اہل سنت والجماعت کا منہج اختلاف ( شیخ عدنان محمد العرعور)

ابوعکاشہ نے 'نقطۂ نظر' میں ‏نومبر 26, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    اہل سنت والجماعت کا منہج اختلاف

    تحریر: فضیلۃ الشیخ عدنان محمد العرعور

    اختلاف کے بہت سارے اقسام ہے ۔ اور ہر قسم کا حکم اور اس کے ساتھ ہمارے تعامل کی صورتیں مختلف ہیں ۔

    اختلاف کی پہلی قسم
    1. خلاف الترف (فضول اختلاف)

    تعریف:خلاف الترف سے مراد وہ اختلافات ہیں جن کا تعلق عقیدہ و عمل سے نہ ہو، نہ ان سے کسی قسم کا نفع یا نقصان جڑا ہوا ہو۔ نہ ہی ان سے کسی نص کا انکار یا مخالفت لازم آرہی ہو۔
    مثلا: اصحاب کہف کی تعداد کتنی تھی؟ وہ کس شہر کے رہنے والے تھے اور کس غار میں انہوں نے پناہ لی تھی؟ وہ کون سا پیڑ ہے جس کا پھل حضرت آدم علیہ السلام نے کھایا تھا؟ وہ کون سی جنت ہے جس سے حضرت آدم علیہ السلام کو نکالا گیا تھا؟ وغیرہ وغیرہ
    قاعدہ اور حکم :طالب علم کے لیے اس قسم کے بحثوںمیں پڑنا شرعا تو جائز ہے لیکن ان کے پیچھے وقت کا بہت زیادہ ضیاع مناسب نہیں ۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ کہیں ان کی دیکھا دیکھی عام لوگ بھی ان بحثوں میں نہ الجھ جائیں۔
    عوام کو۔۔۔خواہ مہذب ہوں پھر بھی ۔۔۔۔ اس قسم کی بحثوں سے اجتناب برتنے کی تلقین کی جانی چاہیے ۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی نہ مانے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے (یعنی احتراز کی تلقین میں بھی سختی نہیں برتنی چاہیے )

    اختلاف کی دوسری قسم
    2. خلاف التنوع

    خلاف التنوع سے ہماری مراد وہ مسائل ہیں جن میں ایک سے زائد صورتیں جائز ہوں۔ جیسے قراءات کا اختلاف ، پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلی پڑھی جانی والی دعاوں کے بارے میں اختلاف، اس بات میں اختلاف کہ استطاعت کے بعد نکاح اور حج میں سے کسے ترجیح دی جائے ؟ وغیرہ
    حکم اور قاعدہ : اس قسم کے اختلافات کو لڑائی جھگڑے کی بنیاد بنانا صحیح نہیں ، ایسے معاملات میں ہر مسلمان کو اجازت ہے کہ مصلحت کے مطابق جو موقف اسے مناسب لگے اختیار کرلے ۔

    اختلاف کی تیسری قسم
    3. الخلاف المعتبر أو خلاف الفهم والاجتهاد( جائز اختلاف یا فہم و اجتہاد کا اختلاف)

    تعریف:وہ اختلاف جو ان اشخاص کی طرف سے ہو جن کے اندر مندرجہ ذیل تین صفات پائی جاتی ہوں۔
    1.اجتہاد کی اہلیت:یعنی اختلاف کرنے والے فریقین میں مجتہد کے وہ سارے شرائط موجود ہوں جن پر اہل سنت والجماعت کو اتفاق ہے ۔
    2. اصول کی صحت:یعنی اصول دین ، اصول عقیدہ ، اور اصول فقہ و استنباط میں وہ اہل سنت والجماعت کے منہج پر ہوں۔
    3.مصادر کی صحت:یعنی جو فتویٰ یا حکم اس مجتہد نے صادر کیا ہے اس کی بنیاد ان مصادر پرہو جن پر اہل سنت والجماعت اعتبار کرتے ہیں ۔ یعنی قرآن ، سنت اور اجماع، لہذا مجتہد اجماع کی مخالفت نہ کررہا ہو، نہ کسی ایسی نص کی مخالفت کررہا ہو جس کا معنی و مفہوم اس طرح متفق علیہ ہے اس میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ۔ اور اس کا اجتہاد فقہ کے معتبر اصولوں پر مبنی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اس کا یہ فتویٰ محض مصلحت کی بنا پر یا بہتر نتائج کی امید پر دیا گیا ہویا فتوی سے محض کسی دینی پاپندی سے چھٹکارا حاصل کرنا مقصود ہو ، یا فتویٰ محض سہولت پیدا کرنےیا مشقت سے بچنے کے لیے دیا گیا ہو۔ یا اسی طرح کی دوسری وجوہات۔مثال:جیسے بنی قریظہ میں عصر کی نما زپڑھنے کےحکم کے متعلق صحابہ کا اختلاف ، جہری نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی قرات کے بارے میں علماء کا اختلاف ، عورت کے چہرہ کے پردہ کے واجب ہونے کے بارے میں علماء کا اختلاف وغیرہ

    قاعدہ:
    • ایسے اختلاف کے بارے میں ہمارا اصول ہےنبين ولا نضلل، نصحح ولا نجرح،یعنی ہم وضاحت کریں گے لیکن گمراہ نہیں قرار دیں گے ، اور ہم تصحیح کریں گے لیکن جرح نہیں کریں گے ۔ یعنی ہر فریق، فریق مخالف کی خطا کو تو واضح کرنے کی کوشش کرے گا لیکن فریق ثانی کو اپنے موقف کے اختیار کرنے سے منع کرنے کا حق کسی کو نہیں ، کیونکہ منع منکر کام سے جاتا ہے ۔ اور سلف کا مذہب یہی رہا ہے کہ جس مجتہد میں مذکورہ شرائط موجود ہو اس کو اپنے موقف کے اختیار کرنے سے روکا نہیں جاسکتا۔
    • اس قسم کے اختلاف میں ہر فریق، فریق ثانی کو معذو ر سمجھے گا۔ گرچہ اختلاف کا تعلق عقیدہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ ( عقیدہ میں اختلاف سے مراد جب اختلاف کا تعلق اصول عقیدہ یا ضروریات دین سے نہ ہو ، بلکہ اختلاف عقیدہ کے فروعی مسائل میں واقع ہوا ہو ، جیسے یہ اختلاف کہ اللہ نے پہلے عرش کو پیدا کیا یا قلم کو؟ یا اسی قسم کے اختلافات جن سے کسی فریق کا کافر یا فاسق ہوجانا لازم نہیں آتا۔)
    • اس قسم کا اختلاف اس وقت تک جائز اختلافات کی قسم میں شمار کیا جائے گے جب تک مختلف فیہ مسئلہ میں واضح نص نہ مل جائے ، ایسی نص جس سے مسئلہ پوری طرح واضح ہوجائے ۔
    • ایسے اختلافات میں کسی فریق کا اپنی رائے ترک کردینے میں بھی کوئی حرج نہیں ، اپنے سے زیادہ علم یا فضیلت رکھنے والے کے اجتہاد پر اعتبار کرتے ہوئے ، یا مسلمانوں کے اتحاد اور مصلحت کے پیش نظریا تالیف قلوب کے لیے یا کسی بڑے فساد سے بچنے کے لیے ۔

    موقف:
    طالب علم کو چاہیے کہ وہ اس قسم کے اختلافات میں دلائل کی قوت کو دیکھ کر فیصلہ کرے اور جس کی دلیل قوی معلوم ہو اس کے موقف کو ترجیح دے ۔اور عامی جو دلائل کی قوت جانچنے سے محروم ہے اس کو چاہیے کہ اس قسم کے اختلاف کی صورت میں وہ دو فتووں میں سے اس فتویٰ کی پیروی کرے جس پر اس کا دل مطمئن ہو۔ دل کا یہ اطمینان مختلف اسباب کی بنا پر ہوسکتا ہے ۔ جیسے دو علماء کے درمیان اختلاف کی صورت میں اس عالم کی بات مان لے جو زیادہ علم والا ہے ، یا اس عالم کی بات مان لے جو زیادہ متقی ہے ،یا وہ عمل اختیار کرلے جس میں زیادہ احتیاط ہے ، یا اس موقف کی اتباع کرے جس پر زیادہ علماء نے فتویٰ دیا ہو، یا اس عالم کی بات مان لے اس مسئلہ میں متخصص ہو۔ ان میں سے جس صورت میں بھی عامی کا دل مطمئن ہوجائے اس کےلیے اس کا اختیار کرلینا جائز ہے ۔

    خلاف معتبر کی صورتیں
    پہلی صورت :اہل سنت کا آپس میں کسی مسئلہ میں مختلف ہونا ۔

    جیسے تارک صلاۃ کے کافر ہونے کا مسئلہ ، اسی طرح یہ مسئلہ کہ اللہ نے پہلے قلم کو پیدا کیا یا عرش کو؟ چہرے کے پردہ کے واجب یا مستحب ہونےکا مسئلہ ، نیز اسی طرح کے دوسرے مسائل
    وہ مسائل جن میں اہل سنت والجماعت آپس میں مختلف فیہ ہیں یا جن میں اہل سنت والجماعت کا پہلے سے اختلاف چلا آرہا ہو ان مسائل میں کسی فریق کےلیے جائز نہیں کہ وہ اس اختلاف کو فرقہ بندی کی حد تک لے جائےاور ایسے مسائل کو انشقاق و افتراق کی بنیاد بنائےاو نہ ہی کسی فریق کو یہ حق حاصل ہے کہ فریق مخالف کو اس کو موقف ترک کرنے پر مجبور کرے ۔ یا اس پر بالجبر اپنا موقف تھوپنے کی کوشش کرے ۔
    ایسا شخص ناحق ظلم کرنے والا کہلائے گا جو اس قسم کے مسائل میں تشدد برتے ، یا ان کو آپسی دشمنی کی بنیاد بنائے ، یا ان مسائل کو لے کر گروہ بندی کرے ۔ ان لوگوں کی طرح جو کہتے ہیں کہ تارک صلاۃ کو کافر نہ ماننے والا مرجی ہے یا تارک صلاۃ کو کافر ماننے والا خارجی ہے ۔وغیرہ وغیرہ

    دوسری صورت :تاصیل اور تمثیل
    جب مجتہدین یا مسلمان اصول و قواعد میں تو ایک دوسرے سے متفق ہوں لیکن ان قواعد کی تطبیق ، یا اصولوں کی تفریع یا صورت حال پر ان کے تطبیق (application)کے بارے میں اختلاف ہوجائے تو کسی ایک فریق کے لیے دوسرے فریق کو اپنے موقف کے اختیار کرنے سے روکنا بھی جائز نہیں کجا یہ کہ فریق ثانی کو طعن و تشنیع کا ہدف بنانا جائز ہو۔

    وضاحت:
    جیسے مجتہدین تکفیر کے قواعد پر تو متفق ہوں لیکن کسی مخصوص فرد کی تکفیر کے بارے میں اختلاف ہوجائے ، اسی طرح بدعت کے مفہوم پر تو مجتہدین کا اتفاق ہو لیکن کسی ایک عمل کے بدعت یا سنت ہونے کے بارے میں مجتہدین میں اختلاف ہوجائے ۔ اس قسم کے اختلافات کو لڑائی جھگڑے کی بنیاد بنانا بھی جائز نہیں تو ان کی بنا پر فرقہ بندی کیسے جائز ہوسکتی ہے ۔ اس قسم کے اختلاف میں بھی وہی قاعدہ نافذ ہوگا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں یعنی نصحح ولا نجرح، نبيّن ولا نضلل


    تیسری صورت: شخصیات کے بارے میں اختلاف
    جب اختلاف کرنے والے مجتہدین کے اصول ایک ہوں ، ان کا منہج بھی ایک ہی ہو تو محض کسی شخصیت کے بارے میں ان کے درمیان ہوجانے والے اختلاف کی وجہ سے کسی ایک فریق کو مطعون نہیں کیا جاسکتا ۔ اور نہ ہی اس قسم کے اختلاف کو بڑھاوا دے کر اسے نفرت اور محبت کا معیار بنایا جاسکتا ہے ، اس قسم کے اختلافات میں ولاء اور براء کے آداب و قواعد بھی لاگو نہیں ہوتے ۔ نہ ان اختلافات کو لے کر لوگوں میں تفرقہ ڈالنا اور گروہ بندی کرنا جائز ہوگا۔ اس قسم کے مسائل جہاں اجتہاد کی بنیادپر اختلاف کرنے کی گنجائش موجود ہو وہاں کسی ایک فریق کے لیے قطعا جائز نہیں کہ وہ دوسرے فریق کو گمراہ قرار دے ۔ یا اس کے موقف کی وجہ سے اس سے علیحدگی اختیار کرلے ۔ اجتہاد کے مقامات میں اختلاف ہوجانا ایک فطری عمل ہے ۔ لہذا کوئی فریق اگر ایسے مقامات پر فریق مخالف پر جرح کرے ، یا اس کو اپنی تصنیفات کا موضوع بنائے توہ فرقہ پرست اور گمراہ قرار دیا جائے گا۔
    اسی قسم کے اختلاف کی ایک صورت کسی شخصیت پر جرح اور تعدیل میں علماء کا اختلاف ہے ۔ جیسا کہ بعض افراد کی تکفیر کے بارے میں ہمارے اسلاف میں شدید اختلاف ہے ۔ بعض اشخاص کے بدعتی اور مجروح ہونے کے بارے میں شدید اختلاف ہے ۔ مثلا حجاج بن یوسف کے کافر اور زندیق ہونے کے بارے میں اسلاف کا اختلاف ہے ۔ اسی طرح جنید بغدادی ، ابراہیم بن ادہم اور عبدالقادر جیلانی وغیرہ کے بدعتی اور فاسق ہونے کے بارے میں اختلاف ہے ۔ بلکہ بعض افراد کے متعلق یہ اختلاف تک موجود ہے کہ وہ صحابی تھے یا منافق؟ اتنے شدید اختلافات ہونے کے باوجود اسلاف نے ان بنیادوں پر جھگڑے نہیں کیے اور نہ ان اختلافات کی بنا پر الگ فرقے بنائے ۔ نہ ان اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے پر جرح کی ، نہ دوسرے پر اپنے قول کو اختیار کرنا لازم قرار دیا۔ نہ دوسرے کو ان سے براءت کا اظہار کرنے کی دعوت دی ۔لہذاکسی ایک عالم کے قول کو دوسرے عالم کے خلاف حجت نہیں بنایا جاسکتا ۔ اور نہ ہی اس قسم کے اختلاف میں کسی ایک عالم کے یا علماء کےقول کو دلیل بنایا جاسکتا ہے جب تک سارے ہی علماء کسی مسئلہ میں متفق نہ ہوجائیں۔سعید بن جبیر اور ان کے ساتھیوں نے جب حجاج بن یوسف کی تکفیر کی تو انہوں نے حسن بصری سے مطالبہ نہیں کیا کہ وہ بھی حجاج سے براءت کا اعلان کریں ۔ نہ ہی لوگوں میں یہ اعلان کیا کہ جو حجاج سے براءت نہیں کرے گا وہ بدعتی ہے ۔ اور نہ ہی سعید بن جبیر نے حسن بصری کی تکفیر کی۔ اس طرح کے اختلافات ولاء اور براء والے اختلافات نہیں ہے ۔ جیسا کہ بعض نو آموزوں نے اس کو اپنا شیوہ بنا رکھا ہے ۔ جو شخص بھی اس منہج کی مخالفت کرے گا وہ اسلام میں فرقہ بندی اور اختلاف کو فروغ دینے والا بنے گا۔ اور مسلمانوں کے درمیان فتنہ کا سبب بنے گا۔ لہذا ایسے لوگو ں کو خبرادار ہوجانا چاہیے ۔ اور ہدایت کے راستہ کی پیروی کرنی چاہیے ۔جب معانی کے بارے میں ہمارا اتفاق ہوتو شخصیات کے بارے میں اختلاف ہوجانا کوئی حرج کی بات نہیں ۔ اور اشخاص کے بارے میں اختلاف ہوجانے سے آپسی تعلقات ، اتحاد کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے ۔لیکن یہ ہمارے زمانہ کا بہت بڑا فتنہ ہے کہ دلیل اور اصولوں کے بجائے اشخاص کو قبول و رد اور ولایت و براءت کی بنیاد بنا لیا گیا ہے ۔ دلیل کے بجائے اشخاص کے لیے تعصب برتا جارہا ہے ۔ان کو نفرت اور محبت کا معیار سمجھ لیا گیا ہے جیسے کہ اسلام نے اشخاص ہی کو نفرت اور محبت کا معیار بنایا ہو ۔ نعوذ باللہ من فقہ الصبیان

    ترجمانی بشکریہ :سرفراز فیضی
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں