا اور بعد ازاں امریکا اور نیٹو کے جھنڈے اتار کر لپیٹ لیے گئے اور فوجی اڈہ افغان افواج کے حوالے کرنے کےبعد برطانوی افواج کی وطن واپسی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا جو اب پیر کے روز مکمل کیا جا چکا ہے۔ واضح رہے کہ برطانیا کو ہلمند میں اپنا فوجی اڈہ قائم رکھنے اور طالبان کو مات دینے کے لیے لڑائی کے دوران 453 برطانوی فوجیوں سے ہاتھ دھونا پڑے جب کہ ہزاروں برطانوی فوجی شدید سے متوسط جسمانی معذوری کا شکار ہوئے جب کہ برطانوی فوجیوں کی کثیر تعداد جنگ کے باعث ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوئے ہیں۔

    برطانوی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے موقع پر برطانوی وزیر دفاع مائیکل فالونMichael Fallon نے کہا ہے کہ دورانِ جنگ برطانیہ سے کافی غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں جس کے باعث برطانیہ کو اپنے فوجیوں کی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ برطانوی وزیر دفاع کے مطابق برطانیہ سے سرزد ہونے والی غلطیاں فوجی اور سیاسی نوعیت کی ہیں۔ انہوں نے غلطیوں کا ذمہ دار گزشتہ 13 سالوں میں سیاست دانوں کی سیاسی حکمت عملیوں اور غیر موزوں اور ناکافی فوجی ساز و سامان کو ٹہرایا ۔تاہم انہوں نے کہا کہ 2011ء سے اب تک بہت سی کامیابیاں بھی حاصل کی جا سکی ہیں اور اب افغان قومی افواج امن و امان کے نفاذ میں مزید بہتر کردار ادا کر سکیں گی۔برطانوی وزیر دفاع نے کہا کہ برطانوی افواج کا بیشتر حصہ کرسمس کے آنے تک وطن واپس لایا جا چکے جب کہ چند سو برطانوی فوجی، افغان فوجیوں کی تربیت کے لیے افغانستان میں تعینات رکھے جائیں گے۔

    برطانوی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ برطانوی افواج کی بیش بہا قربانیوں نے ایک ایسی مظبوط افغان قومی فوج کی بنیاد رکھنے میں بے مثال کردار ادا کیا ہے جس نے افغانستان کی قومی تاریخ میں جمہوری عمل کے تسلسل کو قائم رکھنے اور اس ضمن میں پہلے پُر امن انتقال اقتدار کو ممکن بنایا ہے اور افغانستان کی سرزمین کو برطانیا کی سرزمین پر دہشت گردانہ حملوں کے لیے استعمال ہونے سے روکنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ طالبان کو شکست نہیں دی جا سکی تاہم افغان قومی افواج اپنی ذمہ داریاں قبول کر رہے ہیں۔

    برطانوی وزیر دفاع نے کہا کہ افغانستان کے لیے برطانوی امداد اداروں کی ترقی اور افغان نیشنل آرمی آفیسر اکیڈمی اور ترقیاتی امداد کے ذریعے جاری رہے گی۔

    برطانیا جو افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند میں، 2006ء سے اپنی موجودگی برقرار رکھے ہوئے تھا، افغانستان سے اپنی تمام تر افواج کا مکمل انخلاء رواں سال کے اختتام تک مکمل کر نے کا عندیہ دے چکا ہے۔ تاہم چند سو برطانوی فوجی مشیر افسران کابل میں رواں سال کے بعد بھی موجود رہیں گے لیکن ان کا کسی بھی جنگی کاروائی میں کوئی عملی کردار نہ ہو گا۔ اس کے علاوہ کچھ برطانوی فوجی، جن کی تعداد ظاہر نہیں کی گئی ہے کیمپ بیسچئین پر بدستور موجود رہیں گے تاکہ اس فوجی اڈے کی عمارات کو قائم رکھا جاسکے۔

    افغان کے جنوبی صوبے ہلمند میں برطانوی افواج2006ء سے موجود ہیں جب ہلمند کے صحرا کے عین وسط میں برطانوی افواج کی جانب سے طالبان کا قلع قمع کرنے کے لیے کیمپ بیسچئین کے نام سے ایک فوجی اڈہ قائم کیا تھا۔ کیمپ بیسچئین افغانستان میں برطانوی افواج کی کاروائیوں کو جاری رکھنے رکھنے کے لیے ایک مرکزی مقام کی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ بیسچئین انگریزی میں قلعے کے بلند و بالا بُرج کو کہتے ہیں جہاں سے قلعے کی جانب کسی بھی اطراف و جوانب سے بڑھنے والی افواج کو پیشگی طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ افغانستان میں جنگ کے عروج پر، برطانوی افواج کے اس مرکزی فوجی اڈے پر 10,000برطانوی افواج کے علاوہ 20,000 امریکی فوجیوں کے علاوہ، مشرقی یورپ کے ایک چھوٹے ملک ایسٹونیا، ڈنمارک ، ایک عرب ملک اردن کے علاوہ دیگر بہت سی قومیتیوں کے فوجی بھی تعینات تھے۔کیمپ بیسچئین پر مختلف نوعیت کے 180فوجی اڈے اور چوکیاں بھی قائم تھیں۔اس طرح کیمپ بیسچئین جو چہار جانب صحرا سے گھرا ہوا ہے ایک انتہائی وسیع و عریض فوجی اڈے کی حیثیت اختیار کر گیا اور اس فوجی اڈے کی چہار دیواری 22 میلوں پر محیط ہو چکی ہے۔ کیمپ بیسچئین فوجی اڈے کی ہوائی پٹی (رن وے) ایک وقت میں برطانیا کی زیر نگرانی پانچویں مصروف ترین ہوائی پٹی کا درجہ اختیار کر چکی تھی، جہاں سے ہر قسم کے فوجی طیارے اور ہیلی کاپٹر پروازیں کرتے رہے ہیں ۔ کیمپ بیسچئین پر موجود ہوائی پٹی کو اب تجارتی اور مسافر بردار بڑے تیاروں کی پرواز کے لیے توسیع و ترقی دی جا رہی ہے۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے اس ہوائی پٹی کو برؤئے کار لاتے ہوئے سینکڑوں فوجی گاڑیاں اور دیگر فوجی ساز و سامان کا واپس برطانیا انخلاء کیاجا تا رہا ہے۔

    بتایا جا رہا ہے کہ اس سابقہ برطانوی فوجی اڈے جو کیمپ بیسچئین کہلایا جا رہا ہے پر بدستور تعینات رہنے والی افواج میں امریکا کی ایک بٹالین فوج ہے جس کے افغانستان سے انخلاء کا کوئی واضح نظم الاوقات نہیں دیا گیا ہے۔

    کیمپ بیسچئین کو افغان قومی افواج کے ہاتھوں سپرد کرنے کی تقریب کے موقع پر، افغانستان کے صوبہ ہلمند کے گورنر نعیم بلوچ کا کہنا ہے کہ برطانوی افواج اور ان کے حلیفوں نے ہلمند میں امن و امان کی فضا قائم کرنے میں بڑی مدد فراہم کی ہے اور ہم ان کی افواج کی ہمت اور عزم کے بہت مشکور ہیں اور ہم اب امن و امان کی فراہمی کی ذمہ داری خود قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم برطانوی افواج کے افسر اعلیٰ سر نک کارٹرSir Nick Carter کے اعتراف کے مطابق ہلمند میں امن و امان رکھنا ایک مشکل کام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی برطانوی افواج کے زیرِ قبضہ صوبہ ہلمند سے ملحق علاقے سنگین اور نو زاد، طالبان کے نہ ختم ہونے والے حملوں کی وجہ سے افغان حکومت کی افواج پر کاری ضرب لگا چکے ہیں جس کا سلسلہ جاری ہے۔ اور ضمن میں ہلمند میں برطانوی افواج کے ایک اعلیٰ افسر بریگیڈیئر روب تھامپسن Brig. Rob Thompsonنے عراق کی موجودہ صورت حال کو افغانستان پر پیش آمدہ صورت حال کے حوالے سے منطبق کرنے سے شدید غلطی پر محمول کیا ہے۔بریگیڈئیر تھامپسن کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ افغان طالبان کو افغانستان میں وہ قبولیت و پزیرائی نہ حاصل ہو سکے گی جو دولتِ اسلامیہ (داعش) کو عراق میں سُنی مسلمانوں کی طرف سے مختلف وجوہات کی بناء پر حاصل ہو گئی جس کے تحت وہ عراق کے علاوہ الشام کے ایک وسیع و عریض خطے پر بھی اپنا اثر و رسوخ (حکومت)قائم کر سکے۔ برطانوی بریگیڈیر تھامپسن نے اپنے بیان کی وجہ افغانستان کی جغرافیائی صورتِ حال، متنوع ثقافت، سماجی ساخت اور دیگر وجوہات پر قائم کی ہے۔ بریگیڈیئر تھامسن کے مطابق، برطانیا اور مغرب اپنی فوجی مہم ، جس بنیاد پر افغانستان سے لپیٹ رہے ہیں، وہ اس لیے مکمل انخلاء یا مکمل شکست کے قاعدے سے مختلف ہے کہ اگلے دو سال تک وہ [برطانیا، امریکاو یگر مغربی قوتیں] افغانستان میں واقع ہونے والے تغیر و تبدل پر بالواسطہ نگاہ رکھیں گی۔

    بریگیڈئیر تھامپسن کا کہنا ہے کہ وہ [ برطانیہ ، بشمول امریکا و دیگر مغربی ممالک] افغانستان کی وزارتِ دفاع و داخلہ کے لیے اپنی امداد و تعاون کو جاری رکھیں گے ، جس کے تحت تربیت، معاونت اور مشاورت کو تمام تر افغانستان کے لیے جاری رکھا جائے گا اور اس ضمن میں ہم کوئی مشکلات اپنی راہ میں نہیں پاتے۔ بریگیڈئیر موصوف نےکہا کہ ہم موجودہ صورت حال کو برطانوی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان کے حق میں ایک مثبت تغیر و تبدل کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور نہ ہی سمجھتے اور نہ ہی ہم دیکھتے ہیں کہ افغانستان کے صوبہ ہلمند میں داعش کی [کامیابیوں] کی طرح کے کوئی شواہد موجود ہیں۔ برطانوی فوجی افسر، بریگیڈئیر تھامپسن نے برطانوی افواج کی جانب سے افغانستان میں جان کی قربانی دینے والے چار سو تریپن فوجیوں، جن کا تعلق برطانیا کی بری، بحری اور فضائی افواج سے تعلق رہا ہے کی بابت خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان ہلاک شدگان فوجیوں کی قربانی کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے جنہوں نے افغانستان کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کی ہیں۔

    افغانستان سے انخلاء کی تقریب کے حوالے سے، برطانیا کے اعلیٰ ترین فوجی سربراہ جنرل سر نِک ہوٹن Gen. Sir Nick Houghton کا کہنا ہے کہ افغانستان میں 13 سالہ طویل فوجی مہمات میں ہماری برطانوی افواج کے ہزاروں مرد و زن نے افغانستان کے عوام کے لیے امن و تحفظ کے قیام کے لیے ایک انتہائی دور رس اور معنی خیز کردار ادا کیا ہے۔ اور اس ضمن میں ہماری افواج کے افراد نے اخلاقی جرأت ، ثابت قدمی اور اختراع یعنی بدلتی صورت حال کو قبول کرتے ہوئے انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے خندہ پیشانی سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا ہے۔

    روزنامہ گارجین، لندن

    **************************************************

    کیمپ بیسچئین کی مختصر تاریخ

    جنوری2008ء: کیمپ بیسچئین افغانستان کے صوبہ ہلمند کے صوبائی صدر مقام لشکر گاہ میں امریکا کے طالبان کے خاتمے کے لیے افغانستان میں مسلط کردہ جنگ کے پانچویں سال میں تعمیر کیا گیا۔ کیمپ بیسچئین نامی فوجی اڈے کی تعمیر اور اس کا خاکہ برطانیا کے یوکے ورک گروپ رائل انجینیئرز UK Works Group Royal Engineers، ریکن انٹرنیشنل Recon International، اور ایٹال بیٹون مڈل ایسٹ Italbeton Middle East، نامی اداروں نے ترتیب دیا۔

    21نومبر2006ء: برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئرTony Blairنے افغانستان کے صوبہ ہلمند میں واقع کیمپ بیسچئین کے دورے کے دوران ایک خطاب میں دعویٰ کیا کہ،’’ اس فوجی اڈے سے اکیسویں صدی کی دنیا کی سلامتی کے فیصلے کیے جائیں گے‘‘۔

    18مئی 2008ء:کیمپ بیسچئین کا حدود اربعہ گزشتہ سالوں کی نسبت دوگنا کرکے 35 مربع کلو میٹر کر دیا گیاجس میں امریکا کا ایک فوجی اڈہ کیمپ لیدر نک Camp Leatherneck ایک فوجی اڈے کے اندر ایک اور فوجی اڈہ بھی شامل کر دیا گیا ہے جو 12,000ہزار امریکی فوجیوں کو قیام فراہم کرے گا۔
    [​IMG]

    8جون2011ء: کیمپ بیسچئین برطانیا کے چوتھے مصروف ترین ہوائی اڈے کی حیثیت اختیار کر گیا اور اس کی فضائی نقل و حرکت، برطانیا کے لوٹن Luton، ایڈنبراEdinburgh اور برمنگھم Birmingham کے ہوائی اڈوں سے بھی بڑھ گئی۔اس برطانوی فوجی اڈے پر فضائی نقل و حرکت کی مقدار پر قابو رکھنے اور اس کے انتظام و انصرام کے لیے برطانوی فضائیہ آر اے ایف RAFنے جدید ترین آلات سے آراستہ فضائی پروازوں کی نقل و حرکت کی معاونت کے لیے ایک انتظامی مینار ، کنٹرول ٹاور تعمیر کیا جب کہ اس سے پہلے فضائی نقل و حرکت بانسوں پر ایستادہ ایک چھوٹے عارضی کمرے سے کی جاتی تھی ۔

    2011/12ء: کیمپ بیسچئین اپنے مصروف ترین دور میں 14.000 نفوس پر مشتمل آبادی کے عروج میں برطانیا کے ایک درمیانی جسامت کے شہر ریڈنگ Readingکے مساوی جسامت اختیار کر گیا۔اس اڈے کی دو میل لمبی فضائی پٹی (رن وے) دن میں 600 طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کو نقل و حرکت کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

    ستمبر2012ء: برطانوی شہزادہ پرنس ہیری Prince Harry اپاچی نامی حملہ آور ہیلی کاپٹرApache Attack Helicopterکے معاون ہوا باز کی چار ماہ کی تربیت کے لیے کیمپ بیسچئین آیا۔

    15ستبر 2012ء: کیمپ بیسچئین کی حفاظتی حصار کو پامال کرنے کے بعد باغیوں کے حملے کے نتیجے میں دو امریکی فوجی ہلاک ، کئی طیارے ، فوجی اڈے کی عمارت ا ور تنصیبات تباہ و برباد کر دی گئیں۔ جوابی اقدام میں نیٹو کے مطابق 18طالبان ہلاک کر دیے گئے۔ اپریل 2014ء میں برطانوی ارکانِ پارلیمان نے ایک تحقیقی روئیداد جاری کی جس میں برطانوی فوجی اڈے کیمپ بیسچئین پر حملے کے ضمن میں فوجی اڈے کی ناقص نگرانی اور طالبان کے حوصلہ مندی سے بڑھتے ہوئے کامیاب حملوں کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔
    [​IMG]
    [​IMG]
    19 اگست 2013ء: برطانوی افواج کی افغانستان میں موجودگی اور فوجی مہمات میں بتدریج تخفیف کی غرض سے بطور ایک اہم سنگِ میل، فوجی مہمات کے صدر دفتر (ہیڈ کوارٹر) کو لشکر گاہ سے کیمپ بیسچئین منتقل کر دیا گیا۔

    اکتوبر2013ء:برطانوی افواج کے افغانستا ن سے انخلاء اور کیمپ بیسچئین کا فوجی اڈہ افغان افواج کو منتقل کرنے کے ضمن میں پہلا قدم کیمپ بیسچئین پر اٹھایا جاتا ہے، جس کے تحت افغان قومی فوج کی تربیت کے لیے کیمپ بیسچئین پر فوجی تربیت کا ایک کیمپ قائم کیا جاتا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد فوجی تربیت کی بہم رسانی کو بتدریج مقامی افراد کے ہاتھوں ممکن بنانا ہے تاکہ مغربی ممالک کی افواج کے افغانستان سے حتمی انخلاء کے بعد طالبان کے خطرے سے نمٹا جا سکے۔

    1اپریل 2014ء: برطانیا نے صوبہ ہلمند اور علاقے پر آٹھ سالہ فوجی اختیار ، اختتام کو لاتے ہوئے امریکا کو منتقل کر دیا۔

    26 اکتوبر2014ء: بروز اتوار، مورخہ 26 اکتوبر2014ءکو، افغانستان کے مقامی وقت کے مطابق صبح 10 بجے ، ایک تقریب میں برطانوی افواج نے کیمپ بیسچئین کو افغان حکام کے حوالے کر کے افغانستان میں برطانوی جنگ کے خاتمے کا اعلان کردیا۔

    کیمپ بیسچئین پر طالبان کے حملے میں چاند کا کردار اور لیزر شعائیں
    . . .کیاطالبان نے علم طبیعات میں مہارت حاصل کر لی؟مزید اگلی نشست میں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں