جنازہ سے متعلق ایک بہن کے تین سوالات

مقبول احمد سلفی نے 'آپ کے سوال / ہمارے جواب' میں ‏ستمبر 21, 2022 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    879
    جنازہ سے متعلق ایک بہن کے تین سوالات
    جواب از مقبول احمد سلفی​
    دعوہ سنٹر جدہ


    پہلا سوال : میت کو غسل سے پہلے اس کا سر یا پیر قبلہ کی طرف کیا جائے گا؟
    جواب: جب کسی آدمی پر عالم نزاع طاری ہوجائے یعنی موت کے وقت یا کسی کی وفات ہوجائے تو میت کو قبلہ کی جانب دائیں پہلو پر لٹایا جائے یا چت ہی لٹادیں اس طور پر کہ دونوں پیر کعبہ کی طرف ہوں۔
    حنفی مسلک میں بھی یہی بتایا گیا ہے ، اس مسئلہ سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ لوگوں کے لئے قبلہ رخ پیر کرکے سونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
    یہاں یہ بھی واضح رہے کہ عالم نزاع یا وفات کے بعد میت کا چہرہ قبلہ رخ کرنا کوئی واجبی حکم نہیں ہے، نہ ہی اس بارے میں کوئی مرفوع روایت ملتی ہے ،البتہ آثار ملتے ہیں اوریہ استحبابی حکم ہے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اور غسل میت کے وقت جس جانب غسل کرانا آسان ہو اسی جانب میت کو غسل دیاجائے ۔

    دوسرا سوال: میت کو لے جاتے وقت اس کا سر قبلہ کی طرف ہوگا یا پیر؟
    جواب: میت کو جنازہ اور دفن کے لئے لے جاتے وقت قبلہ رخ نہیں دیکھا جائے کیونکہ راستے سیدھے نہیں ہوتے ، اتنا ہی کافی ہے کہ میت کا سر آگے کی طرف ہو کیونکہ یہی انسان کا اگلا حصہ ہے اور پیر پیچھے کی طرف۔ جب جنازہ پڑھنے کے لئے رکھا جائے تو جس کیفیت میں دفن کرنا ہے اس کیفیت میں رکھا جائے یعنی چہرہ قبلہ رخ اس طور کہ سر شمال اور پیر جنوب کی طرف ہو اور امام نماز جنازہ کے لئے مرد میت کے سرہانے کھڑا ہو اور عورت میت ہو تو امام میت کے وسط میں کھڑا ہو۔

    تیسرا سوال: میت کو اٹھانے بٹھانے میں دشواری ہوتی ہے تو اسے زمین پر ہی لٹا رہنا چاہئے یا چارپائی وغیرہ پر رکھ دینا چاہئے؟
    جواب: عموما لوگ میت کا چہرہ دیکھنے آتے ہیں اس بنا پر میت کو چارپائی یعنی اونچی چیز پر رکھنے میں فائدہ ہے تاکہ آسانی سے لوگ دیکھ سکیں ، تاہم میت کو زمین پر ہی رہنے دیں یا چارپائی پر رکھیں ، ان دونوں صورتوں میں کوئی حرج نہیں ہے۔
    واللہ اعلم بالصواب(21.09.2022)
     
  2. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,954
    میت کا چہرہ دیکھنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ عموما لوگ میت کو قبرستان لے جاتے وقت کئی بار جنازہ کو زمین پر رکھتے ہیں تاکہ لوگ چہرہ دیکھ سکیں
     
  3. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    879
    اس قسم کے ایک سوال کا جواب میرے بلاگ پر موجود ہے ، کاپی کردیتا ہوں ۔
     
  4. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    879
    نماز جنازہ کے بعد میت کا چہرہ دیکھنا
    مقبول احمد سلفی
    اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف

    لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ نماز جنازہ کے بعد میت کا چہرہ نہیں دیکھ سکتے جبکہ یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ متعدد احادیث سے میت کا چہرہ دیکھنا ثابت ہے اس سلسلے کی چند احادیث نیچے درج کرتاہوں ۔
    ایک حدیث یہ ہے ،حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
    لَمَّا قُتِلَ أبي جَعَلتُ أبكي، وأكشِفُ الثَّوبَ عَن وَجهِهِ، فجعل أصحابُ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يَنْهَوْنني والنبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم لم يَنْهَ،(صحيح البخاري:4080)
    ترجمہ: میرے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ شہید کردیئے گئے تو میں رونے لگا اور بار بار ان کے چہرے سے کپڑا ہٹاتا۔ صحابہ مجھے روکتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں روکا۔
    بخاری شریف کی ایک دوسری حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مردی ہے وہ بیان کرتی ہیں جبکہ نبی ﷺ کی وفات ہوگئی تھی:
    أقبَل أبو بكرٍ رضي اللهُ عنه على فرسِه من مَسكَنِه بالسَّنحِ، حتى نزَل فدخَل المسجِدَ، فلم يكلِّمِ الناسَ، حتى دخَل على عائشةَ رضي اللهُ عنها، فتيمَّم النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وهو مُسَجًّى ببُردٍ حِبَرَةٍ، فكشَف عن وجهِه، ثم أكَبَّ عليه فقبَّلَه، ثم بَكى(صحيح البخاري:1241)
    ترجمہ:ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے جو سنح میں تھا گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اور اتر تے ہی مسجد میں تشریف لے گئے۔ پھر آپ کسی سے گفتگو کئے بغیر عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ میں آئے ( جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک رکھی ہوئی تھی ) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو برد حبرہ ( یمن کی بنی ہوئی دھاری دار چادر ) سے ڈھانک دیاگیا تھا۔ پھر آپ نے حضور کا چہرہ مبارک کھولا اور جھک کر اس کا بوسہ لیا اور رونے لگے۔
    اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے "باب الدخول على الميت بعد الموت إذا أدرج في أكفانه" یعنی باب ہے میت کے پاس جانے کا جبکہ اسے کفن میں لپیٹ دیا گیاہو۔
    اسی طرح ایک تیسری حدیث ابوداؤد کی جسے شیخ البانی ؒ نے صحیح قرار دیا ہے ۔
    عن عائشةَ ، قالت : رأيتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ يُقبِّلُ عُثمانَ بنَ مَظعونٍ وَهوَ مَيِّتٌ ، حتَّى رأيتُ الدُّموعَ تسيلُ(صحيح أبي داود:3163)
    ترجمہ: ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا جبکہ وہ فوت ہو گئے تھے ‘ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہہ رہے تھے ۔
    ان احادیث سے میت کا چہرہ دیکھنے کا ثبوت ملتا ہے ۔
    احادیث کی روشنی میں میت کا چہرہ دیکھنے کے چند مسائل
    ٭ میت کا چہر ہ دیکھ سکتے ہیں خواہ غسل کے بعد، کفن کے بعد ، نماز جنازہ کے بعد اور کوئی ان اوقات میں نہ دیکھ سکا ہوتو دفن سے پہلے پہلے کسی وقت دیکھ سکتا ہے ۔
    ٭ کہیں کہیں پر یہ رواج بناہواہے کہ وہی اشخاص بار بار میت کو دیکھتے ہیں جوکہ صحیح نہیں ہے ۔
    ٭ میت کا کوئی رشتہ دار دور سے آنے کی وجہ سے تکفین میں تاخیر سے شریک ہوا اس حال میں کہ میت کو قبرستان لے چلا گیا ہے اور وہ میت کا چہرہ دیکھناچاہتا ہے تو وہاں س کے لئے میت کا چہرہ دیکھنے میں کوئی حرج نہیں جیساکہ امام بخاری ؒ نے کفنانے کے بعد میت کے پاس جانے پر باب باندھا ہے ۔
    ٭بعض لوگ قبر میں میت کواتارکر اس کا آخری دیدار کرتے ہیں یہ صحیح نہیں ہے ۔
    ٭ جہاں میت کا چہرہ دیکھنا جائز ہے وہیں اسے بوسہ لینا بھی جائز ہے جیساکہ ابوبکررضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کا بوسہ لیا اور نبی ﷺ نے عثمان رضی اللہ کا بوسہ لیاتھااور بوسہ صرف محرم کے لئے ہے ۔
    ٭ بعض کے یہاں گھنٹوں میت کے چہرہ کو کھلاچھوڑ دیتے ہیں تاکہ آنے والے دیکھتے رہیں حالانکہ مسنون یہ ہے کہ میت کو چہرہ سمیت ڈھانپ کر رکھا جائے جیساکہ نبی ﷺ کو چادر سے ڈھانپا گیا تھا۔ ہاں اگر تجہیزوتکفین میں جلدی مقصود ہو اور کچھ دیر کے لئے میت کا چہرہ کھلا چھوڑ دے تاکہ میت کو دیکھنے سے لوگ فرصت پاجائیں اور باربار چہرہ کھولنے کی حاجت نہ پڑے تو اس کی گنجائش ہے ۔
    ٭ یہاں یہ بات بھی واضح رہےکہ میت کا صرف چہرہ ہی دیکھا جائے اور بدن کے بقیہ حصے پر پردہ ہو۔
    ٭ عورت ،عورت(میت ) کا چہرہ دیکھ سکتی ہے اور مردوں میں محارم کا ، اسی طرح مرد ،مرد(میت) کا چہرہ دیکھ سکتا ہے اور عورتوں میں محرمات کا ، لیکن اجنبی میت کا چہرہ دیکھنا منع ہے ۔
    ٭ اگر کوئی بہت بوڑھی عورت ہو تو اس کا چہرہ سبھی لوگ دیکھ سکتے ہیں ۔
    ٭ جس عورت نے میت کا چہرہ نہیں دیکھا اس حال میں کہ میت کو قبرستان لے چلا گیا اس عورت کو وہاں جاکر میت کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہئے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  5. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    879
    جنازہ سے متعلق سوالات کے جوابات
    سوال(1):مسجد نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ فام عورت کی وفات کے بارے میں سنا تو کہا مجھے اس کی قبر بتاؤ اور اس کے لیے مغفرت کی دعا کی تو کیا مغفرت کے لیے قبر پر جانا ضروری ہے؟
    جواب: سوال میں جس واقعہ کی طرف اشارہ ہے پہلے اس واقعہ کو حدیث سے دیکھ لیتے ہیں تاکہ جواب کو سمجھا جاسکے ۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
    أنَّ أسْوَدَ رَجُلًا - أوِ امْرَأَةً - كانَ يَكونُ في المَسْجِدِ يَقُمُّ المَسْجِدَ، فَمَاتَ ولَمْ يَعْلَمُ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بمَوْتِهِ، فَذَكَرَهُ ذَاتَ يَومٍ فَقَالَ: ما فَعَلَ ذلكَ الإنْسَانُ؟ قالوا: مَاتَ يا رَسولَ اللَّهِ، قَالَ : أفلا آذَنْتُمُونِي؟ فَقالوا: إنَّه كانَ كَذَا وكَذَا - قِصَّتُهُ - قَالَ: فَحَقَرُوا شَأْنَهُ، قَالَ: فَدُلُّونِي علَى قَبْرِهِ فأتَى قَبْرَهُ فَصَلَّى عليه(صحيح البخاري:1337)
    ترجمہ: کالے رنگ کا ایک مرد یا ایک کالی عورت مسجد کی خدمت کیا کرتی تھیں‘ ان کی وفات ہو گئی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات کی خبر کسی نے نہیں دی۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یاد فرمایا کہ وہ شخص دکھائی نہیں دیتا۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان کا تو انتقال ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم نے مجھے خبر کیوں نہیں دی؟ صحابہ نے عرض کی کہ یہ وجوہ تھیں (اس لیے آپ کو تکلیف نہیں دی گئی) گویا لوگوں نے ان کو حقیر جان کر قابل توجہ نہیں سمجھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چلو مجھے ان کی قبر بتا دو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز جنازہ پڑھی۔
    بخاری کی اس حدیث میں مذکور ہے کہ آپ ﷺ جنازہ کی نماز کے پڑھنے کے لئے قبرستان گئے ، نہ کہ صرف مغفرت طلب کرنے کے لئے۔ معلوم ہوا کہ اگر کسی نے میت کی نماز جنازہ نہ پڑھی ہو اور میت دفن کردیا گیا ہو تووہ میت کی قبر پر جاکر نماز جنازہ پڑھ سکتا ہے۔ رہا مسئلہ میت کے استغفار کا تو وہ کہیں سے بھی اس کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کرسکتے ہیں اور قبرستان کی زیارت کرنا مسنون ہے اس لئے کوئی قبرستان کی زیارت کرے تو وہاں بھی میت کی مغفرت طلب کرے، ویسے قبرستان میں داخل ہونے کی دعا میں بھی میت کے لئے دعا ہے تاہم مزید دعائیں بھی کرسکتے ہیں ۔

    سوال(2):بعض لوگ کہتے ہیں کہ دفن کرنے کے بعد اولاد کو کچھ دیر ٹھہر کر قبر پر دعا کرنی چاہیے اگر یہ مسنون عمل ہے تو اس کی کوئی دلیل ہو تو بتا دیں؟
    جواب: یہ بات بالکل صحیح ہے کہ میت کی تدفین کے بعد کچھ دیر وہاں رک کر لوگوں کو میت کی مغفرت کے لئے دعا کرنا چاہئے،کیونکہ وہ فرشتوں کے آنے اور میت سے سوال کئے جانے کا وقت ہوتا ہے۔اوردعا صرف میت کی اولاد ہی نہیں بلکہ دفن میں شریک سب مسلمانوں کو کرنا چاہئے ۔ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
    كانَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ ، إذا فرغَ مِن دفنِ الميِّتِ وقفَ علَيهِ ، فقالَ : استغفِروا لأخيكُم ، وسَلوا لَهُ التَّثبيتَ ، فإنَّهُ الآنَ يُسأَلُ(صحيح أبي داود:3221)
    ترجمہ:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے:اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو، اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا۔
    یاد رہے یہاں پر دعا انفرادی کی جائے گی ، اجتماعی شکل میں دعا کا ثبوت نہیں ملتا ہےاور دعا کے لئے ہاتھ بھی اٹھا سکتے ہیں ۔دعا کے وقت قبلہ رخ ہوجائیں تو اور بھی بہتر ہے مگر ضروری نہیں ہے۔

    سوال(3):جسمانی اعضاء کسی کی جان بچانے کے لئے زندگی میں دئے جاسکتے ہیں یا وقف کیے جا سکتے ہیں؟
    جواب:زندگی میں اعضائے بدن مثلا خون، آنکھ ، گردہ وغیرہ کا عطیہ کیا جاسکتا ہے ، اس کے چند احکام مندرجہ ذیل ہیں ۔
    ٭ایسے عضو کا عطیہ کیا جائے گاجس سے فائدہ زیادہ اور نقصان کم اور قابل تلافی ہو۔
    ٭ ایسے اعضاء کی منتقلی حرام ہے، جن پر زندگی کا دارو مدار ہے، مثلاً: زندہ انسان کے دل کو کسی دوسرے انسان کے جسم میں منتقل کرنا۔
    ٭ایسا عضو بھی منتقل کرنا حرام ہے جس سے جسم کا ایک جزء یا ساری زندگی ہی معطل ہوجائے ۔
    ٭ میت کی اجازت سے وفات کے بعد اس کے جسم سے عضو لیا جاسکتا ہے ۔
    ٭ بیماری کے سبب کسی عضو کو ہٹا دینے پر اسے دوسرے کو فائدہ اٹھانے کے لئے دیا جاسکتا ہے ۔
    جسم کا کوئی عضو بیچنا جائز نہیں ہے لیکن اس کا عطیہ کرنا بیچنے کے مترادف نہیں اور نہ ہی تکریم انسانی کے خلاف ہے بلکہ یہ تو دوسرے ضرورت مند مسلمان بھائی کی تکریم و تعاون ہے ۔(ماخوذ از مقبول احمد سلفی مضامین)

    سوال(4):اب ہم تین چادر والا کفن متعارف کروا رہے ہیں لوگ پانچ کپڑوں والے کفن کی حیثیت پوچھتے ہیں اس کو کیا قرار دیا جائے مسنون یا غیر مسنون؟
    جواب:عورت کو بھی مردوں کی طرح تین چادروں میں دفن کیا جائے گا ، عورت ومرد کے کفن میں فرق کرنے کی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ۔ ابوداؤد میں پانچ کپڑوں سے متعلق ایک روایت ہے جسے لیلیٰ بنت قائف ثقفیہ بیان کرتی ہیں جنہوں نے نبی ﷺ کی بیٹی ام کلثوم کو غسل دیا تھا۔ اس روایت کو شیخ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ ضعیف قرار دیتے ہیں اور شیخ البانی نے بھی ضعیف کہا ہے ۔ دیکھیں : (ضعيف أبي داود:3157)
    اس لئے شیخ البانی نے احکام الجنائز میں عورت ومردکے لئے یکسان کفن بتلایا ہے اور کہا کہ فرق کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ شرح ممتع میں ذکر کرتے ہیں کہ عورت کو مرد کی طرح کفن دیا جائے گا یعنی تین کپڑوں میں ، ایک کو دوسرے پر لپیٹ دیا جائے گا۔(ماخوذ :جنازہ کے مسائل از مقبول احمد سلف)

    سوال(5):کیا یہ درست ہے کہ میت کے بال یا ناخن نہیں اتارے جائیں گے اور نیل پالش وضو سے پہلے اتاری جائے گی؟
    جواب:اہل علم کی رائے ملتی ہیں کہ مونچھ(دوسرے بال نہیں) یا ناخن زیادہ بڑے ہوں تو کاٹ سکتے ہیں ، اگر نہ کاٹا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا کوئی حکم نہیں ہے اور اصلا یہ آدمی کی زندگی سے متعلق معاملہ ہے جبکہ اب وہ فوت ہوچکا ہے ۔
    عورت کے ناخن پر نیل پالش لگی ہو تو وضو اور غسل سے قبل اسے اتاردی جائے تاکہ پانی جلد تک پہنچ سکے اور مکمل وضو وغسل ہوسکے۔

    سوال(6)کیا وینٹی لیٹر پر سالہا سال رکھا جا سکتا ہے؟
    جواب: یہ سوال غالبا زندہ بیمار کی طرف سے ہے کہ اسے کب تک وینٹی لیٹر پر رکھا جاسکتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیمار کے تعلق سے ڈاکٹر جو مشورہ دے اس پر عمل کیا جائے گا۔ جو بیمار ڈاکٹر کے نزدیک وینٹی لیٹر کا مستحق ہو اسے وینٹی لیٹر پر رکھنے میں شرعا کوئی مسئلہ نہیں ہے، چاہے جتنے سال ہوجائے، اصل یہ ہے کہ بیمار کے حق میں ماہرڈاکٹر کے مشورہ پر عمل کیا جائے گا۔

    سوال(7):پوسٹ مارٹم کرانا کہاں تک درست ہے؟
    جواب: لاش کی بے حرمتی کرنےاور اسے چیرپھاڑ کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے مگر کبھی ضرورت کے تحت بعض میت کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے جس میں اس کےجسم کوچیرا جاتا ہے ۔طبی ضرورت مثلا قتل کی وجہ پتہ لگانےیا وبائی مرض کی تحقیق کرنے کی غرض سے جسم کو چیرا جاسکتا ہے ۔ عورت کی لاش کو لیڈی ڈاکٹر چیرپھاڑ کرے ، عورت کی عدم موجودگی میں مرد بھی کرسکتا ہے ۔ تجربہ کی غرض سے مسلم لاش کا پوسٹ مارٹم جائز نہیں ہے لیکن غیر معصوم مرد (ماسوا عورت)مثلا کافر،مرتد ،حربی کی لاش پہ تجربہ کر سکتے ہیں۔(جنازہ کے احکام ومسائل از مقبول احمد سلفی)

    سوال(8):سونے کا دانت اگر آسانی سے نکل آئے تو نکالا جا سکتا ہے؟
    جواب:میت نے زندگی میں سونے کا دانت لگوایا تھا تو وفات کے بعد اسے نکال لیا جائے گا کیونکہ یہ مال ہے اورچھوڑدینے میں مال کا ضیاع ہےالبتہ سونے کا مصنوعی دانت نکالنے میں اگر زیادہ مقشت ہو تو چھوڑ دیا جائے گا۔

    سوال(9):حدیث کے مطابق عورت کا عورت سے ستر ناف سے گھٹنوں تک ہے نہلانے والی اگر صرف عورتیں ہوں تو صرف ستر والا حصہ ڈھانپ کر غسل دیا جا سکتا ہے؟
    جواب:ایک عورت کے لئے دوسری عورت کا ستر ناف سے گھٹنوں تک ہے لہذا میتہ کو غسل دیتے ہوئے اس کا واجبی ستر ڈھک کر غسل دیا جائے گا۔ پہلے پیٹ دبا کر فضلات نکلے تو صاف کردئے جائیں پھر میت کووضو کراکر تین بار یا حسب ضرورت غسل دیا جائے جس سے پورا بدن پاک و صاف ہوجائے ۔

    واللہ اعلم بالصواب
    کتبہ
    مقبول احمد سلفی
    جدہ دعوہ سنٹر- حی السلامہ ، سعودی عرب
     
  6. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    879
    جنازہ کے متعلق گزشتہ جوابات پر چند مزید استفسار

    سوال(1):قبرستان میں نمازقبر کے پاس ہی پڑھی جاتی ہے؟

    جواب: جس نے میت کی نماز جنازہ نہ پڑھی ہو وہ قبر کے پاس ہی قبلہ رخ ہوکر نماز جنازہ ادا کرسکتا ہے۔

    سوال(2):اکثر گھرانوں میں میت سامنے رکھی ہوتی ہے یا نماز جنازہ کے لیے جب لے جاتے ہیں تو گھر میں خواتین اجتماعی دعا کرتی ہیں یا کسی دینی خاتون سے دعا کروانے کو کہا جاتا ہے تو یہ بات آپ نے پہلے بھی بتائی تھی کہ سنت سے ثابت نہیں لیکن اگر دعا کروانے سے لواحقین کو سکون ملتا ہو تو کیا ان کے پاس بیٹھ کردعا نہیں کہلوا یا کرواسکتے۔
    اسی طرح میت والے گھر میں درس و تدریس کا اہتمام کرنے کے حوالے سے پوچھنا تھا کہ تعزیت کے لئے آنے والوں کا اس وقت دل نرم ہوتا ہے اور فکر آخرت کے موضوع سے متعلق مختصر بات کرنے کے لیے بھی یہ موقع اچھا ہوتا ہے۔اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے ورنہ لوگوں کی اکثریت دین کے علم سے بابلد ہےتو اس کا شرعا کیا حکم ہے ؟اور کیا اس کے لیے یہ دلیل صحیح ہے جو برا ءبن عازب سے مروی حدیث کہ آپ ﷺ نے ایک قبر کی کھدائی کے موقع پر وعظ و نصیحت کی ۔برائے مہربانی وضاحت کردیں۔

    جواب: جنازہ کے احکام ومسائل پر مستقل میری کتاب ہے، اس میں ذکر کیا ہوں کہ آج کل بعض مقامات پر دفن کے بعدقبرستان میں خطیب کی طرح لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے اور اسے جنازے کا حصہ سمجھا جاتا ہے جوکہ واضح بدعت کی شکل ہے، ایسا کرنا رسول اللہ کی سنت سے ثابت نہیں ہے۔کبھی کبھار قبرکے پاس بیٹھے نبی ﷺ سے صحابہ کے ساتھ تذکیر کا ثبوت ملتا ہے۔ چند حضرات قبرستان میں اتفاقیہ بیٹھے ہوں اور آپس میں تذکیر کرے تو کوئی حرج نہیں مگر لوگوں میں ایک واعظ ہو جو بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر سب کو وعظ کرے سنت کی مخالفت ہے ۔ دفن کے وقت جلدی سے تدفین کا کام مکمل کرنا چاہئے اور انفرادی طور پر میت کے لئے استغفار اور ثبات قدمی کی دعاکرنی چاہئے ۔
    اپنی آنکھوں سے جنازہ دیکھنا بذات خود عبرت ہے، میت کو غسل دینا، جنازہ لے کر چلنا، نماز جنازہ پڑھنا، قبرستان جانا، میت کو دفن کرنا ، یہ سارے اعمال عبرت و نصیحت والے ہیں ، عبرت کے لئے یہی اعمال کافی ہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے عبرت حاصل کرنے کے لئے قبرستان کی زیارت کا حکم دیا ہے لہذا دین پر اسی شکل میں عمل کیا جائے جس کا ثبوت عہد رسول میں وفات کے تعلق سے ملتاہے، وہ لوگ نصیحت و خیرخواہی کے کاموں میں ہم سے آگے اور سبقت لے جانے والے تھے ۔
    لوگ میت کے گھر تعزیت کے لئے آسکتے ہیں، وہ آئیں ، میت کو انفرادی دعا دیں ، اجتماعی شکل نہ ہو اور تعزیت کرکے کچھ دیر میں چلے جائیں، جمع نہ رہیں۔ یاد رہےوہاں اجتماع کرنا یا کھانے کا پروگرام بنانا اور اجتماع میں وعظ و نصیحت کا پروگرام رکھنا دین میں نئی ایجاد ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں نے دھیرے دھیرے اس عمل کو تعزیت کا حصہ بنا لیا ہے اسی سے دین کا نقصان ہوتا ہے اور اس راستے مختلف قسم کی بدعات دین میں داخل ہوتی ہیں۔

    سوال(3):میت کی ثابت قدمی کے لئےکوئی مسنون دعا ہے یا"اللھم ثبتہ علی سوال منکر ونکیر"پڑھنا صحیح ہے؟
    جواب: دعا اللہ سے مانگ اور طلب کا نام ہے ، ہم تدفین کے بعد کچھ دیر قبر کے پاس کھڑے ہوکر اس کی ثبات قدمی ، مغفرت اور بلندی درجات کی اپنی زبان میں دعا کریں یا رحمت و مغفرت سے متعلق عام ماثورہ دعائیں ہیں وہ پڑھیں اور چاہیں تو یہ دعا بھی اضافہ کرلیں جیساکہ صحیح بخاری(4699)سے اشارہ ملتا ہے :اللَّهُمَّ ثَبِّتْه بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ(اےاللہ!دنیا و آخرت میں میت کو پکی بات پر ثابت قدم رکھ)۔
    سوال میں جو عربی عبارت ہے اس معنی کی دعا اپنی زبان میں کرلیں مثلا اے اللہ !فرشتوں کے سوال کے وقت میت کو ثابت قدمی عطا فرما، سوال کے وقت امن وراحت اور کامیابی دے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

    سوال(4):سوال نمبر تین کے جواب میں آپ نے بتایا کہ جسمانی اعضا کو بیچا نہیں جا سکتالیکن کچھ لوگ زندگی میں اپنے جسم کا کوئی عضو مثلا گردہ وغیرہ بیچتے ہیں کیونکہ وہ بہت مجبور ہوتے ان کے گھر بہت تنگ دستی ہوتی ہے، اس کی کیا حیثیت ہے؟
    جواب:انسان کے ساتھ خواہ کتنی بھی مجبوری درپیش ہوجائے وہ اپنے جسم کا کوئی حصہ بیچ نہیں سکتا ہے کیونکہ یہ جسم اللہ کی ملکیت ہے اور انسان صرف اپنی ملکیت کی چیز ہی بیچ سکتا ہے۔ ساتھ ہی یہ عمل انسانی احترام و تکریم کے خلاف ہے کہ اس کے بدن کا کوئی حصہ بیچا جائے۔
    ضرورت مندوں کے لئے اسلام نے متعدد راستے بتاتے ہیں، وقتی ضرورت مندہوں تو قرض حسنہ لے لیں یا دائمی ضرورت مندہوں، کام کاج کرنے کی طاقت نہ ہوتو زکوۃ وصدقات استعمال کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں فقر وفاقہ سے بچائے۔

    سوال(5):نو نمبرمیں آپ نے غسل میتہ کے موقع پر بتایا کہ عورت کا واجبی ستر ڈھانپا جائےتو کیا اس کے سینے وغیرہ کو نہیں ڈھانپا جائیگا ؟ہم تو سینہ سے پیر تک میت کو ڈھانپ کر غسل دیتے ہیں تاکہ نظر نہ پڑے۔
    جواب: اس سوال کا جواب جاننے کے لئے پہلے ایک صحیح حدیث دیکھیں۔
    عن عائشةَ ، قالَت : لمَّا أرادوا غسلَ النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ قالوا : واللَّهِ ما ندري أنُجرِّدُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ من ثيابِهِ كما نجرِّدُ مَوتانا ، أم نَغسلُهُ وعلَيهِ ثيابُهُ ؟ فلمَّا اختَلفوا ألقى اللَّهُ عليهمُ النَّومَ حتَّى ما منهم رجلٌ إلَّا وذقنُهُ في صَدرِهِ ، ثمَّ كلَّمَهُم مُكَلِّمٌ من ناحيةِ البيتِ لا يَدرونَ من هوَ : أن اغسِلوا النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ وعلَيهِ ثيابُهُ ، فقاموا إلى رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ فغسَلوهُ وعلَيهِ قميصُهُ ، يصبُّونَ الماءَ فوقَ القميصِ ويدلِّكونَهُ بالقَميصِ دونَ أيديهم ، وَكانت عائشةُ تقولُ : لو استَقبلتُ من أمري ما استدبرتُ ، ما غسَلَهُ إلَّا نساؤُهُ( صحيح أبي داود:3141)
    ترجمہ: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے کا ارادہ کیا تو کہنے لگے:قسم اللہ کی! ہمیں نہیں معلوم کہ ہم جس طرح اپنے مردوں کے کپڑے اتارتے ہیں آپ کے بھی اتار دیں، یا اسے آپ کے بدن پر رہنے دیں اور اوپر سے غسل دے دیں، تو جب لوگوں میں اختلاف ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند طاری کر دی یہاں تک کہ ان میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں تھا جس کی ٹھڈی اس کے سینہ سے نہ لگ گئی ہو، اس وقت گھر کے ایک گوشے سے کسی آواز دینے والے کی آواز آئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اپنے پہنے ہوئے کپڑوں ہی میں غسل دو، آواز دینے والا کون تھا کوئی بھی نہ جان سکا، (یہ سن کر) لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھ کر آئے اور آپ کو کرتے کے اوپر سے غسل دیا لوگ قمیص کے اوپر سے پانی ڈالتے تھے اور قمیص سمیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک ملتے تھے نہ کہ اپنے ہاتھوں سے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں: اگر مجھے پہلے یاد آ جاتا جو بعد میں یاد آیا، تو آپ کی بیویاں ہی آپ کو غسل دیتیں۔
    اس حدیث کو بیان کرنے والی راویہ (عورت) سیدہ عائشہ فرماتی ہیں "نجرِّدُ مَوتانا"ہم غسل کے لئے اپنے مردوں کے کپڑے اتارتے تھے۔ عورت کا اس طرح بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ میت عورت ہو یا مرد غسل کے وقت اس کے کپڑے اتار سکتے ہیں تاکہ اچھے سے میت کو غسل دے سکیں البتہ جو ستر ناف سے گھنٹے تک کا حصہ ہے وہ چھپا ہوگا۔
    آپ لوگ اگر عورت کو نہلاتے وقت سینہ بھی ڈھک کر رکھتے ہیں، اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، رسول اللہ ﷺکو کپڑوں سمیت غسل دیا گیا ہے تاہم کوئی میتہ کا کپڑا اتارکر ستر ڈھک کر غسل کرائے تو اس میں بھی کئی حرج نہیں ہے کیونکہ ایک عورت کے لئے دوسری عورت کا ستر ناف سے گھنٹے کے درمیان ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب
    کتبہ
    مقبول احمد سلفی
    جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ
    10۔10۔2022
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں