میرے رب کے گستاخ

عبد الرحمن یحیی نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏مارچ 17, 2018 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312
    میرے رب کے گستاخ
    ہمارے معاشرے میں یہ رواج عام ہو چلا ہے کہ اگر کسی پر توہین رسالت کا صرف الزام لگا دیا جائے تو اسے کبھی تو فورا بغیر تحقیق کے بھی قتل کر دیا جاتا ہے
    لیکن جو اللہ مالک الملک خالق کائنات مالک ارض و سما کی توہین کرے، کسی بھی مذہب کو نہ مانے
    بلکہ کبھی تو کوئی اللہ عزوجل کے وجود کا ہی انکار کرے
    تو ایسے آدمی کو کچھ نہیں کہا جاتا ، بلکہ اس کے رفاہی ، سماجی ، سائنسی پس منظر کو دیکھتے ہوئے اس کے مرنے کے بعد اس کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں ( دین دار حضرات بھی اس میں پیش پیش ہوتے ہیں )
    کہیں جنازے کا بھی اہتمام ہوتا ہے
    کہیں موم بتیاں جلائی جاتی ہیں

    اللہ تعالی کا قرآن کہتا ہے :

    إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّـهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ﴿١٦١﴾

    یقیناً جو کفار اپنے کفر میں ہی مرجائیں، ان پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے (161) سورة البقرة

    تفسیر ابن کثیر :
    " ان لوگوں کا بیان ہو رہا ہے جو کفر کریں توبہ نصیب نہ ہو اور کفر کی حالت میں ہی مر جائیں ان پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ، یہ لعنت ان پر چپک جاتی ہے اور قیامت تک ساتھ ہی رہے گی اور دوزخ کی آگ میں لے جائے گی اور عذاب بھی ہمیشہ ہی رہے گا نہ تو عذاب میں کبھی کمی ہوگی نہ کبھی موقوف ہوگی بلکہ ہمیشہ دوام کے ساتھ سخت عذاب میں رہیں گے
    نعوذ باللہ من عذاب اللہ
    جناب ابو العالیہ اور جناب قتادہ رحمۃ اللہ علیھما فرماتے ہیں، قیامت کے دن کافر کو ٹھہرایا جائے گا پھر اس پر اللہ تعالیٰ لعنت کرے گا پھر فرشتے پھر سب لوگ "۔

    اب کوئی کتنے ہی رفاہی اور سماجی کام کر لے
    لیکن اگر کائنات کے خالق کے سامنے نہ جھکے اسے نہ پکارے تو یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کے مطابق بیکار اور رائیگاں جائے گا

    صحيح مسلم (1/ 196)
    365 - (214) میں ہے
    :
    عَنْ عَائِشَةَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، ابْنُ جُدْعَانَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَصِلُ الرَّحِمَ، وَيُطْعِمُ الْمِسْكِينَ، فَهَلْ ذَاكَ نَافِعُهُ؟ قَالَ: " لَا يَنْفَعُهُ، إِنَّهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا: رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ "

    امّ المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:اے اللہ کے رسول ! عبداللہ بن جدعان دور جاہلیت میں تھے (اسلئے اسلام تو نہیں لائے ،تاہم ) وہ رشتے ناطے نبھانے والے،غرباء و مساکین کو کھلانے والے تھے ، کیا اس کو اس کے اعمال کا کوئی فائدہ حاصل ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    «لَا يَنْفَعُهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا: رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ»
    ’’نہیں، کیونکہ اس نے کسی بھی دن یہ نہیں کہا کہ :اے میرے رب! قیامت کے روز میرے گناہ کو بخش دینا‘‘۔

    اسی طرح کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان جو اپنے رب کو نہیں پہچان پایا خالق کی معرفت حاصل نہیں کر سکا تو اس کا یہ سب کچھ کسی کام کا نہیں

    اللہ مالک الملک فرماتے ہیں :
    اور یقین والوں کے لئے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں(20) اور خود تمہاری ذات میں بھی، تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو(21) سورة الذاريات

    تفسیر ابن کثیر :

    "یقین رکھنے والوں کے لئے زمین میں بھی بہت سے نشانات قدرت موجود ہیں جو خالق کی عظمت و عزت ہیبت وجلالت پر دلالت کرتے ہیں دیکھو کہ کس طرح اس میں حیوانات اور نباتات کو پھیلا دیا ہے اور کس طرح اس میں پہاڑوں ، میدانوں ، سمندروں اور دریاؤں کو رواں کیا ہے ۔ پھر انسان پر نظر ڈالو ان کی زبانوں کے اختلاف کو ان کے رنگ و روپ کے اختلاف کو ان کے ارادوں اور قوتوں کے اختلاف ہو ان کی عقل و فہم کے اختلاف کو ان کی حرکات و سکنات کو ان کی نیکی بدی کو دیکھو ان کی بناوٹ پر غور کرو کہ ہر عضو کیسی مناسب جگہ ہے ۔ اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا خود تمہارے وجود میں ہی اس کی بہت سی نشانیاں ہیں ۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟ جناب قتادہ فرماتے ہیں جو شخص اپنی پیدائش میں غور کرے گا اپنے جوڑوں کی ترکیب پر نظر ڈالے گا وہ یقین کر لے گا کہ بیشک اسے اللہ نے ہی پیدا کیا اور اپنی عبادت کے لئے ہی بنایا ہے ۔ "

    اسی طرح اگر کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین ، مذھب کا پیروکار ہے تو اس کی عبادت اور ریاضت بھی اللہ تعالی کے ہاں قابل قبول نہیں

    قرآن کریم کہتا ہے :

    جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا (85) سورة آل عمران
    تفسیر القرآن الکریم حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ :
    وَمَنْ يَّبْتَـغِ ۔۔: یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مبعوث ہو جانے کے بعد جو شخص آپ کی فرماں برداری اور اطاعت کا راستہ چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے گا، یا کسی پہلے راستے پر چلتا رہے گا، وہ چاہے کتنا توحید پرست کیوں نہ ہو اور پچھلے انبیاء پر ایمان رکھنے والا ہو، اگر وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کی دین داری اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہو گی اور وہ آخرت میں نامراد و ناکام ہو گا۔ واضح رہے کہ اگرچہ تمام انبیاء کا دین اسلام تھا، مگر آخری پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تشریف آوری کے بعد اسلام صرف آپ کی پیروی کا نام ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں بھی اب اسلام سے یہی مراد ہوتا ہے، اس معنی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ارشاد ہے : ((مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ )) [ مسلم، الأقضیۃ، باب نقض الأحکام الباطلۃ ۔۔ : ١٨/١٧١٨، عن عائشۃ (رضی اللہ عنھا) ] ’’ جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘

    مختصر یہ کہ کسی کے مرنے پر اس کے لیے رحمت کی دعا کرنے اسے جنت کا حقدار ٹھہرانے سے پہلے یہ جان لینا چاہیئے کہ کہیں یہ رب العالمین اور رسول مقبول ﷺ کا گستاخ تو نہیں تھا۔
     
    Last edited: ‏مارچ 17, 2018
    • پسندیدہ پسندیدہ x 5
    • اعلی اعلی x 1
  2. Ishauq

    Ishauq -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 2, 2012
    پیغامات:
    9,612
    جزاک اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا بہت عمدہ لکھا آپ نے، اللہ یبارک فیک!
     
  4. سیما آفتاب

    سیما آفتاب محسن

    شمولیت:
    ‏اپریل 3, 2017
    پیغامات:
    484
    توجہ دلانے کا شکریہ

    جزاک اللہ خیرا کثیرا
     
  5. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    جزاک اللہ خیرا ابو احمد
     
  6. حافظ عبد الکریم

    حافظ عبد الکریم محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 12, 2016
    پیغامات:
    592
    جزاک اللہ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں