اللہ تعالیٰ کے عرش پر استوا سے متعلق اہلِ علم کے اقوال

اسرار حسین الوھابی نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏جون 1, 2020 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اسرار حسین الوھابی

    اسرار حسین الوھابی رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مئی 18, 2020
    پیغامات:
    46
    اللہ تعالیٰ کے عرش پر استوا سے متعلق اہلِ علم کے اقوال

    بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

    نواب محمد صدیق حسن خان (۱۲۴۸۔ ۱۳۰۷ھ) فرماتے ہیں:

    اگرچہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے بعد ان اقوال کے بیان کی ضرورت تو نہیں ہے، لیکن اہلِ تقلید کی تسلیِ خاطر کے لیے اس سلسلے میں بعض معتبر روایات لکھی جاتی ہیں۔

    پہلا قول: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنی وصیت میں فرمایا ہے: ’’ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے بغیر اس کے کہ اس کو حاجت اور قرار ہو۔‘‘ [الوصیۃ لأبي حنیفۃ ضمن مجموعۃ الرسائل العشرۃ لأبي حنیفۃ (ص: ۷) کتاب العلو للذھبي (۱/۱۳۶) نیز دیکھیں: شرح الفقہ الأکبر (ص: ۶۱)] اس قول سے حنفیہ پر حجت تمام ہے۔

    دوسرا قول: امام مالک رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ استوا معلوم ہے، اس کی کیفیت نامعلوم ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کی کیفیت کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔ [کتاب العلو (۱/ ۱۷۷)] اس قول سے مالکیہ پر حجت تمام ہے۔

    تیسرا قول: امام طبری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ استوا کے قائل ہیں۔ [کتاب العلو (۱/۱۳۹)] اس قول سے شافعیہ پر حجت تمام ہے۔

    چوتھا قول: امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرمان کے مطابق عرش پر مستوی ہے۔ [کتاب العلو (۱/۱۶۵)] اس قول سے حنابلہ پر حجت تمام ہے۔

    نیز استقرا سے بھی معلوم ہے کہ اصحابِ مذاہب اربعہ میں بالاتفاق سب کا یہی مذہب ہے، وللّٰہ الحمد۔ کسی سے بھی صفتِ استوا کا انکار ہر گز منقول نہیں۔ اس کی کیفیت سب کے نزدیک مجہول ہے اور اس سے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔

    پانچواں قول: امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے کتاب ’’اختلاف المصلین‘‘ میں لکھا ہے: اگر کوئی پوچھے کہ تم استوا سے متعلق کیا کہتے ہو تو ہم یہ کہیں گے کہ بے شک اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، جیسے اس کا فرمان ہے کہ رحمٰن نے تخت پر قرار پکڑا۔ [مقالات الإسلامیین واختلاف المصلین (۱/۲۱۱، ۲۹۰)] انتھیٰ۔

    چھٹا قول: امام علی بن مہدی طبری رحمہ اللہ نے کتاب ’’مشکل الآیات‘‘ [اس سے امام ابو الحسن علی بن محمد بن مہدی الطبری کی کتاب ’’تأویل الآیات المشکلۃ الموضحۃ بالحجج والبراھین‘‘ مراد ہے۔] میں فرمایا ہے: ’’جان لو! اللہ تعالیٰ آسمان پر ہے اور وہ ہر چیز پر قائم اور اپنے تخت پر ہے۔ استوا کے معنی ’’اعتلا‘‘ ہیں، جس طرح عرب نے کہا ہے کہ میں جانور کی پشت پر مستوی ہوا یا مکان کی چھت پر یا آفتاب میرے سر پر مستوی ہوا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ اپنی ذات سے عرش پر عالی ہے اور اپنی مخلوقات سے جدا ہے۔ مندرجہ ذیل آیات اس پر دلیل ہیں: ﴿ ئَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ﴾[الملک: ۱۶] [کیا تم اس سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمان میں ہے] ﴿ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ﴾[آل عمران: ۵۵] [اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں] اور ﴿ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ﴾[السجدۃ: ۵] [پھر وہ (معاملہ) اس کی طرف اوپر جاتا ہے]۔‘‘ انتھیٰ۔ اس قول سے جس طرح استوا ثابت ہوا، اسی طرح جہتِ فوق بھی ثابت ہوتی ہے۔

    ساتواں قول: حافظ ابو بکر محمد بن حسین آجری رحمہ اللہ نے کتاب ’’الشریعۃ‘‘ کے ’’باب التحذیرمن مذاھب الحلولیۃ‘‘ میں لکھا ہے: ’’اہلِ علم اس طرف گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے، اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے اور اعمال اسی کی طرف بلند ہوتے ہیں۔‘‘ [الشریعۃ للآجري (۱/۲۷۴)] اس قول سے بھی استوا اور جہتِ فوق دونوں ثابت ہوتے ہیں۔

    آٹھواں قول: حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ حجاز ہو یا عراق، شام ہو یا یمن؛ تمام ملکوں کے علما کو ہم نے جس مذہب پر پایا، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے جدا، کیفیت معلوم ہوئے بغیر عرش کے اوپر ہے، جس طرح اس کا فرمان ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو علم کے ساتھ گھیرا ہوا ہے۔‘‘ [کتاب العلو للذھبي (۱/۱۸۸)]

    نواں قول: حافظ ابو القاسم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ اپنی مخلوق سے جدا اپنے عرش پر ہے، اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سنتا اور دیکھتا ہے۔ [شرح أصول اعتقاد أھل السنۃ والجماعۃ للالکائي (۱/۳۲۱)] انتھیٰ۔

    دسواں قول: امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’جو کوئی اس بات کا اقرار نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے جدا ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر ہے تو وہ کافر ہے، اس سے توبہ کروائیں، اگر وہ توبہ کر لے تو بہت اچھا، ورنہ اس کی گردن مار دیں۔‘‘ [کتاب العلو للإمام الذھبي (۱/۲۰۷)] انتھیٰ۔

    گیارھواں قول: امام محمد بن موصلی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں خوب کھول کر بیان کیا ہے کہ وہ آسمانوں کے اوپر عرش پر مستوی ہے۔ [مختصر الصواعق المرسلۃ لابن الموصلي (ص: ۴۷۷)]

    بارھواں قول: امام بغوی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اہلِ سنت کہتے ہیں کہ بلا کیف عرش پر قائم ہونا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ آدمی پر اس کے ساتھ ایمان لانا اور اس کا حتمی علم اللہ کے سپرد کرنا واجب ہے۔ [العلو للإمام الذھبي (۱/۲۶۱)]

    تیرھواں قول: ’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے حدیں ثابت کرنا جائز نہیں ہے، مگر وہ جو ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ عرش پر مستوی ہے۔ [الغنیۃ لطالبي طریق الحق للجیلاني (۱/۱۱۸)] یعنی یہ تحدید جائز ہے۔

    چودھواں قول: ’’کتاب البہجۃ‘‘ میں ہے کہ ہمارا رب عرش پر مستوی ہے اور ملک پر محتوی ہے۔ اس کی دلیل قرآن مجید میں موجود سات آیات ہیں۔ اس مقدمے میں جاہل کی جہالت اور اس کی رعونت و سرکشی کے سبب میں ان کا ذکر نہیں کروں گا۔ [العلو للذھبي (۱/۲۶۵)] انتھیٰ۔ یہ دونوں کتابیں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی تصانیف ہیں۔

    پندرھواں قول: امام رازی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کے ثبوت میں یہ آیتیں پڑھتا ہوں: ﴿ اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾[طٰہٰ: ۵] [وہ بے حد رحم والا عرش پر بلند ہوا] ﴿اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ﴾[الفاطر: ۱۰] [اسی کی طرف ہر پا کیزہ بات چڑھتی ہے] اور اس کی کیفیت کی نفی میں یہ آیتیں تلاوت کرتا ہوں: ﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾[الشوریٰ: ۱۱] [اس کی مثل کوئی چیز نہیں] اور ﴿ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ﴾[طٰہٰ: ۱۱۰] [اور وہ اس کا احاطہ نہیں کرسکتے] اور جو شخص ان آیتوں کو میرے سمجھنے کی طرح سمجھے گا تو وہ میرے پہنچاننے کی طرح پہچان لے گا۔ [دیکھیں: کتاب العلو للإمام الذھبي (۱/۱۸۷۔۱۸۹)] اس قول میں صفتِ استوا اور جہتِ فوق دونوں کا اثبات ہے۔

    سولھواں قول: امام غزالی رحمہ اللہ نے ’’احیاء العلوم‘‘، ’’کیمیاے سعادت‘‘ اور ’’اربعین فی اصول الدین‘‘ میں لکھا ہے کہ اللہ عرش پر مستوی ہے اور وہ عرش کے اوپر بلکہ ہر چیز کے اوپر ہے، جس طرح اس نے بیان کیا ہے۔ [إحیا علوم الدین للغزالي (۱/۹۰)]

    سترھواں قول: امام محمد بن محسن عطاس رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’تنزیہ الذات و الصفات‘‘ میں کہا ہے کہ مسلمانوں پر اس آیت کے ساتھ ایمان لانا واجب ہے: ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾[طٰہٰ: ۵] [وہ (ہے اللہ) رحمن جو عرش (بریں) پر متمکن ہے] [تنزیہ الذات والصفات من درن الإلحاد والشبھات للعطاس (ص: ۵۷) امام محمد بن محسن عطاس رحمہ اللہ نے یہ قول امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کی کتاب ’’الإبانۃ‘‘ (ص: ۱۰۵) سے نقل کیا ہے۔]

    اٹھارواں قول: امام شوکانی رحمہ اللہ نے تفسیر ’’فتح القدیر‘‘ میں لکھا ہے کہ اس مسئلے میں چودہ قول ہیں، ان میں سے سلف کا مذہب حق اور درست ہے کہ اللہ تعالیٰ بلا کیف جس طرح اس کے لائق ہے، عرش پر مستوی ہے۔ [فتح القدیر (۳/۸۸)]

    انیسواں قول: امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’رسالہ صفات‘‘ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کی قرآن مجید کی کئی جگہوں میں صراحت ہوئی ہے۔ [التحف في مذاہب السلف (ص: ۱۷)]

    سید محمد یوسف بلگرامی رحمہ اللہ نے ’’الفرع النابت من الأصل الثابت‘‘ میں لکھا ہے: ’’حق تعالیٰ بذات خود فوق عرش است، چنانچہ مذہب جمہور محدثین ہمیں ست‘‘ انتھیٰ۔ [اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ عرش پر ہے، یہی جمہور محدثین کا مذہب ہے] مذکورہ بالا اقوال کی عربی عبارتیں رسالہ ’’انتقاد فی شرح الاعتقاد‘‘ میں موجود ہیں۔ اس باب میں بہت سے اقوال ہیں، مگر جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین، مذاہب اربعہ کے جمیع مقلدین اور سارے محدثین و مفسرین کا یہی مذہب ہے۔ کیا مجال ہے کہ کوئی ان سے اس کے خلاف ایک حرف بھی نقل کر سکے۔ہاں کچھ دیگر فرقے جہمیہ اور معتزلہ اس صفت کے منکر ہیں، لہٰذا وہ اہلِ سنت و جماعت میں داخل نہیں ہیں۔ وباللّٰہ التوفیق۔

    [مجموعہ رسائلِ عقیدہ، ٣/١٣٧]
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,954
    جزاک اللہ خیرا۔ عمدہ انتخاب ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں