خطبہ حرم مکی سکینت اور اطمینان۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام جمعۃ المبارک 20 رجب 1439 ھ بمطابق 6 اپریل 2018

سیما آفتاب نے 'خطبات الحرمین' میں ‏اپریل 12, 2018 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. سیما آفتاب

    سیما آفتاب محسن

    شمولیت:
    ‏اپریل 3, 2017
    پیغامات:
    484
    مسجد حرام کے امام و خطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح بن محمد آل طالب ﷾
    جمۃ المبارک 20 رجب 1439 ھ بمطابق 6 اپریل 2018
    عنوان: سکینت اور اطمینان
    ترجمہ: محمد عاطف الیاس
    بشکریہ: کتابِ حکمت

    پہلا خطبہ:
    الحمد للہ ہر طرح کی حمد و ثناء اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔ وہی حقیقی بادشاہ ہے اور وہی عزت اور طاقت والا ہے۔ دنیا اور آخرت میں اسی کے لیے ساری تعریف ہے اور ہم سب نے اسی کی طرف پلٹنا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں وہی فتنوں کے طوفانوں میں اپنے اولیاء کو ثابت قدمی نصیب فرما تا ہے اور وہی انہیں ہلاک کر دینے والی مصیبتوں سے نجات دیتا ہے۔ وہی بہترین ناموں اور اعلی صفات کا مالک ہے۔ کوئی اس کی صحیح تعریف بیان نہیں کر سکتا۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور منتخب رسول ہیں۔ اللہ کی رحمتیں، برکتیں اور سلامتیاں ہوں آپ ﷺ پر، آپ کے پاکیزہ گھر والوں پر، نیک اور قابل احترام صحابہ کرام پر تابعین پر اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔
    بعد ازاں!
    لوگو! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو سب کے درمیان اور تنہائی میں اللہ سے ڈرتے رہنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ اللہ سے ڈرتے رہنے سے نیکی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور گناہوں سے رکنا ممکن ہوتا ہے۔ خوفِ خدا ہی وہ سامان ہے جو فتنوں اور آزمائشوں کے وقت کام آتا ہے اور اسی کی بدولت اہل ایمان ثابت قدم رہتے ہیں۔ آخرت کا بھی یہی حقیقی سرمایہ ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
    ’’اس دن کی رسوائی و مصیبت سے بچو، جبکہ تم اللہ کی طرف واپس ہو گے، وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہرگز نہ ہوگا۔‘‘ (البقرہ: 281)
    اگر انسان مستقبل پر دھیان دے اور اپنی کمائی اور گھاٹے کا اندازہ لگائے تو وہ آخرت کے آنے سے پہلے پہلے ضرور اپنا محاسبہ کر لے اورجلد توبہ کرلے، کیونکہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے، پھر قبروں سے اٹھنا ہے، محشر کے میدان میں جانا ہے اور حساب کے انتظار میں طویل وقت کھڑے رہنا ہے۔
    اللہ کے بندو! جو لوگ آپ سے پہلے اس دنیا میں آئے تھے ان کے حال پر غور کرو کہ وہ کل کہاں تھے اور آج کہاں ہیں؟ وہ سب لوگ کہاں ہیں جنہوں نے زمین کے اندر بڑی بڑی عمارتیں بنائیں؟ بخدا وہ بھلا دیئے گئے۔ ان کا ذکر بھی مٹ گیا اور آج وہ اپنی قبروں کے اندھیروں میں پڑے ہیں۔ فرمان الہی ہے:
    ’’پھر آج کہیں تم ان کا نشان پاتے ہو یا اُن کی بھنک بھی کہیں سنائی دیتی ہے؟‘‘ (مریم: 98)
    آپ کے دوست اور پیارے کہاں ہیں؟ انہیں اب اپنے اعمال کا سامنا ہے۔ کسی کے ساتھ اللہ وتعالیٰ کے رشتے داری تو ہے نہیں کہ وہ اسے بھلائی ہی دیتا رہے۔ اللہ تعالی صرف نیکی اور فرمانبرداری کی بنا پر ہی لوگوں سے مصیبتیں دور کرتا ہے اور انہیں خیر سے نوازتا ہے۔ اس لذت کا کیا فائدہ کہ جس کے بعد آگ میں جانا ہو اور اس شدت میں کیا حرج ہے کہ جس کے بعد جنت نصیب ہونی ہو۔
    اے مسلمانو!
    ہر قوم میں ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں کہ جن پر انکی قوم فخر کرتی ہے اور جن کی سیرت اور حالات زندگی کو اپنا آئیڈیل سمجھتی ہے۔ وہ انہیں اخلاق عالیہ، فضائل اور بہترین خصائل کا مالک اور اعلی ترین انسانی اقدارکا شاندار نمونہ سمجھتی ہے۔ لوگوں میں بھی جواہرات کی طرح کم اور زیادہ قیمتی جوہر ہوتے ہیں۔ کہیں تو ایک ہزار آدمی ایک شخص برابر ہوتا ہے اور کہیں ایک شخص ایک ہزار کے برابر ہو جاتا ہے۔
    کچھ لوگ تو اپنے ایمان، سچائی اور اخلاق کی بدولت پوری ایک قوم کے برابر ہوجاتے ہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حقیقی معنوں میں مسلمانوں کے امام اور اہل ایمان کے قائد تھے۔ غار ثور میں نبی اکرم ﷺ کے اکیلے ساتھی تھے۔ وفات کے بعد انہیں نبی اکرم ﷺ کے قریب دفنایا گیا۔ آپ کے فضائل بہت زیادہ ہیں اور مسلمانوں کے دل آپ کی محبت سے بھرے ہیں۔ امت اسلامیہ میں آپ کا مرتبہ انتہائی بلند ہے۔ آپ رسول اللہ ﷺ کے قریب ترین ساتھی تھے اور سب سے بڑھ کر نبی اکرم ﷺ کی تصدیق کرنے والے تھے۔ آپ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی:
    ’’اور اُس سے دور رکھا جائیگا وہ نہایت پرہیزگار۔ جو پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے۔ اُس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اُسے دینا ہو۔ وہ تو صرف اپنے رب برتر کی رضا جوئی کے لیے یہ کام کرتا ہے۔ اور ضرور وہ (اُس سے) خوش ہوگا۔‘‘ (اللیل: 17۔ 21)
    عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: اگر سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان کو ساری دنیا والوں کے ایمان کے ساتھ تولا جائے تو بھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ ہو تعال عنہ کا ایمان زیادہ ثابت ہو۔
    سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ایمان، یقین، اللہ سے خوشی اور احکام الٰہیہ کی پیروی کی بدولت تمام صحابہ کو پیچھے چھوڑ گئے اور آپ کو صدیق کے لقب سے پہچانا جانے لگا۔
    انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ پر یقین کر لیا تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ان کے دل پر سکینت نازل ہوگی، وہ سکینت ان کے چہرے پر نظر آنے لگی اور وہ اپنے کی قابل تعریف مواقف اور قابل رشک دنوں سے پہچانے جاتے ہیں۔
    واقعہ اسراء اور معراج کے حوالے سے امام احمد رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
    شب معراج کے بعد جب میں صبح اٹھا تو میں اپنے معاملے سے خاصا پریشان ہوگیا اور مجھے یقین ہوگیا کہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے۔ اسی سوچ میں پریشان بیٹھے تھے کہ اللہ کا دشمن ابوجہل وہاں سے گزرا۔ آپ ﷺ کو دیکھ کر آپ کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ اور مذاق اڑاتے ہوئے کہنے لگا: کیا کوئی نیا معاملہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں۔ اس نے پوچھا وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: رات مجھے لے جایا گیا تھا۔ اس نے پوچھا، کہاں؟ آپ نے فرمایا: بیت المقدس لے جایا گیا تھا۔ اس نے کہا: اچھا اور صبح تک آپ واپس ہمارے درمیان پہنچ گئے تھے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں۔ یہ سن کر ابو جہل نے آپ ﷺ کو جھوٹا نہ کہا تاکہ وہ لوگوں کو اکٹھا کرے اور ان کے سامنے آپ ﷺ سے یہی بات کروائے- چنانچہ اس نے پوچھا: اگر میں ساری قوم کو بلا لوں تو کیا آپ انہیں بھی یہی بات کہیں گے جو آپ نے مجھے کہی ہے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں۔ پھر اس نے لوگوں کو بلایا اور کہا اے بنی کعب بن لوی کے لوگو! ادھر آ جاؤ! تو لوگ اپنی مجلسوں سے اٹھ گئی ان دونوں کے پاس آکر بیٹھ گئے۔ جب لوگ اکٹھے ہو گئے ابو جہل نے آپ ﷺ سے کہا: آپ ساری قوم کو وہ بات بتائیے جو آپ نے مجھے بتائی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: گزشتہ رات مجھے بڑی تیزی سے ایک سفر کرایا گیا تھا۔ لوگوں نے پوچھا: کہاں کا؟ آپ نے فرمایا: بیت المقدس کا۔ ان لوگوں نے کہا: اور صبح ہونے سے پہلے آپ ہمارے درمیان پہنچ گئے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں۔ یہ بات سن کر لوگوں نے آپ کو جھٹلایا اور کوئی مذاق میں تالیاں مارنے لگا اور کسی نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا۔
    پھر لوگوں نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ کیا آپ مسجد اقصیٰ کا نقشہ کھینچ سکتے ہیں؟ حاضرین میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو پہلے مسجد اقصیٰ کو دیکھ چکے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے مسجد کا نقشہ کھینچنا شروع کیا اور بیان کرتا گیا یہاں تک کہ اس کی کچھ چیزیں مجھے بھولنے لگیں۔ جب ایسا ہوا تو میرے لئے مسجد اقصیٰ کو قریب کر دیا گیا یہاں تک کہ اسے دار عقیل سے بھی قریب رکھ دیا گیا۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر اس کا نقشہ بیان کرتا گیا۔ لوگوں نے کہا: جہاں تک نقشہ کھینچنے کی بات ہے تو یہ تو آپ نے بالکل صحیح بیان کردیا ہے۔
    مشرکین اور جھٹلانے والوں کا تو یہ حال تھا اور ان کے ساتھ بعض سچے مسلمانوں کے دل بھی ڈگمگانے لگے تھے۔
    مگر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اگر آپ ﷺ نے یہ بات کہی ہے تو انہوں نے سچ کہا ہے۔ آپ کو اس میں کیا عجیب لگتا ہے؟ وہ تو بتاتے ہیں کہ دن یا رات کے کسی بھی حصے میں آسمان سے زمین تک وحی نازل ہو جاتی ہے۔ تو اللہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راضی ہوجائے اور انہیں راضی کر دے۔
    اسی طرح ہجرت کے موقع پر رسول اللہ ﷺ غار میں پناہ لیتے ہیں۔ مشرکین مکہ انہیں تلاش کر رہے ہوتے ہیں اور ان کا پتا بتانے پر بڑے بڑے انعام تجویز کر رہے ہوتے ہیں، تاکہ انہیں پکڑ کر قتل کر دیا جائے۔ وہ ڈھونڈتے ہوئے جبل ثور پر پہنچ جاتے ہیں یہاں تک کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہنے لگتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول! اس وقت اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کی طرف دیکھے تو ہم اسے صاف نظر آ جائیں گے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابو بکر! تمہارا ایسے دو لوگوں کے متعلق کیا گمان ہے کہ جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ خود ہو؟ اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کو قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا ہے:
    ’’تم نے اگر نبیؐ کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں، اللہ اُس کی مدد اس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنی ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ “غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے” اُس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کر دیا اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے۔‘‘ (التوبۃ: 40)
    سکینت اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جسے وہ شدید مشکلات اور دل دھلا دینے والی پریشانیوں کے وقت اپنے بندوں پر نازل فرما دیتا ہے۔ سکینت انسان کے دل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی پہچان، اس کے سچے وعدے پر یقین، ایمان اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے قرب کے مطابق ہی نازل ہوتی ہے۔
    اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پریشانیاں االلہ تبارک و تعالیٰ کے خاص اور چنیدہ بندوں پر بھی آ سکتی ہیں۔ مگر مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا، بلکہ وہ سکینت اور ثابت قدمی کے اسباب پر عمل کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتا ہے۔ اللہ ہی بہترین ولی اور وہی سب سے بہتر مددگار ہے۔
    صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سکینت، یقین اور ثابت قدمی کی ایک شاندار مثال صلح حدیبیہ کی بھی ہے۔ جب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کے لیے بڑے شوق اور جذبے سے آئے تھے۔ عمرے کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں تھا۔ مشرکین نے ان کا راستہ روکا اور پھر ایک صلح نامہ لکھا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے اپنے جانور ذبح کر لیں اور بال کٹوا کر احرام کھول دیں۔ مگر صحابہ نے اس کام میں ذرا تاخیر کی تو ام سلمہ رضی اللہ تعال عنہا نے آپ ﷺ کو ایک بہترین مشورہ دیا کہ آپ پہلے اپنا جانور قربان کیجیے تاکہ لوگ آپ کو دیکھ کر یہ کام کرنا شروع کر دیں۔
    اس دن میں لوگوں کے دلوں میں بہت سی باتیں آئی تھیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں بھی مختلف باتیں آئیں اور وہ آ کر نبی کریم ﷺ سے عرض کرنے لگے کہ اے اللہ کے رسول! کیا آپ واقعی اللہ کے نبی نہیں ہیں؟ کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ کیا آپ نے ہم سے یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف کریں گے؟
    اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں! میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرتا اور اللہ میری مدد ضرور کرے گا۔
    اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور وہی بات کی جو انہوں نے آپ ﷺ سے کی تھی۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: یہ واقعی اللہ کے رسول ہیں، یہ کبھی اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کریں گے، اللہ تعالیٰ ضرور ان کی مدد فرمائے گا۔ تم ان کے ساتھ جڑے رہو، کیونکہ خدا کی قسم! یہ حق پر ہیں۔
    اس بابرکت شخص کے دل میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتنی سکیت رکھی تھی کہ اس کا اثر اس کی زبان پر بھی نظر آتا تھا اور اس کے دوسرے اعضاء پر بھی واضح دکھائی دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راضی ہوجائے اور انہیں راضی کر دے۔
    اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی وفات کے دن بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ثابت قدمی ایک شاندار مثال ہے۔ اس دن مدینہ کی ہر چیز اندھیرے میں ڈوب گئی تھی اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین دم بخود رہ گئے تھے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ان کے نفس متزلزل ہو گئے تھے۔
    ابن رجب علیہ رحمۃ اللہ بیان کرتے کے صحابہ میں کچھ لوگ تو ایسے تھے کہ جو صدمہ برداشت نہ کرسکے اور ان کے دماغ پر اثر ہو گیا، کچھ بیٹھے اٹھ نہ سکے، کچھ کی زبان رک گئی اور وہ کوئی لفظ نہ بول سکے۔ کچھ صحابہ کرام نے تو آپ ﷺ کی وفات کا سرے سے انکار ہی کر دیا۔
    مگر ایک شخص تھا جس کے اوپر سکینت طاری تھی، وہ آپ ﷺ کے غار کا ساتھی تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سنح کے مقام سے اپنے گھوڑے پر آائے۔ گھوڑے سے اترے، مسجد میں داخل ہوئے، کسی سے کوئی بات نہ کی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس چلے گئے۔ رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، ان پر چادر پڑی تھی۔ اپ نے چادر ہٹائی اور آپ ﷺ کو چومنے لگے اور آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ پھر آپ نے فرمایا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! زندگی اور موت میں آپ کو پاکیزگی نصیب ہو۔ خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو دو مرتبہ موت نہیں دے گا۔ جو موت آپ پر لکھی گئی تھی وہ آپ نے دیکھ لی ہے۔
    پھر آپ باہر آئے تو دیکھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ خدا کی قسم! اللہ کے رسول فوت نہیں ہوئے۔ عنقریب اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں زندہ کردے گا اور وہ اکر ان لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں گے جو آپ کی موت کی باتیں کرتے ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں خاموش ہونے کو کہا مگر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیٹھنے سے انکار کردیا۔ لوگ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو گئے تو آپ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر کہا:
    بعد ازاں! تم میں سے جو محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ آپ ﷺ وفات پا گئے ہیں اور جو اللہ تعالی کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ زندہ ہے اور وہ کبھی نہ مرے گا، پھر آپ نے قرآن کریم کی ان آیات کی تلاوت کی:
    ’’(اے نبیؐ) تمہیں بھی مرنا ہے اور اِن لوگوں کو بھی مرنا ہے۔‘‘ (الزمر: 30)
    ’’محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو! جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزا دے گا۔‘‘ (آل عمران: 144)
    جب ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کی تو لوگوں کو یوں لگا کہ یہ آیت ابھی نازل ہوئی ہے۔ جو جو اسے سنتا، وہ وہ اس کی تلاوت کرنے لگتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب میں نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ منہ سے یہ آیت سنی تو میری ٹانگوں میں جان نہ رہی اور میں زمین پر بیٹھ گیا، کیونکہ اس آیت کو سننے کے بعد مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب آپ ﷺ اس دنیا میں نہیں رہے۔۔
    اللہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راضی ہو جائے اور انہیں راضی کر دے۔
    اے مسلمانو!سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ ہو تعالیٰ عنہ کی ثابت قدمی، دلیری اور پختہ عزم اور ارادے کی ایک شاندار مثال اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر کو بھیجنا اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد دین کو چھوڑ دینے والوں سے جہاد کرنا ہے۔
    آپ ﷺ نے اپنی وفات سے قبل سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا تھا تاکہ وہ رومیوں سے جہاد کرے، مگر آپ کی بیماری کی خبر سن کر وہ جُرف کے علاقے میں رک گیا اور پھر مدینہ واپس لوٹ آیا۔ بعض صحابہ کرام نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اس لشکر کو مدینہ کی حمایت کے لئے مدینہ ہی میں روک لیں، کیونکہ بہت سے لوگ دین بھی چھوڑ رہے ہیں اور دشمن بڑھ رہے ہیں۔ مگر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: خدا کی قسم میں کسی ایسے لشکر کو نہ روکوں گا جسے رسول اللہ ﷺ نے خود تیار کیا ہو۔ اگر کتے ہمیں کھا لیں اور مدینہ میں بھیڑیے گھس کر امہات المؤمنین کے قدموں کو بھی کھینچنے لگیں تو بھی میں اسامہ بن زید کے لشکر کو نہ روکوں گا۔
    اس لشکر کے جانے کا مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوا۔ جب بھی یہ لشکر کسی جگہ سے گزرتا تھا تو لوگ کہتے کہ یہ لشکر مدینہ سے اسی لیے نکلا ہے کیوں کہ مسلمانوں کی حکومت بڑی مستحکم ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب آپ ﷺ کی وفات کے بعد دین چھوڑنے کا فتنہ بہت عام ہوگیا تھا۔
    ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کے خوف اور کمزوری کا تدارک کیا۔ آپ صحابہ میں سب سے زیادہ علم، سمجھ اور ثابت قدمی رکھنے والے تھے۔ جیسے ہی ان پر ذمہ داری پڑی تو ان کی شخصیت ایک انتہائی نرم دل اور متواضع بزرگ سے بدل ایک طاقتور، بلند ہمت، فوری فیصلے کرنے والا اور طاقتور حکمران کی شکل اختیار کر گئی۔ وہ ایک ساتھ تمام مرتدین کے ساتھ جہاد پر قائم رہے اور ان سب کے متعلق کہا: میں ان کے ساتھ لڑتا رہوں گا چاہے مجھے موت تک خود اکیلا ہی لڑنا پڑے۔
    جب صحابہ کرام نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عزم اور ارادہ دیکھا تو ان کے سینے بھی کھل گئے اور وہ جان گئے کہ یہی حق ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان پر جاری کیا ہے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: جب اللہ تعالی نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہو کے سینے کو کھول دیا تو مجھے معلوم ہو گیا کہ یہی حق ہے۔ اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
    ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گیارہ لشکر تیار کیے، سب نے شاندار معرکے کیے، ایک سے ایک بڑھ کر قربانیاں دیں اور بہت سے لوگ شہید ہوئے، مگر آخر میں اسلام کو نصرت ملی، دین مزید مستحکم اور غالب ہو گیا۔ زمین پھر سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے نور سے جگمگا اٹھی اور اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرمائی اور شرک اور مشرکین کو ذلیل اور رسوا کیا۔ یہ سارا کام صرف ایک سال میں مکمل ہو گیا۔
    سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک پہاڑ کی مانند تھے جس پر تیز ہوائیں کچھ اثر نہیں کرتییں اور تیز سے تیز آندھی بھی اسے اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتی۔
    ابن تیمیہ علیہ رحمۃ اللہ بیان کرتے ہیں: دلیری کو دو طرح بیان کیا جاسکتا ہے۔ ایک یے کہ یہ ڈر کے وقت دل کی ثابت قدمی کا نام ہے۔ دوسری یہ کہ یہ جسمانی طاقت کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اچھی طرح لڑائی کرنا ہے۔ دوسری تعریف جسم کی طاقت کی عکاسی کرتی ہے اور پہلی تعریف حقیقی دلیری ہے، سپہ سالاروں کو اسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر قائد دلیر ہو اور اسکا دل ثابت قدم ہو تو وہ ثابت قدمی سے لڑائی کرتا ہے اور پھر اس کے ساتھی بھی اس کے ساتھ لڑتے ہیں۔
    اگر حکمرانوں میں دلیری کا ہونا لازمی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے زیادہ دلیری سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں تھی۔
    اے اللہ! ابوبکر صدیق سے، تمام صحابہ کرام سے، تابعین سے اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں سے راضی ہوجا۔
    اللہ مجھے اور آپ کو قرآن وسنت میں برکت عطا فرمائے، آیات اور حکمت سے فائدہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ اللہ تعالی سے اپنے لئے اور آپ کے لیے معافی مانگتا ہوں۔
    دوسرا خطبہ!
    ہر طرح کی حمد وثنا اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔ وہی رحمان و رحیم ہے اور وہی یوم جزا کا مالک ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسی کی بادشاہت ہے اور وہی واضح حق ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور صادق اور امین رسول ہیں۔ اللہ کی رحمتیں، برکتیں اور سلامتیاں ہوں آپ ﷺ پر، اہل بیت پر اور صحابہ کرام پر۔
    بعد ازاں! اے مسلمانو!
    سکینت اور اطمینان دو نعمتیں ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر نازل فرماتا ہے۔ ان کی بدولت اللہ کے بندے مصیبتوں اور آزمائشوں سے پریشان نہیں ہوتے، کیونکہ ان کے دلوں میں سچا ایمان اور پختہ یقین ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے پیروکار ہوتے ہیں- ان کے ایمان اور اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں مزید ثابت قدمی عطا فرما دیتا ہے۔
    ابن قیم علیہ رحمۃ اللہ بیان کرتے ہیں: جب دل پر سکینت نازل ہوتی ہے تو دل کو اور دیگر اعضاء کو سکون نصیب ہو جاتا ہے۔ ان کے اندر خشوع وخضوع اور وقار پیدا ہوجاتا ہے۔ پھر زبان بھی بڑی حکمت اور وقار سے بولتی ہے اور ہر باطل سے رک جاتی ہے۔
    اطمینان کی بدولت انسان کا ایمان، ثابت قدمی، یقین، قناعت، رضامندی، بصیرت، ہدایت، تقوی اور اخلاق بہتر ہو جاتے ہیں۔ پھر انسان کے اندر خشوع و خضوع اور احکام الٰہی کی پیروی آ جاتی ہے۔ اسی طرح انسان اضطراب، انحراف، اور جھکاؤ سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ ذمہ داریوں کی کثرت کی وجہ سے پریشانی کے شکار لوگوں کو سکون اور اطمینان کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ خاص طور پر دعوت کا کام کرنے والوں کو اور مجاہدین فی سبیل اللہ کو۔ کیونکہ یہ لوگ عام انسانوں سے بڑھ کر سختیاں برداشت کرتے ہیں تو ان کے اندر پریشانی، کمزوری اور بے صبری آنا ممکن ہوتی ہے۔
    اگر اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی مدد کرنا چاہے اور ان پر رحم کرنا چاہے تو ان پر سکینت نازل کر دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ اللہ تبارک و تعالی کی تقدیر پر راضی ہو جاتے ہیں اور حق کی راہ میں آگے بڑھنے لگتے ہیں۔ دین کو رسوا کرنے والے قیامت تک ان کا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
    دنیا میں بیماریوں، فقر و فاقہ، مشکلات اور مختلف مصیبتوں کے شکار لوگ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کے وعدے اور ثواب پر یقین کر لیں اور صبر وتحمل سے آزمائشوں کا مقابلہ کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ انہیں سکینت اور اطمینان عطا فرما دیتا ہے۔ سکینت اور اطمینان کی بدولت ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ گویا کہ وہ جزا اور سزا کو خود دیکھ رہے ہیں۔ پھر ان کا دل مطمئن ہو جاتا ہے۔ وہ اللہ کی تقدیر پر راضی ہو جاتے ہیں۔ مصیبت اس وقت بڑی لگتی ہے جب انسان اس کی وجہ سے ملنے والے اجر کو سامنے نہ رکھے۔
    اے مسلمانو!
    اللہ تبارک و تعالیٰ سے راضی ہونا اور اس پر یقین رکھنا اللہ تبارک و تعالیٰ کے قریب جانے کا سب سے بہتر راستہ ہے، جسے یہ دو چیزیں نصیب ہو جائیں اس کی دنیا بھی جنت بن جاتی ہے۔ ان ہی دو چیزوں کی وجہ سے عبادت گزاروں کو سکون اور تسلی ملتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ پر ایمان سے بڑھ کر دنیا کی کس چیز میں لذت ہے۔ اطمینان پانے کے لئے سب سے لازمی چیز اللہ تبارک و تعالیٰ پر ایمان ہے۔ اگر یہ دل میں ہو تو انسان کو سکینت مل ہی جاتی ہے۔ اہل ایمان اپنے ایمان کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ کسی کا ایمان بہت بلند ہوتا ہے اور وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت میں بہت آگے ہوتا ہے اور اپنے ہر معاملے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:
    ’’ان کے دلوں کا حال اُس کو معلوم تھا، اس لیے اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی۔‘‘ (الفتح: 18)
    اللہ تعالی کے ساتھ اچھا تعلق رکھنا، اس کے سامنے جھک جانا اور ہمیشہ اس کے سامنے خشوع اور خضوع اپنانا سکون اور اطمینان حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ پر جب کوئی پریشانی آتی تو آپ ﷺ نماز پڑھتے اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق بحال کرتے۔ فرمان الہی ہے:
    ’’صبر اور نماز سے مدد لو۔‘‘ (البقرہ: 45)
    اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف رجوع کیجئے۔ اللہ کا فرمان ہے:
    ’’تو دوڑو اللہ کی طرف۔‘‘ (الذاریات: 50)
    اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے:
    ’’(اے نبیؐ) کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟‘‘ (الزمر: 36)
    اللہ تبارک وتعالی کی حمایت اور حفاظت بھی انسان کی عبادت کے مطابق ہوتی ہے۔ جتنا انسان عبادت گزار ہو گا، اللہ کی حمایت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔
    اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فتنے کے دور میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی تلقین فرمائی۔ فرمایا:
    قتل وغارت گری کے دور میں عبادت پر قائم رہنا میری طرف ہجرت کے مترادف ہے۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے
    وہ مسلمان قابل مبارکباد ہیں جو مشکل اوقات میں نماز اور عبادت کی طرف لوٹتے ہیں، جب کہ دوسرے لوگ لڑائیوں اور قتل و غارت میں مصروف ہوتے ہیں۔ وہ لوگ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جو اللہ تبارک و تعالی کی تقدیر پر راضی رہتے ہیں جبکہ لوگ پریشانیوں میں پڑ جاتے ہیں۔
    ذکر اور قرآن کریم کی تلاوت سکینت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
    ’’اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔‘‘ (الرعد: 28)
    دعا، دعا اور دعا! ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر غار میں، جنگ بدر میں، صلح حدیبیہ کے وقت اور بہت سے دیگر موقعوں پر سکینت نازل ہوئی۔ پھر بھی وہ کثرت سے اپنی نماز میں یہ دعا کیا کرتے تھے کہ
    ’’پروردگار! جب تو ہمیں سیدھے رستہ پر لگا چکا ہے، تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو۔‘‘(آل عمران: 8)
    لوگو!
    سکینت اپنانے کی کوشش کرو! سکینت اپنانے کوشش کرو! سکینت والے لوگ مختلف خبروں کی وجہ سے طیش میں نہیں آتے، جلد بازی نہیں کرتے، پریشان نہیں ہوتے اور دشمن انہیں کمزور نہیں کرتے۔ وہ ہمیشہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نصرت پر یقین رکھتے ہیں چاہے کفر کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو جائے۔ کیونکہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی یہ آیت پڑھتے ہیں۔ فرمایا:
    ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے اور اِس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔‘‘ (الفتح 28)
    ثابت قدمی اختیار کرو! ثابت قدم رہو! سکینت والے لوگ دشمنوں سے نہیں ڈرتے کیونکہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی یہ آیت سنتے اور پڑھتے ہیں کہ:
    ’’یہ کافر لوگ اگر اِس وقت تم سے لڑ گئے ہوتے تو یقیناً پیٹھ پھیر جاتے اور کوئی حامی و مددگار نہ پاتے۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آ رہی ہے اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔‘‘ (الفتح: 22۔ 23)
    سکینت والے لوگ عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور رزق کی تلاش انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ سے غافل نہیں کرتی۔ فرمان الٰہی ہے:
    ’’اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔‘‘ (الفتح: 29)
    جب جاھل گمراہ ہوجاتے ہیں، اور وہ اپنے جھوٹے خداؤں کی حمایت کرنے لگتے ہیں یا وہ دیگر جاہلیت کے کام کرنے لگتے ہیں تو سکینت والے تقوی پر قائم رہتے ہیں۔ تحمل مزاجی سے گفتگو کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں سکینت ہمیشہ موجود رہتی ہے۔
    سکینت والے لوگ ہمیشہ عافیت اور سکون واطمینان میں رہتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھیوں کو بھی مطمئن کرتے رہتے ہیں۔
    ابن القیم علیہ رحمۃ اللہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے متعلق فرماتے ہیں: جب ہمارا خوف بڑھ جاتا، ہمارے دلوں میں طرح طرح کے گمان آنے لگتے تھے اور زمین ہم پر تنگ ہونے لگتی، تو ہم ابن تیمیہ علیہ رحمۃ اللّہ کے پاس چلے جاتے تھے۔ جیسے ہی ہم انہیں دیکھتے اور ان کی باتیں سنتے تو ہماری ساری پریشانیاں ختم ہو جاتیں، ہمارے دل کھل جاتے اور ان میں طاقت آجاتی۔ ہمارا یقین پختہ ہوجاتا اور ہمیں اطمینان نصیب ہو جاتا۔
    اے اہل ایمان!
    سکینت اور اطمینان اللہ کی عطا اور تحفہ ہیں۔ اللہ کے سوا انہیں کوئی نازل نہیں کر سکتا۔ فرمان الٰہی ہے:
    ’’وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں زمین اور آسمانوں کے سب لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے۔‘‘ (الفتح: 4)
    اللہ تبارک و تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے اور ہر چیز کی عاقبت سے بھی واقف ہے۔ وہ بڑی حکمت والا ہے اور وہ ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھتا ہے۔ فرمان الہی ہے:
    ’’اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔‘‘ (البقرہ: 216)
    فتنوں اور آزمائشوں کے دور میں سکینت کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے اسباب اپنائیے اور عزت اور حکمت والے سے سکینت اور اطمینان کا سوال کرتے رہیے۔
    دردوسلام بھیجیے رسول اللہ ﷺ پر کہ جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔
    اے اللہ! رحمتیں، برکتیں اور سلامتیاں نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر، آپ کے پاکیزہ اہلبیت پر، نیکوکار صحابہ کرام پر اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔
    اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما! سرکشوں، بے دینوں اور فسادیوں کو رسوا فرما۔ اے اللہ! اپنے دین کی اپنی کتاب کی سنت رسول ﷺ کی اور اپنی نیک اور مومن بندوں کی نصرت اور مدد فرما۔
    اے اللہ! اے پروردگار عالم! اس امت کو ایسے بہترین دن نصیب فرما کہ جن میں نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے روکا جائے۔
    اے اللہ! اے پروردگار عالم! جو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں، ان کے دین کے بارے میں، ان کے گھروں اور ملکوں کے بارے میں کوئی برا ارادہ رکھے تو تو اسے خودی میں مصروف فرما دے۔ اسی کی چالوں کو اسی کی ہلاکت کا ذریعہ بنا دے۔ اسے برائی کے چکروں میں گھیر لے۔
    اے اللہ! فلسطین میں مجاہدین کی مدد فرما! اے اللہ! فلسطین میں مجاہدین کی مدد فرما! اور اے پروردگار عالم! ہر جگہ مجاہدین کی نصرت اور مدد فرما۔ اے پروردگار عالم! انہیں رہائی نصیب فرما! ان کی احوال درست فرما اور ان کے دشمنوں کے خلاف انہیں غلبہ نصیب فرما۔
    اے اللہ! ہم تجھے تیرے اس عظیم ترین نام سے پکارتے ہیں جس سے جب تو پکارا جاتا ہے تو تو سنتا ہے اور دعا قبول کرتا ہے۔ یا اللہ ہر جگہ مسلمانوں کے حال پر رحم فرما۔ یا اللہ فلسطین، شام، عراق، یمن، برما اور ہر جگہ ان کی نصرت اور مدد فرما۔ یا اللہ! ان پر رحم فرما، انہیں مشکلات سے چھٹکارا نصیب فرما، انہیں جلد عزت عطا فرما۔ اے اللہ! ان کے احوال درست فرما! انہیں ہدایت پر اکٹھا فرما! انہیں برے لوگوں کی برائی سے محفوظ فرما! ان کے دشمن کو ہلاک فرما!
    اے اللہ! سرکش ظالموں اور ان کے مددگاروں کو ہلاک فرما! اے اللہ! سرکش ظالموں اور ان کے مددگاروں کو ہلاک فرما! اے اللہ! ان پر اپنا عذاب اور غضب نازل فرما! اے الٰہ حق! اے زندہ جاوید یا ذالجلال و الاکرام! مظلوموں کی نصرت اور مدد فرما!
    اے اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین کو ان اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو خوش اور راضی ہوتا ہے۔ اسے نیکی کی طرف لے جا۔ اسے اور اس کے نائب کو اور ان کے مددگاروں کو ان کاموں کی توفیق عطا فرما جن میں ملک و قوم کی فلاح وبہبود ہو۔
    اے اللہ تمام مسلمان حکمرانوں کو کتاب و سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما انہیں اپنے بندوں پر رحم کرنے والا بنا!
    اے اللہ! ہمارے ملک میں اور تمام مسلم ممالک میں امن و سلامتی عام فرما ہمیں اپنے برے لوگوں اور گنہگاروں کی برائی سے اور صبح و شام کے ہیر پھیر سے محفوظ فرما!
    ’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔‘‘
    (البقرہ: 201)
    ’’اے ہمارے رب! ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرما، ہمارے کام میں تیرے حدود سے جو کچھ تجاوز ہو گیا ہو اُسے معاف کر دے، ہمارے قدم جما دے اور کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد کر۔‘‘ (آل عمران: 147)
    اے اللہ! ہمارے گناہوں کو معاف فرما! ہمارے عیبوں کی پردہ پوشی فرما! ہمارے معاملات آسان فرما! ہماری نیک خواہشات پوری فرما! اے اللہ! ہمیں، ہمارے والدین کو اور ان کی نسلوں کو اور ہماری بیویوں کو اور ہماری نسلوں کو معاف فرما! یقینا! تو دعا سننے والا ہے!
    اے اللہ! زندہ اور مردہ مومن مردوں اور مومن عورتوں، مسلم مردوں اور مسلم عورتوں کو معاف فرما۔
    ہم اللہ سے معافی مانگتے ہیں! ہم اللہ سے معافی مانگتے ہیں! ہم اللہ زندہ و جاوید سے معافی مانگتے ہیں اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں!
    اے اللہ! تو ہی اللہ ہے! تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے! تو بے نیاز ہے اور ہم فقیر اور محتاج ہیں۔ ہم پر بارش نازل فرما اور ہمیں مایوس نہ فرما۔ اے اللہ! ہم پر بارش نازل فرما! اے اللہ! ہم پر بارش نازل فرما! اے اللہ! ہم پر بارش نازل فرما! اے اللہ! جلد آنے والی، عام فائدے والی، نفع بخش اور بابرکت بارش نازل فرما، جس سے زمین کو زندگی مل جائے اور جس سے لوگ اپنے کام کاج مکمل کر لیں۔
    اے اللہ! رحمت کی بارش نازل فرما! اے اللہ! رحمت کی بارش نازل فرما! اے اللہ! رحمت کی بارش نازل فرما! عذاب طوفان اور توڑ کو سے پاک بارش نازل فرما!
    اے اللہ! ہم تجھ سے معافی مانگتے ہیں۔ تو معاف کرنے والا ہے، تو ہم پر بارش نازل فرما اور ہمیں مایوس نہ فرما!
    اے پروردگار! ہماری دعا قبول فرما! یقینا تو سننے والا اور جاننے والا ہے! ہماری توبہ قبول فرما یقینًا تو توبہ قبول فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
    ’’پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ اور سلام ہے مرسلین پر۔ اور ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے۔‘‘ (الصافات: 180۔ 182)
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 6
  2. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا سس!
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. صدف شاہد

    صدف شاہد -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2018
    پیغامات:
    307
    جزاک اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    جزاک اللہ خیرا سسٹر
    شئرنگ کا شکریہ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  5. سعیدہ شیخ

    سعیدہ شیخ محسن

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2018
    پیغامات:
    80
    جزاک اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  6. سیما آفتاب

    سیما آفتاب محسن

    شمولیت:
    ‏اپریل 3, 2017
    پیغامات:
    484
    جزانا وایاکم
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں